تازہ تر ین

اجتماعی دانش بروئے کارلائیں

وزیر احمد جوگیزئی
حال ہی میں جناب وزیر اعظم عمران خان نے سی این این کو ایک انٹر ویو دیا۔اس انٹر ویو پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔بڑی تعداد میں اہل دانش اور تجربہ کا ر لوگوں کے قلم سے بہت سی تحریریں اس حوالے سے آئی ہوں گی۔مجھے ذاتی طور پر وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس انٹر ویو میں کی جانے والی بیشتر باتوں سے کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ کچھ باتوں کی تو میں تعریف بھی کروں گا کچھ باتیں جو انہوں نے اس انٹر ویو میں کہیں وہ کہنی چاہیے تھیں بلکہ کہنی ضروری بھی تھیں۔لیکن ایک بات جو وزیر اعظم نے کی اس سے میں شدید اختلاف کروں گا اور یہ بات تھی کہ حقانی نیٹ ورک ایک پشتون قبیلہ ہے۔ایک نا قابل فہم بیان ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے ایک افسردہ کر دینے والا بیان ہے، جو کہ کسی صورت بھی وزیر اعظم پاکستان کی زبان سے ایک ہائی پروفائل بین الا اقوامی انٹر ویو میں نہیں آنا چاہیے تھا۔یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ حقانی کوئی پشتون قبیلہ نہیں ہے۔اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ جتنے ایچسن کالج لاہور سے فارغ التحصیل طلبا کو جتنا قبیلہ تصور کیا جاسکتا ہے حقانی بھی بس اتنا ہی قبیلہ ہیں۔
حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے درحقیقت مدرسہ حقانیہ کے فارغ الّتحصیل طلبا ہیں جن کو حقانی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔یہ وہ مدرسہ تھا جو مولانا عبد الحق صاحب مرحوم کے نام سے منسوب ہے۔حقانیوں کے بارے میں یہ بات وزیر اعظم صاحب کے منہ سے سن کر مجھے یہ احسا س ہو ا کہ وزیر اعظم کو اپنے ہی ملک کی معلومات پوری طرح نہیں رکھتے ہیں۔بہر حال میں اس کے علاوہ ایک اور موضوع پر بھی بات کرنا چاہوں گا اور وہ ہے،انگریزی زبان کے استعمال کے خلاف وزیر اعظم کے بیانات۔
معلوم نہیں کہ وزیر اعظم کسی بھی موضوع پر بیان دینے سے قبل کچھ سوچتے ہیں یا پھر ایسے ہی بیان داغ دیتے ہیں۔بظاہر محسوس ایسا ہو تا ہے کہ وزیر اعظم صرف اور صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اردو زبان بولنے پر زور دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کی ترقی کے لیے تمام ممکنہ کوشش کرنی چاہیے لیکن یہ امر بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریزی اس وقت تسلیم شدہ رائج الوقت بین الا اقوامی زبان ہے،جس کا سیکھنا اور سمجھنا ہمارے لیے اور ہماری نئی نسلوں کے لیے دور حاضر میں ترقی کرنے کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔انگریزی زبان ایک ایسی زبان ہے جو گزشتہ تین صدیوں سے اس خطے میں رائج ہے اور تمام حکومتی نظام اسی زبان میں چلتا ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے،بھارت میں ایک طویل عرصے تک فارسی لشکری زبان رہی جس پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔اور اب چونکہ ایک زبان آج کے دور میں رائج ہے اور عوام اسے پڑھنا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھانا چاہتے ہیں بلکہ یہ زبان اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے ہر قسم کی قربانی بھی دینے کو تیار ہیں،اس وقت ہمارے ملک میں نجی شعبے میں جتنے بھی تعلیمی ادارے چل رہے ہیں۔چاہے وہ سکول ہوں،کالج ہوں یا پھر یو نیورسٹیاں سب میں تعلیم کا ذریعہ انگریزی زبان ہی ہے۔اس بات سے ہمیں یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہماری قوم کو انگریزی زبان سے چڑ نہیں ہے بلکہ عوام اسے ترقی اور ٹیکنالوجی کی زبان سمجھتے ہیں۔اور کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے،یہ زبان جدید تعلیم کا لازمی حصہ بن چکی ہے،میں یہاں پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک طے شدہ چیز کو دوبارہ سے چھیڑنا کسی صورت بھی دانش مندی نہیں ہے۔ایک نان ایشو کو ایشو بنانے والی بات ہے جو کی کسی صورت میں مثبت سوچ نہیں ہے۔ہم بات کررہے تھے وزیر اعظم کے انٹر ویو کی،وزیر اعظم صاحب اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں او ر ملک کے حوالے سے فیصلے کرنا ان کا حق ہے،لیکن وہ ایک جمہوری ملک کے وزیر اعظم ہیں کوئی مطلق العنان حکمران نہیں ہیں،یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی محسوس ہو تا ہے کہ وہ مطلق النان حکمران بننے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔
بہر حال جمہوری نظام میں تمام سیاسی رہنماؤں اور ہر قسم کی سوچ رکھنے والی شخصیات سے اہم قومی امور پر بات چیت اور ان سے مشورہ لینا نہایت ہی ضروری ہو تا ہے۔بلکہ ہر صورت میں لینا چاہیے چاہے وہ افغانستان کا مسئلہ ہو یا پھر امریکہ کے ساتھ تعلقات کا،ہندوستان کی جا رحیت کا مسئلہ ہو یا پھر کشمیر اور فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کا تمام معاملات اگر اجتماعی دانش سے فیصلے کیے جائیں تو میرا یقین ہے کہ یہ ملک بہتر انداز میں آگے بڑھ سکے گا۔لیکن کیا جائے ہمارے موجودہ وزیر اعظم تو اپوزیشن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہی پسند نہیں کرتے ان سے بات کرنا بھی ان کو گوار نہیں ہو تا،قومی مشاورت تو بہت دور کی بات ہے۔اگر ہمارے اکابرین کے درمیان ایسے ہی تناؤ اور فاصلے رہے تو ہماری پوری قومی سوچ یا ہمارا قومی وژن بالکل دب کر رہ جائے گا۔ہمیں ان حالات میں قومی مشاورت کی اشد ضرورت ہے۔
تمام اپوزیشن جماعتیں چاہے وہ پارلیمان کے اندر ہیں یا پھر پارلیمان کے باہر ہیں ان کو بلایا جائے اور آزادانہ بحث کرنے دی جائے دو سے تین روز تک تمام قومی امور پر سیر حاصل بحث کرکے قومی پالیسی تیار کی جائے تاکہ دنیا کے سامنے پاکستانی قوم کی ایک مشترکہ رائے سامنے رکھی جائے اور اسی صورت میں پاکستان کی رائے میں وزن بھی پیدا ہو گا اور دنیا ہماری بات سنے گی۔میرے لیے یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ ہم اس وقت امریکہ کو حکومتی سطح پر دھتکارنے میں لگے ہوئے ہیں،امریکہ اس دنیا کا ایک بہت بڑا ملک ہے کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے اور کسی صورت میں کمزور ملک نہیں ہے۔ہمیں ماضی میں کی گئی اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔امریکہ ماضی میں مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے،لہذا ہمیں بھی امریکہ کے ساتھ لو ہیٹ (love hate) کے اس تعلق کو برقرار رکھتے ہوئے روابط بحال رکھنے چاہئیں۔ٹیلی فون کال کے حوالے سے جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ نامناسب ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہیے۔پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات تو ہر شعبے میں ہیں اور اگر ان روابط کو درست انداز میں استعمال کیا جائے تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے،اور یہ اس وقت ہمارے دفتر خارجہ اور سفارت کاروں کا امتحان ہے کہ نا مساعد حالات میں بھی ملک کے لیے بہتری کی راہیں تلاش کی جا ئیں۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain