تازہ تر ین

آلودہ پانی سے سبزیوں کی کاشت کا مسئلہ

لقمان اسد
کسان کوزرعی شعور یا تعلیم دینے کی بات کی جائے تو محکمہ زراعت پنجاب کا کردار چند بڑے شہروں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا ہے جھنگ، ساہیوال،ملتان،گجرات،گوجرہ،ٹوبہ ٹیک سنگھ،رحیم یار خان،لیہ اور دور دراز علاقوں کی صورت حال پر اس حوالے سے غور کیا جائے تو محکمہ زراعت پنجاب کی کارکردگی بہت کم نظرآتی ہے۔ پنجاب کے مختلف شہروں جن میں لیہ شہر بھی شامل ہے میں فیکٹریوں اور سیوریج کے پانی سے سبزی کاشت کی جا رہی ہے۔ پیاز، گوبھی، شلجم، مٹر، پودینہ، دھنیا، مولی، بند گوبھی، پالک، سبز مرچ، گھیا کدو، بھنڈی، میتھی، گھیا توری شملہ مرچ، مونگرے سمیت متعدد سبزیاں ایسی ہیں جن کی پیداوار گندے نالوں کے پانی سے جاری ہے۔
طبی ماہرین کہتے ہیں گندے نالے کے پانی سے تیار سبزیوں میں کیڈ میم،کرومیم کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس سے انسانوں کے پھیپھڑے، گردے متاثر ہوتے ہیں یہی دھاتیں بچوں کی دماغی نشونما بھی روک دیتی ہیں جس سے خون میں کمی ہوتی ہے اور خون کی کمی کئی بیماریوں کو جنم دیتی ہے،مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اسکی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں،پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو ا س سلسلے میں مناسب رہنمائی کرنے میں اپنا کردار کریں۔محکمہ زراعت کی عدم توجہ کے باعث سرکاری سطح پر پر زرعی فارم میں بھی آلودہ پانی سے سبزی کاشت کی جارہی ہے جو باعث تشویش ہے پنجاب کے سب سے بڑے زرعی فارم جو جھنگ میں واقع ہے جہاں مختلف اشیا کاشت کی جاتی ہیں جن میں سبزی گندم کپاس اوردھان شامل ہیں یہ سب آلودہ پانی سے سیراب ہورہی ہیں۔
آپ بطور شہری ایک ضلعی منتظم کو عوامی مسائل سے آگاہ کریں اور منتظم آپکی کسی بات پر کان نہ دھرے تو یہی کہنا مناسب ہوتا ہے کہ منتظم کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور پھر ایک ایسا مسئلہ عوام کو درپیش ہو جس میں عوام کی صحت سے کھیل کھیلا جارہا ہو۔ بیس روز قبل میں نے ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء سے ملاقات کر کے انہیں لیہ شہر کے قریب سیوریج کے آلودہ پانی سے سیراب ہونے والی زمینوں اور ان پر کاشت کی جانے والی مختلف فصلات اور سبزیوں سے متعلق آگاہ کیا۔لالہ کریک ”شیردریا“ دریائے سندھ سے نکلنے والی ایک ایسی قدرتی نہر ہے جو ضلع لیہ سے لے کر ضلع مظفر گڑھ تک کے اکثر زرعی رقبوں کو سیراب کرنے کا بڑا ذریعہ ہے یہ قدرتی نہر لیہ شہر کے مغرب میں ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کا پانی کسی دور میں شیشے کی طرح شفاف تھا جانور تو کجا انسان بھی اس پانی سے اپنی پیاس بجھاتے مگرکچھ برس قبل شہر کی نکاسی کیلئے بننے والا گندے پانی کا منصوبہ کچھ اس طرح عمل میں لایا گیا کہ شہر کا تمام تر آلودہ پانی اس قدرتی نہر کے صاف ستھرے پانی میں شامل کر دیا گیا مقامی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کی بے حسی کا ماجرا یہیں تک محدود نہیں بلکہ لیہ شہر سے لالہ کریک تک بچھائی گئی سیوریج کی اس پائپ لائن میں جگہ جگہ پر وہاں کے زمینداروں نے ٹھیکیداروں اور افسران کی ملی بھگت سے نکے لگالیے اور سبزی کاشت کرنے والے کاشتکاروں نے اس پانی سے اک عرصہ سے اپنی سبزیاں اس گندے پانی پر کاشت کرنا شروع کررکھی ہیں۔
لیہ شہر میں سینکڑوں ایکڑ رقبہ پر سبزیوں کی زیادہ اور جلد پیداوار کے لئے فصلوں کی آب پاشی گندے نالوں سے ہو رہی ہے جبکہ محکمہ زراعت اور ان کی ٹیمیں کہیں بھی متحرک نظر نہیں آتیں پنجاب فوڈ اتھارٹی چند شہروں میں گندے پانی سے فصلوں کی آب پاشی کے تدارک کے لئے کام کررہی ہے مگر پورے پنجاب میں گندے نالوں کے پانی سے سبزیاں ہر شہر اور قصبے کی منڈیوں،بازاروں اور مارکیٹوں میں فروخت ہورہی ہیں۔
ضلع لیہ کا ذکر ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ ضلع کونسل کی عمارت کے عقب میں صرف چند قدم کے فاصلے پرصدیوں پرانا کھجور کا ایک قیمتی باغ موجود ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ باغ ضلع کونسل ہی کے زیر انتظام ہے چند برس قبل یہ باغ سالانہ دس لاکھ کے عوض ضلع کونسل کی زیر نگرانی فروخت ہوتا تھا لیکن بعد میں یہ ظلم کیا گیا کہ اس باغ والے رقبے کو غیر قانونی طور پر ضلع کونسل کے افسران نے دیگر فصلات کی کاشت کے لیے (پرائیویٹ طور پر) پٹے پر دے دیا اور ٹھیکیدار نے یہاں اس باغ کے اندرگھاس وغیرہ کاشت کرنا شروع کر دیا۔ اس تاریخی باغ کے اجڑنے کی کہانی یہاں تک محدود نہیں بلکہ ٹھیکدار نے اس رقبے پر موجود اپنی فصل کی جلد پیداوار کے لیے سیوریج کے آلودہ پانی سے سیراب کرنے کا آغاز کیا تو زرعی ماہرین یہ بہتر جانتے ہیں کہ آلودہ پانی کھجور کے درخت کے لیے زہر قاتل ہے صدیوں سے آباد یہ تاریخی باغ آج کسی اجڑے ہوئے کھیت کا منظر پیش کر رہا ہے اور جس جگہ ہزاروں کی تعداد میں کھجور کا درخت موجود تھا آج وہاں گنتی کے درخت باقی ہیں۔ اس باغ کوباقاعدہ سیراب کرنے کیلئے الیکٹرک موٹر لگی ہوئی ہے جو اب بھی موجود ہے مگر یہ موٹر اک عرصہ سے خراب پڑی ہے سرکاری رقبہ پر آہستہ آہستہ قبضہ مافیا قابض ہوتا جارہا ہے۔ اس ملاقات میں ڈپٹی کمشنر لیہ نے شاید حکومتی پالیسی کے عین مطابق چائے پانی کا تکلف کرنے سے گریز ہی کیا لیکن ہم پر امید تھے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات ضرور اٹھائیں گے مگر انہوں نے مذکورہ مسائل کے حل کے حوالے سے بھی کوئی اقدام کرنے سے گریز ہی برتا اب جبکہ انہیں او ایس ڈی بنا کر حکومت پنجاب نے ضلع لیہ کے لیے نئے ڈپٹی کمشنر کا تقرر کر دیا ہے دیکھتے ہیں مذکورہ مسائل کو حل کرنے میں ان کی کیا دلچسپی رہتی ہے؟
(کالم نگارسیاسی و قومی مسائل پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain