All posts by Daily Khabrain

سپرطاقت اوربڑی غلطی

وزیر احمد جوگیزئی
مسلمان ہونے کے ناطے علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود قرآ ن شریف میں کہا ہے کہ ہم نے انسان بنایا۔اور اس کو زبان بولنا سیکھائی اور پھر اسی زبان کے ذریعے علم دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔اور علم انسان کو انسان بناتا ہے۔اگر انسان علم حاصل کرنے کے بعد اچھا انسان بن جاتا ہے تو یقینی طور پر اچھا مسلمان بھی ہو گا اور کرشماتی طور پر اس کو کامیا بیاں بھی ملیں گی۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم انسان کو پہلے مسلمان بناتے ہیں اور پھر اس کے بعد کچھ اور بنانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ در حقیقت ہونا اس کے الٹ چاہیے۔قران شریف میں واضح طور پر انسان کی بات کی گئی ہے نہ کہ مسلمان کی قرآ ن شریف انسان کو مخاطب کرکے اسے تعلیمات دیتا ہے اور پھر ان تعلیمات کے زیر اثر جب مسلمان بنتا ہے تو طارق بن زیاد بھی بنتا ہے،خالد بن ولید بھی بنتا ہے اور ارطغرل غازی بھی بنتا ہے۔اصل میں مسلمان بننا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
ایک مسلمان کو بے خوف ہونا چاہیے اور ڈٹ کر برائی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ایسی برائیوں کا مقابلہ مسلمان کرتا ہے جو کہ انسان کی نشو نما اور بہبود کے خلاف ہوں جو مسلمان ڈر جاتا ہے وہ ایک کمزور مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر رحم اور مہر بانی کرے ہم سب کا شمار اسی کیٹگری کے مسلمانوں میں ہو تا ہے۔میں اپنی اس بات کو موجودہ دور اور سیاست کے زمرے میں دیکھوں تو آج کی دنیا میں ہم بطور قوم امریکہ سے مرعوب ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔اور بات یہاں ختم نہیں ہو تی ہم تو اتنا ڈرتے ہیں کہ ان کے بارے میں سچ بولنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔افغانستان کے تناظر میں بات کروں تو حال ہی ہم نے دیکھا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کیا حشر ہوا ہے،اللہ کے نڈر بندوں نے 40سال کی مسلسل کوشش کے بعد افغانستان میں امن قائم کیا ہے اور حکومت حاصل کر لی ہے۔اس طویل جد و جہد کے دوران وہ ہر طرح کی آزمائش سے گزرے ہیں۔طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلا ت کا سامنا کیا بد ترین تذلیل اور تشدد کا سامنا بھی کیا اس سب کے بعد انسان یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ان میں ایسی کیا بات تھی کہ وہ دنیا کی طا قت ور ترین قوتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے؟ ان میں آخر کچھ تو ایسی بات ہو گی کہ ایسا ممکن ہوا جو کہ بظاہر ناممکن تھا اس کا جواب انسان کے ذہن میں یہی آتا ہے کہ یہ لوگ سچے مسلمان ہیں اور ایمان کی طاقت سے لبریز ہیں اور کسی طرح سے بھی کمزور مسلمان نہیں ہیں۔یہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔افغان قوم اس لحاظ سے شاید دنیا کی نرالی قوم ہے کہ انھوں نے کسی بھی طرز حکومت پر اکتفا نہیں کیا ہے پہلے بادشاہت کی حکومت کا خاتمہ کیا،اس کے بعد جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کیا سوشلسٹ حکمرانوں کو بھی نہیں ٹکنے دیا گیا اور ان کو بھی افغانستان سے نکال باہر کیا۔طویل جدو جہد کے بعد جب سویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کیا گیا تو افغان عوام بلا شبہ ایک عظیم فتح سے ہمکنار ہو ئے لیکن دنیا کی سامراجی قوتوں کو افغان عوام کی فتح پسند نہیں آئی اور افغانستان کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔افغانستان کی تاریخ کے اس تاریک دور میں تحریک طالبان ابھری اور انھوں نے افغانستان کو امن دیا،استحکام دیا اور افغان عوام کو ایک بہتری کی امید دلائی لیکن اس کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا دنیا میں سوائے تین ممالک کے کسی نے ان کی حکومت کو تسلیم تک نہ کیا۔افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ایک طرح سے دنیا سے کاٹ دیا گیا جس کا نتیجہ کیا نکلا کہ افغان سرزمین اور افغان عوام محرومیوں میں گھرتے چلے گئے اور افغان سرزمین پر ایسی قوتوں نے جنم لیا جن کو شاید جنم نہیں لینا چاہیے تھا اور انھی قوتوں کے باعث افغانستا ن میں ایک اور جنگ مسلط ہوئی۔
امریکہ نے قبضہ کیا اور اس کے بعد اس تحریک کے ارکان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ میں شاید اپنے قلم سے یہاں پر تحریر بھی نہ کر سکوں۔اس کے بعد کی کہانی بھی سب ہی جانتے ہیں امریکی نے افغانستان میں ڈالروں کا انبار لگادیا۔ایک فوج بنائی،ایک انتظامیہ تشکیل دی گئی کچھ حکمران بھی منگوائے گئے یعنی کہ حکمرانی کے جو بھی لوازمات ہوتے ہیں وہ سب پورے کیے گئے لیکن اگر کچھ نہیں کیا تو وہ یہ تھا کہ اس تمام کٹھ پتلی نظام کو افغان عوام کی حمایت اور قبو لیت بلکہ اگر ”اونر شپ“ کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا،نہیں دلواسکے۔دنیا کی سپر پاور اپنی طاقت کے نشے میں عوام کو کچھ سمجھتی ہی نہیں ہے اور شاید یہی سپر پاور کی سب سے بڑی غلطی ہو تی ہے جس کے باعث ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔عوام کی طاقت اور حمایت کے بغیر کو ئی بھی نظام نہیں چلایا جاسکتا ہے عوام ہی وہ بنیادی قوت ہوتی ہے جس کے اوپر ایک نظام کھڑا کیا جاتا ہے۔اس لیے کوئی بھی حکمران کتنا ہی عظیم اور طاقت ور کیوں نہ ہو عوام کی طاقت کے بغیر زیادہ دیر چل نہیں سکتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو بہر حال خلق کی آواز کو خدا کی آواز سمجھنا چاہیے۔اور افغانستان میں اس آواز کا نہ کو ئی لحاظ کیا گیا اور نہ ہی کوئی بھروسہ کیا گیا اور سامراجی قوتوں کی جانب سے اس قسم کا رویہ صرف اور صرف افغانستان کے حوالے سے روا نہیں رکھا گیا ہے بلکہ امریکہ نے ہر ترقی پذیر اور غریب ملک کے عوام کو انسان سمجھنے سے انکار کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اتنی بڑی طاقت ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں تتر بتر ہے۔اور اسی رویے کی وجہ سے امریکہ کے دنیا میں مقاصد پورے نہیں ہو پاتے ہیں۔بہرحال طالبان خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں افغانستان پر حکومت کا دوسرا موقع دیا ہے اور وہ گولی چلائے بغیر کابل میں داخل ہو گئے اور قبضہ کر لیا۔لیکن دنیا کی مقتدر قوتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ دنیا میں ایک صحیح مسلم ریاست وجود میں آئے ایک ایسی مسلم ریاست جس کا نقشہ علامہ محمد اقبال نے خطبہ الٰہ باد میں پیش کیا تھا،پاکستان کے نصیب میں تو ایسی ریاست بننا نہ تھا لیکن افغانستان اپنے نڈر عوام کی وجہ سے ایسی ریاست ضرور بن سکتا ہے۔ایک ایسی ریاست جس کے خوف سے آج امریکہ بھی نئے اتحاد بنا تا پھرتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

نومور کی قیمت چکانا پڑتی ہے

سید سجاد حسین بخاری
اخبار کی لیڈ ہے کہ ”کرکٹ میچز منسوخی نومور کی قیمت“ (Do more) ڈومور کا جملہ پرویز مشرف دور کی ایجاد ہے۔ جس کی تاریخی حیثیت ہے اور ”نومور“ کا جملہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہا اور وہ بھی اقتدار میں آنے سے پہلے۔ امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر طاقت ہے جبکہ دنیا میں امریکہ کے علاوہ فی الحال ایسا ایک بھی ملک نہیں ہے جو سپر طاقت بننے کی شرائط/لوازمات پورے کرتا ہو۔ مقابلے میں روس تھا وہ قصہ پارینہ بن چکا۔ جرمنی نے 2030ء میں سپرطاقت بننے کا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے۔ چین بڑی تیزی سے سپرطاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے مگر امریکہ اپنی بھرپور طاقت کے ذریعے چین کا گھیراؤ کئے ہوئے ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ 2025ء تک امریکہ چین کو سپر پاور بننے دیتا ہے یا نہیں، تاہم چین سپر طاقت کی شاہراہ پر فل سپیڈ سے جا رہا ہے اور سفر بھی بہت کم رہ گیا۔ اگر کوئی حادثہ نہ ہوا تو چین منزل تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔ ڈومور اور نومور کی آوازیں ہمارے ہوش سنبھالنے کی ہیں اور ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے نومور کرنے والوں کا انجام دیکھا ہے۔ تیسری دنیا کے سیاسی رہنماؤں پر آپ ایک نظر ڈالیں تو سب کچھ آپ پر واضح ہو جائے گا۔ بھٹو دور سے بات کا آغاز کرتے ہیں اس سے قبل صدر ایوب اور اس سے پہلے لیاقت علی خان کا قتل اور ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانے کی بات ایک تاریخ ہے جس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر بھٹو دور کے تو ہم خود گواہ ہیں کہ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور وزیراعظم بھی بن گئے تو انہوں نے امریکہ اور یورپ کو بڑا آسان لیا اور کمال یہ کیا کہ تیسری دنیا کا نعرہ لگا دیا۔ اپنی اسلامی اقوام متحدہ، اپنا اسلامی ورلڈ بینک اور امریکہ کو سفید ہاتھی قرار دے دیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ تمام عرب ممالک کو اکٹھا کرلیا اور انہیں تیل بند کرنے کا سبق پڑھایا۔ شاہ فیصل شہید نے جب امریکہ کا تیل بند کیا تو فراٹے بھرتی ہوئی امریکی گاڑیاں سڑکوں پر رک گئیں۔ دنیا بھر کے میڈیا نے وہ مناظر شائع کئے۔ امریکہ کی جگ ہنسائی تو ہوئی مگر ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، یاسر عرفات اور کرنل قذافی کا انجام تاریخ کے اوراق پر موجود ہے۔ بھٹو کے بعد ضیاء الحق ڈومور کی تعمیل کرتے کرتے بالآخر تھک گئے اور انہوں نے بھی افغانستان کے مسئلہ پر نومور کا نعرہ نہیں صرف ایک لائن لکھی تھی حالانکہ اس وقت کے وزیر خارجہ زین نورانی نے ضیاء الحق کو مشورہ بھی دیا تھا مگر ضیاء الحق کی قسمت کہ انہوں نے سولو فلائیٹ کا فیصلہ کرلیا اور پھر انجام ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ امریکہ یقینا ایک سپرطاقت ہے وہ کسی صورت اپنے زیر اثر کسی ملک کے حکمران کو سولو فلائیٹ نہیں کرنے دیتا۔ ضیاء الحق کے بعد بینظیر اور نوازشریف آپ کے سامنے ہیں۔
پرویزمشرف نے امریکہ کی بڑی تابعداری کی حتیٰ کہ انہیں تو کہا جاتا تھا کہ مشرف امریکہ کی ایک کال پر لیٹ گیا اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے مشرف کو خوب استعمال کیا خصوصاً افغانستان کی صورتحال کے بارے میں مگر بعد میں امریکہ نے مشرف پر ڈبل گیم کرنے کا الزام لگا دیا۔ اس اثناء میں نوازشریف کی امریکہ سے گوٹی فٹ ہوگئی تھی۔ امریکہ کا بڑا مقصد پاک فوج کو کمزور کرنا تھا اور وہ کام نوازشریف کو سونپا گیا جو نوازشریف اور مریم نواز بڑے احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے بھی جب ملکی مفاد میں چند اہم فیصلے کئے جو امریکہ کی مرضی کے خلاف تھے تو مشرف بھی مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیئے گئے اور آج وہ دیارغیر میں بے یارومددگار پڑے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھٹو کے بعد عمران خان دوسرا سرپھرا وزیراعظم ہے جو پوری دنیا کو عموماً اور امریکہ کو خصوصاً نومور سناتا ہے۔ کیا امریکہ یہ برداشت کرے گا؟ پاکستان بڑا خوش ہے کہ چین، روس، ترکی اور ایران کا خطے میں ایک طاقتور بلاک بن گیا ہے، اب امریکہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو یہ دیوانے کا خواب ہوسکتا ہے۔ اس بلاک سے پہلے ایک آر سی ڈی ایران، ترکی اور پاکستان نے بنایا تھا وہ کہاں گیا؟ ہم خوش ہیں کہ چین کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ سونے اور ڈالر کے ذخائر ہیں، یہ سچ ہے مگر صرف پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا اور پھر چین کو اس کے اپنے ہمسایوں سے پھنسوایا جا رہا ہے۔ شمالی کوریا اور بھارت سرفہرست ہیں۔
جاپان، آسٹریلیا اور دیگر چھوٹے ممالک کے علاوہ پورے یورپ کو امریکہ نے چین کے سامنے لاکھڑا کیا ہے اور امریکہ کی فی الحال ایک ہی خواہش ہے کہ چین کی ترقی کو روکا جائے۔ اس بابت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر ایک بات طے ہے کہ امریکہ آسانی سے چین کو سپرطاقت نہیں بننے دے گا اس کیلئے خواہ امریکہ کو جو قیمت چکانا پڑے۔ جہاں تک ہمارے خطے کا تعلق ہے اس میں چین، ترکی، روس اور ایران کی صف بندی تو ہو چکی ہے مگر پاکستان کس طرف ہے؟ امریکی صدر نے صرف ایک فون نہیں کیا تو ہمیں نیند نہیں آرہی اور اسے ہم بے عزتی سمجھ رہے ہیں حالانکہ امریکی حکومت نے عمران حکومت کو اسی دن اپنے مخالفین کی فہرست میں لکھ دیا تھا جب عمران خان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا تھا۔ تفصیل دینے کی گنجائش نہیں ہے صرف ایک جملہ عرض کرونگا کہ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک ایک رول ماڈل تھی اسی طرح امریکہ اب کئی طریقوں سے عمران حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرے گا، لہٰذا حکومت یہ بھول جائے کہ امریکہ آرام سے بیٹھے گا، پاکستان کو نومور کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس کی درجنوں صورتیں ہو سکتی ہیں لہٰذا ہمیں گھبرانے کے بجائے کسی بلاک میں شامل ہونے کا جلد فیصلہ کرنا چاہیے بلکہ کسی مجوزہ بلاک کی تشکیل کے سلسلے میں ہمیں ایک بڑا اور مرکزی کرداراداکرناچاہیے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خبریں کی خبر پر ایکشن ایم جی موٹرز کا منیجر اور سکیورٹی گارڈ گرفتار‘ مقدمہ درج

لاہور (خصوصی ر پورٹر) خبریں، چینل 5 بنا ایک بار پھر مظلوم کی آواز، ایم جی موٹرز کی انتظامیہ کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے شہری کی نشاند ہی کر نے پر پولیس نے ملازم کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا۔ تھا نہ فیکٹر ی ایریا میں در ج ایف آئی ار نمبر 3508 کے مطا بق مقد مہ مدعی غلام حسین کیمطا بق عرصہ 30/35 سال سے ثوبل احمد گوندل کے پاس ملازمت کر رہا ہے، مقد مہ مدعی کیمطا بق میرے مالک نے پیجز مال سے MG گاڑی بک کروا رکھی تھی 24تا ریخ کو ایم جی مو ٹرز کی والوں کی طرف سے فون کال موصول ہوئی کہ اپنی گاڑی آکر لے جائیں میں اورجس پر مالک ثوبل گوندل تقریبا 4 بچے شام پیکجز مال پہنچے ثوبل تو مزکو ر ہ موٹرز کے GM سے بات کی جو باتوں باتوں میں ان کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی مزکور ہ کی کے GM اور اس کے سٹاف نے ثوبل گوندل کے ساتھ بد تمیزی اور گالی گلوچ شروع کر دی جو نے ان کو سمجھایا لیکن وہ لوگ باز نہ آئے تو ثوبل گوندل نے بھی ان کو سخت الفاظ کہے شو روم MG سے اور پیجز مال سے باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جانے لگے تو اتنے میں مزکو ر ہ شورم کے GM زبیر احمد، سیکیورٹی گارڈ محمد یاسر، سکیورٹی گارڈ ن غفار سمیت 13/20 کسی نامعلوم افراد جن کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتے ہیں کے ہمراہ آگئے اور زبردستی گاڑی کو روک لیاجس پر ہم نے گاڑی سے نکل کر بات کرنے کی کوشش کی توملزم GM اور اس کے ساتھیوں نے زبردستی گاڑی کے دروازے نہ کھولنے دیئے اس دھکم پیل کے دوران ثوبل گوندل کی طبیعت خراب ہو گئی اور بے ہوش ہو گئے میں نے فورا ان کے پینے غوث گوند ل کو اطلاع دی اور GM اور دیگر افراد کو منت سماجت کی کہاان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ہمیں طبی امداد کیلئے ہسپتال جانے دیں لیکن ان تمام لوگوں نے میری ایک نہ سنی اور ہماری گاڑی کو زبردستی روکے رکھا اسی دوران کابیٹا غوث بھی موقع پر بھی کیا اور جب ہم نے ثوبل گوندل کو چیک کیا تو وہ ہلا ک ہو چکے تھے جس کے بعد کیلئے ان کو اتفاق ہسپتال لے کر آئے جہاں پر ہسپتال والوں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔پولیس نے واقعہ کا مقد مہ در ج کر کے تفتیش کاآغاز کردیا ہے۔

مریم نواز آرمی چیف کی توسیع کی مخالف حمزہ نے حمایت کردی

لاہور(خبر نگار خصوصی) پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز قلمکار روڈ پرگذشتہ روزلیگی رہنما حاجی شرافت لیاقت بھٹی کے گھر گئے،جہاں انہوں نے ایم پی اے رمضان بھٹی کے تایا زاد بھائی حاجی نور محمد بھٹی کے انتقال پر اہلخانہ سے تعزیت کی،اس موقع پر حمزہ شہباز نے حاجی نور محمد بھٹی مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعا بھی کی،بعدازاں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج قوم ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جو کبھی دیکھا نہ سنا، آئے روز آٹے چینی اور بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے، گیس کے گھریلو صارفین کے پینتیس فیصد قیمتیں بڑھ رہے ہیں، یہ پی ٹی آئی کی حکومت نہیں پی ٹی آئی کا عذاب ہے، پچاس لاکھ گھر اور ایک لاکھ نوکریاں کہاں ہے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے چینی آٹا پشاور میٹرو کے اربوں روپے نظر آتے ہیں، قوم ڈینگی بھول گئی تھی شہبازشریف نے ڈینگی کامقابلہ کیا، ادویات چار سو فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، پی ٹی آئی حکومت کے عذاب سے نجات دلاناؤگی، انہوں نے مزید کہا کہ عوامی رابطہ مہم سبز باغ چکنا چور ہوگئے ایسے ملک آگے نہیں چل سکتا سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مفاہمت کامطلب دو سال جیل میں چلے جائیں ہم سیاسی جدوجہد پربقین رکھتے ہیں،2018ء کا پہلا داغدار الیکشن تھا، مفاہمت کا مطلب آئندہ انتخابات میں سب کو موقع ملنا اور صاف و شفاف الیکشن ہونا چاہئیے،پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف ایکسٹیشن کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ووٹ دینے کا قیادت کا فیصلہ تھا، قومی مفاد کے پیش نظر ووٹ دیا جو درست فیصلہ تھا، اپوزیشن نے پی ڈی ایم پلیٹ فارم ایوانوں میں احتجاج کیا موقع دیا تاکہ یہ لوگ ایکسپوز ہوں،مہنگائی مسئلہ نمبر ون ہے کرپشن میں عوام کو الجھایاجاتاہے، پنجاب حکومت میوزیکل چئیر بن گئے ایک دن میں اٹھارہ کمشنر اور چیف سیکرٹریز تبدیل ہوتے ہیں، ریپ کے کیسز عام حکومت امن و امان میں ناکام کیونکہ پولیس کو رشوت سے لگایاجاتاہے، حکومت کی کوئی کورونا پالیسی نہیں جس پر ریڈ لسٹ میں ڈالا جاتاہے، حکومتی وزراء کہتے دنیا بھر میں مہنگائی ہے لیکن پاکستان کی معیشت زمیں بوس ہو چکی ڈالر ایک سو ستر روپے کا ہوچکا ہے،ان کا کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ اور ہیلی کاپٹر کیس کا ملزم عمران خان ہے بنی گالہ کا محل چند لاکھ سے ریگولرزائز لیکن غریب کی جھونپڑی ناجائز تجاوزات سے گرا دئتے ہیں،ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے شرم کریں، نیوزی لینڈ کی ٹیم چلی گئی جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر قیادت نے آپس کے جھگڑے ختم نہیں کیے تو پھرہم کبھی کام یاب نہیں ہو سکیں گے۔موجودہ حکومت کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے، لیکن ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) زیراہتمام ہونے والے ورکرز کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ جھگڑے ہمارے عام کارکن کے نہیں بلکہ قیادت کے ہیں۔ اگر قیادت نے اپنے جھگڑے ختم نہ کیے تو پھر ہم کبھی بھی کام یاب نہیں ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کنٹونمنٹ کے الیکشن میں 73 فیصد ووٹ موجودہ حکم رانوں کے خلاف پڑا، اور ان انتخابات میں ن لیگ کی کامیابی عوام کے لیے کی گئی خدمت کا صلہ ہے۔ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ عوام کی خدمت کی ہے، لیکن آئندہ انتخابات میں کام یابی کے لیے ہمیں اتحاد قائم کرناہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں ہونے والے انتخابات شفاف نہیں تھے، عوام مہنگائی اور غربت سے تنگ آچکی ہے، موجودہ حکومت کابوریا بستر کسی بھی وقت گول ہوسکتا ہے، پاکستان میں انتخابات کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں.

سی پیک میں توسیع طالبان حکومت بھی شمو لیت پر تیار

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے، ان کا موقف قابل تحسین ہے، چاہتے ہیں سی پیک میں شامل ہوں، پاکستان ہمارا پڑوسی ملک اور افغانوں کا دوسرا گھر ہے، افغانستان کو پشاور اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے منسلک کیا جائیگا جبکہ سی پیک منصوبہ اہم ہے جس پر تھوڑی تحقیق کی ضرورت ہے، دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قیادت معاملیپر غورکریگی۔ افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کے نئے حکمران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ کئی ممالک نے امریکہ اور عالمی برادری کے سامنے ہمارے حق میں آواز اٹھائی، 6روز قبل چین اور روس نے بھی ہماری حکومت کے حق میں بات کی، قطر، ازبکستان اور دیگر ممالک نے بھی مثبت موقف اپنایا ہے۔ ترجمان طالبان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ عالمی برادری کے روابط ضروری ہیں، افغانستان کو تجارت اور اقتصادی امور میں ہمسایہ ممالک کی ضرورت ہے اور اس بات کی توقع ہے کہ ہمسایہ ممالک اپنا مثبت کردار جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنج شیر میں لڑائی ختم ہوچکی ہے، بیشترمقامی عمائدین، علمائے کرام اور مجاہدین ہمارے ساتھ ہیں، ہم کسی کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے اور پوری دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، لیکن اگر کوئی لڑائی یا حملے کی خواہش رکھتا ہے تو سخت جواب دیا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے بعد ہماری ترجیح ہے کہ تجارت فروغ پائے، لاکھوں افغان مہاجرین اب بھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، ہماری زبان، مذہب مشترکہ اور رسم ورواج بھی ایک جیسے ہیں جبکہ دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قیادت معاملے پر غورکریگی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغان سرزمین کسی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، ہم ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، کشمیری ہمارے بھائی ہیں، اس لئے عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم بند کرائے۔ ترجمان طالبان نے کہا کہ کشمیری،میانمار اور فلسطینی بھائیوں کی سیاسی و سفارتی حمایت کریں گے۔ دوسری جانب طالبا ن نے عالمی برادری سے افغانستان کے لئے بین الاقوامی پروازوں کی بحالی کی اپیل کردی ہے۔ افغان وزارت خارجہ نے امریکہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کا خیر مقدم کرتے ہوئے بین الاقوامی پروازوں کی بحالی کی درخواست کی اور کہا کہ طالبان قیادت تمام ایئر لائنز کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتی ہے، نئے سیاسی نظام کی آمد کے باعث ایوی ایشن کو ٹیکنیکل مسائل کا سامنا تھا جس کے باعث بین الاقوامی پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ اب کابل ایئرپورٹ مکمل طور پر آپریشنل ہے، لہٰذا عالمی برادری پروازوں کو بحال کرے،وطن لوٹنے کے خواہش مند افغان شہری دیگر مما لک میں پھنسے ہوئے ہیں اور نہ ہی بیرون ملک نوکری اور تعلیم حاصل کرنے والے افغان شہری باہر جا پا رہے ہیں۔ طالبا ن نے امریکی حکومت کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کا خیر مقدم کرتے ہوئے عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں سے افغانستان کی امداد کی اپیل کی ہے جبکہ امریکہ نے افغان طالبان پر پابندیوں میں کچھ نرمی کرتے ہوئے انسانی امداد کی فراہمی کے لیے دو لائسنس جاری کئے تھے۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ نے چین اور قازقستان کے سفیروں سے ملاقاتیں کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کی مکمل بحالی پر زور دیا جبکہ عالمی ادارہ برائے اطفال کی جانب سے صوبہ جوزجان میں طبی سہولیات پہنچائی گئیں۔

اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ کراچی کے ساحلی زون کو سی پیک میں شامل کرنا گیم چینجر ہے، ماہی گیروں کیلئے سمندر کو محفوظ بنائیں گے۔ اتوار کو ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کراچی کے ساحلی زون کو سی پیک میں شامل کرنا گیم چینجر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہی گیروں کیلئے سمندر کو محفوظ بنائیں گے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ساحلی زون منصوبہ کے تحت کم آمدنی والے افراد کیلئے 20ہزار گھریلو یونٹ تیار کریں گے جس سے سرمایہ کاروں کیلئے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو دیگر ترقی یافتہ پورٹ سٹیز کے برابر لائیں گے۔ وزارت بحری امور نے سی پیک کے تحت کراچی کے لیے اقتصادی ٹرانسفارمیشن پراجیکٹ کا اعلان کر دیا۔ وفاقی وزیر ساحلی امور علی زیدی نے منصوبے کی تفصیلات ٹوئیٹ کے ذریعے جاری کردیں، کراچی کوسٹل کمپری ہینسیو ڈیولپمنٹ زون (کے سی سی ڈی زیڈ) 3.5ارب ڈالر سے مکمل ہونے والا منصوبہ کراچی کو ایک جدید شہری انفرااسٹرکچر زون فراہم کرے گا، منصوبہ کے پی ٹی کے ساتھ شراکت میں براہ راست چینی سرمایہ کاری سے تعمیر ہوگا۔ وفاقی وزیر ساحلی امور علی زیدی کے مطابق منصوبہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ اسلام آباد اور بیجنگ میں منعقد سی پیک پر دسویں جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے اجلاس میں دونوں ممالک نے کراچی کوسٹل کمپری ہینسیو ڈیولپمنٹ زون کو سی پیک فریم ورک میں شامل کرنے پر اتفاق کرلیا۔ منصوبے کے لیے کراچی پورٹ کے مغربی بیک واٹر کی 640ایکڑ دلدلی زمین ری کلیم کی جائے گی۔ اتوار کو اپنے جاری بیان میں وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق کم لاگت کی رہائشی سہولت کی فراہمی بھی کے سی سی ڈی زیڈ منصوبے کا حصہ ہے جس سے ملحقہ کی آبادیوں کے 20ہزار خاندانوں کی ری سیٹلمنٹ کی جائے گی۔ اس ماحول دوست منصوبے میں کراچی پورٹ پر چار نئی برتھوں کا بھی اضافہ کیا جائے گا جس سے پاکستان کے بڑھتے ہوئے میری ٹائم سیکٹر کی استعداد میں اضافہ ہوگا۔ جدید سہولتوں سے آراستہ فشنگ پورٹ اور عالمی معیار کا فشریز پراسیسنگ زون بھی منصوبہ کا حصہ ہے جس سے پاکستان کے تجارتی امکانات میں اضافہ ہوگا۔ منصوبہ میرین ایکو سسٹم کو بہتر بنانے کے ساتھ سمندری آلودگی کو بھی کم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ منصوبے میں لیاری ندی پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر بھی شامل ہے۔چین کی معاونت سے تعمیر ہونے والے اس اہم پراجیکٹ کو ایک ہاربر برج کے ذریعے کراچی سے منسلک کیا جائے گا یہ پل پاکستان ڈیپ واٹر پورٹ کے عقب سے شروع ہوکر منوڑہ جزیرے اور سینڈزپٹ کے ساحل پر ختم ہوگا۔

 

تم کیا جانو،چاند نگر میں کتنی پریاں رہتی ہیں

علی سخن ور
ج سے محض دس بارہ دن پہلے تک، سارے پاکستان میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن سے زیادہ ہ مقبول مغربی لیڈر اور کوئی بھی نہیں تھا۔کرائیسٹ چرچ سانحے کے بعد جسینڈا نے مسلمانوں کی گلے لگ لگ کر جس انداز میں دل جوئی کی، اس کے بعد تو معصوم مسلمان ان کے دیوانے ہی ہوگئے۔ بعض تصاویر میں سیاہ سکارف میں لپٹی اس مغربی خاتون کے بارے میں کچھ خوش فہم نیک فطرت مسلمان تو یہاں تک کہنے لگے کہ جیسنڈا بہت جلد اسلام قبول کر لیں گی۔ لوگ اس حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ جسینڈا بی بی اگر وہ سب کچھ نہ کرتیں تو نیوزی لینڈ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے بد ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ لگ بھگ پانچ ملین آبادی والے اس خوبصورت سے ملک کی سب سے قیمتی چیز وہاں کا امن و امان ہے۔امن نہ ہو تو مری اور سوات کی دلکش وادیاں بھی بے کیف ہوجاتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر بھی اس حوالے سے جیتی جاگتی مثال ہے، وہاں امن ہوجائے تو دنیا کے دیگر تمام تفریحی مقامات ویران ہوجائیں، تمام سیاح آنکھیں بند کرکے اسی وادی کو اپنی منزل بنالیں۔ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں، خوشحالی آئے، لوگ ترقی کریں۔ مگر یہ سب کچھ بھارت سرکار کے لیے نہ توماضی میں قابل قبول تھا، نہ ہی آج۔ بھارتی قابض فوجی انسانی حقوق کی ایسی پامالی کا سبب بنتے ہیں کہ وادی خوف کے سیاہ بادلوں میں لپٹی رہتی ہے۔جسینڈا کو بھی یہی خوف تھا کہ بدامنی ان کے پرسکون رنگ برنگ معاشرے کو نگل جائے گی۔اسی لیے مسلمانوں کو شانت رکھنے کے لیے انہیں نا چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کرنا پڑا۔حقیقت کیا تھی اور سچائی کیا، سب کا سب نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے حالیہ دورہ پاکستان کی منسوخی کی صورت میں سامنے آگیا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر یہ دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی منسوخ ہوجاتا تو پاکستان کے لیے اتنا باعث تکلیف نہ ہوتا، ملکوں کی سفارتی تاریخ میں ایسے بچگانہ واقعات بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں کہ میچ شروع ہونے سے محض چند منٹ پہلے مہمان ٹیم کہے، ہمیں ڈر لگ رہا ہے، ہمیں گھر جانے دو۔
اگرچہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کمیں گاہ میں ہمارے دوستوں کے ڈیرے ہی دکھائی دے رہے ہیں لیکن پاکستان کو شکوہ بہر حال صرف اور صرف نیوزی لینڈ ہی سے رہے گا۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو ہمارے وزیر اعظم نے ذاتی طور پر فون بھی کیا اور یقین دلایا کہ نیوزی لینڈ ٹیم کی سیکیورٹی دنیا کی مانی ہوئی انٹیلی جنس ایجنسی اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے ہاتھ میں ہے، ٹیم کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں لیکن جسینڈا کو کسی بات پر یقین نہیں آیا۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ اٹھارہ سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی نیوزی لینڈ ٹیم کے کھلاڑی پاکستانی کرکٹرز کا مقابلہ کرنے سے خائف ہوں اور عزت بچانے کے لیے اس طرح کا جواز تلاش کر لیا گیا ہو۔ اگرچہ نیوزی لینڈ کا یہ رویہ دل دکھانے والا ہے لیکن پاکستانیوں کو ہمت رکھنی چاہیے، اس طرح کے اور بھی واقعات ابھی دیکھنے میں آئیں گے۔ افغانستان کے میدان میں منہ کی کھانے والی بہت سی طاقتیں ہم پاکستانیوں کو اپنی شکست کا ذمے دا ر سمجھتی ہیں، افغانستان کا سیاسی منظرنامہ بدلنے سے امریکا اور بھارت جیسے بہت سے ممالک کا لگا بندھا روزگار ختم ہوگیا،دکانداری چمکانے کے امکانات بھی معدوم ہوگئے،چین کو سورج کی طرح کھلے آسمان پر چمکنے کا موقع مل گیا، اس سب کے نتیجے تکلیف تو ہوگی، رونا بھی آئے گا اور دل میں انتقام کی آگ بھی سلگتی رہے گی۔ انتقام ایسی آگ ہے کہ بعض دفعہ تو خود انتقام کی خواہش رکھنے والے کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔اس وقت امریکا اور بھارت بھی ایسی ہی آگ میں سلگ رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہارے ہوئے یہ ممالک کس کس طرح اور کہاں کہاں ہمارے راستے میں روڑے اٹکائیں گے۔ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنا ہوگی کہ ملکوں کی زندگی میں تعلقات محض مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اگر مفادات کے علاوہ دیگر کوئی اور بنیادیں ہوتیں تو آج OICکا مردہ گھوڑا ریس کے میدان میں ہاٹ فیورٹ ہوتا۔ملکوں کے تعلقات شطرنج کی بساط جیسے ہوتے ہیں مگر شطرنج کی اس بساط کا بس ایک ہی اصول ہوتا ہے اور ایک ہی ضابطہ، ’فائیدہ اٹھاؤ۔بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو‘۔ برطانیہ کو ہی دیکھ لیں، ایک طرف ہمیں کرونا کے حوالے سے ریڈ لسٹ سے نکال دیا، سب پاکستانی بہت خوش ہوگئے لیکن تھوڑے ہی دن بعد، جسینڈا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان بھی یہ کہہ کر منسوخ کردیا کہ سیکیورٹی خطرات ہمیں پاکستان آنے سے روک رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا براہ راست انخلاء جب ممکن نہیں رہا تو انہیں پاکستان جیسے ”سیکیورٹی خطرات“ میں گھرے ہوئے ملک نے ہی ٹرانزٹ قیام فراہم کیا۔
پاکستان کو سیکیورٹی خطرات کا شکار ملک قرار دینے والی جسینڈا آرڈرن شاید یہ بات بھول گئی ہیں کہ ان کے اپنے ملک سے بڑھ کر سیکیورٹی خطرات میں گھرا ملک اور کون سا ہوگا کہ جہاں ایک خونی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد دو مختلف عمارتوں میں نہ صرف پچاس سے زائدبے گناہ انسانوں کو اپنے آٹومیٹک گن سے بھون دیتا ہے بلکہ اس سارے واقعے کو لائیو ٹیلی کاسٹ بھی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ 15مارچ2019کو ہونے والے اس سانحے میں پچاس سے زائد لوگ شدید زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے یقینا بہت سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی ہار چکے ہوں گے۔پاکستان کو سیکیورٹی تھریٹ کا شکار کہہ کر ٹیم واپس بلانے والے جسینڈا بی بی سے کبھی نہ کبھی یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ جب وہ خونی اس قتل عام کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تو آپ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں تھیں اور آپ کے سیکیورٹی ادارے کیا کر رہے تھے۔ یقینا یہ سوال بھی پوچھا جائے گا کہ پندرہ سے بیس منٹ تک جاری رہنے والے اس خونی کھیل کے دوران آپ کے سیکیورٹی ادارے وہاں زندہ بچ جانے والوں کی مدد کوکتنی دیر میں جائے وقوعہ تک پہنچے۔ تاہم انگلستان ہو یا نیوزی لینڈ، ایک بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے، آپ پاکستان کے جتنے بھی دورے منسوخ کر لیں، پاکستان پر سیکیورٹی تھریٹ کے جتنے بھی الزام لگا لیں، اللہ کے حکم سے آئندہ کرکٹ ورلڈ چیمپئن پاکستان ہی ہوگا۔اور ہم چاہیں گے کہ جیسنڈا آرڈرن اگر اس وقت نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نہ بھی ہوں تب بھی ہماری ٹیم کو ورلڈ کپ ملنے کی تقریب میں ضرور تشریف لائیں، ہم سب کو بہت اچھا لگے گا۔ ویسے قصور تھوڑا تھوڑا ہم سب کا بھی ہے کہ چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا کو پری سمجھ بیٹھے۔
(کالم نگار اردو اور انگریزی اخبارات میں
قومی اور بین الاقوامی امور پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

”میں لاہور ہوں“

میم سین بٹ
لاہور دنیا کا غالباََ واحد شہر ہے جس کی خاطر لوگ اپنا آبائی شہر چھوڑ دیتے ہیں اس شہر میں مقیم ہونے کے بعد انسان لاہور سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا اگرکسی مجبوری کے تحت اسے لاہورکو چھوڑنا ہی پڑجائے تو یہ شہر ہمیشہ انسان کے اندر زندہ رہتا ہے تقسیم ہندکے وقت لاہور میں مقیم بہت سے ہندو اور سکھ دانشوروں کو بھی شرنارتھی بن کر بھارت جانا پڑا تھا ان میں سے بہت سے لکھاری اپنی تحریروں میں لاہور شہرکو یاد کرتے رہے بعض نے تو لاہور پرکتابیں بھی لکھیں جن میں گوپال متل، پران نوائل، سنتوش کمار، خوشونت سنگھ وغیرہ شامل ہیں اب ڈاکٹرکیول دھیر بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں،جن کی افسانوی انداز میں لکھی ہوئی کتاب ”میں لاہور ہوں“ رواں ماہ لاہور سے ادارہ دربان کے تحت ماجد مشتاق نے شائع کی ہے جس کی ایڈیٹنگ طارق عزیز نے کی انہوں نے ہی کتاب ہمیں بھجوائی اس کا پہلا ایڈیشن انڈیا میں شائع ہوا تھا جس کے سرورق پر غالباََ شالیمار باغ کی تصویر تھی جبکہ لاہور میں چھپنے والی اس کتاب کے سرورق پر بادشاہی مسجدکی تصویرچھاپ دی گئی ہے۔
کتاب کا انتساب مصنف نے مستنصر حسین تارڑ، ابدال بیلا، عطاء الحق قاسمی،بشریٰ رحمان،گلزار جاوید، امجد اسلام امجد، افضال احمد، فرحت پروین،طاہرہ اقبال،سلیم اختر اورآمنہ مفتی سمیت پاکستانی دوستوں کے نام کیا ہے جبکہ پیش لفظ”میرا شہر لاہور“میں ڈاکٹرکیول دھیر بتاتے ہیں کہ ان کے دادا لاہور میں رہتے تھے ان کے والدکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بن کر پنجاب کے مختلف علاقوں کے سرکاری ہسپتالوں میں تعینات رہے تقسیم ہند سے ایک عشرہ قبل کیول دھیر نے قصبہ گگو منڈی میں جنم لیا تھا بٹوارے کے باعث ان کا خاندان شرنارتھی بن کر مشرقی پنجاب میں پھگواڑہ شہرکے قریبی آبائی گاؤں ملو پوتہ منتقل ہو گیا تاہم وہاں رہتے ہوئے کیول دھیر نے لاہور اوراردو سے قلبی تعلق نہ توڑا وہ مختلف اردو ادبی جرائد میں لکھتے رہے اور گاہے گاہے لاہورکا چکر بھی لگاتے رہے ہیں پہلی مرتبہ وہ 1986ء میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحرکی زیر قیادت بھارتی اردو ادیبوں کے وفد میں شامل ہوکر لاہور آئے تھے اور 3 ہفتے لاہور میں مقیم رہ کرگھومتے پھرتے اور لاہوری دانشوروں سے ملتے ملاتے رہے تھے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے ڈائریکٹر پروفیسر ارتضٰی کریم اپنی تحریر میں ڈاکٹرکیول دھیر کا تعارف لکھتے ہوئے انہیں برصغیر پاک و ہند میں معتبر اورموقر فکشن رائٹر قراردیتے ہیں جن کے افسانے پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر کیول دھیر معاشرے کے خارجی و باطنی احوال سے واقف اور افراد کی داخلی و خارجی ذہنی کیفیات سے بھی آگا ہ ہیں،مستنصر حسین تارڑ ”سستا سودا“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ لاہور شہر کی فضاؤں میں ایسے طلسم سرگوشیاں کرتے ہیں کہ کسی نے بھی انہیں سنا تو وہ ہمیشہ کیلئے اس شہر بے مثال کاہوگیا آپ کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،امرتا پریتم،خوشونت سنگھ،پران،اوم پرکاش،دیو آنند اورکامنی کوشل سے پوچھیے کہ جب مجبوراََ انہیں لاہور چھوڑنا پڑا تو ان پرکیا گزری؟کیول دھیرکی کتاب کے لفظوں میں لاہور سانس لے رہا ہے ان کی کتاب دھیرے دھیرے پڑھتے آپ بھی لاہورکے طلسم میں گرفتار ہو جائیں گے!“
ڈاکٹرکیول دھیر سے ہمارا غائبانہ تعارف عطاء الحق قاسمی کے ساتھ ان کی ایک تصویر کے ذریعے ہوا تھا جس میں قاسمی صاحب انہیں اپنی کتاب ”ملاقاتیں ادھوری ہیں“ دیتے دکھائی دیئے تھے بعدازاں ڈاکٹرکیول دھیردورہ پاکستان کے دوران لاہور پریس کلب کی ادبی تقریب میں بھی شریک ہوئے تھے لیکن ہماری ان سے ملاقات نہ ہو سکی تھی کیونکہ اس روزلاہور سے باہرگئے ہوئے تھے فیس بک پر ان کی پوسٹس دیکھتے رہتے ہیں، چند برس قبل فیس بک پرہماری کتاب ”لاہور شہر بے مثال“ کا سرورق دیکھ کر انہوں نے یہ کتاب پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تھی ان دنوں وہ غالباََ لاہور پر اپنی یہ کتاب لکھ رہے تھے،لاہور اور لاہوریوں سے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لاہور یوں کا رہن سہن،بول چال، کھانا پینا، دوستی دشمنی، کھیل و تفریح،فلم وسنگیت،باغوں، تھڑوں،گلی کوچوں کی رونق وغیرہ کتنے ہی موضوعات ہیں جو شہرلاہورکو الگ پہچان عطاء کرتے ہیں۔
اپنی کتاب میں کیول دھیر نے بٹوارہ اور اتہاس کے الفاظ بہت زیادہ استعمال کئے اور پرانے زمانے کے لاہورکا زمانہ بیان کیا ہے انہیں کتاب کا عنوان ”میں لاہور ہوں“ کے بجائے ”میں لاہور تھا“ رکھنا چاہیے تھا اورآزادی کے بعد پاکستان آکر انہوں نے تین چار عشروں میں جو لاہور دیکھااسے ”میں لاہورہوں“کے نام سے چھپوانا چاہیے تھا تقسیم ہند سے قبل کلکتہ و بمبئی جانے سے پہلے پران، اوم پرکاش،کرن دیوان،اے آرکاردار،ایم اسماعیل، نور جہاں،ماسٹرغلام حیدر،ماسٹر غلام قادر، فیروز نظامی،رفیق غزنوی،محمد رفیع،خواجہ خورشید انور وغیرہ لاہورکی شوبز دنیاسے وابستہ رہے تھے بلکہ پرتھوی راج،جگدیش سیٹھی، چتن آنند،دیو آنند کامنی کوشل، بلراج ساہنی،سریندروغیرہ بھی لاہور کالج، کنئیرڈ کالج، ایف سی کالج،گورنمنٹ کالج اورپنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں پڑھتے رہے تھے لیکن کندن لال سہگل اوردلیپ کمارلاہورمیں کبھی مقیم نہیں رہے تھے البتہ کے ایل سہگل تقسیم سے قبل ایک مرتبہ نمائش میں شمولیت اوردلیپ کمار آزادی کے بعد نوازشریف دورمیں سرکاری ایوارڈ وصول کرنے اور شوکت خانم کینسرہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کیلئے لاہور آئے تھے، قیام پاکستان کے موقع پر دلیپ کمارکے بھائی ناصر خاں نے ضرورلاہور آکر پہلی پاکستانی فلم ”تیری یاد“ میں ہیروکاکردار ادا کیا تھاتاہم فلم کی ناکامی پر دلیپ کمار کے بھائی بمبئی واپس چلے گئے تھے۔
کتاب کے پہلے باب ”جس نے لاہور نہیں دیکھا“ کا آغاز اپنے دوست اے حمید کے ذکر سے کرتے ہیں جنہوں نے خود بھی لاہور پر متعدد کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھے تھے،دوسرے باب ”لاہور کا سفر“ میں کیول دھیر لکھتے ہیں کہ بٹوارے نے سب سے زیادہ زخم،درد اور اداسی لاہور شہرکو دی تھی، تیسرے باب ”لاہورکی طرز زندگی“ میں درست لکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی امیر،رئیس اور نواب لوگ تھے لیکن فلاح کے کاموں میں وہ ہندوؤں سے پیچھے تھے،چوتھے باب ”میں لاہور ہوں“ میں بسنت کاذکرکرتے ہوئے انہیں یاد نہیں رہا کہ لاہور میں دھاتی ڈورکے باعث چند برسوں سے پتنگ بازی پر پابندی عائد کی جا چکی ہے،لاہورکی گلیاں انہوں نے اپنے وفدکے ساتھ آئے اندرون شہرمحلہ موہلیاں کے رہائشی رائے بہادرسنتوش کمار کے ساتھ دیکھی تھیں بعدازاں دونوں کومقبول جہانگیر نے ٹکسالی دروازے میں استاد دامن سے بھی ملوایا تھا، کوچہ کالی ماتا کی رہائشی ہندوخاتون جگ مائی کی داستان پڑھ کر ہماری آنکھیں بھی نم ہوگئیں جو تقسیم کے موقع پر اپنا شہرلاہورچھوڑکربھارت نہ گئی تھی۔
کیول دھیرکی کتاب میں پروفیسر اسد سلیم شیخ کے مال روڈ پر 2 مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں بلکہ زاہدہ حنا کا شکار پور سندھ کے ہندوسیوک سیٹھ اودھو داس کی یاد میں لکھا جانے والا کالم بھی شامل کرلیاگیا ہے جوعجیب سا لگتا ہے، آخری باب ”میں لاہورہوں“میں لاہور شہرکی زبان سے 1947ء کے ”بٹوارے“ کی کہانی سنائی ہے جس میں لاہورکے فسادات کا ذمہ داربھی ماسٹرتارا سنگھ کو قرار دیا گیا ہے جس نے پہلے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پرکرپان لہراکرلاہور کے مسلمانوں کو مشتعل کیا اورپھرکپورتھلہ ہاؤس میں سکھ اورہندورہنماؤں کے اجلاس کے دوران لاہور پر اپنا قبضہ برقراررکھنے کیلئے خون دینے یا بہانے کا اعلان کیا تھاجس کے نتیجے میں لاہور کے ہندوؤں اور سکھوں کو اپنا شہر چھوڑ کر بھارت جانا پڑا تھا ”لاہورکی گلیاں“ والے باب کے آخرمیں کیول دھیر نے غالباََ کسی شرنارتھی شاعرکا شعر درج کیا ہے……
بہت دیکھی ہیں دلی اور اندورکی گلیاں
بھولی ہیں نہ بھولیں گی لاہورکی گلیاں
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

