عبدالستار خان
پاکستان کی سیاست میں مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ شائد سیاست کے مدوجزران سے بہترکوئی دوسرا سیاستدان نہیں جانتا۔ سیاست کو بیانیہ کے انداز میں پیش کرنے کامولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز رہا ہے۔جو سب سے جداگانہ ہے۔میں ایک ٹی وی چینل کااسلام آباد میں بیوروچیف تھا۔میں اکثر اپنے رپورٹرز کو کہتا تھا کہ تم لوگوں کاسیاسی میدان میں رپورٹنگ کا امتحان مولانا فضل الرحمن سے ایک ایسا سوال ہے جو مولانا فضل الرحمن کو حقیقی معنوں میں لاجواب کردے یا پھر مولانا فضل الرحمن آپ کے سوال سے پریشان ہوجائیں یا پھر ٹی وی پر گفتگو کے دوران ایکpause آجائے۔pauseکے بارے کہا جاتا ہے ٹی وی پر pauseایک killing ہے۔
میں بے ہودگی،بدتمیزی،چیخ وپکا ر اور ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کی بات نہیں کررہا اور بدقسمتی سے یہ ماحول ہمارے ٹی وی شوز پر غلبہ پاچکا ہے۔میں تو صرف ایک ایسے سوال کی بات کرتا رہا جس کے جواب میں یا تو خاموشی ہوجائے یا پھر لاجواب۔اسی طرح سے میں اپنے کچھ اینکر دوستوں سے جو مختلف سیاسی رہنماوں سے انٹرویو کیا کرتے تھے ان سے پوچھتا تھا کہ وہ کون سا رہنما ہے جس کا انٹرویو کرتے ہوئے آپ لوگوں کو لگ پتہ جاتا تھا اور اکثریت کا جواب مولانا فضل الرحمن تھا۔ اورکچھ ٹی وی اینکرز کا خیال تھا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو ٹف ٹائم دیا لیکن جب میں ان شوز کو دیکھتا تھاتو میں اپنے دوست ٹی وی اینکرز کو کہتا تھا کہ جناب! آپ نے مولانا کو ٹف ٹائم نہیں دیا الٹا مولانا نے آپ کو ٹف ٹائم دیا ہے۔میں نے اپنے صحافتی کیرئیر میں مولانا فضل الرحمن کی حد تک یہ محسوس کرلیا تھاکہ غالباً وہ پاکستان کے ایسے سیاستدان ہیں جو سیاسی گفتگو ایک الگ تھلگ،نپے تلے انداز میں کرتے ہیں۔نیز سیاسی قلابازیوں میں بھی مولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز رہا ہے۔یہاں تک کہ میرے بھارتی صحافی دوست جب پاکستان آتے تھے تو وہ تقریباًہر سیاسی جماعت کے سربراہ اور صف اول کی قیادت کا انٹرویو کرتے تھے۔جب میں ان سے پوچھتا تھاکہ بتاؤ کس کا انٹرویو کرکے آپ کو سب سے زیادہ مزہ آتا ہے یا پھر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی رہنما کمال کی گفتگو کرتا ہے یا انٹرویو کرنے والوں کو پریشان کردیتا ہے تو ان کا جواب بھی مولانا فضل الرحمن ہی ہوتا تھا۔بھارتی صحافیوں کایہ کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ انٹرویو کرنے کے لئے انہیں سب سے زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی کیونکہ ان کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا تھاکہ بہت سے لاجواب سوالوں“ کا جواب بھی مولانا فضل الرحمن کے پاس ہوتا تھا۔کیونکہ مولانا فضل الرحمن بڑی آسانی سے ہنستے کھیلتے ہوئے جواب دے جایا کرتے تھے جو بھارتی صحافیوں کو پریشان کردیتے تھے جس کا وہ برملا اظہار میرے سامنے کرجاتے تھے۔
حکومت وقت کے ساتھ رہنے کا بھی مولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز تھا نہ تو وہ پیپلز پارٹی میں تھے نہ ہی مسلم لیگ ن میں لیکن کچھ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمن تو ہم سے بھی زیادہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید،سابق صدر آسف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ہم سے بھی زیادہ قریب ہیں۔لیکن اب پچھلے تین سالوں میں وہی مولانا فضل الرحمن کئی بارسیاسی گفتگو کرتے ہوئے غصہ میں پائے جاتے ہیں۔ماضی کے اپنے ہی انداز کے بالکل برعکس اور پاکستان کے باقی سیاسی رہنماوں کی طرح جوش میں بات کرجاتے ہیں۔ایسے لگتا ہے جیسے انہیں غصہ چڑھا ہے یا پھرمولانا فضل الرحمن کسی صدمے یا تکلیف میں ہیں۔میری حد تک اس کی وجہ غالباً 25جولائی2018کے الیکشن ہیں۔جس میں مولانا ہار گئے تھے۔یا تو مولانا کو اپنی ہار کا بالکل یقین نہیں تھا پھر وہ اپنی ہار کا ملک کے طاقتور ترین حلقوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اوریا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ طاقتور ترین حلقوں نے ان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ آپ کی نشستیں محفوظ رہیں گی لیکن شائد الیکشن کے موقع پر وہی حلقے اپنی بات پر قائم نہ رہ پائے ہوں۔الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمن جس غصہ کے ساتھ طاقتور ترین حلقوں پر چڑھتے رہے ہیں اس طرح سے تو صرف مریم نواز ہی حملہ آور ہوتی ہیں۔
اگرچہ مریم نواز آج کے دور کی وہ سیاستدان ہیں جو کچھ حلقوں پر شدید تنقید کرتی رہتی ہیں۔لیکن پھر بھی کچھ موقعوں پرمولانا فضل الرحمن مریم نواز کو بھی مات دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔مریم نواز صاحبہ مولانا فضل الرحمن سے سیاست میں بہت جونیر ہیں۔یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مریم نواز اور شریف خاندان کو یقین ہے کہ ان کی مضبوط حکومت کو ختم کرنے میں مکمل طور پر جانبدارانہ کردار ادا کیا جس کی وجہ سے مریم نواز کا مستقبل کا وزیر اعظم ہونا بھی مشکوک ہوگیا۔لیکن مولانا فضل الرحمن کا انداز گفتگو تو ایسے بدلا جیسے طاقتور ترین حلقوں میں نواز شریف صاحب کی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہی کی حکومت ختم کردی گئی۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
طالبان پر شک کی کوئی وجہ نہیں، ترجمان پاک فوج,بھارتی میڈیا جھوٹی خبروں پر پروان چڑھتا ہے، بابر افتخار
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس طالبان کی افغان سرزمین کسی دوسرے ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیوں پر شک کی کوئی وجہ نہیں ہے، قومی سلامتی یقینی بنانے کیلئے طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس طالبان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اسی لئے ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ اپنے قومی مفاد کا تحفظ کر سکیں۔
