All posts by Daily Khabrain

حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات کا حل

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے اس لیے ماں نے ہی تمام بچوں کو پالنا ہوتا ہے اور ان کا خیال رکھنا ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا فرسودہ نظام بنا دیا گیا کہ حالات کسی کے بھی کنٹرول میں آنے کا نام نہیں لیتے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن مجموعی طور پر ناقدین ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسئلے کا حل نکالنا ہو تو کوئی بڑی بات نہیں ہوتی لیکن اگر اختلاف برائے اختلاف رکھنا ہو تو پھر مسائل ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے۔
اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہو چکی ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ صرف اور صرف تحریک انصاف کو نکال کر باقی سب اکٹھے ہیں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ ایم کیو ایم اور(ق) لیگ اب حکومت کو مکمل طور پر آنکھیں دکھاتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کے لیے اور بھی بحران ہیں لیکن اب بلوچستان سے چلنے والی عدم اعتماد کی ہوا ایوان بالا پھر پنجاب اور یوں مرکز تک چلتے نظر آتی ہے۔ اہم ذرائع کے مطابق سینٹ میں تحریک عدم اعتماد بہت جلد پیش کر دی جائے گی اور اپوزیشن اتحاد سینٹ میں اپنی نمبرز آف گیم مکمل کرنے کے بعد یہ معرکہ سر انجام دے گی لیکن ابھی تک آئندہ چیئرمین سینٹ کے لیے نام فائنل نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی چیئرمین سینٹ لے کر (ن) لیگ کو وزیر اعلیٰ پنجاب دینے کی آفر کرا چکی ہے مگر یہ تقسیم ہوتی نظر نہیں آتی۔ سینٹ کے پہلے الیکشن میں بھی (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی بغل میں چھریاں رکھی ہوئی تھیں کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے بد ترین مخالف اب دوسری مخالف جماعت کو کیسے چیئرمین سینٹ کی ٹکٹ جاری کر دیں پیپلز پارٹی نے تو دو ٹوک الفاظ میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا نام پیش کر دیا ہے لیکن محترمہ مریم نواز کسی بھی قیمت پر یہ ماننے کو تیار نہیں جبکہ شاید مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے حمزہ شہباز شریف کا نام بھی قابل قبول نہیں اس لیے عدم اعتماد کی تحریکیں اس صورت میں کامیاب ہو سکتی ہیں جب اپوزیشن جماعتیں پہلے چیئرمین سینٹ کے لیے سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے حمزہ شہباز کے ناموں پر متفق ہو جائیں لیکن مولانا فضل الرحمن عدم اعتماد لا کر بعد میں امیدوار لانے کا مشورہ دے رہے ہیں جو کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دونوں کو ہی قابل قبول نہیں۔
اسلام آباد میں دسمبر اور جنوری میں موسم انتہائی سرد ہوتا ہے بارشیں اور تیز ٹھنڈی ہوائیں کسی بھی صورت میں لانگ مارچ یا دھرنے کے لیے موزوں نہیں لیکن مولانا فضل الرحمن دسمبر میں لانگ مارچ کروانا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی لانگ مارچ کی حامی نہیں اور (ن) لیگ لانگ مارچ کی متحمل نہیں اب یہ لانگ مارچ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اگر اپوزیشن یوں ہی متحد رہی تو کہیں نہ کہیں عدم اعتماد یا لانگ مارچ جیسا دھماکہ کر سکتی ہے دوسری طرف محترمہ مریم نواز کا اپنے قریبی ساتھیوں کویہ کہنا کہ پیپلز پارٹی کے پاس 50قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین موجود ہیں جنہیں اگر (ن) لیگ آئندہ الیکشن میں ٹکٹ دے دے تو وہ اپنی جماعت تحریک انصاف کو چھوڑ کر آنے کو تیار ہیں لیکن میاں نواز شریف ان لوٹوں کو ٹکٹ دیکر اپنے امیدواروں کو ضائع کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ یوسف رضا گیلانی کے سینٹ کے الیکشن میں بھاری نذرانہ لے کر ووٹ دینے والے تحریک انصاف کے لوٹوں کی مکمل لسٹ بھی ثبوت کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کے پاس پہنچ چکی ہے آئندہ وہ انہیں کسی بھی صورت میں ٹکٹ نہ دینے کا کہہ چکے ہیں ایسی صورت میں ان اراکین اسمبلی کا مستقبل کیا ہو گا یہ بھی پاکستان کی سیاست میں کسی سوالیہ نشان سے کم نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے حصول اقتدار کے لیے عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے کرنے کی کوشش کے باوجود شاید بین الاقوامی حالات اور کرونا کی موذی وباء سے پورے نہ ہو سکے لیکن مجموعی طور پر انہوں نے اپنے سب سے بڑے نعرے کرپشن کے خلاف جنگ کا بھی کوئی حل نہ نکالا۔ عدالتوں سے یا نیب سے یا ایف آئی اے سے جہاں سے مرضی ہو سکے ملک لوٹنے والوں سے پیسے نکلوانے میں بری طرح ناکام رہے۔ کم از کم ملک لوٹنے والوں سے پیسے نکلوانے اس حد تک مایوسی کا سامنا کرنا تھا تو پھر انہیں اتنے بلند وبانگ دعوے نہیں کرنے چاہیے تھے آئندہ انتخابات میں وہ کیا کہیں گے کہ میں نے ملک لوٹنے والوں کو موجودہ نظام کی وجہ سے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا یا یہ وضاحت کریں گے کہ میاں نواز شریف ان کی مرکزی اور صوبائی حکومت ہونے کے باوجود عدالتوں سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود راتوں رات کیسے باہر چلے گئے۔ این آر او کے خلاف سب سے بلند آواز عمران خان کی آواز آئندہ عوام کو میاں نواز شریف کے این آر او کے بارے میں کیا وضاحت پیش کر سکے گی۔
جس طرح تحریک لبیک کے ساتھ معاملے کو حکومت نے پہلے خراب کیا چلو بڑوں کی ہی مداخلت یا فہم وفراست سے ہی کہ تحریک لبیک بارے حکمران اپنے دورے اقتدار کا ایک بہترین فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ورنہ شہری بھی پاکستانی اور فورسز بھی پاکستانی معاملہ بھی پاکستانی کیوں قیمتی جانوں کا نقصان کیا جاتا اس معاہدے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تحریک لبیک کے کارکنوں کو مشتعل کرنے کی بجائے پہلے ہی ان پر بے جا پابندیاں نہ لگائی جاتیں اور ریاست ماں کا کردار ادا کرتی تو شاید بات اتنی نہ بگڑتی چلیں دیر آئے درست آئے کے مصداق ایک اچھا کام ہوا اللہ کرے دونوں فریقین ثابت قدم رہیں۔ تحریک لبیک کی طرح ریاست کو چاہیے کہ ایک مرتبہ پھر ماں کا کردار ادا کرے اپوزیشن اور سیاسی مخالفین کو ملک کا مخالف قرار دینے کی بجائے ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں جنہوں نے جتنا مال کمانا تھا کما لیا آپ ساڑھے تین سالوں میں ایک پھوٹی کوڑی ان سے نہیں نکلوا سکے پھر تحریک لبیک سے معاہدے کی طرح ریاست ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپوزیشن سے بھی کوئی ایسا معاہدہ کرے جو ملک و ملت کے لیے ایسا فیصلہ ہو جیسا فیصلہ ماں کرتی ہے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

فیض احمد فیض کی یاد میں

شاہدبخاری
20نومبر 1984ء کو فیض صاحب اس جہانِ فانی سے انتقال کرگئے۔ سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی کے علاوہ نقش فریادی دست ِصباء، زنداں نامہ، دست تہہ ِسنگ سر وادی سینا، شام شہریاراں، میرے دل میرے مسافر، میزان (تنقیدی مضامین) صلیبیں میرے دریچے میں (خطوط) متاعِ لوح وقلم ہمارے قومی ثقافت، مہ وسال آشنائی، سفرنامہ کیوبا اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
”نقش فریادی“ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی شاعری کا آغاز بھی عام شعراء کی طرح خالص رومانی وعشقیہ شاعری سے ہوا۔ اس کی نظم وغزل دونوں میں صرف شخصی محبت کی کسک اور چوٹ ملتی ہے:
راتوں کی خموشی میں چھپ کر کبھی رو لینا
محبوب جوانی کے ملبوس کو دھو لینا
”دست ِصبا“ میں فیض کا لب ولہجہ زیادہ سیک رفتار ہوگیا ہے۔ وہ اپنوں اور غیروں کی دُشمنی میں امتیاز کرنے لگے ہیں۔ ان کی شاعری کا کمال دراصل ان کے اس انفرادی اسلوب اور فنی تعرف میں ہے جس کے ذریعے وہ اپنے پیغام کو ہم تک پہنچاتے ہیں:
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
اک طرزِتغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے، سو ہم کرتے رہیں گے
”زنداں نامہ“ میں قید وبند کا تجربہ فیض صاحب کی زندگی اور انقلابی شاعری کیلئے انقلابی حیات کا حامل بن گیا ہے:
قصہئ سازشِ اغیار کیوں کہوں یا نہ کہوں
شکوہئ یارِ طرح دار کروں یا نہ کروں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی نادکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اس عشق نہ اس عشق پر نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
فیض تھا شمع سخن کے ایک پروانے کا نام
ہوش مندوں کے جہاں میں ایک دیوانے کا نام
وہ گیا تو لٹ گئی حسن نخیل کی بساط
کون دے گا شام کو اب زلف بکھرانے کا نام
ایک جگہ کہتے ہیں کہ ”ملک میں ایوب خان نے دو بار مارشل لاء نافذ کیا جبکہ ہمارے پروگرام میں عام شہری قوانین میں مداخلت کا دور دور تک کوئی ارادہ نہ تھا۔ انہوں نے دربار آمریت مسلط کی جبکہ ہمارا ارادہ تھا کہ جو بات آمریت کا خطرہ بن سکتی ہے، اس کا قلع قمع کردیا جائے۔ 23فروری کو ہم نے سارا پلان منسوخ کردیا، اسی لئے گرفتاری کی رات میں اطمینان سے گہری نیند سویا رہا“۔
ایک صحافی کا سوال ملزم میجر اسحاق سے یہ تھا کہ آپ فوجی انقلاب کے حق میں نہیں تھے اور نہ ہی کسی خفیہ اجلاس میں شریک ہوئے تو پھر اس کیس میں ملوث کیوں کرلئے گئے۔ اس کے جواب میں میجر اسحاق نے کہا کہ پنڈی سازش، کوئی سازش تھی ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں پاکستان کی حکومت امریکی فوجی معاہدے کیلئے رضامند ہوگئی تھی لیکن اسے فوج میں محب وطن افسران کی طرف سے خطرہ تھا کہ وہ ملک کو امریکی غلامی میں جانے نہیں دیں گے (جس کا نتیجہ اب آپ سب کے سامنے ہے کہ ہم قرضوں میں جکڑے جاچکے ہیں، بہت نقصان اُٹھانے کے باوجود امریکہ خوش بھارت سے ہے)۔ دوسرے کشمیر میں یکم جنوری 1949ء کو جو جنگ بندی کی گئی وہ بھی حکمرانوں اور انگریزوں کے درمیان سازش کا نتیجہ تھی، اس کے خلاف فوج میں شدید ردِعمل ہوا جیسے 1965ء میں معاہدہ تاشقند کے بعد عوام میں ردِعمل ہوا۔ مجھے ملوث اس لئے بھی کیا گیا کہ میرے پاس صفائی کی طرف سے بہت اچھا کیس تھا۔ پولیس نے ڈیفنس کی کارروائی کو ناکارہ بنانے کیلئے مجھے ملزمان کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔
منشا نہ تھا غلط، میرا مقصد نہ تھا غلط
سوچا گیا غلط، مجھے سمجھا گیا غلط
فیض صاحب کی وفات سے چند ماہ قبل کسی نے جب پنڈی سازش کیس کی بابت پوچھا تو آپ نے کہا کہ:
آج تک جس پہ وہ شرماتے ہیں
بات وہ کب کی بھلادی ہم نے
ان کی قید کے تجربات وواقعات سے اُردو ادب کا دامن وسیع ہوا۔ سازش انصاف، دانہ ودام، قفس، صیاد پہلے بھی اُردو شاعری میں مستعمل رہے لیکن جس سلیقے اور طریقے سے انہیں فیض نے برتا، وہ لاجواب ہے:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے بہت، لادوانہ تھے
قصہئ سازشِ اغیار کہوں یا نہ کہوں
شکوہئ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کروں، کس سے منصفی چاہیں
(کالم نگارادبی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان میں سیاسی اصلاحات

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
سیاست یا سیاسی نظام ایک وسیع معانی رکھنے والی اصطلاح یا اصطلاحات ہیں۔ سیاست کسی بھی ملک یا معاشرے کو نہ صرف بناتی ہے بلکہ اس کی ترقی اور استحکام میں سیاست کا نمایاں کردار ہوتاْہے۔سیاست جہاں بڑے ملکی معاملات کا احاطہ کرتی اور ان کو چلاتی ہے وہیں وہ درمیانے اور چھوٹے معاملات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ملکی نظام کو چلانے اور ان کے استحکام کیلئے سیاسی ادارے وجود میں لائے جاتے ہیں جن میں سیاسی پارٹیاں، الیکشن کمشن، پارلیمنٹ جو ایک یا دو ایوانوں پر مشتمل ہو سکتی ہے، حکومت کا مکمل نظام، ملک کی انتظامی تقسیم، عدلیہ کا کردار، ملکی معیشت اور مختلف نظام جو عوام کو تمام قسم کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ان سب اداروں اور عوامل کو ملکی آئین کی وضع کردہ حدود و قیود میں اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جو بات سب سے ضروری ہے وہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی نظام یا اس کے نتیجے میں آنے والی حکومت ملکی عوام کی مجموعی اور انفرادی معاشی ترقی، جان و مال کی حفاظت، ایک ایسے ماحول کا قیام جس میں رہ کر عوام بلا کسی تفریق کے اپنی اپنی زندگی کا معیار بلند کر سکیں اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔
پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک چند گنے چنے خاندانوں اور افراد کی سیاست پر نہ صرف اجارہ داری رہی ہے بلکہ اس سیاسی اجارہ داری کے نتیجے میں وسائل کی اکثریت اور دولت کا ارتکاز انہی چند خاندانوں اور افراد تک محدود رہا ہے۔ درمیانے اور نیچے درجے کے طبقات نہ صرف سیاسی محرومی کا شکار ہوئے بلکہ معاشرتی اور معاشی طور پر بھی یہ طبقات اپنی قسمت سے مایوس اور کسی حد تک ملکی معاملات سے بھی بے تعلق ہو گئے۔ خاندانی سیاسی پارٹیاں الیکشن کے وقت نہ صرف معاشرے کے طاقت ور لوگوں کو ہی اپنا امیدوار بناتی ہیں بلکہ ان کو منتخب کروانے کے لئے بے مہار قوم، حاوی طبقات کا اثر و رسوخ، ذات پات اور مذہبی فرقہ واریت کو بھی استعمال کرتی ہیں۔ ملک میں علاقائی، ذات برادری اور پیری مریدی کی بنیاد کا نا جائز فوائد کے لئے استعمال عام ہوتا ہے۔ ایوان بالا یا سینٹ کا انتخاب تو بھاری رقوم کے خرچ کرنے سے ہی عبارت ہے۔ نتیجہ کے طور پر صوبائی یا قوی اسمبلی ہو یا سینٹ ان میں نا اہلی اور بے توجہی کا راج ہوتا ہے۔ کسی کے لئے کو ئی تعلیمی یا مناسب اخلاقی معیار کا کوئی پیمانہ نہیں ملتا سوائے چند غیر مؤثر آئینی شکوں کے۔
پاکستان کے اس طرح کے سیاسی نظام اور ماحول میں کوئی سیاسی پارٹی یہاں تک کی فوجی حکومتیں بھی کوئی معنی خیز تیدیلی لانے میں نہ کامیاب ہوئیں اور نہ مستقبل میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ بقول علامہ اقبال:
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
اور اقبال رومی کی مثنوی سے بیان کرتے ہیں، گفت رومی:
ہر بنائے کہنہ کہ باداں کند
اوّل ایں بنیاد را ویراں کند
کہ جس پرانی عمارت کو آباد کرنا چاہتے ہو پہلے اس کو جڑ سے اکھاڑو۔
ایک اور جگہ اقبال خدا کے بندے سے سوال جواب کا بیان کرتے ہیں
گفتند جہان ما آیا بہ تو می سازش
گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن
اللہ اپنے بندے سے پوچھتے ہیں کہ کیا میرا جہاں تمہیں راس ہے،بندے نے جواب دیا نہیں (یہاں تو ظلم ہے امرآ غریب کے حقوق پامال کرتے ہیں)
جواب یزداں آتا ہے تو اسے درہم برہم کردو (اور نیا جہاں بناؤ جو تمہیں سازگار ہو)
پاکستان کو ایک نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔ مغربی طرز جمہوریت کی جگہ وہ جمہوریت لانے ہوگی جو یہاں کے حالات سے مطابقت رکھتی ہو تاکہ عوام کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔جہاں کسان، مزدور اور نچلے طبقے کے لوگ بھی اسمبلیوں اور سینٹ میں جا سکیں۔ جہاں الیکشن میں بکنے بکانے، اور پیسے کی ریل پیل ختم ہو جائے اور تعلیم اور قوم کی تربیت کو اولین ترجیح ہو جہاں نظام صحت صرف شناختی کارڈ پر ہر انسان کا مکمل علاج کر سکے۔
مگر یہ سب ہو گا کیسے؟
جو نظام اگلے چند کالمو ں میں تجویز کیا جارہا ہے اسے اس ملک کے طاقتور طبقات مشکل سے قبول کریں گے مگر جب عوام جن کی قسمت میں محرومی ہے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے یکجا ہو کر اٹھ کھڑے ہوں تو ان کے سامنے سے بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان حقوق کے لئے جدوجہد تمام جمہوری ہے ملک کو کسی وقت غیر متوازن نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ممکنہ طریقوں میں:
ا- کوئی سیاسی پارٹی جس کی اٹھان انقلابی ہو ان اقدامات کو اپنے منشور کے طور پر لے اور کامیاب ہو کر ان پر مکمل عمل درآمد کرے۔
ب- ایک ملک گیر ریفرنڈم کے ذریعے ان سیاسی اصلاحات پر عمل کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔
ج۔ آل پارٹیز کانفرنس کی صورت میں consensus یا اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور عمل درآمد کی راہ ہموار ہو جائے۔
د- سپریم کورٹ اپنی صوابدید میں خاص حالات کے تحت کسی حکومت کو راستہ دے دے تاکہ ملک میں حقیقی فلاحی نظام اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔
س۔ قومی اسمبلی اور سینٹ اپنے مشترکہ اجلاس میں ان اقدامات پر عمل درآمد کی راہ نکالیں۔
سیاسی اصلاحات کا مقصد ملک میں حقیقی جمہوریت جس کا پاکستانی کردار نمایاں ہو کا قیام ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میں غیر جمہوری مداخلت کا مداوا اور عام عوام کی حصہ داری اور ان کے حقوق کا مؤثر تحفظ ہے۔ملک کا سیاسی نظام ملکی سلامتی اور مسلسل ترقی اور عوام کی خوشحالی کا ضامن ہو۔اور سسٹم میں سیلف کوریکشن
(Self-correction) کی مکمل صلاحیت، گنجائش اور ضمانت ہو۔
پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام مندرجہ ذیل اداروں پر مشتمل ہونا چاہئے:
سب سے اوپر(Apex Body) ایک قومی مشاورتی کونسل (National Consultative Council) جو نہ صرف جمہوریت، جمہوری اداروں اور روایات کی پاسداری کرے اور نگرانی کرے بلکہ ملکی سالمیت اور سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی ترقی کو بھی دیکھے اور جہاں ضرورت ہو متعلقہ اداروں کو مشورہ اور اگر ضروری ہو تو حکم بھی جاری کر سکے۔ قومی مشاورتی کونسل کے ممبرز کی تعداد دس یا اس سے زیادہ ہو اور یہ سب نہایت تعلیم یافتہ اور تجربہ کار افراد ہوں جن کی دیانت، قابلیت(competence)، امانت اور کردار پر کوئی سوال نہ اٹھایا جا سکے۔ ان سب ممبران کی عمر کی حد 65 سے 75 سال کے درمیان ہومگر اچھی صحت کے حامل ہوں – نہ یہ خود کوئی ذاتی کاروبار میں ملوث ہوں بلکہ ان کے نزدیکی خاندان کے افراد بھی ان سے کسی قسم کی ذاتی مراعات یا فائیدہ نہ لے سکیں۔اس میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہو سکتے ہیں جو مختلف صوبوں کی آبادی کے تناسب سے تعلق رکھتے ہوں۔ دو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان، دو ملک کے سابق صدور یا وہ وزراآعظم جو پارٹی سیاست سے دستبردار ہوچکے ہوں اور آئندہ بھی حصہ نہ لے سکیں۔ دو بزرگ سیاست دان جن کا ماضی بے داغ اور ان کی فراست اور دیانت اور ان کی نزدیکی فیملی بھی اچھی شہرت کی مالک ہو۔ ایک سابق چیئرمین جوائنٹ چیف، ایک سابق آرمی چیف، ایک سابق نیول چیف، ایک سابق ایئر چیف، قومی مشاورتی کونسل کی ممبرشپ کی کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں ہونگی۔ صرف اس کونسل کے اجلاس کے لئے ٹی اے اور ڈی اے ملے گا جو کہ کسی بھی گریڈ بائیس کے افسر کو ملتا ہے۔ صرف پول(motor pool) کی گاڑی بمعہ ڈرائیور دستیاب ہو گی۔ اس کونسل کے لئے ایک مختصر مگر فنکشنل سیکریٹریٹ ہو گا۔ کونسل کے ہر ممبر کی مدت چھ سال اور ہر تین سال بعد آدھے ممبر تبدیل ہونگے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

صرف ایک فون کال

سید سجاد حسین بخاری
گزشتہ چند دنوں میں ملک بھر میں سیاسی بھونچال آیا ہوا تھا۔ اپوزیشن متحد ہوگئی تھی۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس معطل کرنے کے بعد یہ تاثر قائم کیا گیا کہ حکومتی اتحادیوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اس بابت (ق) لیگ کے سربراہ پرویزالٰہی نے کہا کہ ساڑھے تین سال سے ہم حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں مگر حکومت ہمارا ساتھ نہیں دے رہی۔ ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی عمران خان کو حمایت سے انکار کردیا تھا۔ پی ڈی ایم اے نے عوام میں یہ تاثر دینا شروع کردیا کہ حکومت کے خاتمے کے دن قریب آگئے ہیں۔ اپوزیشن کی دھڑا دھڑ میٹنگز ہوتی رہیں حتیٰ کہ مرکز اور پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے نام بھی گردش کرنے لگے۔ پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی، حمزہ شہباز جبکہ وزیراعظم کیلئے خورشید شاہ، شہبازشریف اور پرویز خٹک کے نام آنے لگے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ گلگت بلتستان کے ریٹائرڈ چیف جسٹس رانا شمیم کا حلفیہ بیان سامنے آگیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے انہیں نوازشریف اور مریم نواز کو سزا کی بابت کہا تھا۔ اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
میڈیا پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی جنگ رانا شمیم سکینڈل میں دب گئی۔ دو دن تک خوب لے دے ہوئی مگر عدالتی سکینڈل میں مسلم لیگ (ن) کو فائدے کے بجائے نقصان اُٹھانا پڑا کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لیکر تمام فریقین کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے۔ 17نومبر کو مریم نوازنے عدالت میں حاضری کے موقع پر وہی پرانی گفتگو دُہراتی کہ میاں نوازشریف اور مجھے ناحق سزا دی گئی ہے جسے ختم کیا جائے۔ اس مقدمے کی بابت لوگوں کو یاد ہے کہ گزشتہ ماہ مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا تھا کہ وہ عنقریب بہت کچھ سامنے لانی والی ہیں جس سے بھونچال آجائے گا اور عوام دیکھیں گے کہ 22کروڑ کے منتخب وزیراعظم میاں نوازشریف کو کس طرح نکالا گیا تھا اور پھر 15نومبر کو رانا شمیم سکینڈل سامنے آگیا۔ میری نظر میں اس بیانِ حلفی کی حیثیت بھی سابق جج ملک ارشد کے ویڈیو سکینڈل سے زیادہ نہیں کیونکہ رانا شمیم کے بیٹے جوکہ اپنے والد کے وکیل بھی ہیں، نے بتایا کہ میرے والد کا تعلق (ن) لیگ سے تھا اور (ن) لیگ کے عہدیدار بھی رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبر بھی آئی ہے کہ انہیں سندھ ہائیکورٹ سے نکالا گیا تھا اور پھر نوازشریف جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے رانا شمیم کو براہِ راست گلگت بلتستان میں چیف جسٹس لگادیا۔ اب یہ ساری باتیں ظاہر کررہی ہیں کہ پرانے تعلق، دوستی اور لالچ کی بنیاد پر حلفیہ بیان دیا گیا ہے اور کچھ ذرائع نے تو اس بیان کو باقاعدہ ڈیل قرار دیا ہے جو نوازشریف اور رانا شمیم کے درمیان لندن میں ہوئی ہے کہ (ن) لیگ جب برسراقتدار آئے گی تو رفیق تارڑ کی طرح رانا شمیم کو بھی صدر مملکت بنایا جائے گا۔
اب سب کی نظریں اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں مگر (ن) لیگ کا یہ اقدام بھی ان کے اپنے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عمران خان چند دن قبل شدید پریشان تھے اور اتحادی ان سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ اپوزیشن نے نہ چاہتے ہوئے بھی حکومتی اتحادیوں سے فون کالز اور ملاقاتیں بھی کیں اور یوں لگتا تھا کہ بس عمران خان گیا۔ 14 سے 16نومبر کی صبح تک ہر حکومتی ذمہ دار پریشان تھا اور اپنی حکومت کے خاتمے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا بلکہ یہ بھی سچ ہے کہ حکومت کے 20سے 25ممبران قومی اسمبلی اپنی ذاتی ناراضگی کی وجہ سے اپوزیشن سے رابطے میں تھے مگر بالآخر یاروں نے یاری نبھائی۔ بس ایک فون کال کرکے سب کوڈھیر کردیا۔ اور تمام اتحادیوں نے خود چل کر وزیراعظم سے ملاقاتیں کرکے انہیں اپنے تعاون کی گارنٹی دے دی اور پھر میڈیا پر بھی یہ تمام ناراضگیاں ختم کرنے کا اعلان ہوا۔جونہی اتحادیوں نے وزیراعظم کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تو ماسٹر پلان کے مطابق اسی شام صدرِ مملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا نوٹس جاری کردیا اور اگلے روز (17نومبر) کو صبح 12بجے اجلاس شروع ہوگیا اور اس اجلاس میں قوم کے نمائندوں نے جس تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کیااس پردنیا بھرمیں ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔ بہرحال پاکستانی قوم نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو خوب انجوائے کیا۔ جونہی حکومت نے اجلاس کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا تو میڈیا پر بڑے بڑے دانشوروں نے بھونڈے اور عجیب قسم کے تبصرے شروع کردیئے کہ کل ہونے والے اجلاس میں حکومت کو بڑا خطرہ ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اپوزیشن متحد ہوگئی ہے۔
حکومتی اتحادی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ نے بھی عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے حتیٰ کہ ادھر پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہوچکا تھا اور اپوزیشن کے 203اراکین ایک طرف اور حکومتی 221 اراکین دوسری طرف بیٹھ چکے تھے، پھر بھی میڈیا پر حکومت کے خاتمہ اور مشکلات کی باتیں ہورہی تھیں ان دانشوروں کی جگہ کسی اندھے سے پوچھا جاتا کہ ایک طرف 203 اور دوسری طرف 221 اراکین اسمبلی وسینٹ موجود ہیں تو کس کا پلڑا بھاری ہے؟ اپوزیشن یا عمران خان کی حکومت کا تو اندھا بڑا خوبصورت جواب دیتا کہ میں آنکھوں کا اندھا ہوں، عقل کا اندھا نہیں جس طرف 221 اراکین بیٹھے ہیں وہی کامیاب ہے مگر یہ بات چینلز پر موجود لاکھوں روپے ماہوار لینے عقل کے اندھے دانشوروں کی سمجھ میں نہ آئی۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

افغانستان انتقام کی زد میں

سجادوریا
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کے دورے کے دوران سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ میڈیا کے لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں، میرا مشاہدہ ہے کہ جب سے طالبان حکومت قائم ہوئی ہے، وہ محتاط، ذمہ دار اور دانشمندانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے عام معافی کا اعلان کیابلکہ عمل بھی کیا، انسانی حقوق کا خیال رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، خواتین کے حقوق کو بھی کسی حد تک نرمی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی معاف کر چکے ہیں بلکہ تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن ان سب اقدامات کے باوجود طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ افغان وزیر خارجہ کہتے رہے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں جس سے امریکہ و دیگر ممالک ہمیں تسلیم کر لیں۔ طالبان کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قطر میں طالبان قیادت کے ساتھ امریکہ مذاکرات کرتا رہا، ان سے اپنی افواج کا تحفظ مانگتا رہا، اپنی افواج کے انخلاء میں مدداور تعاون بھی لیا۔
میں کئی ماہ سے لکھ رہا تھا کہ امریکہ اپنی شکست و ہزیمت کو تسلیم کر کے اچانک بھاگ رہا ہے، اس کی عالمی تھانیداری کے امیج کو بھی ٹھیس پہنچی ہے، لیکن اس نے جوش کی بجائے ہوش کا مظاہرہ کیا، اس نے وقتی شکست برداشت کر لی ہے لیکن اپنی سالمیت کا دفاع کر لیا ہے، امریکہ نے رُوس کی طرح ٹوٹنے کا انتظار نہیں کیا، اپنے معاشی و عسکری وسائل کا تحفظ کر لیا ہے۔ امریکہ اب محفوظ مقام پر بیٹھ کر افغانستان کا بازو مروڑنے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ یہ کر رہا ہے، صرف افغانستان نہیں پاکستان کو بھی بلیک میل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ افغانستان تو پہلے بھی ٹھکانہ تھااور پاکستان اصل نشانہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سٹیٹس اب بھی نہیں بدلا۔ ہمارے کئی معتبر دفاعی ماہرین کا خیال تھا کہ امریکہ نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کر دیا تھا، ان کا خیال تھا کہ پاکستان نے اگر تعاون نہ کیا تو پاکستان پر بھی حملہ کیا جائے گا، لیکن پاکستان ان کی چال سمجھ گیا۔
جنرل مشرف پر تنقید ہو تی ہے کہ وہ امریکہ کے سامنے نہیں ٹھہر پائے، ایسا ہر گز نہیں بلکہ انہوں نے اس فیصلے کے ذریعے امریکہ کو اس دلدل میں دھکیل دیا جس سے نکلنے میں اسے بیس سال لگے۔ ان بیس سالوں میں چین ایک طاقتور معیشت کے ساتھ خطے کا اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔ ان بیس سالوں میں پاکستان نے امریکہ کا اتحادی ہونے کے طور پر اپنے مفادات اور تحفظات کو لے کر امریکہ سے اپنی بات منوائی۔ امریکہ مجبور تھا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں جنگ کو جاری بھی نہیں رکھ سکتا تھا، اس لئے پاکستان نے اپنی اس پوزیشن کا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ امریکہ کا اصل ہدف پاکستان ہے۔ ”کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ“ کے مصداق امریکہ کی منصوبہ بندی یہی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر افغانستان میں بیٹھ جاوٗ اور بھارت کی خفیہ ایجنسی کی مدد سے اس جنگ کو پاکستان میں دھکیل دو، پھر دہشت گردوں کو ختم کرنے کے بہانے پاکستان میں داخل ہوجاؤ۔ پاکستان کی عسکری، سیاسی قیادت نے بر وقت فیصلے کیے، انہوں نے بے مثال قربانیاں دیں۔
ہماری سِول آبادی نے بہت زخم برداشت کیے۔ لیکن افغانستان سے دہشت گردی کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا۔ افغانستان میں جاری جنگ کی طوالت نے امریکہ کو تھکا دیا اور وہ اچانک بھاگ نکلے۔ میں سمجھتا ہوں اس سلسلے میں زلمے خلیل زاد نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے۔ وہ افغان نژاد امریکی ڈپلومیٹ ہیں۔ وہ22 مارچ1951 ء کو مزار شریف افغانستان میں پیدا ہوئے۔ انتہائی سمجھداراور صاحبِ بصیرت ہیں، انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کی سمت درست نہیں تھی، گزشتہ سات سالوں کے دوران طالبان کا قبضہ بڑھتا جا رہا تھا۔ انہوں نے امریکہ اور طالبان کے معاملات کو ہینڈل کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ انہوں نے جنگ بندی کے مذاکرات اور انخلاء کے اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ رکھا۔ اس طرح طالبان کو کامیابی ملی۔
میں عرض کر چکا ہوں کہ طالبان کو کامیابی مبارک لیکن اتنے شادیانے تو طالبان نے خود نہیں بجائے جتنے کئی پاکستانی وزیر بجاتے رہے، طالبان نے اپنی کامیابی کو شائستگی سے عمدگی سے اپنی جدوجہد سے تعبیر کیا۔ پاکستان کو بھی تنگ کیا جائے گا۔ پاکستان سے اب امریکہ کے براہِ راست مفادات بہت محدود ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف، فیٹف اور دوسرے کئی فورمز پرپاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔ پاکستا ن کو بہت محتاط اور دانشمندانہ انداز میں چلنا ہوگا، یورپی ممالک سے تعلقات کو اہمیت دینا ہو گی۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اسکی طاقت ہے، لیکن کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ جغرافیائی پوزیشن گلے کی ہڈی بن گئی ہے، مسائل ہیں کہ جان ہی نہیں چھوڑتے۔ پاکستان کو اس وقت معیشت کے محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے، جس کا اثر مہنگائی کی صورت میں عوام پر پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی کمزور معیشت پر اب افغانستان کی بُری معیشت کے اثرات بھی پڑ رہے ہیں۔ ان خدشات کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور حکومتی سفارتکار دنیا کو درخواست کر رہے ہیں کہ افغانستان کی مدد کی جائے، افغانستان میں انسانی بحران پیدا ہونے کو ہے، افغانستان کی مدد کی جائے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ پہاڑ بن کے کھڑا ہے، امریکہ جن طالبان سے جنگ لڑ رہا تھا اب ان کی مدد کیوں کرے؟جن کو نیست و نابود کر رہا تھا اب ان کی معیشت کو سنبھالاکیوں دے؟طالبان کے جرائم ناقابلِ برداشت ہیں، وہ اشرف غنی کی طرح کٹھ پتلی نہیں بنیں گے، اشرف غنی کے جیسے بھارت کے وفادار نہیں بنیں گے۔ امریکہ کبھی انسانی حقوق کا چیمپئن بن جاتا ہے جب اس کو کسی کا بازو مروڑنا ہو تا ہے ورنہ بھارت میں اس کو انسانی حقوق نظر نہیں آتے، اعراق، لیبیا اور شام میں انسانی حقوق کو تہس نہس کرنے والا امریکہ ہے۔
پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے اشرف غنی حکومت کے فارمولے پر عمل کرنا ہو گا۔ دنیا ایک دم مہربا ن ہو جائے گی، بھارت بھی ان کو جہاد فنڈ کا اعلان کر دے گا، عالمی میڈیا ان کی جمہوریت پسندی، اصول پسندی اور بہادری کے گُن گانے لگے گا۔ افغانستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے ورلڈ بینک امداد اور قرضے جاری کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اب انتقام کی زد میں ہے، اب افغان عوام انسان نہیں رہے اور نہ ہی ان کے کوئی حقوق ہیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

