ڈاکٹر جام سجاد حسین
اپنے بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول سبھی والدین کا خواب ہوا کرتا ہے، اس خواب کی تکمیل میں صحیح اور معیاری ادارے کا انتخاب ہمیشہ سے انتہائی کٹھن مرحلہ رہا ہے، عمومی طور پر والدین اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے ناواقف ہوتے ہیں جس کے سبب ان کے بچے معیاری زیور ِ تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔پاکستان میں چیدہ چیدہ شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں،ان میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن اور پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام دین نمایاں ہیں، پروفیسر نظام کو پاکستان میں اعلی تعلیم کے فروغ کے لئے جانا جاتا ہے، پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین نے دو عشرے اقوام ِ متحدہ میں خدمات سرانجام دیں۔ اگرچہ وہ اقوامِ متحدہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے مگر ان کے سینے میں وطن کی محبت انہیں پاکستان واپس لے آئی۔
حکومت نے آتے ہی انہیں ضلع گجرات میں یونیورسٹی قائم کرنے کا ٹاسک سونپ دیا، یوں انہوں نے چند سالوں کی قلیل مدت میں ایک قومی ادارہ جسے یونیورسٹی آف گجرات کے نام سے جانا جاتا ہے، قائم کردی جو اب نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حکومت پنجاب نے پروفیسر صاحب کی لگن، جذبے اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں سیالکوٹ میں خواتین کے لئے بھی یونیورسٹی قائم کرنے کا ٹاسک سونپ دیا، یوں انہوں نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین سیالکوٹ قائم کردی۔ اِن دونوں پروجیکٹس کی کامیابی کا سہرا پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین کے سر سجتا ہے، جنہوں نے انتہائی قلیل عرصہ میں دو طاقتور قومی ادارے اپنے پاؤں پر کھڑے کردیے۔ اسی اثنا میں اٹھارویں ترمیم منظور ہوگئی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات صوبائی حکومتوں کو منتقل ہوگئے،اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت پنجاب کی جانب سے انہیں پنجاب ہائر ایجوکیشن کیشن کا چیئرمین تعینات کردیا گیا۔پروفیسر ڈاکٹر نظام دین نے چار سالوں پر محیط قلیل عرصہ میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو انتہائی طاقتور ادارہ بنا دیا جس نے نہ صرف پنجاب بھر کی جامعات کو اعلیٰ تعلیم پر گائیڈ لائنز فراہم کیں بلکہ انہیں سہولتیں اور فنڈز دے کر مفید معاونت فراہم کی۔
اب پروفیسر محمد نظام دین نے لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب ایک نئے ادارے خلدونیہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ اپلائیڈ سائنسز (کِٹاس) کالج کی بنیاد رکھی۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بورڈ آف گورنرز کِٹاس کالج پروفیسر محمد نظام دین نے کہا کہ یہ کالج نظام ٹرسٹ کے زیر انتظام عمل میں لایاگیا ہے جو مستقبل میں لاہور کی تاریخ میں بنا کسی مالی منافع کے معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے سنگ ِ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ادارہ طلبہ و طالبات کو معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین اور حوصلہ افزا ماحول فراہم کرے گا جہاں طلبہ و طالبات نظریاتی تعلیم کے ساتھ لیب میں عملی تجربات سے گزریں گے او ر فراغت میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لے سکیں گے، ابتدائی مرحلے میں چھ ڈگری پروگرامز شروع کیے گئے ہیں جن میں بی ایس کمپیوٹرسائنسز، بی ایس انگلش، بی ایس اپلائیڈ سائیکالوجی، بیچلر بزنس ایڈمنسٹریشن، ڈاکٹر آف فارمیسی (ڈی۔فارم)اور ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی(ڈی پی ٹی)شامل ہیں، سہولیات کے متعلق بتایا کہ کالج میں ائیر کینڈیشنڈ لیب، لائبریری اور دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کی تعمیر و ترقی اور پیشہ ورانہ تکنیکی مہارتوں سے آراستہ کرنے کے لئے تمام اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
پروفیسر نظام ایک ہمہ جہت شخصیت یہی وجہ ہے انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے معیاری ادارے قائم کیے اور بیورکریسی کو منظم انداز میں قائل کیا کہ پاکستان کو اعلیٰ تعلیم کی اشد ضرورت ہے، پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام دین معاشرے میں ٹرینڈ سیٹ کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں،پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے ان کی خدمات قابل ِ تعریف ہیں، جنہیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔ اس کالج میں بلاشبہ طلبہ و طالبات کو تعلیمی تجربات سے گزرنے، معاشرتی مسائل حل کرنے، انہیں پیشہ ورانہ امور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق تکنیکی مہارتوں سے لیس ہونے کا تجربہ حاصل ہوگا، اس تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات نہ صرف کاروباری دماغ رکھنے والے پروفیشنل ہونگے بلکہ ترقی کی دوڑ میں شامل ہوکر وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کررہے ہونگے۔پروفیسر نظام دین چونکہ بذاتِ خود ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے ادارے بنانا ان کی پہچان بن گیا ہے۔
(کالم نگاراسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
میں شعبہئ صحافت کے استاد ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
جوڈیشل اصلاحات (1)
لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
گزشتہ کالموں میں امن و امان کے ایک ستون یعنی پولیس میں ضروری اصلاحات کا ذکر تھا اور اب ہم آتے ہیں امن و امان اور انصاف کے دوسرے مگر سب سے اہم ستون کی طرف اور وہ ہے جوڈیشری یا عدلیہ جو کہ کسی بھی ملک کا پارلیمنٹ یا مقننہ کے بعد سب سے اہم ادارہ ہوتا ہے۔ عدلیہ کی اہمیت دوسری جنگ عظیم میں برطانوی وزیراعظم چرچل کے اس فقرے سے واضح ہو جاتی ہے جب اس نے ملک میں ہر چیز کی جرمنوں یا ہٹلر کے ہاتھوں تباہی پر لوگوں کی تشویش سن کر کہا تھا کہ“ کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟ اور اگر وہ انصاف کی فراہمی میں آزادی سے اکٹو active ہیں تو برطانیہ کو کوئی مائی کا لال شکست نہیں دے سکتا”۔ گویا ملک کا فعال اور جلدی انصاف فراہم کرنے والا ادارہ عدلیہ اگر آزادی اور عوام کی توقعات کے مطابق انصاف فراہم کر رہا ہو تو ملک ہر خطرے سے محفوظ ہے مگر پاکستان میں جس طرح دوسرے ادارے قریب المرگ ہیں اسی طرح عدلیہ بھی انصاف کی جلد فراہمی میں اتنی ہی نا کام ہے۔کہاوت ہے کہ“انصاف کو ملتوی کرنا انصاف نہ دینے کے مترادف ہے“ یعنی justice delayed is justice denied.۔
عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں عدلیہ میں انصاف حاصل کرنے کے لئے بہت رقم کے ساتھ ساتھ بہت سا اثر و رسوخ درکار ہوتا ہے۔ اور غریب آدمی انصاف کی تلاش میں سب کچھ لٹا کر بھی بے وقت کی موت مر جاتا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں انصاف یا جسٹس کی بجائے رول آف لاء کی بات ہوتی ہے۔ اس نظام میں وکیل کی وکالت اور دونوں اطراف کا اثرورسوخ مقدمے کو حتمی انجام تک پہنچاتا ہے نہ کہ سچ کی بنیاد پر فیصلہ ہو۔عدالتوں میں تاریخوں پر تاریخوں کا ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے اور انصاف کے طلبگار خوار ہوجاتے ہیں۔ عدلیہ کی خرابی کی ذمہ دار بھی خود عدلیہ ہے اور اس کو ٹھیک بھی خود عدلیہ ہی کرے گی مگر تب جب عدلیہ کو عوام کی تکلیف کا احساس ہو اور عدلیہ اپنے اور وکلا حضرات کے مفادات سے نکل سکے۔ اگر یہ کام مقننہ یا پارلیمنٹ کرے یا اس سلسلے میں کوئی قانون پاس کر دے تو عدلیہ اتنی حساس ہے اس سلسلے میں کہ وہ یہ قانون کئی وجوہات دے کر اس کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت قرار دے دے اور قانون کو منسوخ کر وا دے۔ اس لئے بہتر ہے کہ عدلیہ اس سلسلے میں خود اصلاحات کا پیکیج لے کر آئے۔
عدلیہ میں بنیادی اینٹری entry اور ٹریننگ training اور پروموشن promotion کا سسٹم سب کچھ ہائر جوڈیشری higher judiciary کے حوالے کیا جائے۔ اس میں کسی قسم کی سیاسی یا حکومتی دخل اندازی نہیں ہونی چاہئے۔ بنیادی انٹری کا کم از کم تعلیمی معیار ایل ایل بی ہو اور عمر کی حد تیس سال رکھی جائے۔ بنیادی انٹری کے لئے عدلیہ کی زیر نگرانی اینٹری ٹیسٹ اور انٹرویو ہو جو پبلک سروس کمشن کی طرز پر ایک بورڈ کرے جسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مقرر کریں اور اس بورڈ کو سپریم کورٹ کے ایک جج ہیڈ کریں اور اس بورڈ میں ہر ہائی کورٹ سے ایک ایک جج شامل ہو۔ تمام ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی سلیکشن پورے پاکستان میں یہ بورڈ کرے اور تمام صوبوں کے لئے سلیکشن کا معیار ایک ہی مقرر کیا جائے مگر ہر صوبے سے اس کی بنیادی ضرورت کے مطابق سلیکشن کی جائے۔ عدلیہ میں سلیکشن یا انٹری پوائنٹ ایک ہی ہو اور کسی قسم کی لیٹر ل اینٹری قطعی طور پر ختم کی جائے۔
سلیکشن کے بعد عدلیہ میں داخل ہونے والے لوئر جوڈیشری کے جج صاحبان کی بنیادی ٹریننگ کم از کم ایک سال کرائی جائے جس کے لئے ملک میں دو جوڈیشل اکیڈمیز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس بنیادی ٹریننگ کے بعد بھی جج صاحبان کی پانچ سے سات سال سروس کے دوران ایک بارہ ہفتے کا کورس ہو جو کہ انہی اکیڈمیز میں چلایا جائے اور ہر جج کے لئے یہ کورس لازم ہو اس میں جج صاحبان کو ایک دوسرے سے نہ صرف مل بیٹھنے کا موقعہ ملے گا بلکہ ایک دوسرے کے تجربات سے بھی واقفیت ملے گی اور زیادہ سے زیادہ کیس سٹڈیز case studies کا موقع فراہم ہوگا۔ اسی طرح پندرہ سے بیس سال کی سروس کے دوران پانچ سے سات ہفتے کا ایک جوڈیشل کورس بنایا جائے جو جج صاحبان کو ہائر جوڈیشری کی کارکردگی سے آگاہی فراہم کرے اور ماک mock کیسز cases کے ذریعے ان کی فیصلہ کرنے اور لکھنے کی صلاحیت بڑھائی جائے۔
ہر جج لوئر جوڈیشری میں کم از کم بیس سال کے تجربہ، کارکردگی اور کردار کی بنیاد پر ہائر جوڈیشری یا ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو سکے گا اور سپریم کورٹ کا ایک بورڈ چیف جسٹس کی سربراہی میں ان تمام جج صاحبان کی اہلیت کو ان کے ریکارڈ اور انٹرویو کی بنیاد پر ہائی کورٹس کے جج کے طور پر تقرری منظور کرے گا جس کے بعد یہ جج صاحبان اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں -اسی طرح ایک بورڈ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ہائی کورٹس میں کم از کم پانچ سے دس سال خدمات سر انجام دے چکنے والے جج صاحبان کا انتخاب ان کی ہائی کورٹ کے جج کے طور پر خدمات کو دیکھتے ہوئے ان کا انٹرویو کرے گا اور ان کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر منتخب کرکے نئے عہدہ پر فائز کرے-
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سطح پر جج صاحبان کی کارکردگی performance، کردار integrity اور قابلیت competence کو ریکارڈ کیا جائے اور ان کو اگلی سطح پر ان کی پروموشن کے لئے معیار بنایا جائے۔ اس طرح ایک نہایت تربیت یافتہ، قابل اور بہترین کردار کی عدلیہ وجود میں آئے گی جو کسی قسم کے سیاسی یا سماجی دباؤ سے آزاد ہو گی اور اس میں نہ ہی کسی قسم کا وکلا کا دخل ہوگا جو وکلا جج بننا چاہیں وہ شروع سے اس سٹریم stream میں شامل ہوں اور اس کی تربیت لیں، کارکردگی اور کردار کا مظاہرہ کریں اور مختلف کورٹس میں بہترین خدمات انجام دیں۔
عدلیہ میں مقدمات کی بھر مار ہے اور پینڈینسی pendency بہت زیادہ ہے جو ہزاروں اور لاکھوں کیسز کی صورت میں نظر آتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ کیس کی تحقیق میں تاخیر اور تحقیق کا غیر معیاری بھی ہونا ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے کیسوں کے لئے عدلیہ کے ماتحت تحقیقات کا ایک علیحدہ ادارہ بنایا جائے جو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کیسز کو دوبارہ یا نامکمل تحقیق کو مکملْ کرنے کے لئے عدالت اس ڈیپارٹمینٹ کو ریفر refer کرے اور وقت کی حد مقرر کر کے اس تحقیق کو جلد مکمل کرا کے کیس کو نپٹایا جا سکے۔ اسی طرح ہر نوعیت کے کیس کو مکمل کرنے کے لئے ایک مناسب مدت مقرر کرے۔ کوئی بھی کیس کتنا بھی پیچیدہ ہو ایک سال سے زیادہ لٹکا نہ رہے۔ چھوٹے کیسوں کے لئے تو چار سے آٹھ ہفتے سے زیادہ وقت نہ لگے۔جیلوں میں قیدی کئی کئی سال تک اپنی اپیلوں کی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ جن کو چند دنوں یا ہفتوں میں نمٹایا جائے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭
فوجداری قوانین میں اصلاحات دیر آمد درست آمد
ملک منظور احمد
پاکستان کو قیام پاکستان کے بعد سے ہی چند ایسے مسائل کا سامنا ہے،جن کے باعث اس ملک کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ ملک حقیقی معنوں میں اپنی صلاحیتوں کا بروئے کار لا کر دنیا میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکا ہے جس کا یہ حقدار تھا۔چند انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ اس ملک کا نظام انصاف اور فوجداری قوانین ہیں۔اس ملک میں چاہے وہ سول کیس ہو یا پھر فوجداری مقدمہ۔کیسز تو ہو جاتے ہیں لیکن ان کے فیصلے نہیں ہو پاتے ہیں۔پولیس اور عدلیہ کا نظام اس طرح سے ڈلیور نہیں کرپاتا جس طرح کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے جو قانون رائج ہیں وہ انگریز نے 1898ء میں کیے تھے،اور ابھی تک اس ملک کا نظام انہی قوانین کا تابع ہے اور ملک کے لیے مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں اشرافیہ کو فائدہ ہو تا ہے اور غریب پستے چلے جاتے ہیں۔اور کیونکہ یہ نظام انگریز کا بنایا ہو ا ہے اس لیے اس امر میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ انھوں نے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جو کہ حکمران طبقے کے گھر کی لو نڈی ہے۔لیکن ہماری سب سے بڑی بد قسمتی رہی ہے کہ 75سال میں اس ملک میں کبھی بھی ہمارے ملک میں اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے اور جس کا نقصان ہمیں بطور قوم اٹھانا پڑا ہے۔
سابق صدر مشرف کے دور میں پولیس آرڈر 2002ء لایا گیا تھا اور کوشش کی گئی تھی اس حوالے سے بہتر پولیسنگ کو فروغ دیا جائے لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اس آرڈر پر عمل درآمد میں کئی مسائل آئے اور اگر کہا جائے کہ یہ نظام بڑی حد تک ناکام ہو گیا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔اب آخر کار کسی حکومت نے سنجیدگی سے پاکستان پینل کو ڈ،تعزیرات پاکستان اور فوجداری قوانین میں جامع اصلاحات کرنے کا فیصلہ کیا ہے،قانون شہادت میں تبدیلی کی جا رہی ہے،ویڈیو اور الیکٹرانک شہادت سے متعلق قوانین بدلے جا رہے ہیں پلی با رگین کا نفاذکیا جا رہا ہے،مقدمات ختم کرنے کی کے لیے ایک ٹائم فریم مقرر کیا جا رہا ہے،اور اگر ٹرائل جج مقررہ نو ماہ میں مقدمہ کا فیصلہ نہیں سناتا تو اس کو ہائی کو رٹ کو اس حوالے سے وضاحت دینی ہو گی۔اپیل کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت 6ماہ مقرر کی گئی ہے۔کوئی بھی جج کسی بھی مقدمے میں 3روز سے زیادہ کا التوا نہیں دے سکے گا۔یہ تو چند مثالیں ہیں لیکن کل ملا کر قوانین میں 750ترامیم کی جا رہی ہیں،جو کہ تمام کی تمام دیکھنے کے لحاظ سے تو بہت اچھی ہیں لیکن سوال وہی آتا ہے کہ کیا ان پر مکمل طو ر پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے گا؟پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ کاغذوں پر ان پر تو بہت بہترین اصلاحات لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور لائی بھی جاتی ہیں لیکن جب عملی میدان میں ان کو نا فذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ ہو نہیں پاتا ہے۔
جیسا کہ حضرت علی عنہؓ کا قول ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن نا انصافی کا نظام نہیں چل سکتا ہے۔سابق آئی جی پولیس افتخار رشید میرے دوست ہیں اور ایک جہاندیدہ شخصیت ہیں۔میری پولیس نظام میں اصلاحات کے حوالے سے ان سے بہت بار گفتگو ہو ئی ہے میں نے ان سے اس حوالے سے انٹر ویو بھی لیے اور ان کا یہی کہنا ہے کہ پاکستان میں اصلاحات کی کوشش تو بہت بار کی گئی ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا اور عمل درآمد نہ ہونے کی کئی وجوہات رہیں،ان میں چند ایک یہ تھیں کبھی تو امریکہ یا یورپ کا نظام یہاں پر لانے کی کو شش کی گئی ہے جو کہ ہمارے ملک کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اس لیے ناکامی ہو ئی اور کبھی اتنی مہنگی اصلاحات متعارف کروائی گئیں کہ ان پر عمل کے لیے بجٹ ہی موجود نہیں تھا اس لیے ناکامی ان کا مقدر ٹھہری لیکن بہر حال ہمیں اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے کہ کم از کم انھوں نے اس حوالے سے کوشش تو کی ہے۔کامیاب ہو تے ہیں یا نہیں یہ بعد کی بات ہے لیکن اللہ کرے یہ یہ اصلاحات کامیاب ہوں کیونکہ ملک کو اپنے پولیس اور عدل کے نظام میں ڈرامائی بہتری کی ضرورت ہے۔
دور حاضر معاشی ترقی اور معاشی مقابلے کا دور ہے جو ممالک اور جو ریاستیں اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گی ان کے لیے اس دنیا میں عزت سے رہنا بہت مشکل ہو تا چلا جائے گا۔اور معاشی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت انسانی وسائل کی ترقی اور ان کو ترقی کے لیے سازگار ماحول دینا ہے۔جو کہ ہم آج تک اپنے لوگوں کو نہیں دے سکیں ہیں۔ایک ایسا معاشرہ جہاں پر عدل اور انصاف کا دور دورہ ہو۔ایسے ماحول میں ہی ملک ترقی کیا کرتے ہیں۔ہمیں بھی اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں نیشنل قومی سلامتی پالیسی کا بھی اجرا کیا گیا ہے اور اس پالیسی کے تحت انسانی ترقی اور عوام کی خوشحالی کو کلیدی حیثیت دی گئی ہے اب ضروری ہے کہ فوجداری قوانین میں اصلاحات سمیت ایسے قوانین لائیں جا ئیں جو کہ اس ہدف کو مکمل کرے میں قومی پالیسی کو تقویت دیں۔پولیس نظام میں مرکزی اہمیت کا حامل تھانہ ہو تا ہے جس سے عوام کا واسطہ پڑتا ہے اگر پولیس نظام میں بہتری لانی ہے تو تھانوں پر خصوصی توجہ دینی ہو گی رویے بہتر بنانے ہوں گے تفتیش معیاری اور سائنسی بنیادوں پر کرنی ہو گی اور تھانہ دار بہتر لگانے ہوں گے انسانی وسائل میں بھی بہتری لانا ہو گی،تھانہ دار کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کی گئی ہے اس کے ساتھ دیگر اقدامات کا بھی ذکر ہے لیکن اس حوالے سے میرے خیال میں مزید کام کیا جانا چاہیے اس کے بغیر نظام میں اس طرح کی بہتری نہیں آئے گی جس کی توقع عوام کرتے ہیں یا حکومت لانا چاہتی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭
لاہور کی بے ہنگم ٹریفک
نیاز حسین لکھویرا
کافی برس بیت گئے لاہور میں تعینات پویس کے ایک ڈی ایس پی مشتاق گجر نے لاہور کی ٹریفک کے حوالے سے ایک کتاب ترتیب دی۔ اس وقت سید گلزار مشہدی آئی جی پنجاب کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ تھے۔ علم وادب سے ان کا گہرا تعلق تھا اس لیے ان کی خصوصی کاوش سے اس وقت کے آئی جی پنجاب چودھری سردار اور اس خاکسار نے مشتاق گجر کی اس کتاب کا پیش نقط اور دیپاچہ تحریر کیا۔ مصنف نے اس کتاب میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ٹریفک سے متعلق جتنے بھی محکمے ہیں ان سب کو ایک چھت کے نیچے اکھٹا کر دیا جائے ان میں آر ٹی اے، موٹر وہیکل ایگزامینر، رجسٹریشن، ٹوکن ٹیکس، لائسنسنگ اور دیگر تمام شعبوں کے اہلکار مو جود ہوں جو عوام کے مسائل ایک جگہ ہی حل کریں۔ مشتاق گجر بعد میں گوجرانولہ میں ایس پی سٹی تعینات رہ کر ریٹائر ہوگئے مگر ان کی تجاویز پر عمل نہ ہو سکا۔ لاہور کی ٹریفک کا جائزہ لیں تو ہمارے ایک دوست میجر ظہیر بہت عرصہ پہلے لاہور کے ایس ایس پی ٹریفک تھے۔ انہوں نے لاہور کی سٹرکوں پر نشانات لگوائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ نشانات سٹرکوں کی زبان ہیں۔ جب تک آپ کسی کو زبان نہیں دیں گے وہ بو لے گا کیسے؟ آپ کس لین میں جا رہے ہیں، کہاں کہاں سے لین تبدیل کر سکتے ہیں اور کہاں کہاں لین تبدیل نہیں کر سکتے؟ دائیں یا بائیں کہاں سے مڑ سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
لاہور کی مرکزی حیثیت کے پیش نظر اس کا تمام شہروں سے رابطہ ہے ایک طرف تو قصور، چونیاں، پتوکی، اوکاڑہ، دیپال پور، سلیمانکی، منچن آبا د، بہاولنگر اور فورٹ عباس کے ساتھ ساتھ ساہیوال، چیچہ وطنی، میاں چنوں، خانیوال، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازیخان سے لاہور کا رابطہ ہے اور دوسری طرف راولپنڈی، جہلم، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانولہ، چنیوٹ، سرگودھا، فیصل آباد، جھنگ، سیالکوٹ میانوالی، لیہ اور دیگر شہروں سے لاہور جڑا ہوا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ پہلے لاہور میں راوی پر صرف ایک پل ہوا کر تا تھا اور اب راوی پر سات پل بن چکے ہیں۔ پہلے ایک جنرل بس سٹینڈ ہو تا تھا اور اب بادامی باغ، شاہدرہ بند روڈ اور ٹھوکر نیاز بیگ پر ان گنت بس سٹینڈ بن چکے ہیں۔ ٹریفک کا بہاؤ بڑھ گیا ہے۔ بینکوں کے لیزنگ سسٹم نے گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔ جو آدمی پہلے سائیکل لے سکتا تھا اب موٹرسائیکل لیتا ہے۔ جو موٹر سائیکل لے سکتا تھا وہ اب کار خرید تا ہے۔ لاہور شہر میں اس وقت ٹریفک کی جو صورت حال ہے اس بارے میں چیف ٹریفک آفیسر سید منتظر مہدی سے تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ لاہور کے داخلی اور خارجی راستوں پر ٹریفک کا بے پناہ رش ہے جہاں ٹریفک کے اہلکار دن رات اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ گلاب دیوی ہسپتال، فردوس مارکیٹ کے انڈر پاس، اللہ ہُو چوک اور اس طرح کے دیگر اہم مقامات پر جو انڈر پاسز بنائے گئے ہیں یا چوک کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کو شش کی گئی ہے وہاں کئی تکنیکی مسائل ہیں۔
تین لین والی سٹرک یکدم دو لین میں تبدیل ہوجاتی ہے اور وہاں ٹریفک کا رش ہوجاتا ہے اس کالم نگار کے خیال میں ٹیپا، ایل ڈی اے اور ٹریفک پولیس میں رابطوں کا فقدان ہے۔ ٹیپا ٹریفک ڈیزائن کر تا ہے، ایل ڈی اے عملدرآمد کر تی ہے اور اس سارے ملبے کو ٹریفک پولیس پر ڈال دیا جا تا ہے کہ وہ ٹریفک کے بہاؤ کو یقینی بنائے۔ فیروز پور روڈ پر سابق حکمرانوں نے کتنے ہی پل بنوا دئیے لیکن شاہدرہ روڈ، امامیہ کالونی کی ریلوے کراسنگ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ شاہدرہ سے کالا شاہ کاکو تک اور گلبرگ سے بابو صابو تک فلائی اوور بننے کی نوید سنی تھی مگر ابھی تک ان منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ دو باتیں ایسی ہیں جن پر لاہور کی ٹریفک پولیس تحسین کی مستحق ہے۔ ایک تو یہ کہ تعلیمی اداروں اور مختلف علاقوں میں 300 طلباء وطالبات اور افراد کو ٹریفک کو کنڑول کرنے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے کہ وہ وقت ضرورت یہ رضاکار ٹریفک کنڑول کرنے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے کہ وقت ضرورت یہ رضا کار ٹریفک پر قابو پا سیکں۔ دوسرا یہ کہ سیف سٹی کیمروں کے ذریعے جہاں ٹریفک کی روانی متاثر ہو وہاں فوری طور پر ٹریفک کے بہاؤ کے لیے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ہیلمٹ پہننے کی پابندی سے حادثات میں کمی آرہی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایک اور دوست لیاقت علی ملک چیف ٹریفک آفیسر لاہور تھے، وہ ادیب بھی تھے اور کئی کتابوں کے مصنف بھی، انہوں نے ایک بہت اچھا مضمون لکھا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم شہری ٹریفک وارڈن کو عزت دیں۔ راقم کے خیال میں شہریوں اور ٹریفک اہلکاروں کے درمیان عزت و احترام کے تعلق کو مزید پروان چڑ ھانے کی ضرورت ہے۔ وارڈن دو ٹکے کا ملازم نہیں ہے بلکہ ہماری حفاظت کے لیے دن رات موسم کی سختی برداشت کرتے ہوئے سٹرک پر موجود ہے۔ آگاہی کے اس پیغام کو موجودہ چیف ٹریفک آفیسر آگے بڑھا رہے ہیں۔ ویل ڈن
(کالم نگارثقافتی اورسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
روزگار کا حصول اتنا مشکل کیوں؟
خیر محمد بدھ
گزشتہ روز سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح 16 فیصد ہوگئی ہے اور 24 فیصد تعلیم یافتہ لوگ بے روزگار ہیں مجموعی تعداد میں 3 گنا ڈگری ہولڈرہیں۔ بے روزگاری اب ایک عالمی مسئلہ ہے پوری دنیا میں روزگار کا حصول ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے جہاں ساؤتھ افریقہ جیسے ملک بھی ہے۔جہاں دنیا میں سب سے زیادہ بے روزگاری تقریبا 35 فیصد ہے۔ وہاں قطر، بحرین اور ملاوی جیسے ممالک بھی ہیں جہاں بے روزگاری صفرہے۔ تاہم ہمارے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں آبادی کا اضافہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ بیروزگاری کیوں بڑھ رہی ہے اس کی کیا وجوہات ہیں۔ ملک میں سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں مسلسل روزگار کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک عام آدمی کو اس کے بارے میں مناسب اور بروقت معلومات نہیں مل رہی ہے جو ایک قومی المیہ ہے اقوام متحدہ کے ادارے آئی ایل او نے 17 جون 1948 کو ایک کنونشن نمبر CO88 منظور کیا جس کے تحت ممبر ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ مفت روزگار سروس کے ادارے قائم کریں۔جو نیشنل اتھارٹی کے تحت کام کریں۔ لوکل اور ریجنل سطح پر بے روزگار افراد کوبے روزگار افراد کوملازمتوں سے متعلق فری معلومات مہیاں کی جائیں۔ سروس،معلومات اور ڈویلپمنٹ کے سلوگن کے تحت بے روزگار افراد کی مدد اور رہنمائی کی جائے۔
اس ایمپلائمنٹ سروس کنونشن کے تحت پاکستان میں بھی روزگار کے دفاتر ضلع اور ریجن کی سطح پر بنائے گئے جہاں نبیروزگار لوگ خواہ وہ تعلیم یافتہ تھے یا ہنر مند، غیر ہنر مند، ان کی رجسٹریشن کی جاتی تھی اور بوقت ضرورت سرکاری محکمے میں اور پرائیویٹ مالکان Employersاستفادہ کرتے تھے۔تمام سرکاری محکمہ جات کے لیے ضروری تھا کہ وہ بھرتی کے لیے دفتر روزگار ایمپلائمنٹ ایکسچینج Employment Exchangeکی جانب سے مہیا کردہ افراد کی لسٹ کو سامنے رکھیں اور اس میں سے انتخاب کریں۔صنعتی اور تجارتی ادارہ جات کے مالکان بھی اپنی لیبر اوردفتری ضرورت کے لئے ان دفاتر سے رجوع کرتے تھے اس طرح یہ ادارہ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں اور بے روزگار افراد کے درمیان ایک پل اور راہ نماکا کردار ادا کرتا تھا۔ لازمی سروس ایکٹ کے تحت ڈاکٹر صاحبان کی رجسٹریشن اور معذور افراد کے کوائف بھی دفتر روزگار میں موجود ہوتے تھے۔ ضلع میں موجود افرادی قوت خواہ وہ تعلیم یافتہ تھی یا ہنرمند مکمل کوائف کے ساتھ موجود ہوتی تھی۔یہ سلسلہ 1990 تک قائم رہا۔ ضلعی اورریجنل نیشنل سطح پر موجود تمام آسامیوں کی تعداد اور بھرتی سے متعلق تفصیلات اس دفتر میں موجود ہوتی تھیں۔ اور جب بھی کوئی اسامی یا جاب سرکاری یا پبلک سیکٹر میں آتی تھی تو دفتر روزگار ڈاک کے ذریعے اہلیت والے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے۔ جب1988 میں پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ شروع ہوئی تو روزگار کے حصول کو مشکل اور من پسند بنانے کے لیے دفتر روزگار کو ختم کر دیاگیاملازمتوں میں خفیہ کوٹہ مقرر کیا گیا۔
پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی لوگوں کے بیٹوں کو نائب تحصیلدار جیسی پرکشش ملازمت بغیر قواعد و ضوابط پر عمل کئے دی گئی۔ چونکہ خفیہ طریقوں سے سیاسی رشوت شروع کی گئی اس لیے دفتر روزگار کو ختم کر دیا گیا۔ ملک کے دیگر صوبوں میں غالباََ یہ ادارے قائم ہیں۔ لیکن پنجاب میں یہ اہم محکمہ ختم کر دیا گیا۔صرف یہی نہیں بلکہ دفاتی روزگار کا ایک اور اہم شعبہ ٹیکنیکل ٹریننگ بھی ختم کر دیا گیا۔ اب سرکاری آسامیوں کااعلان تو اخبارات کے ذریعے ہوتا ہے۔ اگر ایک دفتر میں خاکروب کی آسامی ہے تو اس کے لئے بھی دواشتہارات دلائے جاتے ہیں۔ جن پر ہزارو ں روپے خرچ آتا ہے۔ جبکہ پہلے یہ صرف ایک لیٹر لکھنے سے ہوتا تھا۔ دفتر روزگار کے خاتمے سے بہت سے نقصانات ہوئے ہیں۔ امیدواروں کو ہروقت معلوما ت نہیں مل سکتی۔جواشتہارات انگریزی اخباروں میں آتے ہیں ان کا علم بے روزگاروں کو نہیں ہوتا کیونکہ ہر جگہ یہ اخبار نہیں آتے پھر سیاسی رشوت کے لیے ہر حکومت جو اخبار منتخب کرتی ہے وہ ہر علاقے میں نہیں جاتا لائبریریاں ویسے ختم ہوتی جارہی ہیں سب سے زیادہ نقصان پرائیویٹ سیکٹر میں ہوا ہے پہلے مختلف صنعتی اور تجارتی ادارے اپنی ضرورت کے لیے دفاتر روزگار کو لکھ دیتے تھے اور ان کی وساطت سے غیر ہنر مند اور ٹیکنیکل لیبر فورس حاصل کرتے تھے اس سے امیدواروں کو بھی آسانی ہوتی تھی وہ مختلف جگہوں پر معلومات حاصل کرنے کی بجائے ایک دفتر میں جاتے تھے جہاں انہیں سب معلومات مل جاتی تھی لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار کے متلاشی لوگ بھی بہت پریشان ہیں انہیں روزگار کے حصول میں بے شمار جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔
پاکستان پوری دنیا میں افرادی قوت لیبر فورسLabor Force کے حوالے سے نواں 9th بڑا ملک ہے یہاں سے بیرون ملک بھی لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں جاتے ہیں دفتر روزگار کے خاتمے کے بعد مختلف شہروں میں پرائیویٹ ادارے قائم ہیں جو اپنے اشتہاری مہم کے ذریعے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں اور بے شمار بے روزگار لوگوں سے لوٹ مار کرتے ہیں انسانی سمگلنگSmugling بھی کر رہے ہیں اور شکایات بھی عام ہیں۔بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے طوفان سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایل اوکنونشن 88 کے مطابق ماضی کے دفتر روزگار ایمپلائمنٹ ایکسچینج Employment Exchangeکو دوبارہ شروع کیا جائے اس سے ضلعی سطح پر بے روزگار افراد سے متعلق مستند اعداد وشمار میسر آ سکیں گے ڈاکٹرز، انجینئرز، معذور افراد کے کوائف کا حصول آسان ہوگا حکومت کے اخراجات میں کمی آئے گی اور میرٹ پر عمل ہوگا۔
پرائیویٹ سیکٹر کے لئے آسانیاں پیدا ہوگئی ملازمتوں اور روزگار میں پرائیویٹ سیکٹر میں کھپت زیادہ ہے۔ انڈسٹری، تجارت، زراعت، فش فارمنگ اور فاریسٹ، آرٹیٹیکچر وغیرہ کے شعبے میں افرادی قوت کی ضرورت بھی ون ونڈوOne Window کے تحت پوری ہوسکے گی۔ لیبر مارکیٹ میں بہتری آئے گی بے روزگار لوگوں کو مناسب راہ نمائی اور معلومات مل سکے گی اور روزگار کے حصول میں آسانیاں پیدا ہوگئی بے روزگاری بیشمار برائیوں کی ماں ہے اور جب روزگار میرٹ کے بجائے چور دروازے سے شروع ہو جائے تو پھر بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوجاتا ہے جب سندھ اور کے پی کے میں یہ ادارہ قائم کام کرسکتے ہیں اور پنجاب میں ان دفاتر کا سٹاف اب بھی موجود ہیں جنہیں دوسرے کاموں پر لگا دیا گیا ہے تو پھر ان دفاتر کو دوبارہ فعال کیوں نہیں کیا جاسکتا پوری دنیا میں فری پبلک ایمپلائمنٹ سروس موجود ہے۔پنجاب اور پورے ملک میں بھی یہ قائم ہونی چاہیے۔اس سے مقامی اور علاقائی سطح پر بروقت معلومات حاصل ہوگی اور پبلک پرائیویٹ سیکٹر کو افرادی قوت کے حصول میں مد د ملے گی۔ ان اداروں کی ضرورت اہمیت اور افادیت بے روزگار لوگوں اور اہمپلائز دونوں کے لئے یکساں ہے۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
ذخیرہ اندوزوں کے گرد شکنجہ سخت
خدا یار خان چنڑ
ڈیڑھ دو ماہ پہلے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ چینی بحران تو کچھ بھی نہیں، پاکستان میں یوریا کھاد کی قلت کا مسئلہ اٹھے گا تو سب کو پچھلے سارے بحران بھول جائیں گے۔ گورنمنٹ آف پاکستان کو پہلے ہی الرٹ کیا تھا اور کچھ تجاویز بھی پیش کی تھیں مگر اس پر حکومت کی نظر نہیں گئی۔ اگر حکومت ڈیڑھ دو ماہ پہلے اس طرف توجہ دیتی ہے تو شاید آج کسانوں کو اتنی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آج صورت حال یہ ہی کہ ان کی فصل تباہ ہو رہی ہے۔ یوریا مل نہیں رہی۔ اگر تھوڑی بہت آتی بھی ہے تو کسانوں کو لمبی لمبی لائنوں میں کھڑا ہو کر شناختی کارڈ پر ایک یا دو بوری دے دی جاتی ہے۔ جو اس کی فصل کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتی۔
ابھی کھاد کا بحران ختم نہیں ہوا کہ مکی کے سیڈ کے حوالے سے کسان پر ایک اور بم گرائے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اگلے ماہ مکی کی کاشت شروع ہونے والی ہے لیکن سیڈ مافیا نے ابھی سے زمیندار کی چمڑی اتارنے کے لیے چھری کانٹے تیز کر لیے ہیں۔ بیجائی ابھی شروع ہی نہیں ہوئی کہ مکئی کا بیج تین سے چار ہزار روپے فی تھیلا بلیک ہو چکا ہے۔ اب مکئی کا بیج 6317 اور 7024 کا ریٹ جو MRP ہے وہ 10500 روپیہ ہے جس میں 800 سو روپیہ فی تھیلی منافع بھی ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی ان دو ورائٹیوں کا ریٹ 14000 روپے تک چلا گیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بجائی کے وقت اس کا ریٹ کہاں تک چلا جائے تھا۔ حکومت پاکستان کو اس طرف فوراً توجہ دینی چاہیے۔ ابھی ایک ماہ ہے فوراً وافر مقدار میں مکئی کا بیج درآمد کر لینا چاہیے۔ ورنہ یہ سیڈ مافیا زمیندار کو کنگلا کر دے گا۔ اس مافیا میں کوئی معمولی یا چھوٹا موٹا بزنس مین نہیں ہو سکتا۔
اگر ایک شخص کے پاس پچاس ہزار تھیلی پڑی ہیں تو اس کی قیمت ایک ارب روپے بنتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ سیڈ مافیا میں ارب پتی لوگ ہیں۔ حکومت پاکستان ڈائریکٹ بیچ کمپنیوں سے زمیندار کو دلوا دے تو سیڈ مافیا جو اسٹاک بلیک کر کے مال بنانے کا انتظار کر رہا ہے اس کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ آئندہ بھی مافیا کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہوگی۔ابھی حکومت نے % 17 فی صد ٹیکس لگا دیا ہے مگر یہ سیڈ مافیا نے پرانے سٹاک پر بھی کسانوں سے وصول کر رہے ہیں حکومت نے تو ٹیکس 2022میں لگایا ہے مگر ان ظالمو ں نے جو 2021کا مال پڑا ہے اس کے اوپر بھی لگا کر زمیداروں کو لوٹ رہے ہیں کبھی کبھی بڑا افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی سیڈ تک نہیں بنا سکتا۔ مکئی سورج مکھی اور دیگر ہائبرڈ بیج بھی باہر سے آتے ہیں۔
اگر وہ ہمیں یہ بیج فراہم نہ کریں گے تو ہم فصل کاشت نہیں کر سکیں گے۔ آج بھی ہم دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں آخر کب تک ہم محتاجی کی زندگی گزاریں گے۔ اگر وہ ہمیں نہ دیں تو ہم فصلیں کاشت نہ سکیں گے اور ہماری زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ افسوس ہوتا ہے کہ حکومت محکمہ زراعت کی ترقی کیلئے اربوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن کام یہ ایک ٹکے کا نہیں کرتے اور المیہ یہ ہے ہم آگے جانے کی وجہ روز بروز پیچھے جا رہے ہیں۔ اور ہم ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے۔ دیگر سرکاری اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی سفید ہاتھی بن چکا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک پاکستان نے بڑی ترقی کی ہم نے بڑی بڑی مشینیں فیکٹریاں تو لگائیں حتی کہ ایٹم بم اور میزائل تک بنا لیے لیکن کسانوں کے لیے اور ملک کی ترقی کے لئے سیڈ تک تیار نہ کر سکے۔ یہ ایک المیہ ہے اور محکمہ زراعت کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اب وزیراعظم پاکستان عمران خان کا مہنگائی ذخیرہ اندوزی منافع خوروں کے خلاف خود میدان میں نکل آئے ہیں۔ ان نا جائز منافع خوروں کے خلاف نیا قانون پاس ہوگیا ہے۔ اپ جو بھی ذخیرہ اندوزی یا ناجائز منافع خوری کرے گا تو نئے قانون کے مطابق تین سال جیل اور ایک لاکھ جرمانہ ہو گا۔ دونوں سزائیں ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ اب یہ ایک ناقابل ضمانت جرم ہو گیا ہے۔ پہلے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف انتظامیہ ایف آئی آر درج کرتی تھی تو یہ قابل ضمانت جرم تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں کو ایف آئی آر کا تو کوئی خوف ہی نہیں تھا۔ اسی وقت ضمانت بھی ہو جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ بے لگام ہو گئے تھے۔ اب حکومت اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کروا لیتی ہے تو بڑے بڑے مگرمچھوں ذخیرہ اندوزوں کو جیل کی ہوا کھانا پڑے گی اور یوں یہ معاملات خود بخود حل ہو جائیں گے۔
یوریا کھاد کی قلت پر عمران خان نے فیکٹری مالکان اور اہم زمہ داران سے بھی میٹنگ کی ہے۔ یوریا کی قلت کی وجہ پوچھی گئی تو انھیں بتایا گیا کہ 2020 میں 12 کروڑ 8 لاکھ بوری سیل ہوئی تھی۔ 2021ء میں 12 کروڑ 66 لاکھ بوری سیل ہوئی تھی۔ پہلے یومیہ 20 ہزار ٹن یوریا بنتی تھی۔ اب کھاد فیکٹریوں نے یوریا کی پیداوار 25 ہزار ٹن پر چلی گئی ہے۔ کھاد کی پروڈکشن پہلے سے کافی زیادہ ہے۔ ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خوروں کی وجہ سے کھاد مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔ اب عمران خان نے کھاد کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد کھاد کے بحران پر قابو پا لیا جائے گا اور اگر سیڈ کے حوالے سے مناسب اور بروقت اقدامات کیے گئے تو یہ بحران جنم لینے سے پہلے ہی دم توڑ جائے گا۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
حکومت نظامِ عدل کوبہتر بنائے
وزیر احمد جوگیزئی
پاکستان میں تمام شعبے چاہے وہ تعلیم کے ہوں صحت کے ہوں یا پھر شعبہ عدل ہو جو کہ ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ بھی ہے ہم نے کسی بھی شعبہ زندگی میں کوئی مناسب کام نہیں کیا ہے۔یا پھر صحیح طریقے سے کام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔عوام کیا چاہتے ہیں؟ عوام کی چند بنیادی ضروریات ہو تی ہیں عوام صرف امن اور سکون کی زندگی چاہتے ہیں اور کچھ نہیں اور عوام کو بہتر زندگی کے لیے سہولیات دینا ریاست کا کام ہو تا ہے لیکن ہمارے ملک میں عوام کے بنیادی مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں او ر عوام ابھی تک اپنے بنیادی مطالبات میں ہی الجھے جا رہے ہیں،اور عوام کے مسائل اور حالات میں بہتری آنے کی بجائے ہم ایک تنزلی دیکھتے ہیں۔قومیں کیسے بنتی ہیں کیسے ابھرتی ہیں؟ اس سے تا ریخ بھری پڑی ہوئی ہے۔لیکن ہم ایک قوم بننے کی بجائے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں کیا کچھ نہیں ہے؟ سب کچھ موجود ہے سونا اگلتی ہو ئی زمین ہے،وسائل ہیں محنت کش کی محنت میں کوئی کمی نہیں ہے۔
ہمیں ضرورت ہے تو صرف اور صرف ایک بہترین نظام تعلیم کی اور نظام تعلیم جلد بازی میں نہیں بنایا جاسکتا ہے اس کے لیے وقت درکار ہو تا ہے،کسی بھی نظام تعلیم کو بنانے اور موثر کرنے کے لیے 25سال کا عرصہ درکار ہو تا ہے۔ہم ہر سال اپنے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی کرتے ہیں اور نئے اہدف ہر سال مقرر کیے جاتے ہیں،اس طریقے سے قومیں نہیں بنا کرتی ہیں۔ہماری بطور قوم میری نظر میں سب سے بڑی ناکامی بہود آبادی سے غفلت اور اس میں ناکامی ہے۔اس حوالے سے ہم نے بطور قوم بہت ہی لا پرواہ رویہ اپنائے رکھا ہے جو کہ ہمارے لیے آنے والے دنوں میں مسائل میں اضافے کی وجہ بنتا چلا جائے گا،اور اس مسئلہ کا حل صرف اور صرف ایک بہتر پلاننگ اور اپنی آبادی کو تعلیم دینے میں ہی ہے لیکن ابھی تک تو ہم ان محاذوں پر بُری طرح ناکام ہیں۔
ہم نہ تعلیم دینے میں کامیاب ہیں اور نہ ہی آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔جس طرح سے اور جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے،اسی طرح سے جہالت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،ہم یا ہمارے حکمران 14صدیوں کے بعد ملک کو ریاست مدینہ بنانے کی باتیں تو کرتے ہیں،لیکن ہم اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ ریاست مدینہ ایک مہم تھی ایک معجزہ تھی اللہ کے نبیؐ کا آخری پیغام تھا،اور اب نہ ہی کسی نبی کو آنا ہے او ر نہ ہی کسی ریاست کو پروان چڑھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قانون قرآن مجید میں محفوظ ہے۔ اگر ہم واقعی قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ریاست بنانا چاہتے ہیں،تو سب سے پہلے ہمیں امن اور انصاف لانا ہو گا اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ہم اس ملک میں انصاف کو بالا ئے طاق کر کے ملک کو بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔یہ ہمارا ملک ہے اور ہمیں یہ ملک بہت مشکل سے حاصل ہو ا ہے اور ہمیں ہی اس کو لے کر آگے چلنا ہے۔اب ہم مزید اس ملک کو تباہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔21ویں صدی میں جمہوری نظام ہی ریاست کا نظام ہے اور اسی نظام کو لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ریاست میں قرآن مجید کا بھی براہ راست اثر و رسوخ اور قرا ٓن کی تعلیمات کی روشنی میں ہی اس نظام کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔
امن اور سکون برابری اور انصاف کے جب کسی ریاست کو ملے گا تب ہی وہ ریاست آگے بڑھ سکتی ہے اور ترقی کی منازل بدرجہ اتم طے کرسکتی ہے۔اور انسان ایسے ماحول میں پھلتے اور پھولتے ہیں۔ہم ابھی تک صرف خواہشات اور نعروں کی دنیا میں پھنسے ہوئے ہو ئے ہیں،اور عملی طور پر کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ہماری ہزاروں خواہشات ایسی ہیں کہ ہر خواہش پر ہمارا دم نکلتا ہے،صرف خواہشات پر ملک نہیں چلتے اور نہ ہی قومیں بنتی ہیں،قوم بننے کے لیے انصاف کلیدی امر ہے،یہاں پر ہم نے اپنے ملک میں عدلیہ کو کبھی بھی آزادانہ طریقے سے کام کرنے ہی نہیں دیا۔ہمیں اپنے نظام عدل میں واضح بہتری کی ضرورت ہے اگر انصاف نہ ہو تو ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے اور ہمارے نظام انصاف کی عالمی رینکنگ دیکھی جائے تو اس میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں اور مسلسل تنزلی کا شکار ہیں اس کی وجوہات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ججز کیسے سلیکٹ کیے جاتے ہیں؟یہ سارے عمل کو دیکھنے کی ضرورت ہے،سپریم کو رٹ یا جو ڈیشل کمیشن خود ہی اس سارے کام کو دیکھے گا تب ہی ان معاملات میں بہتری آسکتی ہے۔
اگر سیاست دانوں کو اس عمل میں شامل کیا گیا اس سارے عمل میں کوئی سیاسی آمیزش موجود ہو تو پھر ہم اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ پا ئیں گے اور ہمارا نظام عدل عوام کو انصاف نہیں دے پائے گا۔ترقی چاہیے تو ایک مضبوط مستحکم اور پختہ نظام چاہیے اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چلے گا۔ ہم اپنے معاشرے میں جوافراتفری کی کیفیت دیکھتے ہیں یہ اسی طرح برقرار رہے گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے نہایت ہی سنجیدہ طریقے سے کام کریں۔اپوزیشن کا کام ہی حکمران جماعت کی غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہے،اور حکومت کا کام ہے کہ اس نشان دہی کے اوپر اپنی غلطیوں کودورکرے۔عدل نہ ہو تو معاشرے میں عدم برداشت کاکلچرپھیلتا جاتا ہے۔ہمارے اکابرین کا اولین فرض ہے کہ وہ معاشرے میں حصول انصاف اور انصاف کی فراہمی کو اپنا اولین مقصد بنائیں،ورنہ ہر آنے والا دن مشکل سے مشکل ہو تا چلا جائے گا۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭
سینٹ میں شکست،یوسف رضا کی زبانی
سید سجاد حسین بخاری
سینٹ کا نام آتے ہی میرے ذہن میں وسیم سجاد سابق چیئرمین سینٹ کا نام آجاتا ہے۔ اُن کا دورانیہ 1988ء سے شروع ہوتا ہے اور 1999ء تک لگاتار چار بار وہ چیئرمین سینٹ رہے۔ ان کی بابت تفصیلات آئندہ، فی الحال جمعہ کے دن اکثریت کے باوجود اپوزیشن کی شکست کی اصل کہانی لیڈر اپوزیشن سینٹ کی زبانی سن لیں۔ جمعۃ المبارک 6:18 بجے شام سید یوسف رضا گیلانی نے فون کیا اور کہا کہ حکومت وقت نے میرے خلاف ایک گھناؤنی چال چلی ہے اور ”منی بل“ کی سینٹ سے منظوری کا سارا ملبہ شکریے کی شکل میں مجھ پر ڈال رہی ہے جبکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے جب اسلام آباد میں سینٹ سیشن چل رہا تھا تو مجھے بتایا گیا کہ اگلا سیشن 31 جنوری بروز سوموار کو شاید بلایا جائے۔ میں گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد سے لاہور آگیا اور پھر ملتان میں نے پورا ہفتہ گزارا۔ اس دوران ہمارے دو ممبران قومی اسمبلی کے والد اور سابق ممبر قومی اسمبلی ملک غلام محمد نور ربانی کھر کا انتقال ہوگیا، مجھے اپنے چیئرمین اور صدر زرداری کی نمائندگی کا بھی کہا گیا۔
27 جنوری جمعرات کی شب رات ساڑھے 12بجے سینٹ کا ایجنڈا میرے اسلام آباد والے گھر پر پہنچایا گیا جبکہ میں اس وقت ملتان میں محو خواب تھا۔ صبح مجھے میرے سٹاف نے بتایا کہ آج سینٹ کا اجلاس ہے مگر اس وقت میرا پہنچنا محال تھا اور اسی دن ملک نور ربانی کھر کی قل خوانی تھی مگر میں ایوان بالا کی کارروائی بذریعہ فون لمحہ بہ لمحہ سنتا رہا۔ ساڑھے گیارہ بجے دن تک سینٹ میں اپوزیشن کے 42 ممبران اور حکومت کے 37 سینیٹرز ایوان میں موجود تھے اور کارروائی جاری تھی۔ حکومت نے اس وقت تک ”سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل“ سینٹ میں پیش نہیں کیا اور ویسے بھی جمعہ کے دن 12 سے ساڑھے 12 بجے اجلاس ختم ہو جاتا ہے حکومت نے ساڑھے گیارہ بجے اجلاس میں وقفہ کیا اور دوران وقفہ سینیٹر دلاور خان کو بلا کر اجلاس سے چلے جانے کا کہا وہ مان گئے اور چلے گئے۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے 4، میرے سمیت پیپلزپارٹی کے 21، جمعیت العلمائے اسلام کے ایک سینیٹر طلحہ محمود بھی اجلاس سے اُٹھ کر چلے گئے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں مسلسل رابطے میں تھا 12 بجے دوبارہ بل سینٹ میں پیش کیا گیا اور اسی دوران حکومت نے اپوزیشن کے چند سینیٹرز کو درخواست کرکے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر راضی کرلیا اور وہ اجلاس سے چلے گئے اور ساتھ ہی حکومتی سینیٹرز جو اسلام آباد میں موجود تھے کو فوری طور پر بلا لیا اور بل دوبارہ سینٹ میں پیش کردیا گیا ووٹ برابر نکلے تو چیئرمین سینٹ نے اپنا ووٹ دیکر بل پاس کرادیا۔
حکومت نے غیرقانونی راہ اپنائی ہے۔ بل کا طریقہ کار موجود ہے مگر حکومت نے چوربازاری کی ہے۔ ایک تو اپوزیشن کو اندھیرے میں رکھا دوسرا قانونی طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ میں نے گیلانی صاحب سے کہا کہ یہ تو ہر حکومت کرتی ہے میری نظر میں سٹیٹ بینک کا بل ایک دن قبل قومی اسمبلی سے حکومت نے پاس کرایا دوسرے دن سینٹ کا اجلاس بلایا جوکہ آپ کے نوٹس میں آگیا۔ آپ کے پاس تین جہاز والے دوست موجود ہیں جن میں جہانگیر ترین، مخدوم احمد محمود اور ملتان کے معروف صنعتکار و سابق میئر میاں فیصل مختار اے شیخ شامل ہیں اور ان کے جہاز آپ اکثر و بیشتر استعمال بھی کرتے رہتے ہیں، اگر آپ جانا چاہتے تو آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ آپ اصل کہانی بتائیں تو گیلانی صاحب نے فون بند کردیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ سینٹ کا سارا ملبہ اکیلے یوسف رضا گیلانی پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ دیگر جماعتوں میں جمعیت العلمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، دلاور گروپ، مسلم لیگ(ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کیوں غیرحاضر تھے؟ جو اپوزیشن تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ کے نعرے گزشتہ دس ماہ سے لگا رہی تھی، وہ اپنے سینیٹرز کو جمع کیوں نہ کرسکی؟ سٹیٹ بینک کا بل منی بجٹ سے شروع ہو کر اب تک لٹکا ہوا تھا اور حکومت کیلئے یہ بل زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا تھا اور اپوزیشن بھی اس بات سے بخوبی واقف تھی اس کے باوجود غفلت؟
قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا جہاں پر جمعرات کی شب یہ بل پاس ہوگیا تھا قدرتی امر ہے کہ حکومت نے فوری طور پر سینٹ میں یہ بل پیش کرنا تھا انہوں نے بے شک رات کے 12 بجے صدر سے اجلاس بلانے کے نوٹس پر دستخط بھی کرائے مگر سینٹ چیئرمین نے تمام سینیٹرز کو بذریعہ ایس ایم ایس اور واٹس اپ اطلاع کردی تھی پھر غیر حاضری کا جواز نہیں بنتا اور مسلم لیگ کی لیڈر محترمہ مریم نواز بے خبر اور خاموش کیوں ہیں انہوں نے اپنے چار سینیٹرز کی خبر کیوں نہیں لی؟
میری نظر میں کسی ایک بھی سینیٹرز کا قصور نہیں خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، ہم یہ تماشا 1985ء سے دیکھ رہے ہیں یہ غیرحاضریاں، بیماریاں، اجلاس سے اٹھ کر چلے جانا یہ سب کام ہمیشہ سے اس وقت ہوتے ہیں جب کسی کی ملازمت میں توسیع کا بل پیش ہو۔ جب اعتماد کا ووٹ لینا ہو، جب دھرنا ختم کرانا یا سینٹ کے الیکشن ہوں، کسی وزیراعلیٰ کی تبدیلی ہو، یٰسین وٹو سے لیکر غلام حیدر وائیں مرحوم ہو یا بلوچستان کے گزشتہ ماہ تبدیل ہونے والے جام کمال ہوں، بجٹ یا منی بجٹ ہو، ممبران قومی اسمبلی و سینیٹرز کی مراعات کا بل ہو، فوج سے آپریشن کرانا ہو یا رینجرز کو بلانا ہو، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا معاملہ یا مشین کے ذریعے ووٹنگ کا بل ہو جو کچھ بھی مقتدر قوتوں نے کرانا ہوتا ہے اس وقت یہ تمام حیلے بہانے اپنائے جاتے ہیں اور اس طرح کے تمام بلز سینٹ والے اسی فارمولے کے تحت پاس ہو جاتے ہیں اس میں سید یوسف رضا گیلانی پر ملبہ نہ ڈالا جائے اگر انہوں نے سینٹ چیئرمین اور ان کے تین بیٹوں نے بھی الیکشن جیتنے ہیں تو پھر سینٹ سے غیرحاضر رہنا پڑے گا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
انوکھے کردار
محمد صغیر قمر
مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ ایک سو چھیاسٹھ سال بنتا ہے۔باقی عرصہ باہم جنگ وجدل اور کھینچا تانی میں گزر گیا۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے مالک چھ بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے ان میں نصیر الدین محمد ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھاکردہلی واپس آ رہا تھا توراستے میں ایک دریا دریا عبور کرنے کے لیے اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔بابر نے اپنے بیٹے کو تلوار چلانے میں تو ماہر بنا دیا تھا لیکن اسے تیرنا نہیں آتا تھا۔ شکست خوردہ ہمایوں یہاں پہنچ کر تذبذب کا شکار تھا کہ دریا کیسے پارکیا جائے؟ معاً اس کی نظردریا کے کنارے ایک فرد پر پڑی یہ ایک سقّہ (ماشکی)تھاجواپنے مشکیزے میں پانی بھر رہا تھا۔ ہمایوں نے اسے بلایا اور مدد طلب کی۔تب تک سقہ ّبے خبر تھا کہ یہ کروفر والا کون ہے؟اس نے بادشاہ کو دریاپار پہنچا دیا۔ اس بے لوث خدمت نے ہمایوں کو بے حد متاثر کیا۔
ہمایوں 1530ء تا 1540ء اور پھر 1555ء تا 1556ء مغلیہ سلطنت کا حکمران رہا۔ 1540ء جب اس کو دوبارہ اقتدار نصیب ہوا تو اس نے اس سقّہ کو اپنے دربار میں طلب کرکیااوراسے انعام کے طور پر ایک دن کی بادشاہت عنایت کردی تھی۔ ہمایوں ہمارے جمہوری سیاسی رہنماوں کی ماننداحسان فراموش ہوتا تو شاید بھول جاتا۔ نظام الدین سقہ کوایک روز کی بادشاہت ملی تو اسن نے راتوں رات ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ تاریخ اس منصوبے کو”نظام سقہّ“ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ جس روز بادشاہ بنانے کا فیصلہ ہوا تواس رات اس نے سوچا کہ اس مختصر سی مہلت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا نے کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے۔؟ نظام کو یہ ترکیب سجھائی دی کہ اگر چمڑے کا سکّہ رائج ہو جائے تومختصر وقت میں خطیر رقم جمع کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اس نے رات بھر اپنے واحد سرمایہ حیات چمڑے کے مشکیزے سے اشرفی کے برابر سکّے بنائے۔صبح تخت پر بیٹھتے ہی شاہی فرمان جاری کردیا کہ آج کے دن چمڑے کا یہ سکّہ سونے کی اشرفی کے مساوی شمار ہوں گے یعنی ایک ہی حکم سے طلائی اشرفیوں کو بے قیمت کردیا گیا۔
وہ ہندوستان کا ایک اور نامور بادشاہ تھا۔تاریخ اسے محمد شاہ رنگیلا کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اصل نام روشن اختر تھا اور شاہ عالم بہادر شاہ اول کا پوتا تھا‘روشن اختر 17 ستمبر 1719ء کو تخت پر بیٹھا اور اپنے لیے ’ناصر الدین محمد شاہ‘کا لقب پسندفرمایا۔ وہ ایک عیش پسنداور غیر متوازن شخص تھا‘ چوبیس گھنٹے افیون اور دیگرنشے کی وجہ سے دھت رہتا تھا۔رقص و سرود اور فحاشی و عریانی کا دل دادہ تھاقوانین بنانا اور خود ہی توڑنا اس کا معمول تھا‘ وہ ہر لمحے بدلتے مزاج یعنی متلون مزاجی کا خوگر تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں آتا کہ کسی شخص کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین عہدہ سونپنا چاہیے تو وہ بلا کسی تاخیر کے اس پر عمل کرتا۔اس کا دل چاہتا تو وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتا تھا اور اگلے روز باہر نکال دیتا،کسی دوسے عہدے پر فائز کر کے پھر جیل بھیج دیتا۔
کبھی کبھی اس کا دل کرتا تودربار میں ننگا آ جاتا تھا اور درباری بھی اس کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری میں کپڑے اتار دیتے تھے‘ جوش اور تکبر میں اپنے تخت سے اترتا، اس کے درباری اس حرکت پر تالیاں بجا کر داد دیتے اور اسے یقین دلاتے کہ اس عمل سے وہ بہت ”محظوظ“ہوئے ہیں۔اس کے وزراء‘ دارالحکومت دہلی کے شرفاء علما اور فضلا واہ واہ کہہ کر ناصر الدین محمد شاہ کی تعریف کرتے تھے‘۔وہ اچانک حکم فرماتے کہ کل تمام درباری اور مصاحب زنانہ کپڑے پہن کر آئیں اور کچھ وزیروں کو حکم ہوتا کل کچھ وزیر پاؤں میں گھنگرو باندھ کر آئیں گے اور وزراء مصاحب سر جھکا کر بات مان لیتے۔کبھی سرکار کے ذہن میں خیال آتا کہ کل سب درباری حلوہ پکائیں گے حلوہ پک جاتا تو بادشاہ سلامت سارا حلوہ گھوڑوں کے آگے رکھوا دیتے، جب گھوڑے نہ کھاتے تو حکم دیتے سب مصاحبین ”مل کر“ کھائیں،چنانچہ وہ سب خوشی خوشی تناول فرما لیتے بادشاہ سلامت کبھی اعلان کر دیتے جیل میں بند تمام مجرم آزاد کر د یے جائیں اور اتنی ہی تعداد میں لوگ جیل میں ڈال دیے جائیں تاکہ جگہ خالی نہ رہے۔جوقانون بناتے اگلے لمحے سب سے پہلے اس قانون کی خلاف ورزی کرتے اور قہقہے لگاتے۔
شاہانہ طبیعت کا یہ عالم تھا کہ شائد اب تک یہ واحد بادشاہ گزرے یہیں جنہون نے اپنے پسندیدہ گھوڑے کو بھی وزارت عطا کی تھی اور اسے خلعت فاخرہ پہنا کر دربار میں وزراء کے ساتھ کھڑا رکھتے۔جو خواتین ان کو ”اچھی“لگتیں ان کو تخت شاہی پر”بچھا“ کر ان پر بیٹھ جاتے اور احکامات جاری کرتے۔ان کا کہنا تھا کہ پورے ہندوستان کی خوب صورت خواتین ان کی ملکیت اور امانت ہیں۔اس امانت میں کہیں سے بھی خیانت کی اطلاع ملتی تو پہلی فرصت میں بغیر تفتیش کے اس کی گردن اڑا دی جاتی۔ کبھی نشے کے مارے بادشاہ سلامت تخت پر دراز ہو جاتے اور اس شدت سے خراٹے مارتے کہ اردگرد مصاحبین اسے ”بہترین موسیقی“قرار دے کر ان کا حوصلہ بڑھاتے۔چاپلوسی اور خوشامدی وزیروں کو بہت پسند کرتا لیکن کبھی کبھی مزاج میں بگڑ جااتا اور ان مصاحبین کو گھوڑا بنا کر ان پر سواری بھی کر لیتا۔یوں تو بد تہذیب تھا ہی لیکن اس کی ایک خوبی تاریخ میں بیان کی جاتی ہے کی حیرت انگیز طور پرذہین اورشاطر بھی تھا۔جو زیادہ تعریف کرتااکثر اس کے منہ میں اشرفیاں ڈالتا یہاں تک کہ سانس لینامحال ہو جاتا۔شاعر اور ٖاضل لوگ اس کے نزدیک ڈوم میراثی سے کم اہمیت پاتے لیکن کبھی کبھی اس کے مزاج میں تبدیلی آتی تو ان کو دربار میں بلا کر وزیروں کے کپڑے اتروا کر پہنا دیتا۔
1739ء میں جب نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا کے درمیان کرنال کے مقام پر جنگ ہوئی۔ محمد شاہ رنگیلا کی ایک لاکھ سے زائد فوج نادر شاہ کی پچپن ہزار فوج سے شکست کھا گئی۔ 12 مئی 1739ء کی شام دہلی میں سب کچھ معمول کے مطابق چل پڑا۔ دہلی کی گلی کوچوں میں چہل پہل تھی۔ غریبوں میں شربت اور طرح طرح کی چیزیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ فقیروں کو بھاری بھاری رقوم عطا ہو رہی تھیں۔ شاہ رنگیلا کو شکست ہوئی تو اس کے چہرے پر پریشانی کے بجائے سکون تھا ہے۔ وہ نادر شاہ کے سامنے دونوں ہاتھ چھاتی پر رکھ کر اطاعت کے لیے راضی ہوگیا۔ جب نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہو رہا تھا تو درباری اسے بارہا نادر شاہ کی بڑھتی فوجوں کی طرف توجہ دلا رہے تھے لیکن وہ تخت پر لیٹ جاتا اور شراب کے نشے میں دھت کہتا ’ہنوز دہلی دور است‘ میں ابھی یہاں موجود ہوں۔ چنانچہ نادر شاہ نے ہندوستان پر قبضہ کر کے خزانہ لوٹ لیا‘ محمد شاہ رنگیلا کثرت سے شراب نوشی اور افیون کے استعمال کے باعث 26 اپریل 1748ء کو دنیا سے چلا گیا لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ”امر“ ہوگیا۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭
اگر مجھے نکالا گیا؟
کامران گورائیہ
کم وبیش دنیا کے تقریباً تمام جمہوری ممالک میں منتخب حکمران عوام کو براہ راست جواب دہ ہوتے ہیں اور اس کے لئے مختلف نوعیت کے ذرائع اور میڈیم استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے مواقع آئے ہیں جب وزراء اعظم نے عوام سے خطاب کرنے اور ملک کو درپیش معاشی، سیاسی، خارجی اور اقتصادی امور پر قومی اتفاق رائے قائم کرنے کی روایت کو پروان چڑھایا، کئی بار جب حکمرانوں اور عوام کے درمیان خلیج بڑھنے لگتی ہے تو وزیراعظم قومی ٹیلی ویڑن پر آ کر عوام سے براہ راست مخاطب ہوتے اور درپیش چیلنجز، مسائل اور اہداف کے بارے میں آگاہ کرتے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی اسی طرز عمل کو قدر جداگانہ انداز میں اپنایا اور عوامی شکایات سے قومی ٹیلی ویڑن پر ہی آگاہی حاصل کی اور شہریوں کے تحفظات جاننے کی کوشش کی لیکن پی ٹی آئی کے گذشتہ ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جس میں اپنے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے دکھائی نا دیئے ہوں۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان ایسے ہی ایک عوامی خطاب کے دوران اپنے سیاسی مخالفین کو للکارتے ہوئے کہا کہ ”اگر انہیں اقتدار سے نکالا گیا تو وہ پہلے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے“۔ وزیراعظم عمران خان عوامی رابطہ کے اس قابل ذکر ٹی وی پروگرام کے دوران عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کرنے کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین اور نادیدہ قوتوں کے لئے یہ پیغام چھوڑا گیا کہ ”اگر مجھے نکالا گیا تو آنے والے دنوں میں سیاسی محاذ پر میں پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا“۔
وزیراعظم کی گفتگو کے کئی پہلو ہیں لیکن اگر ہم صرف دو پہلوؤں کا جائزہ لیں تو آنے والے دنوں کیا ہوسکتا ہے اور سیاسی محاذ پرآرائی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے تو ہمیں کچھ حقائق جاننے میں آسانی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ بطور وزیراعظم اب تک ناقابل تسخیر رہنے والے عمران خان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اب عوام کا غم و غصہ جس نہج پر پہنچ چکا ہے اور اپوزیشن جماعتیں جس طرح حکومت کی ناقص پالیسیوں کو جواز بنا کر ان کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کے لئے تیار نظر آ رہی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی تبدیلی اور گھر جانے کا بظاہر فیصلہ ہو چکا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آتی ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں تو پھر عمران خان کو یقینی طور پر گھر جانا پڑے گا۔ وزیراعظم کی تقریر کا دوسرا پہلو زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو مختلف سیاسی اور ملک کی منظم قوتوں کے دباؤ سے نکالنے کے لئے ایک ایسا داؤ کھیلا ہے جس کے نتائج غیر متوقع اور جمہوریت کی بساط لپٹنے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے بہت سے سینئر اور زیرک سیاستدانوں نے عمران خان کی حالیہ تقریر کو خود ان کے لئے ”خود کش حملہ“ قرار دیا ہے۔ اس حوالہ سے مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا یہ بیان انتہائی اہم اور معنی خیز ہے جس میں انہوں نے خبردار کیا ہے کہ وزیراعظم کو اپنے مشاورتی بورڈ میں شامل مشکوک افراد کی طرف سے چوکنا رہنا پڑے گا جنہیں وہ بے حد زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ سیاست میں رہتے ہوئے کسی بھی وزیراعظم کی تقریر میں استعمال کیے گئے الفاظ کا چناؤ انتہائی محتاط انداز سے کیا جاتا ہے لیکن عمران خان ہمیشہ سے جذباتی رہے ہیں وہ بیشتر اوقات اپنے بیانات میں ایسے الفاظ کا استعمال بھی کر جاتے ہیں جو وزیراعظم کے منصب کے شایان شان نہیں ہوتے۔ چوہدری شجاعت حسین ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ عمران خان ان کی رائے کا کس حد تک احترام کرتے ہیں اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن وزیراعظم عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں بہت سے ایسے بیانات دیئے ہیں جس پر انہیں بعد ازاں یوٹرن بھی لینا پڑا۔ ملک کی تمام قابل ذکر اور اہمیت کی حامل سیاسی جماعتیں ان ہاؤس تبدیلی لانے پر اتفاق کر چکی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو آئندہ کے سیاسی منظر نامہ میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنی شرائط پر آئندہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کی آرزو مند ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک مسلم لیگ ن ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں نہیں تھی لیکن اب تو جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مائنس ون فارمولے پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں معاملہ محض ”مائنس ون“ سے آگے جائے گا اور قوی امکانات ہیں کہ سال رواں کے اواخر میں عام انتخابات کروا دیئے جائیں اور اکثریت محاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار کی باگ ڈور تھما دی جائے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے بیانیہ ”مجھے کیوں نکالا“ کے بعد اب وزیراعظم عمران خان سے یہ جملہ منسوب ہو چکا ہے ”اگر مجھے نکالا گیا“۔ بحرکیف ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے لگام بے روز گاری کا جن قابو میں کرنے کے لئے تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان کا لہجہ ناصرف تلخ ہو چکا ہے بلکہ وہ جارحانہ عزائم کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
ملک کے عوام پہلے ہی سے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت ہچکولے کھا رہی ہے۔ عوام میں اپوزیشن جماعتوں کی مقبولیت کا گراف بتدریج اوپر کی طرف اور حکمران جماعت پی ٹی آئی کی ساکھ زوال پذیر ہے۔ اپوزیشن جماعتیں مہنگائی مارچ کا اعلان بھی کر چکی ہیں،اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کیا گیا یہ اعلان حکومت کے لئے درسر بن چکا ہے لیکن اگر مہنگائی مارچ کی نوبت آ ہی گئی تو اسے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن اس بات کو جھٹلانا بھی ناممکن ہوگا کہ اپوزیشن جماعتوں کا لانگ مارچ 23 مارچ کو ہوگا جبکہ باشعور طبقات کی جانب سے فروری کے مہینے کو مارچ کی آمد سے پہلے ہی بے بنیاد اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ قومی سیاست میں ہونے والے ممکنہ اکھاڑ پچھاڑ نے بہت سے خدشات بھی کھڑے کر دیئے ہیں کیونکہ ملک میں امن و امان کی صورت بگڑتی جا رہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یقینی طور پر سب سے پہلے سکیورٹی معاملات پر فوکس کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان اپنا مؤقف پیش کر چکے ہیں ایسے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے اندر کرپشن میں اضافہ کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن حکومتی ترجمانوں کی طرف سے ”میں نا مانوں“جیسے محاورے کے عین مطابق اس رپورٹ کو مالی کرپشن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارے کی یہ رپورٹ بھی وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کے لئے نیک شگون نہیں بلکہ یہ ان کے اس اعلان جنگ کا جواب ہے کہ ”اگر مجھے نکالا گیا تو“ میں کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