تازہ تر ین

حکومت معاشی ایمرجنسی ڈکلیئر کرے ، خریداری سے منافع خوری قومی جرم قرار دیا جائے : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جب تک ڈالر کی طلب رہے گی کہ جن لوگوں کے پاس ڈالر نہیں تھے وہ بھی منافع خوری کے لئے ڈالر خرید کر رکھ رہے ہیں تا کہ گھر بیٹھے ہوئے چار پیسوں کا فائدہ ہو جائے۔ جبکہ یہ رجحان برقرار ہے کہ ڈالر مہنگا ہو رہا ہے اور مزید مہنگا ہو گا اس کو خرید لیا جائے۔ خریدنے کی طلب بڑھے گی تو اس کی قیمت بڑھے گی۔ محب وطن ہونا ضروری ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی کہا ہے کہ ذخیرہ اندوزی گناہ ہے اور نفع کے لئے ڈالر خریدنا بہت بڑی غداری ہے۔ انہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس پر ضیا شاہد نے کہا ہے کہ انہوں نے صحیح بات کہی ہے کہ اسلامی معاشرے میں بالکل اجازت نہیں ہے کہ آپ صرف کوئی کرنسی یا سونا حرید کر رکھ لیں تا کہ گھر بیٹھے ہوئے بغیر کسی تکلیف کے یا بغیر کسی کوشش کے بہت سارا منافع مل جائے۔ اسلام چونکہ اس قسم کے عمل کی نفی کرتا ہے اس کی مذمت کرتا ہے اس لئے انہوں نے صحیح فتویٰ دیا ہے۔ اخبارات میں میں نے پڑھا بھی کہ ڈالر کے خلاف، ڈالر کی خریداری کے خلاف مہم بھی شروع ہو گئی ہے اپنے طور پر لوگوں نے محسوس کرتے ہوئے ڈالر خریدنے کے بحران سے ملک کو نقصان ہو گا اس کے خلاف تحریک چلائی ہے یہ تحریکیں اس وقت فائدہ مند نہیں ہو سکتیں جب تک وہ لوگ ان کے پاس پیسے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا چاہتے ہیں۔ اس وقت تک حکومت کی طرف سے رکاوٹ نہیں ہے کوئی شخص جا کر اوپن مارکیٹ میں جا کر ڈالر حرید سکتا ہے یہ کوئی جرم نہیں ہے اور جب تک یہ جرم نہیں ہو گا چونکہ یہ ذخیرہ اندوازی کی ڈیل میں آتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزیں رضا کارانہ طور پر نہیں ہوتیں اس کے لئے حکومت قانون سازی کرے کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کو قابل دست اندازی پولیس قرار دینا چاہئے۔ کس قصد کے لئے کوئی شحص ڈالر خرید رہا ہے صرف سوائے اس کے کہ مہنگا ہو جائے گا تو زیادہ پیسے کمائے نہ کوئی کاروبار نہیں ہے یہ کوئی زراعت نہیں ہے یہ کوئی ٹیکسٹائل مل نہیں ہے یہ کوئی کپڑے کی دکان کھولنا نہیں ہے۔ یہ سیدھی سیدھی ناجائز منافع خوری ہے اور چونکہ جتنا یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے کہ ہم ڈالر خرید کر گھر بیٹھے زیادہ دولت بن سکتے ہیں اتنے ہی ڈالر کی قیمت مزید بڑھتی جائے گی۔ یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت بہت سے کام جو ہو سکتے ہیں مثال کے طور پر حفیظ شیخ صاحب جو ہیں جو توقع کی جا رہی تھی کی کہ اب اسد عمر صاحب کی جگہ وہ آئے ہیں تو کوئی اب تک کوئی بڑا قدم ان کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آیا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں جو سالانہ بجٹ ہو گا اس کی قومی اہمیت کیا رہ جائے گی اور قومی ترجیحات اس میں کس نوعیت سے شامل ہوں گی یہ بات ظاہر ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ سارے کام چھوڑ کر عمران خان صاحب بھی مختلف تقریبات میں جاتے ہیں ان ساری چیزوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے اس وقت پورا وقت ان کو ان ڈور میٹنگز پر تقریباً ہر طبقہ سے مشاورت کریں اور ملکی سطح پر ایک قومی ڈی بیٹ شروع کریں کہ کس طرح سے صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اب تک جو بھی صورتحال ہے نہ تو ادراک ہوتا ہے حکومت کی باتوں سے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بھی پروگرام وضع کیا جاتا ہے۔ صمصام بخاری صاحب کا یہ بیان کہ مشکل حالات کے باوجود بجٹ عوام دوست ہو گا اس پر گفتگوکرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ بجٹ عوام دوست ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ اس میں عام آدمی پر زیادہ ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے یہ ممکن ہے اور کوئی عجب نہیں کہ اس پر عمل بھی کیا جا سکے گا اور لگتا ہے کہ کوشش کی جائے گی جو غیر ضروری رکاوٹیں ہیں جو عوام کے راستے میں ہیں اور جو عوام کو جو تکلیفوں سے دوچار کرتی ہیں اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ اس کے باوجود ہمیں سب سٹینشل کوشش جاری رکھنی چاہئے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ نیشنل ایمرجنسی ڈکلیئر کرنی چاہئے اور ایک قومی بحث شروع کرنی چاہئے اس پر اخبارات اور چینلز پر اور سیاسی سماجی محاذوں پر اور سب سے آخر میں یہ کہ جو بھی تجاویز سامنے آئیں ان میں سے قابل عمل ہوں ان پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔حکومت جو اصل مسئلہ ہے خراب ہوتی ہوئی معیشت میرا خیال ہے کہ اس پر مطلق کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ اس کو چھوڑ دیا گیا ہے جس طرح جی چاہے مشروم گروتھ کی طرح یہ چلتا رہے۔ بجلی کے نرخ اور بڑھ رہے ہیں اس صورتحال کا ایک ہی حل ہے وہ یہ کہ ایک قومی ایمر جنسی ڈکلیئر کی جائے کہ اس وقت ملک ایمر جنسی میں ہے اور معیشت کی خرابی ایک ایمرجنسی کی کال ہے چنانچہ اس پر ماہرین سے رائے تجاویز لے کر اس پر اس طرح قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس بلانے چاہئیں تا کہ اس پر کھل کر رائے دی جا سکے صرف یہ کہنا کہ فلاں کو نہ پکڑا جائے یا فلاں کے خلاف ہم احتجاج کرتے ہیں یہ کوئی ایمر جنسی نہیں ہے اس وقت ملک کی ایمر جنسی یہ نہیں ہے کہ نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی بلکہ یہ کہ معیشت خراب ہوتی جا رہی ہے اور روز بروز اس کا ستیا ناس ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کا یہ کردار نہیں کہ وہ کہے کہ ہم نے نہیں کہا تھا کہ تم اور مرو گے اور دیکھو اب مر رہے ہیں اپوزیشن کو تو عوام کی چھوٹی سی چھوٹی تکلیف بھی بڑی لگتی ہے ایسے موقع اس مشکل کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔چیئرمین نیب کے جاوید چودھری کے انٹرویو کے حوالہ سے آصف زرداری نے کہا ہے کہ اس انٹرویو پر چیئرمین نیب کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹ بول رہا ہے گندی سیاست ہو رہی ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ کس عدالت کے پاس پکڑ ہو جس کے خلاف چارجز ہوں وہ عدالت کے وجود کو اور اس کی کارکردگی پر اظہار خیال کرے ان کو ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان کا جواب دینا چاہئے نہ کہ اس پر کہ ہمارے اوپر الزام لگانے والوں میں فلاں فلاں خرابی ہے۔ اگر خرابیاں ہیں بھی تو اس پر کیچڑ اچھالنے کا حق کم از کم اس بندے کو نہیں دیا جا سکتا جس کو اس عدالت نے ملزم کے طور پر پکڑا ہوا ہے آصف زرداری کی اسلام آباد ہائی کورٹ ضمانت قبل از گرفتاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ضمانت پر جوضمانت ملتی جا رہی ہے اس کا جواب تو عدالتیں ہی دے سکتی ہیں البتہ قوم ان سے آج بھی سوال کرے گی اور دس سال بعد بھی کرے گی لہٰذا اس کا جواب عدالتیں بھی جواب دیں اس پر ہم اظہار خیال نہیں کر سکتے۔ لیکن اس پر اظہار خیال ضرور کر سکتے ہیں کہ اس وقت جو صورت حال ہے کیا ملزم کیا قصور واروں، کیا قیدیوں کو، کیا کرپشن کرنے والوں کو آپ یہ اختیار دیں گے کہ وہ ملک کے نظام کو اس طرح سے درست کریں کہ جو جو ان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے اس کا گلا گھونٹ دیں۔ اگر آپ اس کو انصاف کہتے ہیں تو پھر بڑے شوق سے کریں لیکن دنیا بھر کی ڈکشنریوں میں کبھی ملزموں کی زبان سے یہ الزامات کبھی نہیں سنے جاتے اور نہ ان کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ چنانچہ جن دو پارٹیوں نے بڑھ چڑھ کر نیب کے سربراہ پر چڑھائی کر دی۔ انہوں نے انٹرویو دے دیا کیسے دے دیا کیسے نہیں دے دیا اس میں کیا چیز قابل اعتراض ہے کیا نہیں ہے کیا کہہ دیا انہوں نے جو انہوں نے کہا ان کے تو انہوں نے دلائل دے دیئے ان کے پاس ان کے ثبوت موجود ہیں اس کے بارے میں جے آئی ٹی اپنی اپنی رپورٹیں دے چکی ہیں اب کیا چیز مانع ہے کہ اگر انہوں نے کہہ دیا کہ فلاں سیاست کے شعبے میں کرپشن پائی جا رہی ہے۔