حاصلِ عمرچند کتابیں

میم سین بٹ
کتاب کے ساتھ ہمارا لڑکپن میں ہی تعلق پیدا ہوگیا تھا بچپن میں بچوں کی کہانیاں پڑھنے سے ابتدا کی تھی اور لڑکپن میں پہلے بچوں کے ناول پڑھنا شروع کئے اور پھر بڑوں کے ناول، افسانے اور سوانح عمریاں وغیرہ پڑھنا شروع کردی تھیں بعدازاں خود بھی کتابیں لکھنا شروع کردی تھیں ہماری پہلی کتاب ”سرکا پہلوان“ (طنزومزاح) 2002 ء میں طہٰ پبلی کیشنز کے تحت شائع ہوئی تھی دوسری کتاب ”نواز شریف۔وزارت عظمیٰ سے جلاوطنی تک، تیسری کتاب ”لاہور۔ شہر بے مثال“ 2012ء میں شائع ہوئی تھی۔
حاصل عمر یہی چندکتابیں ہیں غافر
نفع تھا یا خسارہ، مجھے معلوم نہیں
حسب معمول گزشتہ ماہ متفرق موضوعات پر جو چار کتابیں ہمارے زیرمطالعہ رہیں ان میں رہ نوردوان شوق، کلیات امان، ہوشیارپور سے لائل پور تک اور جدید فلم سازی شامل ہیں،”رہ نوردان شوق“ محمد الیاس کھوکھرکی نئی تصنیف ہے اسے مکتبہ فروغ فکر اقبال کے تحت رواں سال شائع کیا گیا ہے۔ ”عظیم لوگ“ کے عنوان سے کتاب کا دیباچہ واصف علی واصف کا تحریرکردہ ہے دیباچے کے بعد پہلا مضمون بھی علامہ اقبال پر تحریرکیا گیا ہے،ہارون الرشید تبسم بھی علامہ اقبال کی طرح صرف مونچھیں رکھتے ہیں البتہ خادم رضوی، طارق جمیل اور اکرم اعوان باریش تھے۔
جواں مرگ ملک اعجاز الحق کی یادمیں محمد الیاس کھوکھرکا مضمون ہمیں سب سے زیادہ پسند آیا ملک اعجاز الحق مرحوم کا تعلق غالباََ نارووال کے سعید الحق ملک کے گھرانے سے تھا وہ گورنمنٹ کالج لاہورمیں ڈاکٹر صفدر محمودکے کلاس فیلو رہے تھے ڈاکٹرصفدر محمود بعدازاں گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی) میں ہی لیکچرار بن گئے تھے اور نواز شریف کے استاد رہے تھے بلکہ بعدازاں سول سروس میں شامل ہو کر اپنے شاگرد کے ادوار میں ہی صوبائی و وفاقی سیکرٹری تعلیم بھی رہے تھے اب ڈاکٹر صفدر محمود بھی اپنے دوست ملک اعجاز الحق کے پاس روانہ ہو چکے ہیں محمد الیاس کھوکھر ایڈووکیٹ کی تحریریں پڑھتے ہوئے ہمیں علامہ اقبال کا شعر یاد آجاتا ہے۔
رنگ تصویرکہن میں بھرکے دکھلادے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے
ڈاکٹر امان اللہ خان امان کی پنجابی شاعری پر مشتمل ”کلیات امان“ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے تین زبانوں شاہ مکھی،گورمکھی اور انگریزی (رومن) سکرپٹ میں شائع کی ہے جس کا انتساب شاعر نے اپنے والدین ڈاکٹر احمد علی اور قمرالنساء کے نام کیا ہے،دیباچہ کرامت گردیزی نے تحریرکیا ہے جبکہ ڈاکٹر امان پیش لفظ میں بتاتے ہیں کہ بلھے شاہ کی دھرتی سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ ماں بولی میں شاعری کرتے ہیں انہوں نے تالاب میں تنہا بیٹھی کونج کو دیکھ کر پہلی نظم کہی تھی،منیرنیازی کتاب کے فلیپ میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امان اللہ کی شاعری اپنے وطن میں بیتے ہوئے دنوں، بچپن اور لڑکپن کی یادوں کی شاعری ہے، ڈاکٹر امان اپنی نظم ”قصور دیاں یاداں“ میں کہتے ہیں۔
اندرسے تے فلودے نیں قصوری مٹھڑے
نالے بھلے نئیں امبیاں دے بور سانہوں
گیت لکھاں سنے، دنیا تے نئیں لبھیا
نورجہاں دیاں راگاں داسرورسانہوں
ہوشیار پور سے لائل پور تک کرنل (ر) نواب علی کی خود نوشت ہے اسے بھی قلم فاؤنڈیشن نے شائع کیا جس کا انتساب فوجی شہداء کے نام کیا گیا ہے، تقسیم ہند کے موقع پر کرنل (ر)نواب علی کا گھرانہ ہوشیار پورکے گاؤں پنڈوری کد سے ہجرت کرکے کرتار پور، امرتسر، لاہور،شاہدرہ،شرقپور اور جڑانوالہ کے راستے لائل پور چلا آیا تھا اورچک نمبر 72 ر، ب کریانوالہ میں مقیم ہوگیا تھا تاہم ان کے والد لاہور میں ملازمت کرتے رہے یہاں شیرانوالہ دروازہ کے اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی ایس سی کرنے کے بعد فوج میں چلے گئے تھے لاہور میں انہیں جو پلاٹ الاٹ ہوا ریٹائرمنت کے بعد اس پر مکان تعمیرکرکے یہیں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ کرنل (ر)نواب علی کی کتاب میں ان کے خاندان کی لاتعداد رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ارشد علی بھی لائلپوری ہیں ان کی فیملی اب لاہور میں مقیم ہے جبکہ یہ خودگجرات یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں تاہم ہفتہ وار چھٹیاں لاہور میں گزارتے ہیں ان کی انعام یافتہ کتاب ”جدید فلم سازی“ اردوسائنس بورڈ نے شائع کی جس کا انتساب انہوں نے والد مرحوم لالہ غلام حسین کے نام کیا،دیباچہ خود ڈاکٹر ارشد علی نے تحریر کیا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ لاہور میں فلمسازی کا آغاز تقسیم ہند سے قبل ہوا تھا پہلے خاموش فلمیں بنتی رہی تھیں چند سال بعد بولتی کا آغاز ہوگیا تھا آزادی کے بعد لاہور میں بہت یادگار اور سدا بہارنغماتی فلمیں بنتی رہی تھیں اب تو لاہور کی فلمی صنعت ہی زوال کا شکار ہوکر ختم ہوچکی ہے، ڈاکٹر ارشد علی کے ساتھ گزشتہ دنوں لاہور پریس کلب کی ظہیرکاشمیری لائبریری میں مختصرنشست رہی توکمرے کی دیوار پر آویزاں رہنے والا بابا ظہیرکاشمیری کاپورٹریٹ یاد کرکے ہمیں یاد آگیا کہ ارشد علی کی کتاب ”جدید فلم سازی“ میں انہوں نے یہ بھی تحقیق کرکے بتایا تھا کہ ظہیرکاشمیری نے لاہور میں بسنت، فرض، پردیسی بالم،کہاں گئے اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ناموں سے بننے والی فلموں کیلئے گیت لکھے تھے کتاب کے آخر میں ڈاکٹر ارشد علی نے طلبہ و طالبات کیلئے فلم پروڈکشن کی اصطلاحات بھی تحریرکی ہیں۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

جَون ایلیا کی بیٹی کا خط

رانامحبوب ا ختر
جون ایلیا اور محترمہ زاہدہ حنا کی بیٹی فینانہ فرنام کی ایک تحریر وائرل ہوئی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خاں کے بڑے سرائیکی شاعر سعید اختر کی موت کا غم تازہ تھا کہ ابرار احمد جیسے عمدہ شاعر اور دوست کی جدائی نے لرزا دیا۔ اس کے بعد وسیب کے ایک سوجھل آدمی محمود نظامی چل بسے۔ اداسی کے موسم میں فینانہ کی تحریر نے ایسی قیامت ڈھائی کہ ہم دوستوں کی موت کی دہشت سے آنکھیں چرا کر جون ایلیا کی وحشت کی کہانی کرتے ہیں۔ “آج ابو کی انیسویں برسی ہے دنیا اور ان کے مداحوں نے انہیں آج کے دن کھویا تھا مگر میں نے ابو کو سالہا سال پہلے کھو دیا تھا “فینانہ کی تحریر کا مقصد اپنے مشہور والدین کے ازدواجی رشتے کو کھوجنا، اپنی اماں کی بریت اور باپ کی روبکاری ہے۔ ایک رات فینانہ نے ابو کو امی سے لڑتے دیکھا اور یہ منظر ان کے ذہن پر نقش ہو گیا۔ حساس دل بیٹی نے وہ رات جاگ کر گزاری تھی۔ ” ہمیں شاعر جون ایلیا نہیں ہمارا باپ جون ایلیا چاہئے تھا جو کہیں کھو گیا تھا”۔ ابو نے امی کو اس لئے قبول نہ کیا کہ امی “امروہہ کی نہیں تھیں اور نہ ہی وہ شیعہ تھیں “۔ اس تحریر کی ایک اور اہم بات فینانہ کے نام کی تبدیلی ہے۔ وہ جب فینانہ جون سے فینانہ فرنام بنیں تو نام کی اس تبدیلی کو جون صاحب نے سپورٹ کیا اور جب بیٹی نے باپ کا نام اپنے نام سے ہٹایا تو ان کا حساس باپ اور شاعر ساتھ تھا!
بیٹی، فینانہ کی رلا دینے والی تحریر ان کا سچ ہے۔ باپ، جون ایلیا کا سچ کیا تھا؟ جون ایلیا (1931-2002ء) سادات امروہہ کے علمی اور ادبی گھرانے کے فرزند تھے۔ رئیس امروہی اور سید محمد تقی جیسے عالموں کے چھوٹے بھائی اور مصور، صادقین کے ماموں تھے۔ اردو تو خیر ان کے گھر کی زبان تھی، جون صاحب، عربی، فارسی، عبرانی، سنسکرت اور انگریزی جاننے والے عجب شاعر تھے۔ نظریات کے لحاظ سے وہ مارکسسٹ اور ذاتی رویوں میں انارکسٹ، باغی اور بوہیمین تھے۔ وہ باپ، بادشاہ اور خدا کی دنیا کے باغی تھے۔ پست دنیا میں باپ ہونا ایک paradox تھا۔ ازدواجی زندگی کے تضادات اور تناقصات الگ تھے۔ ان کے چار دوست، محمد علی صدیقی، حسن عابد، راحت سعید اور ممتاز سعید کی چوکڑی کا مخفف ” محرم” تھا۔ ان میں سے راحت سعید زندہ ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ شادی فینانہ کی والدہ کی محبت کی ضد تھی۔ جون ایلیا کو شادی پر بمشکل تمام راضی کیا گیا تھا۔ شروع سے ہی شادی میں خرابی مضمر تھی کہ میاں بیوی کے مزاج اور ترجیحات میں فرق تھا۔ جون ایلیا، ازدواج کے آدمی نہ تھے۔ ان کا مسئلہ دل وحشی تھا۔ وہ ہستی کے فریب میں آنے والے آدمی نہ تھے۔ محشرستان بیقراری میں وہ دنیا سے بے نیاز رہنے والے “وحشی” تھے۔ ان کا تاریخی شعور اسقدر بلند تھا کہ ہماری پوری تاریخ کو دوجملوں میں سمو دیا ہے ” ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے”۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” ہر مسجد کا اپنا مسلک ہوتا ہے۔مسجد یا تو سنی ہوتی ہے یا، بریلوی یا دیوبندی۔ میں نے آج تک کوئی مسلمان مسجد نہیں دیکھی۔” اس طرح کی دانش اور ثقافتی پختگی رکھنے والا عالم، شیعہ سنی کی تفریق سے ماورا ہوتا ہے۔ جون ایلیا کی ذات پر شیعیت کا الزام unkind cut ہے۔یہ درست ہے کہ کئی دہریہ ترقی پسند شیعہ محرم میں مجلس اور نیاز سے بے نیاز نہیں ہوتے کہ کربلا ان کے لئے حریت اور انقلاب سے وابستگی کا استعارہ ہے۔ جون ایلیا کا مسئلہ شیعیت نہ تھی، فنا اور بقا سے دو نیم زندگی تھی۔ نیکی اور بدی کی چپقلش تھی۔ وجودی اداسی کی گھمبیرتا تھی۔دو نیم زندگی کو بیخودی درکار تھی:
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
مے پرستی، جون ایلیا کے لئے عافیت انگیز تھی۔ان کا دل،عافیت کا دشمن تھا۔وہ وحشت کے آدمی تھے۔ مشاعروں میں وہ بال بکھرائے ماتمیوں کی طرح جسم پر ہاتھ مارتے ہوئے شعر پڑھتے تو سامعین، ان کی وحشت میں شریک ہو جاتے تھے۔ وحشت کیا ہے؟ جون ایلیا، اس کی تصویر تھے۔ وہ یکتا اور تنہا تھے کہ یکتائی اور تنہائی میں اٹوٹ رشتہ ہے۔ جون ایلیا میں حسن کی نظارگی اور حسن کی تخلیق کے علاوہ ان کیلئے سب سچائیاں اضافی تھیں۔ دنیا ان کے لئے پست تھی مگر پست دنیا نے انھیں ڈھیر کر دیا اور عمر کے آخری سالوں میں وہ تنہا، مضمحل اور گوشہ نشین ہو گئے تھے:
انجمن میں میری خاموشی
بربادی نہیں ہے، وحشت ہے
خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے
اردو شاعری کی روایت میں وحشت کے تصور کو ڈاکٹر نیئر عباس نیر نے اپنی کتاب ” جدیدیت اور نو آبادیات” میں انوکھے انداز سے کھولا ہے۔ ان کے مطابق، وحشت 1857ء سے پہلے کے انڈین ادب کا اہم موضوع رہی ہے۔ عشق کے نتیجے میں جو خبط، جنوں، مونجھ، ہیبت اور دہشت پیدا ہوتی ہے اس کا بیان مشکل ہے۔ مولانا روم اسے خوش سودائی کہتے ہیں۔ “عاشق کا جی آبادی میں نہیں لگتا وہ بہار کے موسم میں جنگل، بن، دشت، صحرا میں نکل جاتا ہے:
وحشت دل کوئی شہروں میں سما سکتی ہے
کاش لے جائے جنوں سوئے بیاباں مجھ کو
پروفیسر نیئر لکھتے ہیں کہ عاشق کا پروٹوٹائپ مجنوں ہے۔ وحشت میں صحرا نوردی عاشق کا شعار ہے۔ وحشت، عشق کی علامتی کائنات ہے۔ زندگی کی دہشت، موت کا دھڑکا اور وجودی anxiety ہوش وخرد کے دشمن ہیں۔ سارتر کے ہاں یہ متلی سے ملتی جلتی کیفیت ہے۔ nausea، شعور کا مستقل عذاب ہے۔ زندگی کا گہرا وجودی شعور وحشت انگیز ہے۔پروفیسر ناصر عباس لکھتے ہیں ” کلاسیکی غزل کے شاعر کے یہاں وحشت پیدا ہوتی ہے، وہ اسی عالم میں دشت کی طرف آہوئے رمیدہ کی مانند بھاگتا ہے، وہ کسی آدمی سے نہیں ڈرا ہوا، خود زندگی کی ازلی سچائی سے وحشت زدہ ہے۔ بیابان کی طرف وہ پناہ کے لئے نہیں، اس کا کھلی آنکھوں سے سامنا کرنے کے لئے بھاگتا ہے، وہ بیاباں کی صورت اپنی اصلی حالت کا مثل دیکھتا ہے، کسی نظریے اور کبیری بیانیے کے بغیر اپنی ہستی کو، اپنے ہونے کو سمجھنا، اپنی ازلی تنہائی کو محسوس کرنا جس کا حقیقی تجربہ ہر شخص کو اپنی موت کے لمحے میں تمام ممکنہ شدت کے ساتھ کرنا ہے، بے ثباتی کو سب سے بڑی سچائی کے طور پر دیکھنا، دنیا کے تصورات اور اپنے اندر کی دنیا میں مسلسل عدم مطابقت محسوس کرنا، یہ سب وحشت خیز ہے۔میر کے “شعر” کا یہی پس منظر ہے:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کیبسی ہے
فینانہ کا دکھ بجا مگر اس دکھ کے سوتے والدین کے بجائے وجود کی گمبھیرتا سے پھوٹتے ہیں۔ یہ سوال کہ شاعر اور فن کار اچھے باپ ہوتے ہیں یا نہیں، بحث طلب ہے کہ ہم نے شاعروں اور فن کاروں میں عام لوگوں کی نسبت اچھے والدین کی پرسنٹیج زیادہ دیکھی ہے۔ ان کی اچھی والدہ بھی تو ایک لکھاری ہیں۔ فنکار، حساس اور بے پروا ہو سکتے ہیں، ظالم نہیں۔ ایک بار فینانہ کے بابا نے اپنے ایک جونیئر شاعر دوست سے کہا؛ جانی ایک جھلک، زریون کی دکھانے کی ترکیب نکالو۔ وہ دوست جون صاحب کو موٹر سائیکل پر بٹھاکر اس فلیٹ کے سامنے لے گئے جہاں زریون اپنی اماں کے ساتھ رہتے تھے۔ عرض گزاری گئی کہ زریون کھڑکی میں آجائیں اور فلیٹ کے نیچے کھڑے جون صاحب بیٹے کی ایک جھلک دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔ درخواست مسترد ہوئی اور جون صاحب نامراد واپس گئے۔ ساز زندگی کے بے صدا ہونے سے پہلے اس طرح کے سانحوں نے ان کی زندگی کی وحشت کو بڑھا دیا تھا۔ وہ خون تھوکتے تھے۔ جون صاحب کا ایک شعر ہے:
کیا سنائیں تمھیں حکایت دل
ہم کو دھوکا دیا گیا جاناں
شیکسپیئر کے ہیملٹ میں، چچا کے ہاتھوں باپ کے قتل پر ہیملٹ کو ماں سے شکایت تھی۔ بیٹے اور ماں کے درمیان ایک مکالمے میں فینانہ کے سوالوں کا جواب ہے۔ ماں نے ہیملٹ سے کہا:
O Hamlet, thou hast cleft my heart in twain
ہیملٹ نے جواب دیا:
Oh, throw away the worser part of it, and live the purer with the other half!
فینانہ فرنام، آپ نے ہیملٹ کی ماں کی طرح کوئی پاپ نہیں کیا ہے۔ آپ کا دکھ broken families کے بے شمار بچوں جیسا ہے۔ آپ کو دل کا بدتر حصہ پھینکنے کی ضرورت بھی نہیں، بس اپنے دل کو محبت اور احترام سے اجال لیجیے اور مشہور والدین کی نعمت کو جھٹلائے بغیر زندگی کیجئے۔ آپ کے بابا کا شعر ہے:
جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوایئے
بہتر یہ ہے آپ مجھے بھول جایئے
(کالم نگارقومی وبین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

مہنگائی‘ حکومت کی سب سے بڑی حزبِ اختلاف

سیدتابش الوری
عوام اور حکومت دو نوں کیلئے ایک انتہائی اہم سنگین اور خوفناک مسئلہ ہے جس نے تمام دوسرے آلام و مصائب کو پس پشت ڈال دیا ہے اور سفید پوش اور غریب طبقوں پر بے ہوشی و بد حواسی طاری کردی ہے حکومت بھی بظاہر کچھ کم پریشان نہیں کیونکہ اس کیلئے بھی گرانی ہی سب سے بڑی حزب اختلاف اور سب سے بڑا چیلنج بن کر رہ گئی ہے۔
بے بس عوام کی دہائی چیخ پکار اور آہ و فغاں اتنی فلک شگاف ہونے لگی ہے کہ حکمرانوں پر بجا طور پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی ہے اور وہ بعض اوقات بودی دلیلوں اور بے تعلق و بے ربط مثالوں کا سہارا لینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں لیکن مشکل یہ ہو گئی ہے کہ صحافت سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ قومی و بین الاقوامی معلومات کے ایسے ایسے در اتنی آسانی سے سب کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے کہ کسی کیلئے چھپنا یا چھپانا ممکن نہیں رہتا۔
پہلے پہل تو حکومت نے گرانی کا سا را ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کی روایتی کوشش کی جسے کچھ عرصہ رشوت کی دھواں دار مہم میں برداشت بھی کیا گیا مگر جب پانی سر سے گزرنے لگا اور مہنگائی گزشتہ ادوار سے بھی دگنی ہوگئی تو عالمی اعدادوشمار پیش کئے جانے لگے اور اسے ڈالر اور پٹرول سے جوڑا جانے لگا جس میں یقینا ”ایک حد تک صداقت بھی تھی مگر اب جو حقائق سامنے لائے جارہے ہیں ان کے مطابق جن ملکوں کی پٹرول کی زیادہ قیمتیں بتائی گئی ہیں وہاں کی فی کس روزانہ آمدنی کا بھی موازنہ کیا جارہا ہے جن کے پیش نظر بڑھی ہوئی قیمت کسی کو کھٹکتی ہی نہیں مثلاً ”پاکستان میں فی کس روزانہ کم سے کم آمدنی پانچ سو سے ایک ہزار روپے بلکہ نجی ملازمین کی آمدن تو دو سو سے چارسو روپے تک ہی محدود ہے اور پٹرول ۱۳۸ روپے لیٹر جبکہ اس کے مقابلے میں فی کس روزانہ کم سے کم آمدنی دبئی میں 3500 روپے پٹرول 117 روپے سعودیہ میں 4500 پٹرول 107 چین 2000 پٹرول 205 امریکہ 10000 پٹرول 165 برطانیہ 12000 پٹرول 205 بھارت 2000 پٹرول210 بنگلہ دیش 1800 پٹرول 175ہے آمدن اور قیمت کا فرق صاف نظر آرہا ہے۔
اسی طرح مہنگائی کی شرح کے اعتبار سے اکانومسٹ کے تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے مہنگا ملک ہے جہاں افراط زر نو سے اٹھارہ فیصد کو چھورہی ہے۔ یہ بھی سرکاری اعدادوشمار ہیں جن پر سوالیہ نشان الگ اٹھے ہوئے ہیں۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور ہماری انداتا آئی ایم ایف پیش گوئی کر رہی ہے کہ ابھی مہنگائی میں اور اضافہ ہوگا۔ یہ صورتحال ملک کی غریب تنخواہ دار اور سفید پوش آبادی کیلئے انتہائی پریشان کن اور ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔ مخالف سیاسی جماعتیں بھی اپنی داخلی کمزوریوں کے باوجود اسی سبب سے طاقتور ہوتی نظر آرہی ہیں پھر انہیں ادھر ادھر سے اشارے بھی ہورہے ہیں اور حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی لڑ کھڑا نے لگی ہیں مگر تعجب یہ ہے کہ حکومت نئے تقاضوں کے مطابق نئی حکمت عملی تیار کرنے کی بجائے وہی پرانی راگنی الا پتی چلی جا رہی ہے۔
لاکھوں عوام جنہوں نے دیانت کی علامت عمران خان کو غیر معمولی امید و محبت کیساتھ انتخابی کامیابی دلائی تھی اور جنہیں بتایا گیا تھا کہ اڑھائی سو ماہرین ان کی کایا کلپ کیلئے تیار بیٹھے ہیں وہ سر تا پا سوالیہ نشان بنے سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والی وہ ٹیم کہاں گئی اور روشنیوں کی جگہ اندھیرے کیوں انہیں گھیرے چلے جا رہے ہیں۔ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ تین سال گزرنے کے باوجود ابھی تک حکومت اپنی رٹ عملداری کیوں قائم نہیں کر سکی لوگوں کو من مانیوں کی بے لگام چھوٹ کیسے دیدی گئی ہے مان لیا کہ بہت سی اشیا کی قیمتیں ڈالر اور پٹرول نے بڑھادی ہیں مگر کیا بھنڈی ساگ توری کدو گندم چاول ڈبل روٹی انڈے گوشت چینی کے بھاؤ بھی انھی کے زیراثر ہیں جو مسلسل بڑھتے چلے جارہے ہیں کیا کار کے ٹائر کا پنکچر بھی ڈالر اور پٹرول سے لگتا ہے جو پچاس روپے سے بڑھتے بڑھتے چند روز میں ڈیڑھ سو روپے تک پہنچ گیا ہے۔ کیا اینٹوں کے بھٹوں میں پٹرول استعمال ہوتا ہے جہاں فی ہزار اینٹ کی قیمت سینکڑوں میں بڑھی ہے اصل میں دوسری کئی اہم وجوہ کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا بنیادی سبب حکومت کی گورننس عملداری کی ناکامی ہے سرے سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں کہ کون کس چیز کی قیمت بلا وجہ کیوں بڑھا رہا ہے ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹی اپنے ہی مقررہ ریٹس پر عملدرآمد کیوں نہیں کراسکتی۔ دکاندار اور رہڑی والا پیدل گاہک اور کار والے گاہک کو الگ الگ قیمت کیوں بتاتا ہے اور پرائس مجسٹریٹ ایک ایک مہینے کے بعد قیمتیں چیک کر نے کیوں نکلتا ہے روز روز افسر بدلنے سے نہیں ان سے موثر کام لینے سے مسائل حل ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت کی عملداری کو موثر بنانے اور بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے بلاتاخیر اقدامات بروئے کار لائے جائیں ورنہ تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات گرانی اور بدانتظامی سے لڑنے ہوں گے۔
(کالم نگارمعروف شاعراورادیب ہیں)
٭……٭……٭

علامہ محمد اقبال……میں اور آپ

شفقت اللہ مشتاق
میں نے بطور طالبعلم اردو کے تقریباً سارے شاعر پڑھے ہیں اور جو میرے ہمعصر ہیں ان کو تو سنا بھی ہے اور ان سب کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ کوشش میں شاید پوری طرح تو میں کامیاب نہیں ہو سکا لیکن یہ ہے کہ مذکورہ مطالعہ کے بعد میرا پختہ خیال ہے کہ اردو کی دنیا میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کے بعد علمی لحاظ سے سب سے مستندشاعر علامہ محمد اقبال ہیں۔ شاید میری یہ بات دیگر شاعر دل کو لگا جائیں گے کیونکہ شاعر حضرات بڑے ہی حساس ہوتے ہیں۔خیر یہ دل پر لگائیں یا دل کو لگائیں ہاں البتہ اگر یہ دلجمعی سے علامہ کی شاعری کا مطالعہ کر لیں تو مذکورہ بات ان کے بھی دل کو لگے گی۔ علامہ محمد اقبال کے ہاں قرآن مجید کا گہرا مطالعہ تھا۔ حضور اکرمؐ سے ان کا قلبی تعلق بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ادیان کے تقابل کا بھی وہ گہرا شعور رکھتے تھے۔ مغرب کو انہوں نے نہ صرف چل پھر کر دیکھا بلکہ پوری طرح آنکھیں کھول کر دیکھا ہوا تھا۔ ان کی مسلمانوں اور دیگرقوموں کے ماضی اورحال پر ہی نہ صرف نظر تھی بلکہ وہ مستقبل کے حالات وواقعات کی جھلک دکھانے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ ویسے تو وہ بھی وجود زن کو ہی تصویر کائنات سمجھتے تھے لیکن عملی طور پرانہوں نے پہلی دفعہ غزل کے دامن کو صنف نازک کے زلف ورخسار سے پاک کیا تھا۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری ہمیں جدوجہد سے تسخیر کائنات کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کا درس دیتی ہے۔وہ ہمیں حرم کی پاسبانی کے لئے تاب خاک کاشغر تک ایک کرنا چاہتے ہیں۔
میں ایک سے زیادہ دفعہ سوچ چکا ہوں کہ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو ان کی شاعری کا کیا رنگ ہوتا۔ کیا وہ یہ سارا کچھ دیکھ سکتے. پاکستان میں امیر طبقہ قربانی دینے کے لئے ہر گزہرگز تیار نہیں بلکہ یہ طبقہ اپنے غریبوں کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ سیاستدان جمہور کی ایسی حکومت چاہتے ہیں جس میں ان کی مکمل سکہ شاہی ہو بلکہ وہ ایسے شاہ بننا چاہتے ہیں جن کی جیب میں ہی سارے سکے ہوں اور ان کے مقابلے میں سارے کھوٹے سکے ہوں تاکہ ان کا سلسلہ اقتدار نسل درنسل دراز ہوتا رہے اور غریب عوام ان کی عمر درازی کی دعائیں مانگیں اوران سے کچھ نہ مانگیں باقی ٹوٹ گریں گی زنجیریں سوچنے کی ضرورت نہیں۔افسر شاہی کی شاہیاں سلامت رہیں اور انہیں زیادہ دیر بند کمروں میں رہنا چاہئے ورنہ سٹیٹ کی گرفت کمزور ہونے کاشدید خطرہ ہے۔ ان کو عوام کی ہوا نہ لگ جائے ویسے بھی تو پانچ سال بعد اس نے عوام میں جا کر وی کا نشان بنانا ہے اور وی کا نشان ویکٹری ہے۔ تالیاں بجیں گی تقریریں ہوں مہنگائی کے خلاف دھرنا ہوگا اور دھرنے پہ دھرنا اور بالآخر عوام کو دھر لیا جائیگا۔ اس ساری صورتحال پر علمائے کرام کرم فرمائیں گے اور پھر کافروں سے انتقام لینے کے لئے اپنے ہی ملک کی بے شمار گاڑیاں نذر آتش کردی جائیں گی۔ چند اپنے محافظ مار دیئے جائیگے اور بے شمار زخمی کر دیئے جائینگے۔ سڑکیں خندقوں میں تبدیل ہو جائینگی اور ابھی تک اگر کافر زندہ ہوا تو سارے راستے بند کردیئے جائینگے تاکہ مذاکرات کے راستے کھولے جا سکیں۔ ملک پوری طرح قانون کے مطابق چلایا جائیگا اور قانون کی تشریح اپنی اپنی۔ اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لیا تو اس کے ساتھ ہاتھ ملا لیا جائیگا. یوں ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ کر جائیگا. ہاں البتہ جانے والے کو واپس لانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ابھی تو شاعر مشرق کو ایران اور سعودی عرب کی آنکھ مچولی بھی دیکھنی ہے۔انڈیا اور اسرائیل کی بدمعاشیوں کی خوفناک داستانیں پڑھنے کو ملیں گی۔امریکہ کی اجارہ داریاں اور تیسری دنیا کے ممالک کی وفا شعاریاں اور اس ساری داستان کی پھل جھڑیاں۔چین کا ساری دنیا میں گھس کر امریکہ اور دیگر امن کے ٹھیکیداروں کی رات کی نیند حرام کردینا اور پھر حرام ہے کہ مذکورہ ساری صورتحال پر عصر حاضر کے شاعر کے کان پر جوں تک رینگی ہو سوائے کہ چھوٹے موٹے وین اور ان کی آواز کا والیم بالکل سلو تاکہ اس ساری صورتحال سے درد دل رکھنے والے جاگ نہ جائیں اور امن عامہ اور امن عالم خطرے میں نہ پڑ جائے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہی لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی
اس وقت محو حیرت ہونے والا اقبال آج اگر زندہ ہوتا تو کیا وہ سکتے کی کیفیت میں چلا جاتا یا گوشہ نشینی اختیار کر کے دنیا کو اس کی حالت پر چھوڑ دیتا. یہ ایک اہم سوال ہے جس پر گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے. ہم نے ویسے تو ہر بات پر چپ سادھ لی،کاش ہم علامہ صاحب کے بارے میں ہی سوچنا شروع کردیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائیگا کہ وہ خاموش رہنے والے انسان نہیں تھے۔ وہ ریکنسٹرکشن آف امہ کے خواہش مند تھے۔وہ مسلمانوں کو سوچ بچار کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ وہ فکر اور سوچ کی شمعیں جلانے کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ وحدت مسلم کی بات کرتے ہیں اور اسی طرح وہ آج کی یوتھ کو مرد مومن کی طاقت سے لیس کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری آفاقی ہے۔ کاش علامہ محمد اقبال کی تعلیمات کو ہم شعوری طور پر جان جاتے تو امت مسلمہ کے حالات بالکل مختلف ہوتے اور ہم بھی ایسے نہ ہوتے جیسے نظر آرہے ہیں۔
(کالم نگار سیکرٹری ٹیکسز ریونیو بورڈ پنجاب ہیں)
٭……٭……٭

عمران کی وجہ شہرت امانت و صداقت

اسرار ایوب
عیسائیوں کا مذہبی عقیدہ یہ تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے جبکہ دوبین بنانے والے سائنسدان گلیلیو کا نظریہ یہ تھاکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس ”جرم“ کی سزا یہ ملی کہ انہیں عدالت کے روبرو اپنے نظریے سے سبکدوش ہونے کا حکم دیا گیا۔کہتے ہیں کہ عظیم اطالوی سائنسدان نے یہ تو کہہ دیا کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ زمین سورج کے گرد نہیں گھومتی لیکن اسکے ساتھ ہی زمین کی طرف دیکھا اور نرمی سے سرگوشی کی کہ”یہ تو اب بھی گھوم رہی ہے“۔
گلیلیو کا واقعہ کالم کے آغاز میں کیوں لکھا اِس کا اندازہ آپ کو کالم کے اختتام پرخودبخودہو جائے گا، فی الوقت یہ جان لیجئے کہ ہم ایسے تجزیہ کاروں سے اکثر لوگ ناراض ہی رہتے ہیں، ہرحکومت سمجھتی ہے کہ ہم اپوزیشن کے سپورٹر ہیں جبکہ ہر اپوزیشن کے خیال میں ہمارا تعلق حکومتی کیمپ سے ہوتا ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف ہی کی مثال لے لیں، اس جماعت کی حمایت میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کے دوران اتنے کالم لکھے کہ انہیں جمع کرنے بیٹھا تو پوری دو کتابیں بن گئیں، ایک تو مرتب بھی کر چکا ہوں جس کانام ”نئے پاکستان کا افسانہ“ رکھ دیا ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ ایک ویڈیو کی شکل میں سوشل میڈیا پر جاری کیا تو تحریکِ انصاف کے دوست بھی ناراض ہو گئے اور بڑا سخت احتجاج کیا۔ کہنے لگے کہ آپ نے بھی مایوسی پھیلانی شروع کر دی ہے؟اور پھر اپنے موقف کی تائید میں اس قسم کے مشہور و معروف دلائل دینے شروع کر دیے کہ 70برس کا گند تین برس میں کیسے صاف کیا جا سکتا ہے؟جب تمام کا تمام معاشرہ کرپٹ ہو تو اکیلا حکمران کیا کر سکتا ہے؟مہنگائی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہو رہی ہے، عمران خان ساری دنیا کی معیشت کو کیسے ٹھیک کرے؟ وغیرہ وغیرہ۔
تو میں نے سوچا کہ کتاب چھپنے کے بعد کہیں کوئی پیشی ہی نہ بھگتنی پڑ جائے تو بہتر یہی ہے کہ اس سے پہلے ہی مایوسی پھیلانے والے تجزیوں اور کالموں سے دستبردار ہو جاؤں اور کسی لگی لپٹی کے بغیر اس بات کا اعلان سرِعام کر دوں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے پہلے تین سال مثالی رہے۔ مہنگائی اول تو ہوئی ہی نہیں اوراگر تھوڑی بہت ہوئی بھی ہے تو اس کی وجہ وہ لوٹی ہوئی دولت ہے جو میاں صاحب اور زرداری صاحب نے تاحال واپس نہیں کی، اس میں خان صاحب کا کیا قصور؟ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں 175روپئے نہیں ہوئی بلکہ اب بھی اتنی ہی ہے جتنی پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں تھی جب جنرل صاحب نے وزارتِ عظمی کا قلمدان پلیٹ میں رکھ کر عمران خان کو پیش کیا تھا جسے لینے سے خان صاحب نے انکار کر دیا تھا۔پٹرول کی قیمت میں ہوش ربا اضافے کی خبریں بھی سراسر بے بنیاد ہیں جو ”ریاستِ مدینہ“کو کمزور کرنے کے لئے اسلام دشمن طاقتوں کی جانب سے ایک بین الاقوامی سازش کے تحت پھیلائی جا رہی ہیں۔
”ریاست مدینہ“سے یاد آیا کہ جو چیز عمران خان کی وجہ ء شہرت بنی وہ ”یو ٹرن“نہیں بلکہ ”صداقت اور امانت“ سے انکی گہری وابستگی ہے۔ کپتان کو ”کسی“ نے بتایا ہی نہیں کہ قرآنِ کریم حکمرانوں کو واضح طور پر کیا احکام دیتا ہے ورنہ وہ دوسروں کو”صراطِ مستقیم“پر چلنے کی تلقین کرنے سے پہلے کیا خود اس کی پیروی نہ کرتے؟ جاوید احمد غامدی نے اپنے ایک پروگرام میں کہا تو سہی کہ قرآنِ کریم حکمرانوں کو بالخصوص چار احکام دیتا ہے، پہلایہ کہ وہ حکومتی فیصلے باہمی مشاورت سے کریں، دوسرا یہ کہ قانون کی حتمی بالادستی قائم کریں، تیسرا یہ کہ میرٹ کی پاسداری کریں، اور چوتھا یہ کہ اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کریں، لیکن اگر ”کوئی“کپتان تک یہ قرآنی احکام پہنچنے ہی نہ دے تو وہ کیا کریں؟
یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ 70برس کا گند تین برس میں صاف نہیں کیا جا سکتا بلکہ 70برس میں ہی کیا جا سکتا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ اس دوران کسی دوسرے کی نہیں بلکہ اپنی حکومت رہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی تسلی بخش ہے، یہ جو کالعدم جماعتوں کی حالیہ کاروائی ہے یا اس سے ملتے جلتے دیگر واقعات ہیں تو کون نہیں جانتا کہ یہ سب حکومت کی اجازت کے بغیر ہو رہا ہے ورنہ حکومت تو ہمیشہ سے کہتی آئی ہے کہ ملک کے امن و امان سے کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی؟
اب آئیے ان دھواں دار تقریروں کی طرف جو عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے پورے 22برس کرتے رہے جن میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں اگر یہ سب کچھ ہورہا ہو جو آجکل ہورہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کرپٹ ہے تو یہ سب کچھ تو ان سے ان کے دوست کہوایا کرتے تھے ورنہ پاکستان میں ریاست مدینہ قائم کرنے والا انسان جھوٹ کیسے بول سکتا ہے جبکہ وہ ورلڈ کپ بھی جتوا چکا ہو؟
پی ٹی آئی کی مثالی کارکردگی پر اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن بات کو مزید طول دیے بغیر میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں کہ پاکستان کوایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں جس سے مایوسی پھیلنے کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہو،مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ پاکستان جو ایک بہت بڑی فوجی طاقت ہے،معاشی سپر پاور بھی بننے والا ہے لیکن کیا کروں کہ اس اقبالِ جرم کے بعد زمین کی طرف دیکھ کر نرمی سے یہ سرگوشی کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ ”زمین تو اب بھی گھوم رہی ہے“۔
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