All posts by Daily Khabrain

تلخ لہجے میں جب کوئی بولے

سید سجاد حسین بخاری
وزیراعظم نے 23جنوری کو عوام کے 13سوالوں کے 90منٹ تک جواب دیئے اور مفصل گفتگو کی۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے دل کی بھڑاس بڑے تلخ لہجے میں خوب نکالی۔ ان کے 90منٹ کے ٹی وی پروگرام میں اپوزیشن، عدلیہ، پی ڈی ایم، ٹی ایل پی، این آر او، میڈیا، مہنگائی، ملکی معیشت، ایف بی آر، غربت، کارپوریٹ سیکٹر، خوراک کا بحران، نوازشریف کی واپسی، حکومت کی مدت اور اگلی حکومت کا دعویٰ موضوع گفتگو رہے۔
وزیراعظم کی ٹی وی گفتگو ختم ہوتے ہی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بحث شروع ہوگئی۔ حمایت اور مخالفت کرنے والوں نے ایک دوسرے کو خوب لتاڑا مگر کچھ معتدل لوگوں نے بھی ٹی وی پروگراموں پر گفتگو کی اور انہوں نے چند معقول سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مثلاً وزیراعظم کو اچانک ٹی وی پروگرام کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا اس گفتگو کا یہ وقت مناسب تھا؟ کیا سوال جان بوجھ کر تلخ رویے کیلئے کرائے گئے تھے؟ کیا وزیراعظم کو کوئی بڑا مسئلہ یا تھریٹ تو درپیش نہیں ہے؟ سب سے زیادہ بحث وزیراعظم کے تلخ لہجہ اور سڑکوں پر نکلنے کی ہورہی ہے۔ مزید سوالات بھی ہیں کہ کیا وزیراعظم کو اپنی حکومت ختم ہوتے نظر آرہی ہے؟ یا اس وقت ان کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے؟ جس کا انہیں علم ہوگیا ہے تو انہوں نے طیب اردگان کی طرح فوراً عوام کو اعتماد میں لیا ہے۔
اس تقریر کی میری نظر میں دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ چند دن قبل مسلم لیگ (ن) کے جن چار بڑے رہنماؤں نے مقتدر قوتوں کو اپنی خدمات پیش کی تھیں یا تو ان کی پیشکش پر غور ہونا شروع ہوگیا ہے یا پھر عدلیہ کی طرف سے شریف برادران کے مقدمات کی بابت کسی نئی چیز کی وزیراعظم کو اطلاع دی گئی ہے جس میں نوازشریف کی تاحیات نااہلی کی سزا کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے ورنہ اس وقت وزیراعظم کو بڑا پُرسکون ہونا چاہیے تھا کیونکہ اپوزیشن تقسیم ہوچکی ہے، تحریک عدم اعتماد کا ابھی حتمی فیصلہ اپوزیشن نے نہیں کیا، لانگ مارچ فی الحال نہیں ہورہا، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے دھڑے پرویز خٹک، ترکئی فیملی، عاطف خان اور محمود خان گروپ سب خاموش ہیں۔ پنجاب میں بھی جہانگیر ترین گروپ بھی حکومت کے ساتھ ہے۔ حکومتی اتحادی بھی مطمئن اور پُرسکون، فوج اور حکومت بھی ایک صفحے پر ہیں بلکہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے یہ دعویٰ مسلسل کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت، فوج اور عدلیہ متحد ہیں جو عمران خان کی خوش قسمتی ہے مگر پھر اچانک سب کچھ کیسے ہوگیا؟ اور عمران خان کو سڑکوں پر آنے کی نوبت کیوں پیش آرہی ہے؟ کیا کوئی بڑی سازش تو نہیں ہورہی؟ اگر ہے تو کون کررہا ہے؟ میری نظر میں اس وقت ملک میں حکومت مخالف کسی قسم کی تحریک کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ ہی آئندہ آنے والے بقیہ 18مہینوں میں کیونکہ حکومت کا یہ آخری سال چل رہا ہے اور اپوزیشن بھی حکومت نہیں گرائے گی۔ مجھے اصل مسئلہ عدلیہ کی طرف سے نظر آرہا ہے کہ شاید وزیراعظم کو کرپٹ ٹولے کے مقدمات میں التواء اچھا نہیں لگ رہا کیونکہ عمران خان کی زندگی کا واحد مقصد شریف برادران اور زرداری خاندان سے لوٹی ہوئی دولت واپس کرانا اور انہیں سزائیں دلوانا مقصود تھا جو ساڑھے تین سالہ اُن کے دورِ حکومت میں تمام تر کاوشوں کے باوجود نہیں ہوسکا اور اسی رفتار کو محسوس کرتے ہوئے انہیں یہ محسوس ہوا ہے کہ شاید ان کے بقیہ دور میں بھی ان کے مخالفین کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس لئے انہوں نے شہزاد اکبر کو بھی فارغ کردیا ہے۔
اب اسی مقصد کیلئے انہوں نے وزارتِ قانون کی معرفت کریمنل پروسیجر کوڈ میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں جن کا عنقریب اعلان وزیراعظم خود کریں گے اور ان قوانین میں ترمیم کا بڑا مقصد ہر مقدمے کی سماعت کا وقت متعین کرنا ہے تاکہ سالوں تک لٹکنے والے مقدمات کے فیصلے چند مہینوں میں ہوں اور ملزموں کو بروقت سزا وجزاء کے عمل سے گزارا جاسکے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں مزید نئے قوانین کی ضرورت ہے۔ عدلیہ سے جڑی وکلاء برادری اور سائلین بھی برابر کے قصووار ہیں۔ وزیراعظم کی تقریر کا آخری نقطہ اگلی حکومت کا تھا کہ اگلی حکومت ان کی ہوگی۔ بے شک ان کی ہوگی مگر کس بنیاد پر؟ کیا 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں مل گئیں؟ کیا آئی ایم ایف سے چھٹکارا مل گیا؟ کیا پٹرول، ڈالر، آٹا، دالیں، چینی، کھادیں سستی ہوگئیں؟ کیا مزدور سے لیکر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگیا؟ کیا ترقیاتی منصوبے کسی شہر میں نظر آرہے ہیں؟
میں نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں محسوس کیا ہے کہ وزیراعظم کو غیروں سے نہیں اپنی جماعت کے لوگوں سے خطرہ ہے جن قابل منتخب لوگوں کو انہوں نے (مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، اور پی پی چھوڑ کر آنے والے لوگوں) ٹکٹیں دیکر منتخب کرایا تھا اور پھر کابینہ میں بھی انہی لوگوں کو شامل کیا اور غیرمنتخب مشیروں کی لائن بھی لگائی ہوئی ہے۔ یہ سب اُن لوگوں کے کرشمے ہیں کہ کمزور ترین اپوزیشن کی موجودگی، بہتر معیشت، بہترین برآمدات میں اضافے، 37ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی، صحت اور راشن کارڈ کے باوجود انہیں سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ اور وزیراعظم عمران خان ایک بات یاد رکھیں جب آپ سڑکوں پر نکلیں گے تو موجودہ کابینہ میں سے سوائے پی ٹی آئی کے دو تین وزیروں کے کوئی وزیر، مشیر یا مانگے تانگے کے ارکان اسمبلی آپ کے ساتھ نہیں ہوں گے، وہی پرانے کارکن آپ کیلئے آگے آئیں گے جن کو آپ بھول چکے ہیں۔
وزیراعظم صاحب! آپ سے گزارش ہے کہ قابل منتخب (Electable) اور مانگے تانگے کے ارکان اسمبلی کے بجائے اپنی نوجوان بریڈ کو میدان میں اُتاریں۔ بے شک آپ ایک الیکشن ہار جائیں گے مگر اگلے الیکشن میں آپ دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔اس موقع پر مجھے میرے ایک رفیقِ کار اورممتازشاعر یونس عدیم کا خوبصورت شعر یاد آرہا ہے:
تلخ لہجے میں جب کوئی بولے
لے کے قاصد بھی کیا جواب آئے
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سانحہ مری سے متعلق اصل حقائق

محمدنعیم قریشی
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سانحہ مری کو پاکستان کی تاریخ میں ایک بدنما داغ کی طرح یاد رکھاجائے گا۔سات اورآٹھ جنوری کی رات کو مری میں برفانی طوفان اور با رش کے باعث 23افراد اپنی گاڑیوں میں انتقال کرگئے تھے۔ انتقال کرجانے والوں میں ایک ہی خاندان کے 8افراد بھی شامل تھے۔ واقعے کے بعد پنجاب حکومت نے سانحہ مری کی تحقیقات کیلئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
سانحہ مری کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ کے کچھ مندرجات کا انکشاف ہوگیا ہے اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پورے سانحے کی ذمہ دار حکومتی انتظامیہ یا ان کی لاپرواہیاں ہیں، عموماً شدید برف باری کے نتیجے میں برف ہٹانے والی گاڑیوں کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بیس گاڑیاں ایک جگہ کھڑی تھیں اور اس پر ان گاڑیوں کا عملہ بھی غائب تھا۔ اگر تحقیقاتی کمیٹی اس کا انکشاف نہ بھی کرتی تو یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ محکمہ موسمیات کی وارننگ کو نظر انداز کیا گیا جو کہ ایک بڑی غفلت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ ان معاملات کو دیکھنے والے ادارے کی سوچ اس طرف جانے سے کس طرح قاصر رہی ہے کہ اگر پانچ چھ روز مسلسل شدید برفباری ہو تو اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں، یہاں پورے مری کو بے یار رومددگار چھوڑ کر انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی جبکہ اس قدر غفلت کے باوجود اپنا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے یعنی اب تجویز دی جارہی ہے کہ کار پارکنگ نہ رکھنے والے ہوٹلوں اور شاپنگ سنٹرز کو سیل کردیا جائے اور یہ کہ راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا جائے یہ باتیں بھی قابل غور ہوسکتی ہے مگر سزاکے اس عمل میں کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ نہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک معمولی واقع نہیں ہے بلکہ تاریخ کا ایک ایسا سانحہ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
کارپارکنگ کے بغیر ہوٹل اور شاپنگ سنٹرز بننے کی اجازت دینے والے افسران کو بھی سخت سزا دی جائے صرف ہوٹل یا شاپنگ سنٹر سیل کرنا کوئی سز ا نہیں ہے تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت کے اہلکار اپنی ہی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کیلئے گرینڈ آپریشن کریں گے، خوب توڑ پھوڑ ہوگی اور پھر سب ٹھیک ہوجائیگا۔ اب جتنی توڑ پھوڑ ہوئی ہے حکومت میں اور اس کے افسران میں ہونی چاہیے، اس کے بعد ہوٹلوں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ اگرچہ کسی قسم کی رپورٹ کے بغیر ہی حکومت کو سزا کے طور پر برطرف کر دیا جانا چاہیے تھا لیکن اب یہ کھیل کھیلا جائے گا کہ حکومت پنجاب کے خلاف تحقیقات تو عدلیہ کے ذریعے ہونی چاہیے تھی لیکن چونکہ اوپر سے نیچے تک یہی نظام چل رہا ہے ہر بااختیار ادارہ، حکمران اور اعلیٰ افسر اپنے ہی خلاف تحقیقات کرتا ہے، اپنے ہی حق میں فیصلہ بھی صادر فرمادیتا ہے۔
سانحہ مری کیلئے کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں۔ اس پر حکومت پنجاب کو خود ہی فیصلہ کرلینا چاہیے۔ اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم از کم وزیراعلیٰ پنجاب بھی اپنا محاسبہ کریں۔ اس سانحہ سے منسلک تمام وزراء سے بھی پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔ اب خبر آ گئی ہے کہ یہ رپورٹ فی الحال وزیراعلیٰ کو نہیں دی گئی۔ تحقیقات کے دوران انتظامی محکموں کے تیس سے زائد افسران کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کی غفلت سے مری سانحہ پیش آیا۔ اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا گیا کہ مسلسل تبادلے صرف مری کے اسسٹنٹ کمشنرز کے ہی نہیں ہوئے بلکہ اس کی زد میں راولپنڈی کے چھ ڈپٹی کمشنرز اور پانچ کمشنرز بھی آچکے ہیں، جنہیں پی ٹی آئی حکومت نے تین سال چارماہ میں وقتاً فوقتاً تبدیل کیا ہے اور اس طرح ڈی سی راولپنڈی کے عہدے کی میعاد ساڑھے چھ ماہ جبکہ کمشنر راولپنڈی کے عہدے کی اوسط میعاد آٹھ ماہ رہی ہے، اس تمام تحریر میں قدم قدم پر بہت سے سوالات نے جنم لیاہے مگر چند ایک سوالات ایسے بھی جس کو میں آسان الفاظوں میں تحریر کے آخر میں بیان کرنا چاہونگا جسے پڑھنے کے بعد یہ جاننا آسان ہوجائے گا کہ اس سانحہ کا اصل قصور وار کون ہوسکتاہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کی وارننگ کے باوجود جب ٹول پلازہ سے سیاح مری جارہے تھے تو کسی نے ان کو نہیں روکا، نہ ہی انہیں کسی قسم کے خدشے سے آگاہ کیا گیا۔ دوسراسوال تو یہ بنتا ہے کہ پچیس ہزار سیاح کی گنجائش والے مری میں ایک لاکھ سے زائد سیاحوں کی اجازت کیوں دی گئی۔
یہ بھی سوالات ہیں کہ مشکل حالات میں برف باری میں پھنسے افراد کو بچانا کس کی ذمہ داری تھی؟ یہ افراد برف باری میں پھنسے کیسے،سڑکوں پر ٹریفک جام کیوں ہوا، ٹریفک پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے گنجائش سے زائد گاڑیوں کو داخل کیوں ہونے دیا، اور سب سے بڑھ کرریسکیو آپریشن تاخیر سے کیوں شروع ہوا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہنگامی صورتحال میں عوام کے جان و مال کا تحفظ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی او ر صوبائی اداروں کی ذمہ داری ہے، موسمی خطرات کے حوالے سے عوام اور متعلقہ اداروں کو خبردار کرنا اور ان سے اس حوالے سے انتظامات کروانا بھی ان اداروں کی ذمہ داری ہوتی جو ظاہر ہے کسی بھی لحاظ سے پوری نہیں کی گئی۔
مری میں ہونے والے حالیہ سانحے میں ان اداروں کے مابین باہمی کوآرڈینیشن کا فقدان ہی شاید واحد وجہ تھی جس کی وجہ سے سیاحوں کو بچایا نہ جا سکا، سب سے پہلے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے کو دیکھنے کیلئے وسائل کس کے پاس ہیں، موسم کی صورتحال سے لیکر کسی شہر میں داخل اور خارج ہوتی ٹریفک تک کی تمام اور مصدقہ معلومات کس کے پاس ہوتی ہیں کس سیاحتی مقام پر کتنے ہوٹلز ہیں اور تمام ہوٹلوں میں کتنے کمرے ہیں یہ علم کس کو ہوتا ہے؟۔ ذرا غور کریں آپ کی خود سمجھ میں آجائے گا کہ اس سانحہ کا اصل ذمہ دار کون ہوسکتا ہے۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پولیس کا ناقص نظامِ تفتیش

محمد سمیع اللہ خان
پاکستان میں پولیس طاقتور ہمہ گیر اور اہم فورس ہے لیکن اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگ مختلف شکلوں میں ہر جگہ اور خاص طور پر شہروں میں موجود ہیں بڑے جرائم میں قتل عصمت دری نابالغ کے ساتھ جنسی زیادتی اغواء مسلح ڈکیتی، چوری منظم جرائم میں دھوکہ دہی، منشیات فروشی، سمگلنگ، منی لانڈرنگ، بھتہ خوری، تاوان وغیرہ شامل ہیں۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری خاص طور پر بڑے شہروں میں عام ہے۔ اگر ہم پنجاب کی بات کریں تو گزشتہ تین سالوں کی نسبت اب جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے 2017ء میں جرائم کی تعداد چار لاکھ تھی تو 2021ء میں 7لاکھ پہنچ چکی ہے۔ سب سے زیادہ جرائم لاہور شہر میں ہو رہے ہیں۔ لاہور میں 80سے زائدپولیس سٹیشن ہیں اور 2021ء میں ان میں 2لاکھ کیسز رجسٹر ہو ئے ہیں۔ لوٹ مار، قتل، قبضہ گری، چوری، ڈکیتی وغیرہ جیسے سنگین جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
پولیس کے اہم عہدیداران اورسب سے زیادہ نفری لاہور میں تعینات ہے لیکن جرائم میں روزبروز اضافہ حکومت اور پولیس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور جرائم میں اضافہ کی وجہ سے عوام عدم تحفظ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ پولیس آرڈر 2002ء کے تحت پولیس کو مختلف 18شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ان میں اہم شعبہ جات تفتیش واچ اینڈ وارڈجرائم کی روک تھام اور خواتین کے خلاف جرائم کے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم شعبہ تفتیش کا ہے۔ پولیس کو جب کسی جرم کی بابت کوئی اطلاع ملتی ہے یا کیس رجسٹر ہو جاتا ہے توضابطہ فوجداری کی دفعات 155سے 157 کے تحت پولیس تفتیش کرتی ہے کیونکہ فوجداری مقدمات میں انصاف پولیس کے شعبہ تفتیش سے شروع ہوتا ہے لیکن ناقص نظام تفتیش کی وجہ سے گنہگار لوگ بے گناہ ہو جاتے ہیں اور بیگناہ لوگ سالہا سال تک جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے علاوہ مقدمہ بازی پر اٹھنے والے بے جا اخراجات اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ عدالتوں میں پیشیاں بھگتانے میں گزار دیتے ہیں۔ اس وقت لاہور پولیس سٹیشنز میں تقریباً 40فیصد تفتیشی آفیسر مڈل اور میٹرک پاس ہیں جو کہ جدید تفتیش کے تقاضوں سے نابلد ہونے کی وجہ سے فرانزک رپورٹ، پوسٹمارٹم رپورٹ، میڈیکولیگل سرٹیفکیٹ بھی نہ پڑھ سکتے ہیں بلکہ جیو فینسنگ اور سی ڈی آر کا تجزیہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ان کے علاوہ تقریباً پچاس فیصد تفتیشی افسران جدید ٹیکنالوجی سے ناواقف ہیں۔
جب تفتیش کا نظام ہی ناقص ہو گا اور کم تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے ناواقف لوگ سنگین جرائم کی تفتیش کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ بیگناہ لوگ جیلوں میں ہوں گے، جبکہ جرائم پیشہ افراد شہر میں دندناتے پھریں گے۔ لاہور شہر میں روز افزوں بڑھتے ہوئے جرائم کی سب سے بڑی وجہ ناقص تفتیشی نظام ہے۔ تفتیشی شعبہ میں نااہل افسران کی وجہ سے لاہور میں درج مقدمات جن میں قتل ڈکیتی، اغواء، بچوں اور خواتین سے جنسی تشدد سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث 70فیصد ملزمان کو گرفتار کرنے میں پولیس ناکام ہو چکی ہے۔ پولیس کی کرپشن رشوت خوری، بربریت، ہراساں کرنا،خواتین پر تشدد جیسی شکایات سب کے سامنے ہیں اور پولیس افسران کو روزانہ اپنے ماتحت عملہ کے خلاف بہت سی شکایات موصول ہوتی ہیں لیکن پولیس میں احتساب کا عمل مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کی کارکردگی کا معیار روزبروز زوال پذیر ہے۔ پولیس کا بنیادی کام عام شہریوں کا تحفظ ان کے جان ومال کی حفاظت اور امن وامان کی بحالی ہے۔ پولیس آفیسر کی یونیفارم اور بیج اعتباریقین بھروسہ او ر وفاداری کی علامت ہے۔ جرائم کے خاتمہ اور فوجداری نظام کو کامیاب بنانے کیلئے پولیس کااہم کردار ہوتاہے۔
پولیس کو اخلاقی طور پر درست اور سماجی طور پر قابل قبول، انصاف پسند اور ہمدرد ہونا چاہیے۔ پولیس پر عوام کا جتنا زیادہ اعتماد آئے گا اتنا ہی پولیس فعال کردار ادا کرسکے گی اور پولیس پر عوامی اعتماد صرف اس صورت میں بحال ہو گا جب پولیس اپنے فرائض ایمانداری قابلیت اور انصاف کے ساتھ انجام دے گی اس لئے پولیس کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ عوام کے خادم ہیں اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں کیونکہ پولیس کسی بھی قوم کی سب سے اہم ضروری فورس ہوتی ہے اور ہم ایک مؤثر اور ذمہ دار پولیس فورس کے بغیر پر امن معاشرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، اس لئے پولیس کو جدید طرز پر ڈھالنا بہت زیادہ اہم ہوگیاہے اور پولیس کے شعبہ تفتیش میں اصلاحات وقت کا اہم تقاضا ہے تاکہ بڑھتے ہوئے جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی ہو سکے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

صوبہ جنوبی پنجاب کاقیام۔ دیرکس بات کی؟

خضر کلاسرا
کہانی گھوم پھر کے وہیں آگئی جہاں سے چلی تھی، مطلب جنوبی پنجاب صوبہ کے حق میں ایک طرف سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی آگئے ہیں، صورتحال تو واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کررہی ہے۔ فیصلہ اب ملتان کے ہاتھ میں آگیا ہے کہ وہ اپنے لیے جنوبی پنجاب کا صوبہ کتنا جلدی حاصل کرتا ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ تخت لاہور بھی ملتان سمیت اس سے جڑے علاقوں سے کب کا ہاتھ یوں اٹھا چکا ہے کہ پچھلے دور میں جب نواز لیگ پنجاب کی حکمران تھی، ادھر سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں پیپلزپارٹی اسلام آباد میں حکمران تھی تو پیپلزپارٹی نے نوازلیگی قیادت کا امتحان لینے اور اس کو جنوبی پنجاب کی سیاست میں دیوار کے ساتھ لگانے کیلئے سرائیکی صوبہ کا نعرہ لگایا جوکہ ایک بڑا سیاسی نعرہ تھا، جس کا توڑ کرنا یقینا نوازشریف کو تیسری بار وزیراعظم بننے کیلئے ازحد ضروری تھا وگرنہ پیپلزپارٹی سرائیکی علاقوں میں نوازلیگ کو الیکشن میں مات دے کر وفاق میں حکومت کی اگلی باری لے سکتی تھی۔
یوں نوازشریف نے پنجاب جیسے صوبہ کی سیاست میں ایک بڑے اپ سیٹ کا فیصلہ یوں کیا کہ پیپلزپارٹی کیساتھ ملکر پنجاب اسمبلی سے پنجاب کی تقسیم کا بڑا فیصلہ لیا، پیپلز پارٹی بالخصوص سید یوسف رضا گیلانی کیلئے یہ خوشی کا لمحہ یوں تھا کہ اس کی وزیراعظم شپ میں سرائیکی صوبہ کے قیام کو پنجاب اسمبلی تسلیم کررہی تھی لیکن جب نوازلیگی قیادت نے پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ سے مذاکرات کیے تو نوازشریف کی طرف سے دومطالبات پنجاب کو تقسیم کرنے کے حوالے سے آئے، ایک تو یہ تھا کہ مجوزہ صوبہ کا نام سرائیکی صوبہ نہیں ہوگا بلکہ جنوبی پنجاب ہوگا، دوسرا پنجاب اسمبلی سے جب جنوبی پنجاب صوبہ کی قرارداد منظور ہوگی تو ساتھ بہاول پور صوبہ بحالی کی قرارداد بھی منظور ہوگی، یوں پنجاب دو صوبوں میں تقسیم نہیں ہوگا بلکہ اس کے تین ٹکڑے ہونگے، ایک وسطی پنجاب صوبہ، دوسرا جنوبی پنجاب صوبہ اور تیسرا صوبہ بہاول پور صوبہ ہوگا، پیپلزپارٹی نواز لیگی قیادت کی طرف سے اس مطالبے پر پہلے تو پیچھے ہٹی کہ نوازشریف ان کو ایک مشکل سے یوں دوچار کررہے ہیں کہ وہ بہاول پور صوبہ بحالی کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت نے بعد میں اس بات کو تسلیم کرلیا کہ ایک تو وہ سرائیکی صوبہ کے نام سے پیچھے ہٹتے ہیں، دوسرا وہ بہاول پور صوبہ بحالی کی قرارداد کی مخالفت کی بجائے حمایت کریں گے۔ یوں پنجاب کے صوبہ کی تقیسم کی قرارداد جس کو کبھی ناممکن سمجھا جاتا تھا، وہ نوازشریف کی قیادت میں نوازلیگی ارکان اسمبلی تخت لاہور کے بڑے ایوان میں منظور کروانے جارہے تھے۔ پھر جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاول پور صوبہ بحالی کی قراردادیں پنجاب اسمبلی سے منظور کی گئیں، اور حیرت انگیز طور پر لاہور سمیت کسی نے پنجاب کی صوبوں میں تقسیم پر کوئی احتجاج نہیں کیا، مطلب ایک گملا تک نہیں ٹوٹا، کسی پنجابی قوم پرست نے نوازلیگی قیادت بالخصوص نوازشریف سے نہیں پوچھا کہ جناب آپ ہمارے پنجاب کے ٹوٹے ہم سے پوچھے بغیر کیوں کرنے جارہے ہیں؟ ہاں اتناضرور ہوا کہ قصور کے رکن صوبائی اسمبلی شیخ صلاح الدین اس وقت پنجاب اسمبلی سے احتجاجاً واک آوٹ کرگئے، جب پنجاب کو جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاول پور صوبہ میں تقسیم کرنے کے حق میں ان کی پارٹی نواز لیگ ڈیسک بجا کر ہاتھ لال کررہی تھی۔ پھر پنجاب اسمبلی کی ان قراردادوں میں کہا گیا کہ پنجاب کے ایوان نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ہے کیوں کہ پنجاب اب اس قابل نہیں رہا کہ وہ اپنی حکمرانی 13 کروڑ کے پنجاب پر برقرار رکھ سکے۔
بعدازاں وفاق نے پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے کمیشن بنایااور سیاست ہوتی رہی، پھر پارٹیاں سمجھ گئیں کہ انہوں نے جنوبی پنجاب اور بہاول پور صوبہ کے حامیوں کو آئندہ الیکشن کیلئے اپنے اپنے حق میں پکا کرلیا ہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کو کراچی سے مہاجر صوبہ کی آوازیں آنے لگیں، سندھ کی پیپلزپارٹی کی قیادت نے زردراری صاحب کو سمجھایا گیا کہ آپ پنجاب تقسیم کرواتے کرواتے سندھ کو بھی بلی چڑھا بیٹھیں گے، اس دوران گیلانی صاحب کو سپریم کورٹ نے سزادیدی۔ اس فیصلہ سے پیپلزپارٹی کا یہ بھلا ہوا کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ کی سیاست سے دور ہوتے گئے”
آخر ایک دن صدر پاکستان آصف علی زرداری گیلانی ہاوس ملتان پہنچے، وہاں گیلانی صاحب کی موجودگی میں اس بات کا انکشاف کیا کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کو ممکن نہیں بناسکتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے لیکن اپنے اس دور میں سرائیکی بنک بنائینگے۔ ملتانی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے لیکن زرداری مسکراتے نکل آئے، وہ دن اور آج کا دن ملتانی ایک دوسرے سے سرائیکی بنک جوکہ پیپلزپارٹی نے بنانا تھا اس کا پتہ پوچھتے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں، حد تو یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کوبھی معلوم نہیں ہے؟ اگلی کہانی جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے جنوبی پنجاب میں صوبہ کے قیام کے حوالے سے وہاں کے نامور سیاستدانوں کی جانب سے ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا تاکہ الیکشن سے قبل جو کردار نوازشریف کیساتھ تھے، ان کو ایک نیا محاذ دیا جائے، جہاں ان پر لوٹا لوٹا کی آوازیں نہ کسی جائیں،جہاں ایک بار صوبہ کی سیاست پر عوام کے جذبات سے کھیل کر ووٹ بٹورا جائے۔
پھر وہی ہوا کہ خسرو بختار سمیت کئی اور جنوب کے سیاست کے کرداروں کا صوبہ محاذ کے نام پر ایک اکٹھ اسلام آباد میں ہوا،جس میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو مدعو کیا گیا، ان کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا گیا، سب نے منہ پکے کیے ہوئے تھے تاکہ کوئی شک نہ کرے کہ صوبہ کے نام پر ایک اور واردات ہورہی ہے۔ سو دن کا کہا گیا اور لکھا گیا کہ جنوبی پنجاب صوبہ تحریک انصاف بنائے گی، نتیجہ عمران خان اقتدار میں آگئے لیکن دو سو دن گزرگئے،پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ جنوب کے لوگوں نے شور کیا،پھر ایک کہانی تحریک انصاف نے شروع کی کہ وہ پہلے مرحلہ میں ملتان میں سیکرٹریٹ بنائیں گے،بہاولپور والے کھڑے ہوگئے کہ ہمارا صوبہ بحال کرو،بحث مباحثہ کے بعد طے ہوا کہ ایک سیکرٹریٹ ملتان ہوگا اور ایک سیکرٹریٹ بہاولپور میں ہوگا۔مطلب آئی جی بہاول پور میں بیٹھے گا اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری ملتان میں بیٹھے گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن صوبہ جنوبی پنجاب دلی دور است کی طرح فی الحال نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت ہچکولے کھاتی خیر سے چوتھے سال کا اقتدار پورا کررہی ہے، جنوب کا مطالبہ جنوبی پنجاب صوبہ کا برقرار ہے۔
سید یوسف رضا گیلانی ایوان بالا میں بولے کہ اب دور بدل چکا ہے۔ ہمیں سیکرٹریٹ نہیں، جنوبی صوبہ چاہیے، گورنر چاہے، سینیٹ میں نمائندگی چاہیے،وغیرہ وغیرہ۔ ادھر سے ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی جوکہ حکمران جماعت کے لیڈر و وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بولے کہ ہم تیار ہیں۔ آپ ہمارا ساتھ دیں،مل کر بناتے ہیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔، اس صورتحال میں ملتان کی اس سے زیادہ کیا خوشی نصیبی ہوگی کہ جنوب کا صوبہ اب دو ملتانیوں کے درمیان ہے مطلب سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی فیصلہ کن کردار اپنی جماعتوں کی طرف سے رکھتے ہیں۔ اب دیر کس بات کی۔ گیلانی اور قریشی جنوبی پنجاب کا تحفہ جنوب کی عوام کو دیں تاکہ اس بات کی نفی ہو جوکہ گورنر پنجاب چودھری سرور نے کہی تھی کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام میں وہاں کے جاگیردار،پیر،گیلانی اور قریشی رکاوٹ ہیں کیوں کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ جنوب کے عوام کا صوبہ بنے۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

دُنیا بدل رہی ہے

ڈاکٹر محمد امجد
آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں ہر باشعور قوم اس طرح تیاری کر رہی ہے کہ وہ بھی بدلتی ہوئی دنیا کا ایک باوقار و باعزت حصہ بن جائے۔ وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کچھ واقعات نے وقوع پذیر ہو کر جاری حالات کا رخ بدل کر انہیں ایک نیا رنگ دے دیا ہے اور حالات کا نیا رنگ یہ ہے کہ آج کی دنیاوی سپر پاور صرف ایک ملک امریکہ ہے جبکہ ماضی میں روس بھی سپر پاور تھا یعنی ایک نہیں دو ملک سپر پاور تھے۔ جب دنیا کی دو سپر پاور تھیں تو حالات یہ تھے کہ دونوں ایک دوسرے کو ختم کرنے کیلئے کوشاں تھیں یعنی ہر سپر پاور کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ وہ کسی بھی طرح دوسری سپر پاور کے مقابلے میں خود کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنا لے اور یہ کام تین صورتوں میں ممکن تھا جن میں پہلی صورت یہ تھی کہ اپنی معاشی حالت ہر حال میں بہتر سے بہتر بنا لی جائے۔
دوسری صورت یہ تھی کہ مقابل کے مقابلے میں بہتر سے بہتر ٹیکنالوجی اپنا کر بہتر سے بہتر اسلحہ اور بہتر سے بہتر مشینری بنا لی جائے۔ تیسری صورت یہ تھی کہ ایک تو یہ کہ اقوام متحدہ میں اپنے حامی ممالک کی تعداد بڑھائی جائے دوئم یہ کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے تابعدار و ہمنوا بنا لیا جائے یوں!!! دونوں سپر پاور روس و امریکہ میں ایک مقابلہ ”ایک دوڑ“ ایک سرد جنگ جاری رہی۔ دونوں طاقتیں تینوں صورتوں میں ایک دوسرے کو پچھاڑ کر خود ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتی رہیں۔ ان کوششوں میں ہوا یہ کہ دونوں طاقتیں معیشت اور ٹیکنالوجی میں انیس بیس کے فرق کے ساتھ تقریباً برابر رہیں لیکن دوسرے ممالک کو اپنا تابعدار نما حامی بنانے کے مقابلے میں امریکہ آگے نکل گیا اور روس پیچھے رہ گیا ہوا یہ کہ امریکہ ویتنام میں گھسا اور روس افغانستان میں کود گیا۔ اس طرح امریکہ ویتنام اور روس افغانستان میں بری طرح پھنس گیا۔
20سال بعد ویتنام سے امریکہ کسی نہ کسی طرح نکل گیا لیکن افغانستان میں پھنسا روس نہ نکل سکا۔ ویتنام میں پھنستے ہی امریکہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نے ویتنام میں داخل ہو کر غلطی کی ہے ان حصول مقصد پر توجہ دینا خود کشی کے مترادف ہوگا لہٰذا آگے بڑھنے کے بجائے امریکہ نے پیچھے ہٹنا شروع کیا اس طرح کہ رسوائی سے بھی بچ جائے اور جان بھی بچ جائے لیکن اپنے حالات کے علاوہ روس کے حالات پر بھی امریکہ کی گہری نظر تھی اسے اندازہ تھا کہ جس طرح وہ ویتنام میں پھنسا ہے بالکل اسی طرح افغانستان میں روس پھنس چکا ہے لہٰذا اپنے ویتنام سے نکلنے پر جتنی توجہ امریکہ نے دی اس سے دگنی محنت اس پر کی کہ روس افغانستان سے نہ نکل سکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ”اسلام خطرے میں ہے“ کا بیانیہ دنیا بھر میں عام کرنے کے بعد یہ تاثر بھی عام کیا گیا کہ دنیا بھر سے مسلم مجاہدین افغانستان کی جانب چل پڑے ہیں، یہ دونوں بیانیے فرض تھے نہ اسلام کو کوئی خطرہ تھا، نا مجاہدین نے افغانستان کی طرف چلنا شروع کیا تھا۔ مجاہدین کے آنے کی افواہ دنیا بھر میں پھیلا دی گئی تھی۔
مغربی میڈیا نے باور کرا دیا تھا کہ مسلمانوں نے افغانستان کی طرف بڑھنا شروع کردیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہ تھا۔ افواہ کو حقیقت بنانے کیلئے سب سے پہلے پاکستان سے امید لگائی گئی کہ یہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں کو افغانستان میں داخل کر دے گا لیکن اتنی تعداد پاکستان سے نہ مل سکی جتنی امریکہ کو درکار تھی۔ پاکستان میں کوئی ایسی مذہبی قیادت بھی موجود نہ تھی جس کے کہنے پر دنیا بھر کے جوشیلے مسلم جوان افغانستان کی طرف دوڑ پڑتے، نہ نفری، نہ قیادت جب کچھ بھی پاکستان کو امریکہ سے نہ ملا تب امریکہ ایمن الظواہری کو افغانستان لایا، اس وقت ایمن الظواہری مصرمیں مقید تھے۔ ایمن الظواہری مسلم دنیا میں ایک مذہب پسند انقلابی کے طور پر شہرت پا چکے تھے چنانچہ انکے اعلان کرتے ہی جوشیلے مسلم جوانوں نے بذریعہ پاکستان افغانستان کا رخ کرنا شروع کردیا۔ ہوا یہ کہ جیسے جیسے افغانستان میں مجاہدین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ایسے ہی روس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور وہ افغانستان میں بری طرح پھنستا چلا گیا۔
روس افغانستان میں پھنسا تو سب سے پہلے اسکی معاشی حالت تباہ گی گئی جس طرح پاکستان کی معاشی حالت اب سامنے آرہی ہے (جو پاکستانیوں کے تعاون سے غیروں نے ایک طویل عرصے میں کی ہے)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ روس کئی حصوں میں تقسیم ہو کر اپنی سپر پاور والی حیثیت ختم کر بیٹھا اسکے بعد دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ بن گیا۔
یاد رہے جب دو سپر پاور موجود تھیں اس وقت پاکستان امریکہ کے ساتھ اور بھارت روس کے ساتھ تھا۔ روس کی ہار بھارت کی ہار تھی، امریکہ کی جیت پاکستان کی جیت تھی لیکن تبدیلی کے بعد یہ سابق دوستیاں قائم نہ رہ سکیں اس لیے کہ امریکہ کیلئے چین روس سے بھی بڑا خطرہ تھا لہٰذا اسے کمزور کرنے کے علاوہ اس طرح گھیر کے رکھنا تھا، یہ کبھی بھی سپر پاور کیلئے کوئی خطرہ نہ بن سکے جسکے لیے خطے میں کسی ایسے ملک کی امریکہ کو ضرورت تھی جسے وہ جس طرح چاہے چین کیخلاف استعمال کر سکے۔ اس طرح جب امریکہ کو چین کیخلاف بھارت کی ضرورت پڑی تو ظاہر ہے اس کے بدلے میں بھارت نے بھی ضرور کچھ نہ کچھ طلب کیا ہوگا، اس کے بعد یہ ہوا کہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر دنیا خاموش ہو گئی، یہ انعام تھا اس بات کا کہ بھارت چین کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا۔ مختصر یہ کہ جب افغانستان پوری طرح امریکہ کے قبضے میں چلا گیا تو افغانستان انڈیا کیلئے وہ مورچہ بن گیا جس میں بیٹھ کر بھارت جو چاہے پاکستان کے خلاف کر سکتا تھا اور ایک عرصہ تک اس نے پاکستان پر عرصہ حیات تنگ کیے رکھا! یوں افغانستان ایک ایسا مرکز بن گیا جسکا مقصد ہی یہی تھا کہ پہلے نمبر پر پاکستان کو ختم کرنا ہے جو بذریعہ سی پیک چین کو مزید ترقی کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔
دوسرے نمبر پر مختلف طریقوں سے چین کو نشانہ بنانا تھا۔ افغانستان وہ مورچہ تھا جس میں امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک اور انکی خفیہ ایجنسیاں موجود تھیں۔ اسرائیل پوری طاقت سے افغانستان میں تھا۔ ان سب کا مقصد پاکستان کو ختم کر کے یا تقسیم کر کے چین کو ایک مضبوط اتحادی سے محروم کر کے نشانہ بنانا تھا۔ اور کچھ ہوتا یا نہ ہوتا یہ تو ہونا ہی تھا۔
(سابق وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ہیں)
٭……٭……٭

وزیراعظم کا بیانیہ اورعوام

ملک منظور احمد
ہماری قومی سیاست میں ان دنوں ایمرجنسی، صدارتی نظام کا نفاذ، وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد، اِن ہاؤس تبدیلی، لانگ مارچ، عبوری سیٹ اپ اور نئی سیاسی صف بندیوں کاچرچابڑا عام ہے اور قیاس آرائیاں ہیں جنہوں نے ملکی سیاسی دوجہ حرارت کو اس سرد موسم میں گرما دیا ہے۔ بلاشبہ موجودہ وزیراعظم عمران خان مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر بغاوت کی خبریں زیادہ گردش کررہی ہیں۔ ان غیرمعمولی حالات میں وزیراعظم اور ان کی جماعت کو بے شمار سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بہت سارے تحریک انصاف کے قائدین موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مستقبل کی سیاسی حکمت عملیاں ترتیب دے رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے محتاط تجزیہ، تبصرہ کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ”آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ“ میں عوام سے ٹیلیفون کالز کے ذریعے براہِ راست گفتگو میں کچھ ایسی گفتگو کردی ہے جس پر تمام حلقے حیرت کا اظہارکررہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے باہر زیادہ خطرناک ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ ماہ میں کچھ ہونے والا ہے۔ سیاسی مبصرین وزیراعظم کے ایسے ریمارکس کو ایک خطرناک بیانیہ سے تعبیر کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ ملکی سیاست میں آئندہ تین ماہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اقتدار میں ہوتے ہوئے وزیراعظم سڑکوں پر آنے کی بات کررہے ہیں جو انتہائی حیرت کی بات ہے اور حکومتی مایوسی کی عکاسی بھی کررہی ہے۔ وزیراعظم کے اس نئے بیانیے سے مبصرین یہ بھی نتیجہ نکال رہے ہیں اور اگر اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایک پیج پر آجاتی ہیں اور وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے میں پیشرفت کرلیتی ہیں تو حکومت کے لیے اور مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
وزیراعظم کسی صورت اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کرنے کو تیار نہیں۔ وہ برملاکہتے ہیں کہ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ قومی مجرم ہیں۔ باخبر حلقے یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے۔ بظاہر عمران خان ہر طرح کے سیاسی حالات کے لیے تیار ہیں اور اگر ان کو اقتدار سے نکالا جاتا ہے تو وہ ایک نیا لانگ مارچ اور دھرنا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو کیسے متحد رکھ سکتے ہیں۔ ان کی اپنی جماعت سے ان کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ، معاشی، اقتصادی بحران، گڈگورننس کا فقدان حکومتی مایوس کن کارکردگی وہ چیلنجز ہیں جو انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کا احتساب کا بیانیہ بھی دم توڑ رہا ہے۔ وزیراعظم نے اب تک جتنے وعدے کیے تھے ان کو بھی وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔ اپنی ٹیم میں متعدد بار تبدیلیاں کرنے کے باوجود وزیراعظم کی ٹیم متعینہ اہداف حاصل نہیں کرسکی۔
اب موجودہ حکومت کے پاس ایک محدود وقت رہ گیا ہے، اگرچہ وزیراعظم نے عوام کے سوالات کا براہِ راست جواب دیتے ہوئے اپنی حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کا بھرپور دفاع کیا۔ سربراہ حکومت کے ساتھ براہِ راست سوالات کا موقع جہاں عوامی مسائل کو اجاگر کرتا ہے وہاں حکمران کو عوامی احساسات سے آگہی کا موقع بھی فراہم کرتا ہے مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایسے پروگرام عموماً یکطرفہ بیانیے تک محدود رہ جاتے ہیں اور چند رسمی سوالات پر حکمران اپنی کارکردگی کی تشہیر کرتے ہیں۔ حکمرانوں نے جب تک اپنا لائف سٹائل تبدیل نہ کیا اس وقت تک پاکستان تبدیل نہیں ہوسکتا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

آلودہ پانی سے سبزیوں کی کاشت کا مسئلہ

لقمان اسد
کسان کوزرعی شعور یا تعلیم دینے کی بات کی جائے تو محکمہ زراعت پنجاب کا کردار چند بڑے شہروں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا ہے جھنگ، ساہیوال،ملتان،گجرات،گوجرہ،ٹوبہ ٹیک سنگھ،رحیم یار خان،لیہ اور دور دراز علاقوں کی صورت حال پر اس حوالے سے غور کیا جائے تو محکمہ زراعت پنجاب کی کارکردگی بہت کم نظرآتی ہے۔ پنجاب کے مختلف شہروں جن میں لیہ شہر بھی شامل ہے میں فیکٹریوں اور سیوریج کے پانی سے سبزی کاشت کی جا رہی ہے۔ پیاز، گوبھی، شلجم، مٹر، پودینہ، دھنیا، مولی، بند گوبھی، پالک، سبز مرچ، گھیا کدو، بھنڈی، میتھی، گھیا توری شملہ مرچ، مونگرے سمیت متعدد سبزیاں ایسی ہیں جن کی پیداوار گندے نالوں کے پانی سے جاری ہے۔
طبی ماہرین کہتے ہیں گندے نالے کے پانی سے تیار سبزیوں میں کیڈ میم،کرومیم کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس سے انسانوں کے پھیپھڑے، گردے متاثر ہوتے ہیں یہی دھاتیں بچوں کی دماغی نشونما بھی روک دیتی ہیں جس سے خون میں کمی ہوتی ہے اور خون کی کمی کئی بیماریوں کو جنم دیتی ہے،مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اسکی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں،پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو ا س سلسلے میں مناسب رہنمائی کرنے میں اپنا کردار کریں۔محکمہ زراعت کی عدم توجہ کے باعث سرکاری سطح پر پر زرعی فارم میں بھی آلودہ پانی سے سبزی کاشت کی جارہی ہے جو باعث تشویش ہے پنجاب کے سب سے بڑے زرعی فارم جو جھنگ میں واقع ہے جہاں مختلف اشیا کاشت کی جاتی ہیں جن میں سبزی گندم کپاس اوردھان شامل ہیں یہ سب آلودہ پانی سے سیراب ہورہی ہیں۔
آپ بطور شہری ایک ضلعی منتظم کو عوامی مسائل سے آگاہ کریں اور منتظم آپکی کسی بات پر کان نہ دھرے تو یہی کہنا مناسب ہوتا ہے کہ منتظم کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور پھر ایک ایسا مسئلہ عوام کو درپیش ہو جس میں عوام کی صحت سے کھیل کھیلا جارہا ہو۔ بیس روز قبل میں نے ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء سے ملاقات کر کے انہیں لیہ شہر کے قریب سیوریج کے آلودہ پانی سے سیراب ہونے والی زمینوں اور ان پر کاشت کی جانے والی مختلف فصلات اور سبزیوں سے متعلق آگاہ کیا۔لالہ کریک ”شیردریا“ دریائے سندھ سے نکلنے والی ایک ایسی قدرتی نہر ہے جو ضلع لیہ سے لے کر ضلع مظفر گڑھ تک کے اکثر زرعی رقبوں کو سیراب کرنے کا بڑا ذریعہ ہے یہ قدرتی نہر لیہ شہر کے مغرب میں ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کا پانی کسی دور میں شیشے کی طرح شفاف تھا جانور تو کجا انسان بھی اس پانی سے اپنی پیاس بجھاتے مگرکچھ برس قبل شہر کی نکاسی کیلئے بننے والا گندے پانی کا منصوبہ کچھ اس طرح عمل میں لایا گیا کہ شہر کا تمام تر آلودہ پانی اس قدرتی نہر کے صاف ستھرے پانی میں شامل کر دیا گیا مقامی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کی بے حسی کا ماجرا یہیں تک محدود نہیں بلکہ لیہ شہر سے لالہ کریک تک بچھائی گئی سیوریج کی اس پائپ لائن میں جگہ جگہ پر وہاں کے زمینداروں نے ٹھیکیداروں اور افسران کی ملی بھگت سے نکے لگالیے اور سبزی کاشت کرنے والے کاشتکاروں نے اس پانی سے اک عرصہ سے اپنی سبزیاں اس گندے پانی پر کاشت کرنا شروع کررکھی ہیں۔
لیہ شہر میں سینکڑوں ایکڑ رقبہ پر سبزیوں کی زیادہ اور جلد پیداوار کے لئے فصلوں کی آب پاشی گندے نالوں سے ہو رہی ہے جبکہ محکمہ زراعت اور ان کی ٹیمیں کہیں بھی متحرک نظر نہیں آتیں پنجاب فوڈ اتھارٹی چند شہروں میں گندے پانی سے فصلوں کی آب پاشی کے تدارک کے لئے کام کررہی ہے مگر پورے پنجاب میں گندے نالوں کے پانی سے سبزیاں ہر شہر اور قصبے کی منڈیوں،بازاروں اور مارکیٹوں میں فروخت ہورہی ہیں۔
ضلع لیہ کا ذکر ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ ضلع کونسل کی عمارت کے عقب میں صرف چند قدم کے فاصلے پرصدیوں پرانا کھجور کا ایک قیمتی باغ موجود ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ باغ ضلع کونسل ہی کے زیر انتظام ہے چند برس قبل یہ باغ سالانہ دس لاکھ کے عوض ضلع کونسل کی زیر نگرانی فروخت ہوتا تھا لیکن بعد میں یہ ظلم کیا گیا کہ اس باغ والے رقبے کو غیر قانونی طور پر ضلع کونسل کے افسران نے دیگر فصلات کی کاشت کے لیے (پرائیویٹ طور پر) پٹے پر دے دیا اور ٹھیکیدار نے یہاں اس باغ کے اندرگھاس وغیرہ کاشت کرنا شروع کر دیا۔ اس تاریخی باغ کے اجڑنے کی کہانی یہاں تک محدود نہیں بلکہ ٹھیکدار نے اس رقبے پر موجود اپنی فصل کی جلد پیداوار کے لیے سیوریج کے آلودہ پانی سے سیراب کرنے کا آغاز کیا تو زرعی ماہرین یہ بہتر جانتے ہیں کہ آلودہ پانی کھجور کے درخت کے لیے زہر قاتل ہے صدیوں سے آباد یہ تاریخی باغ آج کسی اجڑے ہوئے کھیت کا منظر پیش کر رہا ہے اور جس جگہ ہزاروں کی تعداد میں کھجور کا درخت موجود تھا آج وہاں گنتی کے درخت باقی ہیں۔ اس باغ کوباقاعدہ سیراب کرنے کیلئے الیکٹرک موٹر لگی ہوئی ہے جو اب بھی موجود ہے مگر یہ موٹر اک عرصہ سے خراب پڑی ہے سرکاری رقبہ پر آہستہ آہستہ قبضہ مافیا قابض ہوتا جارہا ہے۔ اس ملاقات میں ڈپٹی کمشنر لیہ نے شاید حکومتی پالیسی کے عین مطابق چائے پانی کا تکلف کرنے سے گریز ہی کیا لیکن ہم پر امید تھے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات ضرور اٹھائیں گے مگر انہوں نے مذکورہ مسائل کے حل کے حوالے سے بھی کوئی اقدام کرنے سے گریز ہی برتا اب جبکہ انہیں او ایس ڈی بنا کر حکومت پنجاب نے ضلع لیہ کے لیے نئے ڈپٹی کمشنر کا تقرر کر دیا ہے دیکھتے ہیں مذکورہ مسائل کو حل کرنے میں ان کی کیا دلچسپی رہتی ہے؟
(کالم نگارسیاسی و قومی مسائل پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

جو چاہے کیجیے! کوئی سزا تو ہے ہی نہیں

حیات عبداللہ
خبر نہیں کہ کردار و عمل کی صباحت کس سیاست کی نذر ہو گئی؟ حُسنِ عمل کو کس منحوس دیمک نے چاٹ کھایا؟ ہماری چشمِ بلوریں، حرص و ہوس کی اتنی ندیدی کیوں ہو گئی ہیں کہ رحم دلی، مُروّت اور انسانیت، متاعِ گم گشتہ ہوتی چلی جا رہی ہیں۔آدمی، خود آدمیت سے دُور کیوں ہو چلا ہے؟ انسان، انسانیت سے کیوں منہ موڑ چکا ہے؟ جس طرف بھی دیکھیں، جہاں بھی نظر دوڑائیں، تاحد نظر، ہوس بکھری پڑی ہے۔جا بہ جا، روپے پیسے کا لوبھ ہمارا منہ چِڑا رہا ہے۔شاید ہم بھٹک چکے ہیں، ہم نے راست، مستقیم اور نفیس راستوں کو فراموش کر دیا ہے۔اگرچہ یہ بدترین رُخ مکمل طور پر ہمارے معاشرے کا عکاس اور مظہر ہرگز نہیں ہے مگر ہے تو ہمارے ہی معاشرے کی ایک بدنما سی جھلک، ہمارے معاشرے کا ایک ایسا بھیانک عکس جو ہم سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، جون ایلیا کا شعر ہے۔
سب سے پُر امن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بھول گیا
لوگ اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ روپے پیسے کے مقابل انسانی جانوں کو بھی کوئی اَہمّیت دینے پر آمادہ نہیں۔جتنی سفّاکیت کسی کی دسترس میں ہوتی ہے، وہ کر گزرتا ہے۔آلام کے مارے لوگ جاں بہ لب بھی ہوں تب بھی ہوس زادوں کو رتّی برابر رحم نہیں آتا۔ہم جو حقوق العباد کے سب سے بڑے داعی ہیں، ہمارے ہاتھوں میں انڈے، چائے اور ہوٹل کے چند کمرے بھی ایسی کیفیت میں آ جائیں کہ لوگوں کو ان کی شدید ضرورت ہو تو تب بھی ہم وحشی جانور بن بیٹھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ہمارے اخلاق کا اتنا دیوالہ نکل چکا ہے کہ گاڑیوں کو محض دھکّے لگانے کے بھی پیسے لینے پر مُصر ہیں۔شہزاد احمد نے ایسا ہی ایک منظر یوں بیان کیا ہے۔
ہزار چہرے ہیں موجود، آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا؟
مجھے اپنے شہر کہروڑ پکا کے ایک دوست نے بتایا کہ مری سانحے سے دو دن قبل اُنہوں نے ایک ہوٹل میں دو رات قیام کے 36 ہزاار روپے ادا کیے، مگر کمرے کی حالت اتنی ناگفتہ بہ اور ابتر تھی کہ وہ ایک رات کا کرایہ ہوٹل مالک کے پاس چھوڑ کر راولپنڈی آ کر رہنے پر مجبور ہو گئے۔مَیں حیران اِس بات پر ہوں کہ مُلک بھر میں آلو، گوبھی، پیاز اور ٹماٹر کے نرخ مقرر کیے جا سکتے ہیں تو مری کے ہوٹلوں میں قیام کے نرخ مقرر کرنے اور نرخ سے تجاوز کرنے والوں کو سخت سزا دینے میں کون سی چیز مانع اور حائل ہے۔
لوگ اپنی محبتوں کو پروان چڑھانے کے لیے مری آتے ہیں۔کتنے ہی نئے دُلہے اور نویلی دُلہنیں اپنی زندگی کے نئے سفر کے ابتدائی ایام کو یادگار بنانے کے لیے چاہتوں اور امنگوں سے لبریز دل لے کر وہاں جاتے ہیں اور کتنے ہی بچے اپنے والدین کے ہمراہ شوخ و شنگ شرارتیں کر کے مری کے دل کش اور دل رُبا حُسن کو مزید سحر انگیز بنانے چلے آتے ہیں، مگر آج کوہ ساروں کی ملکہ اور پربتوں کی شہزادی اداسیوں میں ڈھلی ہے۔مری کے یخ بستہ موسم غم زدہ ہیں، وہاں پربتوں پر اٹھلاتی گھنگور گھٹائیں بے حد مغموم ہیں، وہاں کی سرد ہوائیں اشک فشاں اور مری کے مکینوں سے سوال کناں ہیں کہ تم نے اپنا سارا ظرف کسی برف کی دبیز تہ تلے دبا کر ایک طرف کیوں رکھ دیا ہے؟ ایسے کسی بھی سانحے پر لوگ جُھرجُھری لے کر پھر اسی رَوِش پر کیوں لَوٹ آتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہوس کدہ بنا کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟ وجہ شاید یہی ہے کہ جزا و سزا کا نظام معطّل سا ہو کر رہ گیا ہے یا اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اس تک رسائی بے حد دشوار بن چکی ہے۔اس تمام تر بے حسی کی ایک وجہ یہ بھی تو ہے کہ ہم نے یہ یکسر بھلا دیا ہے کہ بالآخر ہم نے بھی ایک روز مرنا ہے۔منظر بھوپالی کے اشعار ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ایک دن اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا جواب دہ ہونا ہے۔وہ دن ضرور آئے گا جب ان ہی مساجد میں ہماری نمازِ جنازہ کے اعلانات بھی ہوں گے، ہمیں بھی آخری بار غسل دے کر دفن کر دیا جائے گا اور ایسا ہو کر رہے گا، ان تمام باتوں کے باوجود بھی لوگ عبرت نہیں پکڑتے اور خدا بن بیٹھتے ہیں۔
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

لینڈ مافیا کے خلاف عثمان بزدار سرگرمِ عمل

رانا زاہد اقبال
لینڈ مافیا کے ہاتھوں سرکاری وغیرسرکاری زمینوں پر قبضے اگرچہ پورے ملک کامسئلہ ہیں مگر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اس کی سنگینی زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ زر، زن اور زمین کو ہمیشہ فساد کی جڑکہا جاتا رہا ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی طلب اور تصرف و ملکیت کی خواہش صاحبانِ اختیار کی ایسی کمزوری ہے جس پر قابو پانا ہمارے جیسے جاگیرداری اور سرداری نظام پر مبنی معاشرے میں بہت مشکل نظر آتا ہے۔ قبضہ مافیا بہت عرصہ سے سرکاری اراضی پر قبضہ کئے ہوئے تھا۔ عوام ان بااثر افراد کے دباؤ میں آنکھیں بند کئے تھے اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قبضہ مافیا کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کا فیصلہ کیا اور اب یہ کاروائی پورے صوبے میں بڑی سرعت سے جاری ہے۔ ماضی میں کئے گئے اس نوع کے متعدد اعلانات، فیصلوں اور آپریشنوں کے نتائج وہی نکلے جو نیم دلی سے کئے گئے کسی بھی کام کے ہو سکتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ سرکاری زمینوں کو واگزار کرانے کے فیصلے جو لوگ کرتے رہے ہیں، انہی کی سرپرستی میں قبضے کرائے جانے کی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ زمینوں کا انتظام، حفاظت اوردیکھ بھال ایک جانب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے تو دوسری جانب یہ زمینیں صوبوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ اور مستقبل کی ضروریات کی ایک ٹھوس ضمانت بھی ہیں۔ اس لئے صوبوں کو اس بات کا قانونی اور انتظامی طورپر اہتمام کرنا ہو گا کہ سیٹلائٹ نقشوں کے موجودہ دور میں ماضی کی طرح ریونیو افسران کی ملی بھگت سے کھاتے تبدیل کر کے حکومت کو نقصان نہ پہنچایا جا سکے اور نہ ہی سرکاری دفاتر میں آگ لگا کر ریکارڈ ضائع کرنا ممکن ہو۔ زمینوں پر قبضے اس قدر سنگین صورت اختیار کر گئے ہیں کہ جب تک ان مقدمات میں سخت سزائیں نہیں دی جاتیں تب تک نتائج حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضے کے ذریعے انہیں برائے نام قیمت پر یا کسی قیمت کے بغیر قانونی طور پر اپنی ملکیت قرار دینے والوں کی روک تھام میں ناکامی ڈاکو کلچر کے فروغ کا ذریعہ بنی ہے۔ شہروں میں کچی آبادیوں کے قیام کی بھی کوئی ایسی تاریخ ضرور متعین ہونی چاہئے جس کے بعد کسی بھی زمین کو قدیم گاؤں کہنے اور کچی آبادی قرار دے کر ریگولرائز کرانے کی ضرورت نہ رہے۔
دیکھا گیا ہے کہ سرکاری زمینوں پر جھونپڑیاں ڈال کر اور کچے پکے مکانات بنا کر سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے لہرا دئیے جاتے ہیں اور اس کو نوگو ایریاز بنا دیا جاتا ہے۔ ان زمینوں پر قابض افراد کو لیز سمیت تمام ضروری سہولتیں فراہم کرنے کے مطالبات سیاسی سطح سے آنے لگتے رہے ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی بھی پی ٹی آئی حکومت کا کارنامہ ہے جس کا خاتمہ ایک افسوسناک سازش کا شاخسانہ تھا، ریلوے لائن اور متعلقہ تنصیبات پر تجاوزات قائم کرنے والے انہیں قدیم دیہات اور کچی آبادیاں قرار دیتے ہوئے انخلاء کے لئے آنے والے اہلکاروں پر حملوں سے بھی گریز نہیں کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومتی کوششوں اور خطیر اخراجات سے اس کو بازیاب کرا لیا گیا ہے اور کراچی سرکلر ریلوے کا باضابطہ افتتاح وزیراعظم پاکستان جناب عمران جان نے کر دیا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دوسرے دہشت گرد عناصر کی طرح قبضہ گروپوں نے بھی مذہب کی آڑ لیتے ہوئے سرکاری زمینوں پر کارخانے یا گودام بنا کر راستوں کے دائیں بائیں چھوٹی چھوٹی مساجد بنا دی ہیں تا کہ وا گزار کرانے کی کسی بھی کوشش کو مسجد کی بے حرمتی کا نام دیا جا سکے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی سربراہی میں ایسے تمام حربوں کا ادراک کر کے اسے واگزار کرانے کا کام بہت تیزی سے شروع کر دیا گیا ہے۔ یہی چیز ہے جو عثمان بزدار کو دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے ممتاز مقام دلاتی ہے۔ عمران خان کے وسیم اکرم پلس خاموشی سے عوامی بہبود اور مفادکے کاموں میں جتے ہوئے ہیں۔ ماضی میں ملکی وسائل کو بڑی بے دردی سے لوٹا گیا۔ عمران خان کے وژن کے مطابق انہوں نے بھی کرپٹ عناصر کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے ان کا عزم ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کا محاسبہ جاری رکھا جائے گا اور لوٹ مار کے کلچر کو دفن کر دیا گیا جائے گا۔ یہاں عوام کو بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہو گا تا کہ کوئی انہیں استعمال نہ کر سکے ویسے بھی یہ عوام کے مفاد میں ہے کہ ان املاک کو واگزار کرایا جائے۔ کیونکہ واگزار کرائی گئی سرکاری زمینوں کو عوام کے مفاد کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔ اس مہم کو ہر صورت کامیاب ہونا چاہئے یہ ملک کے مفاد میں ہے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

یومِ خواتین

علامہ محمد حسین اکبر
قدیم تاریخ میں عورت مظلوم رہی، خاص طور پر دور جاہلیت میں تو اس کی مظلومیت تمام حدود کو عبور کر گئی تھی۔ حالت یہاں تک آپہنچی تھی کہ پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ باقاعدہ ان کی خرید وفروخت کی منڈیاں اور بازار سجتے تھے لیکن اسلام نے عورت کو نہ صرف عزت ووقار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ اسے ماں، باپ کیلئے رحمت، اولاد کیلئے جنت اور شوہر کیلئے نصف ایمان کی محافظہ بنانے کے ساتھ ساتھ حق ملکیت، تجارت، کاروبار اور حجاب جیسی نعمت سے سرفراز کرکے اوجِ ثریا تک پہنچا دیا لیکن اسلام کی روشنی جس نے ظلم وجور کی تاریکیوں کو ختم کردیا تھا ملوکیت اور عالمی استعمار نے اسے آج پھر دورِ جاہلیت سے بھی بہت آگے ظلمت اور تاریکیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پھینک دیا ہے اور آج کا دور جسے انسان اپنے طور پر ترقی یافتہ اور روشن فکری کا دور کہتا ہے، عورت کے استحصال کا دروازہ پہلے سے کہیں عجیب انداز میں کھلا ہوا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ عورت ہر پروڈکٹ کا عریاں اشتہار بنی ہوئی فخر محسوس کرتی ہے۔ مردوں کے برابر حقوق مانگ کر گھر کی چاردیواری کے اندر اپنی عزت، عفت اور ناموس کی حفاظت کے ساتھ دُنیا کی تمام تر ضروریات اپنے قدموں میں حاصل کرنے کے بجائے گھر سے باہر نکل کر فتنوں، قتل وغارت اور وڈیروں، سرمایہ داروں، صنعتکاروں کی خواہشات اور خدمت گاری کو اپنے لئے عزت اور شرف تصور کرکے اسلام کی مخدرات عصمت بیبیوں ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اور خانوادہ اہل بیت اطہارؓ کی عظیم مرتبت بیبیوں کے کردار کو اپنا آئیڈیل بنانے کے بجائے آج کی دنیا کی بدقماش اور بدکردار عورتوں کو آئیڈیل بناکر ذلت اور رُسوائی کے تاریک گڑھوں میں جاگری ہے۔ گھر کے اندر ایک شوہر اور اولاد کی خدمت سے تنگ دن بھر میں ہزاروں نامحرم مردوں کی خدمت پر راضی رہنا پسند کرتی ہے اور ایسے لباس اور وضع قطع میں گھر سے نکلتی ہے گویا حضرت علیؓ کے اس فرمان کی عملی تفسیر بن چکی ہیں جو آپؓ نے بطور پیشین گوئی ارشاد فرمائی تھی کہ ”عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں عورتیں لباس تو پہنیں گی لیکن عریاں ہوں گی، دنیا کے ہر فتنہ وفساد میں حصہ دار ہوں گی، ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جائیں گی اور مردوں کو مخاطب کرکے آپؓ نے ارشاد فرمایا: تم بُری عورتوں کے شر سے تو بچو ہی سہی بلکہ جو نیک ہیں ان سے بھی محتاط رہو، تم اچھے کاموں میں بھی بے سوچے سمجھے اور حد سے زیادہ ان کی فرمانبرداری نہ کرو تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو برائی میں بھی اسیر نہ کرلیں۔
اے لوگو! تم عورتوں کو رازدار نہ بناؤ اور نہ ہی مال ودولت کی حفاظت کی انہیں ذمہ داری سونپو اور نہ ہی گھریلو امور میں سب کچھ ان پر چھوڑ دو کیونکہ اگر انہیں چھوڑ دیا جائے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی تباہیوں میں ڈال دیں گی اور مملکتوں کو تباہ وبرباد کردیں گی۔ ہم نے انہیں ایسا پایا ہے کہ وہ اپنی خلوتوں میں بے دینی، اپنی شہوتوں میں بے صبری اور اپنی ضرورتوں میں بے تقوائی اختیار کرلیتی ہیں۔ تکبر اُن کی سرشت میں داخل ہے، خواہ بوڑھی ہی کیوں نہ ہوجائیں اور غرور خود بینی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ خیر اور اچھائی اور نیکی کو بھول جاتی ہیں، شر اور برائی کو یاد رکھتی ہیں، الزام تراشی میں پیش قدم ہوتی ہیں ان میں یہودیوں والی تین خصلتیں پائی جاتی ہیں۔ مظلوم بنتی ہیں جبکہ خود ظالم ہوتی ہیں، قسمیں کھاتی ہیں جبکہ جھوٹی ہوتی ہیں، روکتی ہیں جبکہ خود رغبت رکھتی ہیں۔
بہرحال ان کے ساتھ مدارات کرو ان کیساتھ اچھی گفتگو کرو شاید نیکی کی راہ پر چل پڑیں۔ اسی طرح دانشوروں کا قول ہے کہ اگر ایک عورت اپنے آپ کو اسلام کے صحیح نورانی سانچے میں ڈھال لے تو پورا معاشرہ گلستان کا منظر پیش کرے گا۔ ایک عورت کی صحیح تربیت تین خاندانوں کی اعلیٰ تربیت کی ضامن ہے۔ دنیا بھر کی عورتوں کیلئے بالعموم اور مسلمان خواتین کیلئے بالخصوص حضرت رسولؐ کی لخت ِجگر حضرت فاطمہ زہراءؓ جن کا آج یوم ولادت ہے، کی سیرت اور کردار ہر حوالے سے آئیڈیل اور مثالی کردار ہے۔ آپؓ کو آنحضرتؐ نے مومنات کی اولین وآخرین جنتی عورتوں کی سیدہ وسردار قرار دیا ہے۔ اس دنیا میں اگر عورتوں نے فرعون، نمرود، شیداد، قارون جیسے ظالموں اور طاغوتوں کو جنم دیا ہے‘ انبیاءؑ اولیاءؒ نے بھی اسی عورت کی طیب وطاہر کوکھ سے جنم لیا ہے۔ پاکستان دشمن ایک مرتبہ پھر وطن عزیز کی پُرامن فضاؤں کو قتل وغارت، بم بلاسٹنگ اور خودکش حملوں کی آگ میں لپیٹنے پر تل چکے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ ودیگر شہروں کے حالیہ واقعات نے پور ی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور وزیرداخلہ نے اگرچہ تمام صوبوں اور سکیورٹی کے اداروں کو ہائی الرٹ جاری کردیا ہے اور اپنے تائیں گویا کہ اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگئے ہیں۔ قوم اور پاک افواج نے 80ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بڑی مشکل سے ملک کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنایا لیکن ہمارے مشرقی اور مغربی سرحد متصل دُشمنوں سمیت ان تمامتر پُرامن کوششوں پر پانی پھیرنے کیلئے خودکشی اور قتل وغارت ٹارگٹ کلنگ بیگناہ افراد کی گمشدگی جیسے گھناؤنے جرائم کا دوبارہ سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اگرچہ حال ہی میں پاکستان کی سکیورٹی کے اداروں نے مشترکہ اجلاس کرکے حالات کو باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور یقینا لائحہ عمل بھی تیار کیا ہے لیکن اس کے باوجود عوام پاکستان کو بالعموم اور خاص طورپر مذہبی، سیاسی، تجارتی اجتماعات کے مقامات کے مکینوں کو اپنے طور پر بھی سکیورٹی پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ اسی طرح کرونا کی ایک خطرناک ترین لہر نے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے لہٰذا صفائی اور ایس او پیز کو پہلے سے زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ گھروں، دفتروں سمیت مساجد اور امام بارگاہوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، دینی مدارس کی انتظامیہ کو بھی ماسک، سینی ٹائزر ودیگر حفاظت صحت کے قواعد وضوابط پر عمل کو یقینی بنانا چاہیے اور اپنے ربّ کے حضور گڑ گڑا کر گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما کر ہمیں ان وباؤں سے نجات عطا فرمائے۔
(کالم نگار مذہبی سکالرہیں)
٭……٭……٭