دنیا بھر میںکہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ملزمان عدالتوں پر الزامات لگاتے پھریں۔ چیئرمین نیب نے اگر انٹرویو دیا ہے تو ان کے پاس تمام ثبوت بھی موجود ہیں کیا ہماری سیاسی اشرافیہ کرپشن میں ملوث نہیں ہے۔ حکومت اگر کرپٹ عناصر پر تگڑا ہاتھ ڈالتی تو صورتحال آج مختلف ہوتی جعلی اکا?نٹس کیس میں صرف بنک منیجرز کو پکڑ لیا جاتا تو حقائق سامنے آ جاتے۔ کرپشن کے کیسز کو کیوں منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا رہا صرف جے آئی ٹیز ہی کیوں بنتی جا رہی ہیں اہل اقتدار کو ان سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ لوگ چیئرمین نیب سے بھی پوچھیں گے کہ اگر دستاویزی ثبوت موجود ہیں تو کیوں ملزمان کا ٹرائل نہیں ہوتا کیوں کوئی فیصلہ سامنے نہیں ہوتا صرف یہی سننے میں کیوں آتا ہے کہ بہت جلد فیصلہ آنے والا ہے۔ عدات نے نواز شریف کو اگر بیرون ملک جا کر علاج کرانے کی اجازت دیدی تو یہ ملک میں مروجہ قانون سے 90 درجے کے زاویے پر انحراف ہو گا آج تک ایسی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے نوازشریف کو علاج کے لئے 6 ہفتے کی ضمانت دی تو اس دوران انہوں نے باقی سب کام کئے صرف علاج نہ کرایا۔ نوازشریف کو علاج کے نام پر بیرون ملک جانے کا ٹارگٹ بنائے بیٹھے ہیں تاہم ان کے راستے میں بڑی مشکلات ہیں۔ نوامشریف بارے کہا جاتا ہے کہ تنا? کی حالت میں ہیں جو ان کے لئے خطرناک ہے تو پاکستان میں کون سا شخص ایسا ہے جو ٹینشن کا شکار نہیں ہے۔ نوازشریف ٹینشن سے نجات چاہتے ہیں تو سیاست چھوڑ کر اللہ سے لو لگا لیں۔ جب تک وہ سیاست میں ہیں ان کے بارے میں تنقید تو چلے گی۔ ایک شخص جو بڑے بڑے عہدوں پر براجمان رہا ہو وہ یہ کہے کہ مجھ پر تنقید نہ کرو مجھے برا لگتا ہے تو یہ تو بادشاہوں والا انداز ہے کیا برطانیہ چلے جانے سے ان پر تنقید بند ہو جائے گی کیا برطانیہ میں میڈیا اور اخبارات نہیں ہیں۔ آج کے دور میں تو معمولی مقامی اخبار تک انٹرنیٹ پر دستیاب ہوتے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کے نام پر لگڑری بلٹ پروف گاڑیاں منگوائی گئیں، مہمان تو ایک ہفتہ بعد چلے گئے جس کے بعد نوازشریف نے وہ ساری گاڑیاں بھائی بہنوں، بھتیجوں، دامادوں کو استعمال کیلئے دیدیں کیونکہ وہ خود کو بادشاہ سلامت سمجھتے اور جواب دہ نہ سمجھتے تھے نوازشریف نے کس قانون کے تحت گاڑیاں استعمال کیلئے رشتہ داروں کو دیں اب انہیں جواب دینا ہو گا۔ عید کے بعد نیب کے خلاف مہم چلائی جائے گی کہ اس ادارے کو ختم کیا جائے۔ وہ سیاستدان جو کرپشن کیسز میں نیب کو مطلوب ہیں کہتے ہیں کہ چیئرنین نیب کو ذاتی انٹرویو دینے کی اور سیاستدانوں کو مطعون کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کیا سیاستدان ایسی مخلو ہیں کہ ان کو کوئی الزام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کون سی جمہوریت میں لکھا ہے ملک میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں سیاسی اشرافیہ اربوں روپے ان غریب لوگوں کے جعلی اکا?نٹس بنا کر باہر بھیجتی رہی جن کے پاس دوسرے شہر جانے کا کرایہ تک نہیں ہوتا۔ ملک و قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن والے مثبت اپوزیشن کریں خود کو مقدس گائے بنا کر پیش نہ کریں۔ فواد چودھری قمری کلینڈر کی بات کر رہے ہیں اس معاملے پر علمی انداز میں بات کرنی چاہئے اسے کفر اور اسلام کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے انسان نے اللہ کی دی عقل سے سائنسی علم حاصل کیا ہے، یہ علم بھی اللہ کی دین اور حکومت ہے۔ فواد چودھری ہوں یا مفتی منیب کسی کو اس مسئلہ کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ اگر مختلف اسلامی ممالک میں ان قمری کیلنڈرز کا استعمال ہو رہا ہے اور معاملات ٹھیک چل رہے ہیں تو ہمیں بھی اسے اپنانے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain