آزادی کپ میں ہاشم آملہ میرے نشانے پر ہونگے

لاہور (آئی این پی)قومی فاسٹ باﺅلر حسن علی ورلڈ الیون کیخلاف میچز کھیلنے کیلئے بیتاب ہیں ۔ نوجوان باﺅلر نے جنوبی افریقہ کے بلے باز ہاشم آملہ کی وکٹ لینے کو ہدف بنا لیا ہے ۔ ورلڈ الیون کیخلاف سیریز کا انتظار صرف شائقین کو نہیں کھلاڑی بھی بے قرار ہیں ۔قومی فاسٹ باﺅلر حسن علی پاکستانی میدانوں میں انٹرنیشنل پلیئرز کیخلاف کھیلنے کو بیتاب ہیں ۔ حسن علی بڑے ایونٹ میں اچھی باﺅلنگ کیلئے پرعزم ہیں ۔ کھلاڑی نے جنوبی افریقہ کے مایہ ناز بلے باز ہاشم آملہ کی وکٹ کو ہدف بنا لیا ۔ حسن علی کا کہنا تھا کہ ورلڈ الیون کی کامیاب میزبانی کے بعد دیگر انٹرنیشنل ٹیمیں بھی پاکستان ضرور آئیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جب میں نے پروفیشنل کرکٹ کا آغاز کیا تو پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی تھی، اس لیئے اپنی سرزمین پر پہلا انٹرنیشنل میچ کھیلنے کیلئے بہت پرجوش ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے پی سی بی، آئی سی سی کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی عالمی کرکٹ کی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہو جائیں گی۔پیسر نے کہا کہ توقعات کے بوجھ تلے دبنے کی بجائے ہوم کراﺅڈ کو اپنی طاقت کے طورپراستعمال کرینگے۔ بیٹنگ کی طرح بولنگ میں بھی پارٹنرشپ ہوتی ہے، کیمپ میں بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ پر کام ہو رہا ہے تاہم فٹنس کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

کیچ چھوڑنے والا 5 پش اپس لگائے گا،مکی نے سزا متعارف کرادی

لاہور (بی این پی ) دورہ ورلڈ الیون کے پیش نظر پاکستان کرکٹ ٹیم کا نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تربیتی کیمپ جاری ہے ، کھلاڑیوں کو مستعد رکھنے کیلئے ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے انوکھی سزا متعارف کرادی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سکول میں جب بچے غلطی کرتے ہیں تو ان کو سدھارنے کیلئے اساتذہ چھڑی کا استعمال کیا کرتے تھے لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے استاد ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے کیچ چھوڑنے والے کھلاڑیوں کیلئے انوکھی سزا متعارف کرائی ہے جس سے کھلاڑیوں کی فیلڈنگ میں نہ صرف بہتری آئے گی بلکہ ان کی فٹنس بھی برقرار رہے گی۔ ہیڈ کوچ نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کھلاڑی پریکٹس کے دوران کیچ چھوڑے گا اسے پانچ پش اپس لگانے کی سزا دی جائے گی۔

اگر میں نے عمران پر غلط الزام لگایا تو کیس کیوں نہیں کیا؟

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) عائشہ گلالئی کا کہنا تھا کہ اگرمیں نے عمران خان پر غلط الزام لگایا تھا تو ان کومیرے خلاف کیس کرنا چاہیے تھا،قومی اسمبلی میںبننے والی کمیٹی سے یہ بھاگ گئے ، جبکہ کمیٹی آج بھی موجود ہے۔ نیب مقدمات ،شریف فیملی کی گرفتاری قانونی تقاضہ نہیں ہے ،ملک کے ممتاز قانون دانوں نے صورتحال واضح کردی عائشہ گلالئی کاکہنا تھا کہ میں نے شوکاز نوٹس پر جواب دیا تھا لیکن یہ کہتے ہیں کہ میں نے جواب نہیں دیا، الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے دیں امید ہے میرے حق میں فیصلہ ہوگا۔عائشہ گلالئی کاکہنا تھا کہ کرپٹ سیاستدانوں کوجمع کیا جارہا ہے نوجوان ورکرز صرف دھکے کھاتے ہیں، نظریاتی ورکرز کو چھوڑ کر کرپٹ شخص کو وزیراعلی بنایا گیا۔ عائشہ گلالئی کا کہنا تھا کہ پارٹی کے کارکن اور عوام کی بڑی تعداد نے مجھے فون کیے، کارکن کہتے ہیں کہ جب ایک شخص کا کردار صحیح نہیں تو پارٹی قیادت کیسے کرسکتا ہے۔

ڈاکٹروں نے بیگم کلثوم نوازکے گلے میں کینسر کی ایک اور سرجری کا فیصلہ کرلیا

لندن: برطانوی ڈاکٹروں کی ٹیم نے بیگم کلثوم نوازکے گلے میں کینسر کی ایک اور سرجری کا فیصلہ کرلیا ہے،جس کے تحت سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نوازکو ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے،دوسری سرجری میں سینے سے گلٹیاں نکالی جائیں گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قائد مسلم لیگ ن نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو گیارہ دنوں میں دوسری مرتبہ ہسپتال میں داخل کروایا گیا ہے۔کلثوم نواز کی میڈیکل ٹیم نےان کے گلے میں کینسر کی ایک اور سرجری کا فیصلہ کیا ہے۔ کلثوم نوازدوسری سرجری کیلئے آج صبح نوازشریف اور بیٹوں کےہمراہ ہسپتال پہنچیں۔ جہاں پر ان طبی معائنہ کیا جارہاہے۔ واضح رہے  کلثوم نواز کی چند روز قبل بھی کیمو تھراپی کی گئ تھی۔ کلثوم نواز کی پہلی سرجری گردن کے ایک طرف کی گئی تھی۔ تاہم کلثوم نواز کی طبیعت کے پیش نظر نواز شریف کی وطن و اپسی کی تاریخ چند روز میں طے کی جائےگی۔

حکومت مطالبات تسلیم کرے ورنہ۔۔سراج الحق کی بڑی دھمکی

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے میانمار کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور او آئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا، حکومت ہمارے پانچ مطالبات فورا تسلیم کرئے، حکومت کو دو دن کی مہلت دیتا ہوں، 11 ستمبر کو لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کریں گے جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جائیں گے واپس نہیں جائیں گے، طیب اردگان کی اہلیہ اگر بنگلہ دیش میں مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے جا سکتی ہیں تو یہ کیوں نہیں جاسکتے ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف جمعہ کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس سے قبل وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی قیادت میں ریلی نکالی گئی، جس میں روہنگیا کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ریلی سرینا چوک پہنچی تو مظاہرین نے پولیس کے روکنے پر خاردار تاریں ہٹانے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے ریلی میں شریک بعض افراد پر لاٹھی چارج کر دیا۔ اس موقع پر امیر جماعت نے اپنے کارکنوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی، اس موقع پر مظاہرین سے خطاب میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ضمیر جگانے یہاں آئے ہیں، میانمار کے سفیر کو ملک سے نکالنے اور معاملے پر او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مظلوموں کی مدد کرنا اللہ کا حکم ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ میانمار میں مسلمانوں پر ظلم روکا جائے۔ اپنے خطاب میں امیر جماعت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مظلوموں کا ساتھ دو، مسلمان سب بھائی بھائی ہیں، مسلمان خواہ افریقہ کے ہیں یا برما، کشمیر، فلسطین، افغانستان یا دنیا میں جہاں کہیں کے بھی ہیں جہاں بھی ظلم ہو، وہاں مظلوموں کا ساتھ دینا ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے، قرآن میں ہے کہ ان مظلوم بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے آپ کیوں نہیں لڑتے، جو بے بس ہیں اور اللہ کے دربار میں سربسجود ہیں اور کسی ولی اور مددگار کا انتظار کر رہے ہیں۔ امیر جماعت نے کہا کہ ہم اللہ رب العزت کے حکم سے یہاں آئے ہیں۔ اس لئے ایک قدم اٹھانا اور ایک لمحہ گزارنا اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے۔ میں آپ سب لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم نے یہاں اپنی فوج، پولیس یا اپنی کسی املاک کو توڑنا یا لڑنا نہیں ہے۔ ہم صرف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے یہاں آئے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ برما میں مظلوم مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ ظلم کے خلاف ایکشن لے کر برما پر پابندیاں لگائی جائیں۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ برما کے سفیر کو پاکستان سے نکالا جائے۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو عالمی کریمنل کورٹ میں جانا چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بوسنیا اور یوگنڈا کی طرح روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر بھی برما کے خلاف مقدمہ بنایا جائے۔ ہم پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام آباد میں برما کے سفارتخانے کو بند کیا جائے۔ برما کے ساتھ تمام معاہدات منسوخ کئے جائیں اور او آئی سی کا اجلاس ہنگامی طور پر بلایا جائے اگر ترک صدر کی اہلیہ بنگلہ دیش جا سکتی ہے تو ہمارے حکمرانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ گھونگے اور بہرے بن گئے ہیں۔ سراج الحق نے کہا کہ آج احتجاجی مارچ میں ہزاروں نوجوانوں نے شرکت کی اور برما میں ہونے والے مظالم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا حکومت ہم کیوں یہاں آئے ہیں ہم اسلیے آئے ہیں کہ ایک طویل عرصے سے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور قتل عام پر عالم اسلام خاموش ہیں 9جون 2015 کو سینیٹ، اور 10جون 2015 کو قومی اسمبلی میں روہنگیا مسلمانوں کے اوپر ہونےوالے مظالم کیخلاف ایک قرارداد منظور کی تھی اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں مگر بدقسمتی سے 9جون 2015 سے آج تک قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا گیا سراج الحق نے کہا کہ میڈیا گواہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو برما سے زبردستی نکال دیا گیا ہے اور اب صرف وہاں آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان رہ گئے ہیں برما کی آرمی بدھسٹ کے علاوہ مسلمانوں کی بستیاں اور انکو جلا رہے ہیں ماں کے سامنے بچوں کو کاٹ دیا جاتا ہے اور کُتوں کے سامنے پھینک دیے جاتے ہیں برمی آرمی خواتین کو جنگلوں میں لے جا کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور زنجیروں سے باندھ کر ان پر کُتے چھوڑ دیے جاتے ہیں روہنگیا مسلمانوں سے خود پہلے قبر کھدوائی جاتی ہے اور پھر قتل کر کے دفنا دیا جاتا ہے مسلمانوں کا بیدردی کے ساتھ قیمہ بنایا جا رہا ہے مگر 56اسلامی ممالک میں قبرستان کی طرح خاموشی ہے روہنگیا مسلمان محمد بن قاسم کا انتظار کر رہے ہیں اور مسلمان حکمران خاموش ہیں پاکستان میں مجبور ہو کر سفارتخانے تک احتجاجی مارچ کیا انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں برما سفارتخانے پر احتجاجی مارچ کے بعد آئی جی اسلام آباد اور وزیر داخلہ نے مجھے فون کیا کہ آپ کے مارچ کی وجہ سے سفیر اسلام آباد چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں آپ ریڈ زون کی طرف مارچ نہ کریں اس سے پاکستان تنہا ہو سکتا ہے مارچ سے پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے جس پر میں نے کہا کہ جب تک امریکہ سے آپ کو اشارہ نہ ملے آپ بات نہیں کرتے بے غیرتی سے پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ برما کے سفارتخانے کی حفاظت کے لیے کنٹینر لگائے گئے مٹی کے پہاڑ کھڑے کیے گئے پانچ لائن کی سیکورٹی لگائی گئی ہے بزدل حکمرانوں نے برما کے سفارتخانے کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے مگر روہنگیا مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ احتجاجی مارچ کے اختتام پر برما مسلمانوں کے لیے خصوصی دعا کی گئی، جمعیت علماءاسلام کے ممبر صوبائی اسمبلی مسرور نواز جھنگوی، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں محمد اسلم، زبیر فاروق خان، امیر جماعت اسلامی کے پی کے مشتاق احمد خان ودیگر نے بھی احتجاجی مارچ سے خطاب کیا احتجاجی مارچ آبپارہ چوک سے شروع ہو کر سرینا ہوٹل کے سامنے پر امن طور پر منتشر ہو گیا مظاہرین نے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں اور برمی حکومت آنگ سانگ سوچی اور نریندر مودی، امریکہ، بھارت کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔

یوم بحریہ پر روایتی جوش وجذبہ ،دشمن پر لرزہ طاری

کراچی (وقائع نگار خصوصی) پاک بحریہ کے 52ویں یوم بحریہ کی مرکزی تقریب پی این ایس قاسم منوڑہ میں ہوئی، گورنر سندھ محمد زبیر تقریب کے مہمان خصوصی تھے، تقریب میں نیول چیف ایڈمرل ذکاءاللہ، سفارتکاروں، اعلیٰ سول و عسکری شخصیات نے شرکت کی، پاک بحریہ کی چار جہتی جنگی مہارتوں اور مشقوں کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ جمعہ کو ترجمان پاک بحریہ کے مطابق52واں یوم بحریہ قومی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا جس کی مرکزی تقریب پی این ایس قاسم منوڑہ میں ہوئی، تقریب میں نیول چیف ایڈمرل ذکاءاللہ، گورنر سندھ محمد زبیر، پاک بحریہ کے شہداءکے اہلخانہ اور افسروں نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ سفارتکاروں اور اعلیٰ سول و ملٹری حکام نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ پاک بحریہ کی چار جہتی جنگی مہارتوں اور مشقوں کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ اس مناسبت سے پاک بحریہ کے تمام یونٹوں، سکولوں اور کالجوں میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مرکزی تقریب پی این ایس قاسم منوڑہ میں منعقد ہوئی جس میں پاک بحریہ کے شہداءکے اہل خانہ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ رپورٹ میں یوم بحریہ پاکستان کی بحریہ افواج کے کامیاب آپریشن ”ڈوارکا“کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ستمبر 1965 کی جنگ ایسے لازوال کارناموں سے بھری پڑی ہے، جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے، پاک بھارت جنگ میں جہاں بری اور فضائی افواج نے دفاع وطن کا فریضہ بھرپور طریقے سے انجام دیا وہی آٹھ ستمبر کا دن پاک بحریہ کے نام رہا، جب پاک بحریہ نے پاکستان کی بری اور فضائی افواج کے شانہ بشانہ رہ کر دشمن کے دانت کھٹے کر دیے تھے۔ پاک بھارت 1965 کی جنگ میں بھارتی بحریہ طیارہ بردار جہاز سے لیس تھی جس کا نام وکرانت تھا جبکہ بھارت کے بڑے بحری بیڑے کے مقابلے میں پاک بحریہ کے پاس صرف چند جہاز اور صرف ایک آبدوز غازی تھی، جس نے وہ کارنامہ سرانجام دیا کہ دنیا آج تک حیران ہے۔ پاک بحریہ کے جانبازوں نے ڈنکے کی چوٹ پر بھارتی سمندری حدود میں دوارکا کے اہم ساحلی مرکز پر حملہ کر کے دشمن پر کاری ضرب لگائی، پاک بحریہ نے سات اور آٹھ ستمبرکی درمیانی شب دشمن پر حملوں میں جدید ترین ریڈارکوتباہ کرکے اسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور بھارت کے ساحلوں پر سبز ہلالی پرچم کی برتری ثابت کردی۔پاکستان کی واحد آبدوزغازی نے اپنے نام کی لاج رکھی اور تن تنہا بھارتی بیڑے کو پیش قدمی سے روکے رکھا۔معرکہ دوارکا میں پاک بحریہ نے دشمن پر ایسی دھاک بٹھائی ہےکہ جس کا تصور آج بھی اس پر لرزہ طاری کردیتا ہے کہ آج تک بھارت بحری محاذ پر کسی کارروائی کی جرات نہیں کرسکا ہے۔

اہم ترین شہر کے میئر کو تبدیل کرنے پر غور

کراچی (این این آئی) کراچی کی خراب صورتحال اور متحدہ لندن سے روابط کے الزامات پر میئر کراچی وسیم اختر کی تبدیلی پر مشاورت شروع کردی گئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان میں بلدیاتی قیادت فیصل سبزواری کے سپرد کرنے پر غور جاری ہے، سینئر رہنماﺅں کا موقف ہے کہ زیادہ عرصے اختیارات کا رونا رونے سے عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا، ذرائع کے مطابق کراچی کی بلدیاتی قیادت سے متعلق آئندہ چند روز میں اہم فیصلے کرنے کے لیے مشاورت شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نمائندگان اور بلدیاتی اداروں کی خراب کارکردگی نے ایم کیو ایم پاکستان کی ساکھ متاثر کردی ہے، شہریوں کی منتخب بلدیاتی قیادت کے خلاف شکایات بڑھتی جارہی ہیں شہر میں صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال اور بارش کے بعد مشکلات نے ایم کیو ایم کے بلدیاتی نمائندگان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے،ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان میں بلدیاتی قیادت فیصل سبزواری کے سپرد کرنے پر غور جاری ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر ایک برس کے دوران کے ایم سی کے کسی ایک محکمے کو درست کرنے میں ناکام رہے۔ اگر انہیں کے ڈی اے، بلڈنگ کنٹرول اور واٹر بورڈ کی ذمہ داری بھی مل گئی تو وہ کس طرح ان محکموں کو چلائیں گے، جبکہ انسداد دہشتگردی عدالت نے میڈیا ہاﺅسز پر حملے سے متعلق دو مقدمات میں فاروق ستار ، عامر خان اور دیگر کی ضمانتوں میںتوسیع کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور مقدمات کی سماعت 23 ستمبر تک ملتوی کردی۔انسداد دہشت گردی عدالت کراچی میں میڈیا ہاﺅسز پر حملے سے متعلق دو مقدمات کی سماعت ہوئی۔ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار ، عامر خان اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان کی ضمانتوں میں توسیع پر سرکاری وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔ علاوہ ازیں عدالت نے ایم کیو ایم پاکستان کے اہم رہنماں کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے ۔میڈ یا رپورٹس کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں لاوڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے فاروق ستار ،حیدر عباس رضوی ،فیصل سبزواری ،کنورنوید جمیل اور دیگر رہنماں کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ۔عدالت نے مفرور ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے تفتیشی افسر کو آخری مہلت دیتے ہوئے کہا کہ مفرور ملزمان کو گرفتار نہیں کیا تو تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی ہو گی ۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 28ستمبر تک ملتوی کردی ۔واضح رہے کہ لاڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کے کیس میں مئیر کراچی وسیم اختر ضمانت پر رہا ہیں ۔

”ہم بن بیاہی مائیں “ 90 خواتین نے بچوں کو جنم دیدیا،باپ کون؟

لاہور (ویب ڈیسک) برمی لڑکی فاطمہ کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔ برمی فوجیوں کی درندگی اور ان کی ہوس کا شکار ہونے کے بعد وہ نہ جانے کس برمی فوجی کے بچے کی ماں بنی تھی کیونکہ اس جیسی بے بس اور لاچار مسلمان لڑکیاں ہر ماہ کسی نہ کسی برمی فوجی کے بچے کی مائیں بن رہی تھیں۔ فاطمہ کو جب ا پنے تئیں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے بازیاب کرایا تو اس وقت تک اس کیمپ میں ایک سال کے دوران ڈیڑھ سو بن بیاہی کم سن مائیں، نوے بچوں کو جنم دے چکی تھیں، ان بچوں کو بدھ بھکشو گود میں لئے اپنی مذہبی تعلیمات دے رہے تھے۔ فاطمہ رہائی کے بعد تھائی لینڈ پہنچا دی گئی لیکن اس کی اذیتوں کا سفر ختم نہیں ہوا۔ اس کو جسم فروشی کے ا ڈے پر پہنچا دیا گیا۔ فاطمہ کی اس کہانی کا مقصد پوری دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنا ہے کہ وہ دیکھے روہنگیا مسلمانوں کی بیٹیوں کے ساتھ میانمار کی سرزمین پر کتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ امی نے مجھے رات کو ہی کہہ دیا تھا کہ نماز فجر کے بعد تم اپنی چھوٹی بہن کو مدرسہ چھوڑنے چلی جانا کیونکہ صبح انہیں نرسنگ ہوم جانا تھا۔ امی بہت خوش بھی تھیں اور غمزدہ بھی۔ انہیں امید تھی کہ آج ان کے ہاں جو بچہ ہونے والا ہے وہ بیٹا ہو گا۔ نرس نے انہیں آج صبح کا وقت دے رکھا تھا کہ وہ مسجد سے آگے نرسنگ ہوم میں آ جائیں تاکہ ان کی ڈلیوری کا بندوبست کر دیا جائے کیونکہ امی کے ہاں اولاد نارمل نہیں ہوتی تھی۔ انہیں دمہ بھی تھا اس لئے نرس اپنے سٹاف کے ساتھ ان کا خاص خیال رکھتی تھی۔ امی کو غم اس بات کا تھا کہ پچھلے چھ مہینے میں اب ہمارے ٹاﺅن میں بھی برمی فوجی غارت گری کرنے آتے تھے۔ ان کے ساتھ بھکشو (بدھ مت والے) بھی ہوتے تھے جو جس مسلمان کے گھر کی نشاندہی کرتے تو ان گھروں کے مردوں اور عورتوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر لے جایا جاتا تھا۔ یہ لوگ پھر کبھی واپس نہیں آتے تھے۔ ان کا کیا جرم ہوتا تھا کوئی نہیں جانتا۔ ان کا کیا بنتا رہا، اس وقت تو صرف قیاس آرائیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہو گا۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔ اگر کوئی مسلمان یہ جاننے کی کوشش کرتا تو اس کے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا۔ ابا میاں اس بات پر کڑھتے تھے کہ پرامن اور پڑھے لکھے مسلمانوں کو راتوں رات غائب کر دیا جاتا ہے اور کوئی اس کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ وہ اس کے لئے آواز بننا چاہتے تھے۔ دور کے علاقوں اور ساحلی دیہاتوں میں برمی فوجیوں اور بدھیوں نے مسلمانوں کا جو خون بہا کر ان کے گھروں کو جلایا تھا اس کی خبریں ہم تک پہنچ گئی تھیں اور یہ ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ مسلمانوں کے کسی گاﺅں میں گھس جاتے اور مردوں کا قتل عام کرتے، گھر جلاتے اور کم سن نوجوانوں لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے۔ اسی وجہ سے ہمارے قصبہ میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود قدرے خاموش تھے۔ مسجد یا گھروں میں برمی فوج اور بدھیوں کے ظلم پر تبصرے ہو رہے تھے، قصبہ میں جن لوگوں کے پاس موبائل تھے ان پر بھی ان کو کچھ خبریں مل جاتی تھیں، انٹرنیٹ تو محدود تھا البتہ جتنا بھی وسیلہ تھا خبر کسی نہ کسی صورت ہم سب تک پہنچ ہی جاتی۔ ان حالات میں انی کا ڈرنا انجانے خوف کا باعث بن گیا تھا کیونکہ ظلم کی یہ دستک ہمارے گھروں تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ہمارے قصبہ میں الحمد للہ پانچوں وقت کی نماز میں اجتماع دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔ سارے مسلمانوں میں اتفاق تھا۔ صرف تین گھر بدھیوں کے تھے اور وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے تھے لیکن نفرت کی آگ ایسی جلی تھی کہ ایک دن معلوم ہوا وہ تینوں گھر خالی ہوگئے ہیں اور وہ نہ جانے کیوں قصبہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں حالانکہ ہمارے قصبہ میں مذہب یا کسی اور وجہ سے ا یک بھی دنگا فساد نہیں ہوا تھا۔ جس دن سے ان بدھیوں نے قصبہ چھوڑا، اس سے چند روز بعد ہی برمی فوج گاڑیوں میں پہنچ گئی اور سب سے پہلے امام مسجد عبدالباری کو اور ان کے گھر والوں اٹھا لے گئی اور وہ کبھی واپس نہیں آئے۔ امی کا ڈر اور خوف بجا تھا لیکن میں نے کبھی اس بات کا خوف اپنے ذہن پر سوار نہیں کیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ سال تھی اور یوں مجھے بالغ ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ ابا مدرسہ میں ٹیچر تھے اور نہایت متقی ا ور پرہیز گار۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے دادا نے رنگوں میں قرآن حفظ کیا تھا اور اسلام کی تبلیغ کے لئے زندگی وقف کر دی تھی۔ ان دنوں جنگ عظیم جاری تھی۔ دادا ہجرت کر کے اس گاﺅں میں آ گئے انہوں نے ہی مسجد تعمیر کی اور مدرسہ بھی بنایا جہاں بچے بچیوں کو قرآن و سنت کے مطابق تعلیم دی جاتی۔ ابا فخر سے بتاتے تھے کہ ان کے دادا کے ہاتھ پر کئی ہندوﺅں بدھیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور وہ بھی اسی گاﺅں میں آباد ہو گئے جو بعد میں ایک بڑا قصبہ بن گیا تھا۔ ا لحمدللہ میرے دادا نے اسلام کی خدمت کا جو پودا لگایا تھا وہ تناور ہوا اور اردگرد کے کئی دیہاتوں تک اس کی چھاﺅں پھیل گئی تھی۔ ابا میاں نے جدید تعلیم کے بعد اسی مدرسہ میں انگریزی پڑھانی شروع کی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مجھے بچپن سے ہی انگریزی پڑھانے لگے۔ روشن خیال بھی تھے کہا کرتے تھے کہ مسلمان لڑکیوں کو دین اور دنیا کا علم پڑھا چاہیے۔ وہ مجھے بھی پڑھا لکھا کر ٹیچر بنانا چاہتے تھے تاکہ میں اسلامی تعلیمات کا پرچار کر سکوں۔ جس جن کی میں بات کر رہی ہوں اس دن ابا میاں امی کو لیکر نرسنگ ہوم چلے گئے یہ ہمارے گھر سے بہت دور نہیں تھا لیکن تنگ راستوں کی وجہ سے آنے جانے میں کافی وقت لگ جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب جمعہ کا وقت ہوا تو ابا میاں مسجد میں جمعہ پڑھنے چلے گئے، نرس نے بتا دیا تھا کہ ڈلیوری پانچ بجے کے قریب ہو گی، اس نے امی کو ڈرپ لگا رکھی تھی میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہمارے قصبہ میں برمی حکومت کے حکم سے اذان سپیکر پر دینے کی سخت پابندی ہے، خطبہ بھی صرف واجبی ہے۔ علما کسی قسم کا تبلیغی واعظ نہیں کر سکتے۔ کئی دہائیوں سے برمی حکومت ایسے احکامات جاری کرتی آ رہی ہے اس لئے مسلمان دل پر جبر کرتے ہوئے کبھی اس بات کا مطالبہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں برمی حکومت کی جانب سے کسی نیکی اور نرمی کی توقع نہیں۔ میں بہن کو مدرسہ چھوڑ کر گھر واپس آ چکی تھی اور نہانے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی کیونکہ مجھے مخصوص ایام کے بعد آج غسل کر کے نماز پڑھنی تھی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کوئی ہمارا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا رہا ہے۔ میں نے جلدی سے غسل مکمل کرنا چاہا اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آئی، ڈر گئی اور ابھی میں سنبھلنے نہ پائی تھی کہ مجھے کمرے میں بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی دو گولیاں بھی کسی نے چلا دیں۔ کوئی غصہ سے چیخ کر میرے ابا میاں کو آوازیں دے رہا تھا میں غسل خانے میں ہی ایک جانب کپڑے پہننے کی کوشش میں دبک گئی کہ اچانک غسل خانے کا دروازہ کھلا اور ایک برمی فوجی بندوق کی نال سیدھی کئے مجھ کو کسی بھوکے درندے کی طرح دیکھنے لگا۔ میں نے ہاتھ میں پکڑے کپڑوں سے اپنا سینہ ڈھانپنے کی کوشش کی لیکن اس نے بندوق کی نالی سے ان کپڑوں کو جھٹک کر یوں پیچھے پھینکا کہ بندوق کی گرم نالی سے میرے بدن کو شدید جھٹکا لگا۔ فوجی میرے حالت دیکھ کر چیخا اور قہقہے لگا کر اپنے ساتھیوں کو پکارنے لگا ”دیکھو یہ کتیا کتنی خوبصورت ہے“ اس کی بات سن کر میں سہم گئی۔ اس کی آنکھوں میں ہوس تھی۔ اس نے بندوق کی نالی میرے سینے پر رکھی تو میں یکدم ہڑ بڑا اٹھی۔ مجھے ابا میاں کی بات یاد آ گئی کہ مسلمان بیٹیاں بہادر اور غیرت مند ہوتی ہیں ان کی حیا ہی ان کا سب کچھ ہوتی ہے۔ مجھے موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ میرا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ میں نے دل میں اللہ کو یاد کیا، کلمہ شہادت پڑھ لیا اور سوچا کہ اسطرح نہیں مرونگی، اس سے بہتر ہے لڑ کر شہید ہوجاو¿ں، میں اس فوجی کے مقابلہ میں بہت کمزور تھی لیکن غیرت مند مسلمان بیٹیاں ایسے آوارہ اور شیطان کتوں سے ڈرا نہیں کرتیں، میں کیسے برداشت کرسکتی تھی کہ میں جو سرڈھانپ کر مدرسہ جایاکرتی تھی اور دوپٹہ کبھی سینے سے نہیں سرکا تھا مگر آج ایک بے شرم اور ظالم فوجی مجھے بے لباس دیکھ رہاتھا، میں نے بندوق کی نالی کو پرے جھٹکا اور یکدم چیخ کر اس فوجی پر پل پڑی، اس وقت اسے یقین نہیں تھا کہ میں اس پر حملہ بھی کرسکتی ہوں، بس مجھے اتنا یاد ہے کہ جونہی وہ جھٹکا کھا کر گرا میں نے غسل خانے میں رکھا کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھایا اور اسکے سر پر اتنے زور سے مارا کہ وہ حرامی دوبارہ اٹھ نہ سکا لیکن اسی لمحہ غسل خانے سے باہر کھڑے فوجی نے بندوق کا دستہ میرے سر پر دے مارا اور میرا سر گھومنے لگا، اس نے مجھے اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر نکالا اور بھاری بوٹوں سے میرے جسم کو ٹھوکریں مارنے لگا، اس دوران ایک دوسرا فوجی بولا، ” اسکو ابھی نہ مارو،حرامزادی کو زندہ رکھو اور کیمپ میں لے جاو¿، یہ بھی ہمارے بچے جنم دیگی، دوسری مسلمان لڑکیوں کی طرح ، ہم نے اسکی نسل ختم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اور وہ ہم نے پورا کرنا ہے “ ، میں ٹھوکریں کھاکر بیہوش ہوگئی تھی، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میں ابھی تک بے لباس ہوں اور میری جیسی درجن بھر لڑکیاں اور بھی ہیں جن کے جسموں پر کوئی برائے نام لباس ہے ، ان کے چہروں اور بدن پر بھی زخم تھے، کوئی کراہ رہی تھی ،کوئی خاموش تھی لیکن سب اپنے اپنے زخم سہلا رہی تھیں، ان میں سے کئی لڑکیاں حاملہ تھیں، ان کے جسموں پر ہماری طرح رستے زخم نہیں تھے لیکن انکی حالت بتا رہی تھی کہ وہ تشدد کا شکار رہی ہیں، مجھے جب ہوش آیا اور میں نے پانی مانگا تو میری آواز سن کر ایک برمی فوجی آیا اور بولا ، پانی پینا ہے ، میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا ننگا سینہ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بے بس نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا تو اس نے قہقہ لگایا اور پھر اس نے وہ حرکت کی کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی عورت کی ایسی توہین نہیں ہوئی ہوگی لیکن ہم روہنگیائی مسلمان عورتیں اس کرب اور ذلت سے روزانہ گزرتی ہیں، اس خنزیر کی اولاد نے کھڑے کھڑے مجھ پر پیشاب کردیا اور کہا ، لو پی لو، الفاظ ساتھ نہیں دیتے کہ میں دنیا کی ذلیل ترین فوج کے کرتوتوں کا ذکر کروں، اس نے مجھ پر پیشاب کرنے کے بعد میری عزت کا دامن تار تار کردیا ، میں بہت چیخی ، مزاحمت کی، مدد کیلئے لڑکیوں کو پکارا، مگر وہ تو سب گونگی بہری اندھی بت کی طرح تھیں، وہ کربھی کیا سکتی تھیں کیونکہ یہ سب انکے ساتھ بھی ہوچکاتھا، میں اس رات بہت روئی، میرا بدن اور میری روح زخموں سے چور تھی، اس بے رحم درندے کے بعد نہ جانے کتنے اور درندوں نے مجھ ناتواں کو جھنجھوڑا تھا، کوئی حساب نہیں، نہ دنوں کا نہ مہینوں کا، نہ موسموں کا ، سردیوں کے موس میں انہوں نے ہم سب کو بھاری چادریں دیدی تھیں، جس سے ہم نے اپنے بدنوں کو ڈھانپ لیا، اس تمام عرصہ میں میری بڑی تمنا رہی کہ مجھے کپڑوں کا کوئی ٹکڑا ہی مل جائے جس سے پورا بدن ڈھانپ کر نماز پڑھ سکوں، لیکن میری تمنا پوری نہ ہوسکی کیونکہ نہ کپڑے ملے نہ ہی پاکیزگی کا موقع، ہر دن مجھے پلیدی میں ہی گزارنا پڑتا تھا، نو مہینے بعد میں بھی ایک کمزور سے لڑکے کی ماں بن گئی، اس روز ایک بدھ دایہ عورت آئی تھی، وہ پہلے بھی ان لڑکیوں کی ڈلیوری کیلئے آتی تھی جو بچے کو جنم دینے والی ہوتی، میرے اندر اتنی نقاہت تھی کہ اپنے بچے کو دودھ بھی نہ پلاسکی، اور میرا بچہ بھوک سے دم توڑ گیا، لیکن میں پھر بھی زندہ رہی، لیکن میرا دماغ ماو¿ف ہوگیا، دایہ کے کہنے پر فوجیوں نے ہماری بہتر غذا کا بندوبست کردیاتھا اور یہ پہلی بار اس وقت ہوا جب ایک بدھ نے آکر انہیں کہا کہ اسطرح تو ہمارے یہ بچے مر جائیں گے، ان کو کھانے کو کچھ دو، اس واقعہ کے شاید تین ماہ بعد انسانی حقوق کی ایک ٹیم ادھر آئی ، فوج اور بدھ مت رہنماو¿ں کیساتھ مذاکرات کے بعد اس نے ہمیں اس شرط پر وہاں سے نکالا کہ ہم سب عورتیں ان بچوں کو بدھ عورتوں کے سپرد کردیں، کچھ لڑکیاں تو اس پر بضد ہوگئیں جنہیں مجبوراً وہیں چھوڑنا پڑا ، اس تنظیم نے ہمیں میانمر سے نکالا اور تھائی لینڈ لے آئی، یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کے نام پر جو تنظیم ہمیں برمی فوجیوں سے آزاد کراکے لائی تھی دارصل وہ ہماری قیمت چکا کر لائی تھی، چند ماہ بعد ان لڑکیوں کو اچھا کھانا پینا دیکر صحت مند بنایاگیا اور پھر انہیں جسم فروشی کی تربیت دیکر اڈوں پر بٹھا دیاگیا، بچے کی پیدائش اور موت کے بعد مجھے ذہنی صدمہ سے نکلنے میں کچھ وقت لگا لیکن اس دوران میں پھر ایک ماہ کے حمل سے ہوگئی، لیکن جب تھائی لینڈ لائی گئی تو میرا اسقاط گرادیاگیا، جب ہوش سے سنبھلنے لگی تو ایک صحافی کی مدد سے یہ معلوم کرایا کہ اس روز ہمارے قصبہ میں کیا ہوا تھا، معلوم ہوا کہ برمی فوجیوں نے مدرسہ اور مسجد کو آگ لگادی تھی جس سے مدرسہ کے سارے بچے اور نمازی آگ میں جھلس کر شہید ہوگئے تھے، میں سوچتی ہوں کہ برمی فوجیوں کے ہاتھ میں جدیدترین اسلحہ دیکر ان میں نفرت یونہی پروان چڑھائی جاتی رہی تو کیا میانمر کی سر زمین پر کوئی مسلمان بچے گا؟ ، آج مسلمان بیٹیاں لٹ پھٹ رہی ہیں ، بن بیاہی مائیں بنائی جارہی ہیں اور جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچائی جارہی ہیں، تو کیا آنے والے وقت میں دوسرے مذاہب کے لوگ برمی فوجیوں سے بچ پائیں گے۔

مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر بیٹے محافظ سمیت اغواء،اندرونی کہانی سامنے آگئی

کوئٹہ (بیورو رپورٹ) صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں نامعلوم مسلح ملزمان مرکزی جمعیت اہل حدیث بلوچستان کے امیر مولانا ابو تراب، ان کے بیٹے اور محافظ کو اغوا کرکے لے گئے۔پولیس کے مطابق مولانا ابو تراب اپنے بیٹے اور محافظ کے ہمراہ ایئرپورٹ روڈ پر جا رہے تھے کہ انہیں نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی کو روکا اور گاڑی سے اتار کر ساتھ لے گئے۔پولیس کا کہنا تھا کہ مولانا ابو تراب کی گاڑی ایئرپورٹ روڈ سے مل گئی۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کا آغاز کردیا تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔علاوہ ازیں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے جاری بیان میں مولانا اور ان کے رفقہ کی فوری بازیابی اور اغواکاروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔یاد رہے کہ 24 مئی 2017 بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے جناح ٹان سے نامعلوم مسلح افراد نے دو غیر ملکی باشندوں کو اغوا کرلیا تھا اور بعد ازاں جون میں کالعدم تنظیم داعش نے انہیں قتل کرنے کا دعوی کیا تھا۔رواں سال مارچ میں نامعلوم مسلح ملزمان نے کوئٹہ کے سبزال روڈ کے علاقے میں بلوچستان ہائیر ایجوکیشن سیکریٹری عبداللہ جان کو اغوا کرلیا تھا۔اس سے قبل 2006 میں حب شہر میں نامعلوم مسلح افراد نے گھات لگا کر چینی باشندوں کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 3 چینی ہلاک ہوگئے تھے۔2004 میں صوبے کے ساحلی شہر گوادر میں بم دھماکے کے دوران 3 چینی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔خیال رہے کہ حالیہ کچھ سالوں میں بلوچستان میں دہشت گردی، فرقہ وارانہ اور دیگر جرائم کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں، اس حوالے سے صوبائی حکومت متعدد مرتبہ یہ دعوی کرچکی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔یاد رہے کہ بلوچستان کے ساحلی پورٹ شہر گوادر سے متعدد راستوں کے ذریعے چین سے تجارت بڑھانے کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام جاری ہے جس کے تحت بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں ترقیاتی کام جاری ہیں، اس منصوبے کے حوالے سے دعوی کیا جارہا ہے کہ یہ خطے اور خاص طور پر پاکستان میں معاشی تبدیلی کا باعث ہوگا۔

برماءمیں ثبوت مٹانے کےلئے خوفناک اقدامات، مسلمانوں کی لاشوں سے بھیانک سلوک

نیگون، ڈھاکہ، واشنگٹن، ٹورنٹو (نیوز ایجنسیاں) روہنگیا مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہاں دینے والے سفاک بری فوجیوں اور انتہا پسند بدھوﺅں کی حیوانیت یقینا بیان سے باہر ہو گئی ہے۔ ان ظالموں نے نہ صرف سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر ڈالا ہے بلکہ اب اپنے بھیانک جرائم کی پردہ پوشی کیلئے ان بے گناہ مقتولوں کی لاشوں کو اکٹھا کر کے جلانا بھی شروع کر دیا ہے۔ ایک دیہات میں 130 افراد کے قتل کی خبر ملی جبکہ دیگر کئی دیہاتوں میں بھی لوگوں کو درجنوں کے حساب سے مارا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز کسی بھی ایک گاﺅں کو گھیر لیتی ہے اور پھر فوجی لوگوں پر اندھادھند گولیاں برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو سینکڑوں کی تعداد میں مارنے کے بعد سکیورٹی فورسز اور بدھ انتہا پسند ان کی لاشوں کو اکٹھا کر کے جلا رہے ہیں۔ رخائن میں پھر سے بھڑک اٹھنے والے تشدد کے بعد سے اب تک ایک لاکھ 64 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور رخائن کے بودھ ان کے گاو¿ں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔حکومت ان الزامات سے انکار کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان اور انتہاپسند جنگجو خود ہی اپنے گاو¿ں جلا رہے ہیں لیکن بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ نے بتایا کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں کے سامنے ایک گاو¿ں کو جلتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے اس واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔میں ان چند صحافیوں میں سے ایک ہوں جنہیں میانمار کی حکومت نے ماو¿نگدا کے حالات کا جائزہ لینے بلایا ہے۔ اس دورے کی شرط یہ ہے کہ ہمیں جماعت میں رہنا ہے اور ہم اکیلے کہیں نہیں جا سکتے۔ ہم انہی علاقوں میں جا سکتے ہیں جہاں حکومت ہمیں لے جانا چاہتی ہے۔ہم نے جب بھی کسی اور علاقے میں جانے کی اجازت مانگی تہ یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ وہ محفوظ نہیں ہیں۔ ایمن اردوان نے کہا کہ یہ بات انتہائی ناقابل یقین، حیرت انگیز اور افسوسناک ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس دور میں بھی میانمار کی حکومت ایک شرمناک انسانی المیے کو پروان چڑھا رہی ہے اور عالمی برادری بے حسی کے ساتھ صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں پر میانمار کی حکومت جو مظالم ڈھا رہی ہے انہیں دیکھ کر ایسا کوئی بھی انسان لاتعلق نہیں رکھتا جس کے سینے میں درد مند دل ہو۔ترک خاتون اول نے کہا کہ روہنگیائی مسلمانوں کی مدد کے لیے ترکی سے جو بھی بن پڑا وہ کرے گا اور اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی اٹھائے گا۔ میانمار میں تعینات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ینگ ہی لی نے تصدیق کی ہے کہ پرتشدد واقعات میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ میانمار میں جاری پرتشدد واقعات میں اب تک ایک ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ میانمار میں تعینات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ینگ ہی لی نے بتایا ہے کہ ہمیں میانمار کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم بشمول بچوں، خواتین اور بزرگوں پر حملوں کی مستقل اطلاعات موصول ہورہی ہیں اور اب تک عینی شاہدین کے بیانات سے پتہ چلا ہے کہ ریاست راکھین میں ہلاک شدگان کی تعداد 1 ہزار سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کے بعد اب کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی روہنگیا مسلمانوں کیلئے میدان میں آ گئے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ ہمیں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سخت تحفظات ہیں ۔ جون میں میانمار کی لیڈرآنگ سان سوچی سے اوٹاوا میں میری ملاقات ہوئی تھی اور میں نے ان کے سامنے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ امریکہ میں روہنگیا مسلمانوں کے حق میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت اور واشنگٹن میں برما کے سفارتخانے کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس میں مظاہرین نے نسل کشی بند کرنے اور اسے دہشت گردی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان ہیتھر ٹاریٹ نے کہا کہ سکیورٹی فورسز پر روہنگیا دیہات کو نذرآتش کرنے اور تشدد کے واقعات سمیت انسانی حقوق کی خلاف وری کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ڈھائی لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان گزشتہ اکتوبر میں تشدد شروع ہونے کے بعد بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں۔