طالبان کے 15 اگست 2021ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول کے بعد سے پاکستان سلامتی اور امن کیلئے عالمی برادری کے کردار پر زور دیتا آرہا ہے اور اس کیلئے تمام دھڑوں پر مشتمل حکومت بنانے کا حامی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشت ہفتے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا تھا کہ طالبان سے اس حوالے سے بات چیت شروع کردی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ بارڈر مینجمنٹ میں مسلسل بہتری لائی جارہی ہے اور مستقبل قریب میں اس کو مکمل طور پر محفوظ بنادیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارا ہمیشہ سے مقصد سرحد کے اس طرف والے حصے پر بہتر مینجمنٹ رہا ہے، پاکستان افغان سرحد پر باڑ لگانا مشکلات کی وجہ سے بڑی ذمہ داری تھی، تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان نے بارڈر کے 90 فیصد حصے پر باڑ لگانے کا کام مکمل کرلیا ہے۔
طالبان کے ہمراہ افغانستان میں پاک فوج کے لڑنے سے متعلق بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے کے سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جس طریقے سے بھارتی میڈیا نے طالبان کے پنجشیر پر حملے کے حوالے سے خود کو پیش کیا ہے وہ اس بات کی کافی شہادت ہے کہ ان کا میڈیا جعلی خبروں اور جھوٹی گھڑی گئی کہانیوں پر پروان چڑھتا ہے۔
تیسرے چیف آف نیول اسٹاف آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ کا آغاز 21 ستمبر کو ہوگا
تیسرے چیف آف دی نیول اسٹاف آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ کا افتتاح کل بروز منگل 21 ستمبر کو شام چار بجے عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم میں ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق گورنر سندھ عمران اسماعیل افتتاحی میچ کے مہمان خصوصی ہونگے جو ٹورنامنٹ کا افتتاح کرینگے،افتتاحی میچ پاکستان نیوی اور صوبہ پنجاب کی ٹیموں کے مابین چار بجے کھیلا جائیگا جبکہ ٹورنامنٹ میں نیشنل بینک کی ٹیم اپنے اعزاز کا دفاع کرے گی۔
ٹورنامنٹ میں مسلح افواج کی تین ٹیموں کے علاوہ چار اداروں اور صوبہ پنجاب کی ٹیمیں شرکت کریں گی 8 ٹیموں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے، گروپ اے میں پاکستان واپڈا، ماڑی پیٹرولیم، پاکستان ائیر فورس اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو رکھا گیا ہے جبکہ گروپ بی میں میزبان پاکستان نیوی کے علاوہ پاکستان آرمی، نیشنل بینک اور پنجاب کی ٹیمیں شامل ہیں۔
ٹورنامنٹ کے شیڈول کے مطابق 21 ستمبر کو گروپ بی میں ایک ہی میچ کھیلا جائے گا جہاں نیوی اور پنجاب مدمقابل ہوں گی۔
22 ستمبر کو تین میچ کھیلے جائیں گےگروپ اے میں پورٹ قاسم کا مقابلہ پاکستان ائیر فورس سے صبح دس بجے، گروپ بی میں نیشنل بینک کا سامنا پاکستان آرمی سے ڈیڑھ بجے جبکہ تیسرے میچ میں گروپ اے سے ماڑی پیٹرولیم اور آرمی کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔
23 ستمبر کو بھی تین میچ کھیلے جائینگے، گروپ اے میں پورٹ قاسم کا مقابلہ ماڑی پیٹرولیم سے صبح دس بجے، دوسرا میچ گروپ اے کی واپڈا اور ایئر فورس کے مابین ڈیڑھ بجے جبکہ تیسرا میچ گروپ بی کینیشنل بینک اور پنجاب کی ٹیموں کے مابین چار بجے کھیلا جائیگا۔
24 ستمبر کو دو میچ کھیلے جائینگے، پہلے میچ میں گروپ اے سے واپڈا کا مقابلہ پورٹ قاسم سے صبح دس بجے اور گروپ بی سے شام چار بجے پاکستان نیوی اور پاکستان آرمی کی ٹیمیں مد مقابل ہوں گی۔
ٹورنامنٹ میں 25 ستمبر کو تین میچ کھیلے جائینگے، پہلے میچ میں گروپ اے میں صبح دس بجے پاکستان ایئر فورس کا مقابلہ ماڑی پیٹرولیم سے ،گروپ بی میں پاکستان آرمی کا سامنا پنجاب سے ڈیڑھ بجے جبکہ گروپ بی کے آخری میچ مین نیشنل بینک اور میزبان پاکستان نیوی کی ٹیمیں شام چار بجے آمنے سامنے ہوں گی۔
اتوار 26 ستمبر کو ٹورنامنٹ میں آرام کا دن ہوگا۔
ایونٹ کے سیمی فائنلز 27 ستمبر کو کھیلے جائینگے، پہلا سیمی فائنل دوپہر دو بجے گروپ اے کی ونر اور گروپ بی رنراپ ٹیم سے ہوگا جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں شام چار بجے گروپ اے کی رنراپ ٹیم کا سامنا گروپ بی کی ونر ٹیم سے ہوگا۔
28 ستمبر کو ٹورنامنٹ کا فائنل اور تیسری پوزیشن کا میچ کھیلا جائے گا۔
نیوزی لینڈ میں اتنی فورس نہیں ہوگی، جتنی کیویز کو یہاں سیکیورٹی ملی، شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہِ پاکستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی منظوری دی تھی، کیویز میں اتنی فورسز نہیں ہوں گی جتنی انہیں یہاں سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ‘پہلی مرتبہ کسی ٹیم کو فوج کی سیکیورٹی فراہم کی گئی‘۔
‘ایک سے زائد پاسپورٹ رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن’
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ 31 اکتوبر تک دو پاسپورٹ یا دو شناختی کارڈ رکھنے والوں کو رعایت ہوگی کہ اس دوران وہ فیصلہ کرلیں کہ کون سا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ رکھنا ہے اور کون سا منسوخ کروانا ہے۔
مزید پڑھیں: 15 چینی عہدیدار داسو واقعے کی تحقیقات کا حصہ ہیں، شیخ رشید
انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں سمری کابینہ کو ارسال کردی گئی ہے جس کی منظوری اور مقررہ تاریخ کے بعد کریک ڈاؤن شروع ہوجائے گا۔
وفاقی وزیر شیخ رشید نے بتایا کہ صوبوں کی درخواست پر چہلم امام حسین کے موقع پر موبائل فون سروس معطل رہے گی جبکہ 19 اور 20 صفر کو فوج، رینجرز، نیم فوجی دستے بھی امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیے جائیں گے۔
شیخ رشید نے بتایا کہ مردم شماری کے مطابق اسلام آباد میں 50 کے بجائے 100 وارڈز پر انتخابات ہوں گے، اس حوالے سے کابینہ سے منظوری مل چکی ہے۔
’بلاگر بلال خان کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا‘
انہوں نے بتایا کہ جون 2019 میں قتل ہونے والے بلاگر بلال خان کے کیس میں پیش رفت ہوئی ہے اور پولیس نے بلال خان کے قاتل کو گرفتار کرلیا ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے زور دیا کہ اسلام آباد میں قتل ہونے والے بلاگر پر بعض طبقوں نے اس واقعے کی ذمہ داری ایجنسیوں پر عائد کی تھی لیکن قتل کی اصل وجہ مذہبی عقائد تھے۔
مزید پڑھیں: سیکیورٹی خدشات: شیخ رشید کا چمن بارڈر بند کرنے کا عندیہ
محمد بلال خان پر وفاقی دارالحکومت کے علاقے جی نائن فور (G-9/4) میں حملہ کیا گیا تھا جس میں بلاگر جاں بحق جبکہ ان کا دوست احتشام زخمی ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ بلاگر محمد بلال خان اسلامک یونیورسٹی میں شریعہ فکیلٹی کا طالبعلم تھا۔
‘مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے’
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے کیونکہ ہم اسلام آباد میں پرامن ماحول کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا العزیز کے خلاف متعدد مقدمات درج ہیں اور اسی لیے ان سے مسلسل رابطے میں ہیں لیکن وہ ہر دوسرے روز ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کم و بیش 511 مدارس ہیں، ان تمام مدارس میں سے صرف ایک کے ساتھ مسئلہ ہے، ہماری انتظامیہ اور متعلقہ لوگ ان سے مذاکرات کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل جامعہ حفصہ کی چھت پر افغان طالبان کے جھنڈے لہرائے جانے کے بعد مولانا عبدالعزیز، ان کے ساتھیوں اور طلبا کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) اور پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ نے تنظیم کا نام لیے بغیر کہا کہ ’تصفیہ طلب مسائل پر بات کرنے کی کوشش مذہبی تنظیم کے ساتھ کی تھی لیکن اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا، ہماری کوشش ہے کہ معاملات احسن طریقے سے حل ہوں‘۔
‘اپوزیشن شیشے کے کمروں میں بیٹھ کر وزارت داخلہ پر پتھر نہ برسائیں’
شیخ رشید نے نیوزی لینڈ کے دورہِ پاکستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی منظوری دی تھی، اپوزیشن شیشے کے کمروں میں بیٹھ کر وزارت داخلہ پر پتھر نہ برسائیں۔
یہ بھی پڑھیں: گوادر اور کوئٹہ حملوں میں ملوث دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، شیخ رشید
انہوں نے کہا کہ ’نیوزی لینڈ میں اتنی فورسز نہیں ہوں گی جتنی انہیں یہاں سیکیورٹی فراہم کی گئی، پہلی مرتبہ کسی ٹیم کو فوج کی سیکیورٹی فراہم کی گئی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں سری لنکا کی ٹیم سمیت دیگر ممالک کے ٹیمیں آئیں لیکن کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ نیوزی لینڈ 2003 کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کررہا تھا اور اس کا دورہ منسوخ کرنے کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے اکتوبر کے دورہ پاکستان کے بارے میں حتمی فیصلہ آئندہ چند دنوں میں کریں گے۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان تین ون ڈے میچز کے بعد لاہور میں 5 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے جانے تھے۔
‘بھارتی میڈیا کے پاس صرف شیخ رشید اور طالبان موضوع رہ گئے ہیں’
بھارت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی کے میڈیا کے پاس صرف دو ہی موضوع ہیں ایک شیخ رشید اور دوسرا طالبان، بھارت ایک ماہ سے ہمارے خلاف پرویپگنڈا کررہا ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ بھارت کو افغانستان میں سبکی ہوئی ہے کیونکہ نئی دہلی کا ماسٹر پلان ناکام ہوا ہے اور اب وہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے اور بھارت کو کیا تکلیف ہے اگر شیخ رشید بارڈر کا دورہ کرے؟
وفاقی وزیر داخلہ نے افغانستان سے متعلق کہا کہ سرحدیں محفوظ ہیں اور اس بات کی مکمل تردید کرتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی افغان مہاجرین کیمپ نہیں بنائے گئے، جب افغانستان چاہیے تو پاکستان میں پہلے سے موجود افغانیوں کو واپس بھیجنے کی بات شروع کریں گے۔
چین میں بچوں کو 40 منٹ سے زیادہ ٹک ٹاک استعمال کرنے سے روک دیا گیا
چین کی جانب سے بچوں میں انٹرنیٹ کی لت کی روک تھام کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے اور آن لائن گیمز کھیلنے کا وقت محدود کرنے کے بعد ٹک ٹاک کے حوالے سے اہم فیصللہ کیا گیا ہے۔
ٹک ٹاک کی ملکیت رکھنے والی کمپنی بائیٹ ڈانس نے چین میں 14 سال سے کم عمر بچوں کے حوالے سے نئے قوانین کا اعلان کیا ہے۔
بائیٹ ڈانس کی جانب سے ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا گیا کہ 14 سال سے کم عمر بچے اب ڈویوین (ٹک ٹاک کو چین میں اس نام سے استعمال کیا جاتا ہے) پر یوتھ موڈ کے ذریعے رسائی حاصلل کرسکیں گے۔
کمپنی کی جانب سے یوتھ موڈ کے ذریعے 14 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ٹک ٹاک کا استعمال دن بھر میں 40 منٹ تک محدود کردیا جائے گا۔
اسی طرح اس عمر کے بچوں کو اس ایپ تک رسائی صبح 6 بجے سے رات 10 بجے تک ہی حاصل ہوگی۔
ڈویوین لگ بھگ ٹک ٹاک جیسی ہی ایپ ہے مگر اس میں مواد کی جانچ پڑتال زیادہ سختی سے کی جاتی ہے اور اس کے 60 کروڑ سے زیادہ ماہانہ صارفین ہیں۔
اس سے قبل بائیٹ ڈانس میں صارفین کی اصل نام اور عمر کی تصدیق کے ضوابط پر بھی عملدرآمد کیا گیا تھا جبکہ صارفین کو اپنے فون نمبر اور دیگر ذاتی تفصیلات بھی مہیا کرنا ہوتی ہیں۔
کمپنی نے اپنے بلاگ میں بتایا کہ یوتھ موڈ کے ذریعے ہمیں ہر ایک کے لیے زبردست مواد جیسے ناول اور دلچسپ سائنسی تجربات کی تیاری کا موقع مل سکے گا۔
اس سے قبل اگست 2021 کے اختتام پر چین میں گیمنگ پلیٹ فارمز ٹین سینٹ سے نیٹ ایز سمیت دیگر کو حکومت کی جانب سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ بچوں کو جمعے سے اتوار (ویک اینڈز پر) اور عام تعطیلات پر صرف ایک گھنٹے آن لائن گیمز کھیلنے کی اجازت دیں۔
ان نئے قوانین کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کو ہفتہ بھر میں صرف 3 گھنٹے آن لائن گیمز کھیلنے کی اجازت ہوگی۔
اس سے قبل چین میں 2019 میں بچوں کی آن لائن گیمز کا دورانیہ روزانہ ڈیڑھ گھنٹہ تک محدود رکھنے کے قوانین کا اطلاق ہوا تھا۔
امریکا اور چین کی سرد جنگ پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ
جنیوا: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یہ بھی کہا کہ چین اور امریکا دنیا کی دو بڑی معاشی طاقت ہیں جو کورونا ویکسینیشن اور ماحولیاتی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں تاہم اس میں دونوں کی سرد جنگ رکاوٹ بن رہی ہے اس لیے ہمیں ان 2 طاقتوں کے درمیان ایک فعال تعلق کو دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی چین کے ساتھ معاشی جنگ کو پسندیدہ قرار دیتے ہوئے حریف ملک پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو دگنا کردیا تھا اور یہ معاشی جنگ ٹرمپ کے دور کے خاتمے کے باوجود تاحال جاری ہے۔
ملنگوں نے خوش کر دیا
ڈاکٹر عمرانہ مشتا ق
قرونِ اولی کے مسلمانوں کی صدائے بازگشت افغانستان کے کہساروں، بازاروں اور سبزہ زاروں سے سنی جا رہی ہے کہ طالبان نے غیر ملکی قوتوں کے پسینے چھڑا دیئے ہیں اور وہ اپنے جدید عہد کے عسکری ویپنز چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، اس فتح نے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی ہے، یہ وہی طالبان ہیں جن کو بیس سال پہلے امریکہ نے دہشت گرد قرار دے کر ان کی حکومت ختم کر دی تھی اور بیس سال ان کے خلاف امریکہ کی ریاست نے بجٹ کا کثیر حصہ افغانستان میں خانہ جنگی پر جھونک دیا تھا اور امن و امان کی صورتحال پیدا نہ ہونے دی، بھارت کو کثیر مالی امداد فراہم کر کے افغانستان میں امن و سلامتی کا راستہ روکنے کے لیے اپنی ساری منفی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افغانستان کے شہروں کابل، جلال آباد اور دیگر مقامات پر جھونک دیا، مگر اللہ تعالی کی نصرت طالبان کو میسر تھی وہ بالکل نہتے اور بے سر و سامان طالبان کے وجود کو ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
15 اگست 2021 کا دن دنیا کی تاریخ میں تا ابد یاد رکھا جائے گا اور اس وقت طالبان کی حکومت کی خارجہ پالیسی اقوام عالم کے ساتھ چلنے اور تعلیم، صحت اور روزگار کے علاہ افغانستان کی تعمیر نو پر پوری توجہ مرکوز ہے، اس وقت مغربی جمہوریت کے علمبرداروں کے لئے بھی بہت بڑا سبق ہے جو مقامی حکومتوں میں کونسلر منتخب ہونے کے لئے لاکھوں روپے نچھاور کر دیتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم ایم پی اے، ایم این اے، سینٹرز اور وزیر اعلیٰ،وزیراعظم بنیں، مگر افغانستان کی صورتحال مغربی جمہوریت کے علمبرداروں کے لئے باعث تقلید ہے، یہاں وزیر اعظم کی خواہش کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ افغانستان کے وزیراعظم کی نامزدگی میں کتنی تاخیر ہوئی اور کس طرح موجودہ وزیراعظم افغانستان کو مائل کیا گیا اور بڑی مشکل سے قائل کیا گیا اس کے بارے میں اب کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ گئی ہے کہ افغانستان کے حالیہ وزیر اعظم کیسے منتخب ہوئے، افغانستان کے حالیہ وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے معذرت کر لی تھی کہ میں اس عہدے کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا کیونکہ آخرت میں بھی باز پرس ہو گی اس لئے جو صاحب اس بھاری پتھر کو اٹھا سکتا ہو اس کا انتخاب کر لیں مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالیں، مغربی جمہوری حکومتوں کے لئے یہ انتخاب تاریخ میں عجوبہ کی حیثیت رکھتا ہے، طالبان کے اراکین جب قائل نہ کر سکے تو انہوں نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، وہ وزیراعظم بننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے، طالبان کے کتنے وفد جاتے اور ناکام واپس آتے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا وزیراعظم تو بہت بڑا عہدہ ہے میں کوئی بھی عہدہ نہیں چاہتا، مگر منتخب وزیر اعظم فدائیوں اور شہدا کے لواحقین کے سامنے بے بس ہو گئے اور گریہ زاری سے اپنی ریش مبارک بھی تر کر لی، شہدائے افغانستان کے لواحقین کی منت سماجت کے سامنے بے بس ہو گئے، جمہوری نظام میں عہدہ لینے کے لیے منت سماجت کی جاتی ہے، سبز باغ دکھانے والے کرپٹ لوگ یہ باور کراتے ہیں کہ سب سے بڑے خیر خواہ ہم ہیں، اسلامی نظام میں عہدہ لینے سے علما اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں ان کا یوم حساب پر یقین ہے اس وجہ سے وہ عہدے قبول نہیں کرتے وہ رضاکارانہ طور پر حکومت کی مدد کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور باطل دم دبا کر بھاگ گیا، 46 ممالک کو عبرت ناک شکست سے دو چار کرنے والے بے غرض طالبان نے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی ہے، دشمنوں کو معاف کر دیا اور انہیں اپنے ساتھ ملا کر کام شروع کر دیا۔ پاکستان کے مفتی تقی عثمانی نے بجا کہا ہے کہ ملنگوں نے دل خوش کر دیا ہے اور اللہ کرے اس خطے میں امن و سلامتی کی باد بہاری چلے اور ان لوگوں کو سکون آشتی نصیب ہو جنہوں نے اس خطے میں بارود کی بو اور کلاشنکوفوں کی ہیبت ناک گونج میں اپنی زندگیاں ہتھیلی پر رکھی ہوئی تھی، ریاست مدینہ کے حقیقی خد و خال ہمیں طالبان کے طرز و اسلوب سے ملیں گے جو شہریت پر عمل پیرا ہو کر پوری دنیا کے لیے مثال بننے جا رہے ہیں، پاکستان کی سرزمین سے کوئی بیرونی قوتوں کو جگہ نہیں مل سکتی، افغانستان کی تعمیر نو کے لئے چین دوستی وقت کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے مفادات یکساں ہیں، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں یہ خطہ خاطر خواہ کامیابی حاصل کرئے گا اور دنیا جان لے گی کہ اللہ کے بندوں کو ستانے اور ان کو دھمکانے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں، پوری دنیا میں ذلت ورسوائی کے ہار گلے پڑتے ہیں اور شکوے اور گلے الگ باب کھول دیتے ہیں، میں ایک بار افغانستان کی ملنگ قیادت کی ریاضت و مجاہدہ کوسلیوٹ پیش کرتی ہوں اللہ کریم اسے خطے میں اطمینان افروز ماحول پیدا فرما دیں۔
(کالم نگار معروف شاعرہ، سیاسی
وسماجی موضوعات پر لکھتی ہیں)
٭……٭……٭
نئے صوبے کیلئے سیاسی مکالمے کی ضرورت
اکستان کے مختلف سیاسی مسائل کی ایک بڑی وجہ صوبوں کی آبادی میں توازن نہ ہونا بھی ہے۔ 22 کروڑ آبادی پر مشتمل ملک کے صرف ایک صوبے پنجاب کی آبادی 12 کروڑ کے قریب ہے۔ قومی اسمبلی کی 272 براہ راست نشستوں میں 141 صرف پنجاب کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت دیگر صوبوں میں قابلِ ذکر ووٹ حاصل نہ کرنے کے باوجود ملک میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتی ہے جس سے دیگر صوبے حق تلفی اور اپنی اہمیت میں کمی محسوس کرتے ہیں۔دوسری جانب پنجاب کے اندر بھی اتنے بڑے صوبے کا انتظامی کنٹرول مشکل ہو جاتا ہے۔ ماضی میں صوبے کے حکمرانوں کی توجہ اپر پنجاب پر رہی جس سے سرائیکی بیلٹ کے لوگ پیچھے رہ گئے۔ ان کو صحت کی سہولتیں ملیں نہ تعلیم کی۔ نتیجتاً وہ ناصرف بڑی سرکاری نوکریوں بلکہ وسائل کی تقسیم میں بھی پیچھے رہ گئے۔ان مسائل کا حل نئے صوبے کے قیام میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں حکومت کے قیام کے پہلے سو دنوں میں نئے صوبے کے قیام کے لئے بنیادی عملی اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تقریبا پونے بارہ سو دنوں بعد بھی اس طرف کوئی یقینی پیش رفت سامنے نظر نہیں آ رہی۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پنجاب حکومت کے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں صوبائی سیکرٹریٹ کے لئے رولز آف بزنس کی منظوری کو بڑی پیش رفت قرار دیا ہے جن کے تحت ملتان اور بہاولپور میں موجود 16 محکموں کے سیکرٹریز یہاں کے گریڈ 17 تک کے افسروں کے تبادلے، تعیناتیاں اور بھرتیاں کر سکیں گے۔ نیز جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حدود اربعہ بارے بھی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں مجوزہ نئے صوبے کو ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن کے 11 اضلاع پر مشتمل قرار دیا گیا ہے۔
صوبہ پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبے کا قیام سرائیکی خطے کا اہم ترین لیکن گنجلک مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لئے کبھی کسی نے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تمام پارٹیوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے تو علیحدہ صوبے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا لیکن جب عملی پیش رفت کا وقت آیا تو تمام پارٹیوں کو سیاسی مجبوریوں نے گھیر لیا۔ نتیجہ یہ کہ گزشتہ کئی عشروں سے اس خطے کے حقوق کا استحصال جاری ہے، نیز یہاں کے عوام اپنی سیاسی شناخت کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ خطے کی چاروں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق نئے صوبے کے قیام پر تو متفق ہیں لیکن ہر پارٹی کا نئے صوبے بارے نقطہ نظر مختلف ہے۔ ان میں اختلافات صوبے کے نام، حدود اربعہ، صدر مقام اور نئے صوبے کے قیام کے دیگر صوبوں پر اثرات سے متعلق ہیں۔ پیپلز پارٹی گوجرانوالہ ڈویژن کے ضلع بھکر اور میانوالی کو ساتھ ملا کر 13 اضلاع پر مشتمل سرائیکی صوبے کا قیام اس شرط کے ساتھ چاہتی ہے کہ اس کے بعد سندھ کی تقسیم کا کوئی مطالبہ سامنے نہ آئے۔ مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ سرائیکی صوبہ بن گیا تو پورا خطہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا ایسے میں مرکز میں اس کے لئے حکومت بنانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ اس کے تدارک کے لئے وہ سرائیکی صوبہ کے نام کی مخالف ہے، ساتھ ہی اپنے سیاسی نقصان کو کم کرنے کے لئے اس نے بہاولپور صوبہ بحالی کا بھی شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ ن نے ہزارہ صوبے کا قیام بھی اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔ مسلم لیگ ق کی بھی دلچسپی بہاولپور صوبہ کے قیام میں ہے تاکہ پارٹی کے اہم رہنما طارق بشیر چیمہ کا بہاولپور میں ذاتی ووٹ بینک محفوظ رہ سکے۔ اس حوالے سے وہ ن لیگ کی ہاں میں ہاں ملانے کو بھی تیار ہے۔ تحریک انصاف جس کی حکومت خالصتا ًسرائیکی خطے کے ووٹ کی مرہون منت ہے۔ نئے صوبے کے لئے فوری قدم بڑھانے کو تیار نہیں کیونکہ وہ وسطی پنجاب کی نئی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے گی اور حکومت مسلم لیگ ن کے حوالے کر نا پڑ جائے گی۔لہٰذا پی ٹی آئی نئے صوبے بارے کوشش کرنے کو تو تیار ہے لیکن یہ فیصلہ کن کوشش اقتدار کے آخری چھ ماہ میں جا کر ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل وہ ن لیگ کو اپر پنجاب کی حکمرانی دینے کا رسک لینے کو ہرگز تیار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیکرٹریٹ اور اس کے رولز آف بزنس کی تیاری پر 3 سال سے زائد کا عرصہ لگا دیا گیا۔ نئے صوبے کے قیام کے لئے اہم سٹیک ہولڈر اس خطے کے دانشور، شعرا اور سرائیکی قوم پرست رہنما اور پارٹیاں بھی ہیں جو اپنی سرائیکی شناخت کے ساتھ ساتھ 23 اضلاع پر مشتمل صوبے کے خواہاں ہیں۔تحریک انصاف دو تہائی اکثریت نہ ہونے کا کہہ کر اپنی مجبوری تو بیان کرتی ہے لیکن دوسری پارٹیوں سے مل کر مسئلے کے حل کی طرف ابھی تک نہیں آرہی۔
ضروری ہے کہ ایک با اختیار کمیشن کے ذریعے نہ صرف ان رہنماؤں بلکہ دیگر تمام مقامی اور قومی پارٹیوں سے سیاسی مکالمے اور مثبت بات چیت کا سلسلہ فوری شروع کیا جائے تاکہ نئے صوبے کا قیام یقینی بناتے ہوئے ایک متوازن پاکستان کی طرف بڑھا جا سکے۔ تحریک انصاف کو برسر اقتدار پارٹی ہونے کے ناطے یاد رکھنا چاہئے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے نئے صوبے کا وعدہ نہیں نبھایا تو عوام نے دونوں پارٹیوں کو اس خطے سے تقریبا فارغ ہی کر دیا۔ اور تحریک انصاف کو 100 دنوں میں الگ صوبے کے قیام کے وعدے پر ووٹوں سے لاد دیا۔ لیکن اگر پی ٹی آئی بھی اس مسئلے کو غیر اہم سمجھ کر آنکھیں چرا لیتی ہے تو آئندہ الیکشن میں اس کا انجام بھی پہلی پارٹیوں سے مختلف نہیں ہوگا۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
دورے کی منسوخی اور ٹیکس چوری!
نعیم ثاقب
سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ ختم کیا تو دنیا بھرکے کرکٹ شائقین سمیت تمام پاکستانیوں کو مایوسی ہوئی۔پی سی بی کے چیئر مین رمیز راجہ نے معاملہ آئی سی سی میں اٹھانے کا اعلان کیا کرکٹرز،سیاسی راہنماؤں،طلباء،سول سوسائٹی،نوجوان الغرض پاکستان کا ہر فرد نیوزی لینڈ کے اس فیصلے پر تلملا اٹھا۔تمام محبت وطن پاکستانیوں نے اس کو اپنی ذاتی تضحیک، توہین اور ہتک سمجھا اور سمجھنا بھی چاہیے کیونکہ اس سے ہر پاکستانی کی خوداری،عزت نفس اور انا کو ٹھیس پہنچی ہے مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ہوا کیوں ہے؟یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ غریب کی کوئی عزت نہیں کرتا، مانگنے والے کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا اور کمزور کی چیخوں سے طاقتورکے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔یہیں کچھ ہمارے کرکٹ بورڈ کے واویلے،وزیراعظم کی کال اور وزیر داخلہ شیخ رشید کی حفاظتی یقین دہانی کیساتھ ہوا۔ ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ قصوروار کو ن ہے۔ میر ے خیال میں اس دورے کی منسوخی میں جتنا نیوزی لینڈ اورکسی سازشی عنصر کا ہاتھ ہے۔ وہاں تھوڑے بہت قصوروار بطورپاکستانی ہم خود بھی ہیں اور یہ قصور ہم آج سے نہیں بلکہ گزشتہ 74 برسوں سے کر رہے ہیں۔ ہم سب پاکستان سے محبت کے دعوے کرتے ہیں یقیناً محبت کرتے بھی ہیں مگر اس کو مضبوط بنانے میں حقیقی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں ہر پاکستانی بلا شبہ محب وطن ہے مگرجہاں ریاست کی معیشت کومضبوط کرنے کے لیے ٹیکس دینا پڑتا ہے وہاں ہم حیلے بہانے، جواز اور توجیحات پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔کبھی ٹیکس کے نظام کی خرابی کاعذر تراشتے ہیں تو کبھی سیاستدانوں اور بیوروکریسی پر کرپشن کے الزام لگاتے ہیں اوراکثر تو یہ سوال کرکے خود کو ہر ذمہ داری سے بری الزمہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں ملتا کیا ہے جو ہم ٹیکس دیں؟ تو ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ سرحدوں پہ ہماری حفاظت کے لیے جو جوان کھڑے رہتے ہیں ان کے اخراجات ہوتے ہیں۔ ہم جس سڑک، موٹر وے،انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج سے گزرتے ہیں اس کو بنانے میں کچھ لاگت آتی ہے۔تھانے، کچہری، ائر پورٹ،سکول، ہسپتال، کالج، یونیورسٹیاں جن سے ہم فیض یاب ہوتے ہیں یہ سب نظام پیسوں سے چلتا ہے اور ہر وہ حکومت جن کے دیگر ذرائع آمدنی کم ہوں وہ یہ اخراجات ٹیکس سے پورا کرتی ہے۔ اور جب ٹیکس کی چوری ہو اور پیسے پورے نہ ہوں تو غریب حکومت قرضہ لے کر مانگے تانگے سے کام چلاتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مقروض، غریب اور مانگنے والے کو خاطر میں کوئی نہیں لاتا۔
برسوں سے ہماری یہ ہی سوچ رہی ہے کہ سیاستدان تو سارے چور ہیں۔ ہمارا پیسہ عیاشیوں، پروٹوکول اور ذاتی جائیدادیں بنانے میں ضائع کر دیتے ہیں ہم ٹیکس کیوں دیں؟۔یقینا اس سے انکار نہیں کہ ہمارے نظام میں موجود خرابیوں کو بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ان 74 برسوں میں کتنے سیاستدان آئے اور چلے گئے لیکن ریاست موجود ہے۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہے لیکن ریاست ہمیشہ قائم رہتی ہے اور ریاست کو اس کے افراد مضبوط بناتے ہیں۔اگر عوام سیاستدانوں کو ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں لا سکتے ہیں تو یہی عوام ٹیکس کی طاقت سے ریاست کو مضبوط بھی بناسکتے ہیں۔نیوزی لینڈ کے اپنے ملک میں تاریخی دہشت گردی ہوئی جسے لائیو دیکھا گیا مگروہاں کے میدان تو آباد رہے کھیل ہو رہے ہیں۔ہمیں مان لینا چاہیے کہ انہوں نے یہاں سے واپسی کا فیصلہ اس لیے کیاکہ وہ جانتے ہیں ہم معاشی طور پر کمزور ہیں ان کا کوئی معاشی نقصان نہیں کر سکتے۔اور یہ بھی کہ وہ ہمارے ساتھ کرکٹ نہ بھی کھیلیں تو ان کوکوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔اگر ہم معاشی طور پر طاقتور ہوتے،دنیاکے بہترین سٹیڈیم ہمارے ملک میں ہوتے ہر انٹرنیشنل پلیئر کو اتنا معاوضہ دے سکتے کہ وہ ہر سال پاکستان آ کر کھیلنے کو ترستا۔ توکیا نیوزی لینڈ اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا تھا کہ وہ ہمارے امیج کو خراب کرے اور یکطرفہ طور پر دورہ منسوخ کر کے چلا جائے؟؟ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہماری ریاست کے پاس اتنا پیسہ ہو کہ وہ کھیلوں کے لیے جدید سٹیڈیم اور کھلاڑیوں کے لیے بہترین سہولیات مہیا کر سکے۔ کرکٹ ایک کھیل ہونے کیساتھ اکانومی کو مضبوط کرنے کااہم ذریعہ بھی ہے۔اس کھیل کے ذریعے بہت سے طریقوں سے پیسہ آتا ہے جو معیشت کو مضبوط کر تا ہے۔دشمن ہماری کرکٹ کو بدنام، میدانوں کو ویران اور معیشت کونقصان پہچانا چاہتا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہیں ہم بھی ٹیکس چوری کرکے غیراردای طور پر اس دشمن کے ہاتھ تو مضبوط نہیں کر رہے جو پاکستان کی معیشت کا دشمن ہے۔
ٹیکس کسی بھی ملک اور ریاست کے لیے اتنا ہی لازم ہوتا ہے جتنا کسی زندہ انسان کیلئے روح،روح کے بغیر جس طرح انسان کا جسم حرکت نہیں کر سکتا اسی طرح ٹیکس کے بغیر ریاست نہیں چل سکتی۔ٹیکس ریاست کا حق ہوتا ہے جو عوام ریاست کو اداکرتی ہے اور ریاست اسی ٹیکس کو ملک کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرتی ہے۔ ٹیکس کانظام بہت قدیم ہے لیکن ہر دور میں اس کی اشکال بدلتی رہی ہیں۔ پاکستانی ٹیکس کی دوشکلیں ہیں جو براہ راست اور بالواسطہ ہیں۔ براہ راست ٹیکسوں میں انکم ٹیکس،کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، کیپیٹل گین ٹیکس وغیرہ شامل ہیں جبکہ بالواسطہ ٹیکس میں عام سیلز ٹیکس، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، ایکسائز ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ ٹیکس کسی ملک میں معیار زندگی بلند کرنے میں مدد کرتے ہیں۔حکومتیں ٹیکسوں سے پیسہ اکٹھا کرتی ہیں اوراس پیسے کی مدد سے ملک کے ترقیاتی ڈھانچے میں بہتری لے کر آتی ہیں اور پورے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہیں۔ لوگ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ ٹیکس ایک بوجھ ہے اور اسے ادا کرنے سے گریز کریں تو یہ براہ راست قوم کی ترقی کو متاثر کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی زوال وقوع پذیر ہوتا ہے۔جب تک ہم پاکستانی دل پر ہاتھ رکھ کر یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ہاں ہم نے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے ٹیکس دیا ہے یقین جانئے تب تک ہماری عزت نفس، خوداری اور انا مجروح ہوتی رہے گئی۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
افغان جنگ سے سیکھنے کے چند سبق
اکرام سہگل
امریکا پر 11ستمبر 2001کو ہونے والے سفاکانہ حملوں میں طالبان ملوث نہیں تھے۔ ان حملوں کے لیے طیارہ اغوا کرنے والے 19میں سے 15 ہائی جیکرز کا تعلق بھی سعودی عرب سے تھا۔ لیکن افغانستان کی سرزمین پر اسامہ بن لادن کی موجودگی نے طالبان کو دہشت گردی کی اس قیامت خیز کارروائی سے جوڑ دیا۔ تمام ہائی جیکرز کا تعلق بھی القاعدہ سے تھا جب کہ طالبان کو نہ تو اس منصوبے کا علم تھا اور نہ ہی وہ کسی مرحلے پر بھی اس میں ملوث رہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسامہ بن لادن ان حملوں کا منصوبہ ساز تھا اور طالبان کو اسے امریکا کے حوالے کردینا چاہیے تھا۔ طالبان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے افغان شہریوں کو امریکی انتقام کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بھی افغانستان پر امریکا کی کارروائی سے پھوٹنے والے تشدد اور قتل و غارت کے اثرات کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ نہیں رہ سکا۔
نائن الیون کمیشن نومبر 2002میں قائم کیا گیا جس نے 22جولائی 2004کو اپنی حتمی رپورٹ جاری کردی تھی۔ لیکن اس رپورٹ کے کئی حصے صیغہ راز میں رکھے گئے جس پر ہر جانب سے تنقید بھی ہوئی۔ حال ہی میں صدر بائیڈن کے حکم پر نائن الیون سے متعلق مزید دستاویزات جاری کی گئی ہیں لیکن ان میں فراہم کی گئی تفصیلات میں کوئی نئی بات شامل نہیں ہے۔
نائن الیون کے سفاکانہ حملے انسانیت کے خلاف گھناؤنی دہشت گردی ہے۔ میرا بیٹا ان حملوں کا شکار ہونے سے بال بال بچا۔ وہ چیز مین ہیٹن پلازا میں ایک لا فرم میں کام کرتا تھا۔ یہ عمارت ورلڈ ٹریڈ ٹاور سے کچھ ہی دور واقع ہے۔ جیسے ہی ٹریڈ سینٹر سے جہاز ٹکرانے کے بعد زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی تو میرا بیٹا اپنے دفتر کے کانفرنس روم میں آگیا جو ٹریڈ سینٹر کے سامنے عین سامنے تھا۔ وہاں اس نے دوسرا طیارہ ٹریڈ ٹاور سے ٹکراتے ہوئے دیکھا۔ ٹریڈ ٹاور کی عمارت گرنے سے وہاں ملبے کے پہاڑ اور دھول کے بادل بن گئے تھے۔ جن میں سے کسی نہ کسی طرح راستہ بناتے ہوئے میرا بیٹا چند ہی بلاک دور اپنی بہن کو تلاش کرنے نکل پڑا۔ یہ بھی ایک معجزہ ہی ہے کہ اس دن دونوں بہن بائی ایک دوسرے کو ڈھونڈنے میں کام یاب رہے۔ ملبے پر چلنے کی وجہ سے ان کے جوتے پھٹ چکے تھے اور پیروں پر سوجن آگئی تھی۔ اس حال میں بھی انہوں نے گھر تک طویل سفر پیدل طے کیا۔ نیویارک کے کئی شہریوں نے انہیں راستے میں کھانے پینے اور قیام کی بھی پیش کش کی۔ خدا کے کرم سے میں اس حادثے میں کسی ذاتی صدمے سے محفوظ رہا لیکن میں آج بھی ان ہزاروں بے قصور لوگوں کی مو ت کا درد محسوس کرتا ہوں جن کی جانیں اس حملے میں گئیں۔ امریکا اس دہشت گردی کے بعد انتقام لینے کا پورا جواز رکھتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو تاک تاک کر نشانہ نہ بنانا بھی امریکا ہی کی ناکامی تھی۔
نائن الیون کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کی انٹیلی جنس ناکامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ حملوں سے متعلق پیشگی اطلاعات کے بارے میں پوری تصویر سامنے نہیں لائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ٹھوس حقائق صیغہئ راز میں رکھے گئے ہیں۔ کمیشن میں رائے دی گئی تھی کہ افغانستان میں عوام کو یکسو کرنے کے لیے مضبوط فوج اور حکومت کی تشکیل ضروری ہے اور ملک کے بڑے صوبوں میں حکومتی ڈھانچا بنایا جانا چاہیے تھا۔ دوحہ میں امریکا نے اشرف غنی کو فریق بنائے بغیر طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا یہ اس بات کا غماز تھا کہ افغانستان میں قائم حکومت کس قدر کمزور تھی۔
افغانستان میں دنیا کی سب سے بڑی قبائلی آبادی رہتی ہے جس کی اپنی طرز زندگی اور روایات ہیں۔ افغان عوام انھیں ترک کرکے مغربی اقدار اختیار نہیں کرسکتیں۔ افغان ہر اس قوت کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں جو انہیں زیر نگیں کرنے کی کوشش کرے یا ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے میدان میں اترا ہو۔ پھر چاہے وہ 1842 میں مقابل آنے والے برطانوی ہوں یا 1980کی دہائی میں افغانستان پر حملہ آور ہونے والا سوویت یونین ہی کیوں نہ ہو۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی بیس برس میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادی نیٹو کو بھی اس انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ ان ”انتہائی مہذب“ طاقتوں کی اس ’غیر تہذیب یافتہ‘ قوم کو تسخیر کرنے کی کوشش میں افغانوں کی کتنی ہی نسلیں خونریزی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ نسل ہا نسل جاری رہنے والی جنگوں نے انہیں بھوک، افلاس اور ڈرون حملوں کے سوا کیا دیا۔ کتنے ہی افغان ایسے ہیں جنھوں نے امن کا دور ہی نہیں دیکھا اور کتنے ہی نوجوانوں نے جنگ کے دور میں ہوش سنبھالا ہے۔
نائن الیون کمیشن کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد ہی سے تنقید کی زد میں آگئی تھی۔ امریکی مصنف بینجمن ڈیموٹ نے ایک ہارپر میگزین میں اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ چار دن اس رپورٹ پر سر کھپانے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کے ہیں اس میں بڑی محنت سے فریب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کمیشن حقائق سامنے لانے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس کی رپورٹ میں ایسی بھول بھلیاں ہیں جن کی وجہ سے سب کچھ دھندلا جاتا ہے۔
اس کہانی میں امریکا کی تیل کمپنی یونوکال کو کمپنی کے کردار کو بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔ یہ کمپنی کٹر نظریات رکھنے والے انہی طالبان کے ساتھ گیس پائپ لائن کے لیے ڈیل کرنا چاہتی تھی۔ جب کہ اس وقت تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔1997میں سینیئر طالبان قیادت کے لوگ ٹیکساس میں یونوکال سے معاہدے کے لیے ملنے گئے تھے۔ یہ ملاقات زلمے خلیل زاد نے ہوسٹن میں کروائی تھی جو اس وقت یونوکال کمپنی کے مشیر تھے۔ پائپ لائن پر ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ 1998میں ختم ہوگیا جب القاعدہ نے امریکا کے دو سفارت خانوں کو نشانہ بنایا۔ البتہ بھارت کے بغیر تاپی پائپ لائن کی صورت میں امریکا نے وسطی ایشیا کے تیل اور گیس تک رسائی کی ایک اور کوشش کی۔ اس کے بعد تپ پائپ لائن کے لیے 2002 میں منصوبے پر دستخط ہوئے اور اس وقت تک امریکا کابل میں اپنی چنیدہ حکومت قائم کرچکا تھا۔
افغانستان کے بدلتے حالات میں ہمارے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ جنرل مشرف نے یک جنبش قلم جس طرح امریکا کی جنگ میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا اس کی پاکستان کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ لیکن اس کی ساری ذمے داری مشرف پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ مشرف نے کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل اپنے معتمد جرنیلوں سے مشورہ کیا تھا۔ جہاں مشرف سے غلطیاں ہوئیں اس کی ذمے داری ان کے مشیروں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنی نااہلی یا بند نیتی کے سبب یا تو مفادات کے لیے یا مشرف کو خوش رکھنے کے لیے ہاں میں ہاں ملائی۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو بے جھجک آج ٹی وی پر بیٹھ کر افغانستان کے حالات پر تبصرے فرماتے ہیں۔ ان میں سے کتنے تو ایسے ہیں جنھوں نے اپنے سپاہیوں اور شہریوں کے خون کے عوض دولت کے ڈھیر سمیٹے ہیں۔
جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر الزامات کی بھوچھاڑ کی تو وزیر اعظم نے اس کا بہت جامع جواب دیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی شروع کی گئی جنگ میں پاکستان کی ایک لاکھ جانیں گئیں اور معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکا نے پاکستان کو صرف 20ارب ڈالر امداد فراہم کی جن میں سے زیادہ تر کولیشن سپورٹ فنڈ کی مدد میں دی گئی جس کی ایک ایک پائی کا امریکا حساب لیتا تھا۔ اس جنگ کی وجہ سے افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ و برباد ہوگئے۔ عمران خان نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ اس جنگ میں ہمارے ہزاروں لاکھوں شہری گھر سے بے گھر ہوگئے اور پاکستان بلامعاوضہ زمینی اور فضائی راستے فراہم کرتا رہا۔ کیا جناب ٹرمپ کسی اور ایسے اتحادی کا نام لے سکتے ہیں جس نے اتنا کچھ قربان کیا ہو۔
یہ تمام حقائق تو محض مشتے از خروارے ہے۔ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کے بعد پاکستان میں جس طرح کلاشنیکوف اور ہیروئین کلچر عام ہوا، ہماری سوسائٹی اور کلچر جس طرح متاثر ہوئے اس کا حساب کتاب ہی کیا۔ طالبنائزیش کی وجہ سے ہمیں شدت پسندی کی ایک نئی لہر کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ہمیں ایک نئے مرحلے کا سامنا ہے۔ ہماری قومی سلامتی کے ذمے داروں کو اب باریک بینی سے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ وقت زبانی جمع خرچ اور تصویری جھلکیاں جاری کرنے سے بڑھ کر سنجیدہ غور و فکر اور جامع لائحہ عمل کی تیاری کا تقاضا کرتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