آہ! جنرل اشفاق ندیم

انجینئر افتخار چودھری
لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم اس جہان فانی سے راہی ملک عدم ہو گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ایک ایسا گمنام ہیرو جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مرد مجاہد کا کردار ادا کیا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔اس پاکستان کو اندھیروں سے نکالا جس میں آئے روز بم دھماکے ہوا کرتے تھے۔لاشیں ہی لاشیں۔اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی فوج نے بڑے دماغ پیدا کئے لیکن اس جنگ کے پیچھے اس عظیم شخص کامقام بہت اونچا ہے اور ملک کو ان اندھیروں سے نکالنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔
وہ وقت بھی تھا جب ہماری فوج اپنی ہی سرحدوں کے اندر غیر محفوظ ہو کے رہ گئی تھی۔ دہشت گردی کی اس پرائی جنگ میں ان گنت لوگ شہید ہوئے نوجوان بھی اور جرنیل بھی حالت یہ تھی کہ جی ایچ کیو کے سامنے شہادتیں ہوئیں۔ایسے میں اس قسم کے ذہن میدان میں اترے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔
آج کسی نے سچ کہا ہے قوم غائبانہ نماز جنازہ ادا کرے۔ایسے ہیرو جنہیں انگریزی میں Unsung hero کہا جاتا ہے۔ان کے جانے پر دلی دکھ کا اظہار کرتا ہوں۔ میں خود بھی ان سے ناواقف تھا مگر ایک درد دل رکھنے والے دوست نے مجھے ان کے بارے میں بتایا تو میں ان کی قربانیوں کا سوچ کر پریشان ہو گیا۔لوگ کہتے ہیں فوج کی نوکری آسان ہے۔جی چاہتا ہے انہیں بلوچستان میں باغیوں کی بندوقوں کے سامنے رکھ دوں اور ایک لاش کے بدلے انہیں بھی لاکھوں دے دوں۔یہی ففتھ جنریشن وار ہے کہ فوج اور عوام میں دوری پیدا کردو مجھے اس گمنام ہیرو کی موت پر گہرا دکھ ہوا ہے۔
ایسا دکھ جو سب کا سانجھا ہے۔پاک فوج کی قربانیاں اتنی ہیں کہ ان پر لکھنا ضروری ہے لوگوں کے پاس اور موضوعات ہیں ہمیں تو اپنے اس ادارے کے دکھوں نے دکھی کر دیا ہے۔
ہماری آئی ایس پی آر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انہیں منانے میں لگی رہتی ہے جو اسی کی پگڑی اچھالتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک بات کہہ دوں ہم بھی انہی گمنام ہیروں کی طرح،،پرورش لوح و قلم،، کرتے رہیں گے ہم نے بھی جو لکھنا ہے وطن کے لیے لکھنا ہے۔اور اپنے ان مجاہدوں کی ستائش کرتے رہیں گے۔جن کے بارے میں ان کے چہیتے ڈان لیکس کرتے رہتے ہیں۔ٹویٹ ایپس کرانے والے مزے میں ہیں۔
نور جہاں نے جن،،پتروں کا ذکر کیا تھا کہ یہ دکانوں پر نہیں بکتے،، شائد یہی سپوت تھے۔انہی،،تاجوں،، کے لیے لکھا۔سلام صوفی تبسم۔
وہ وقت بھی تھا جب ہمارے نوجوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا اور پھر وہ وقت بھی آیا سارے راستے صاف ہوئے اور وہ علاقے پاکستان کے managed،،ایریاز میں آئے یہ مسلم جبہ جن کی چیئر لفٹوں پر ہم جھولتے ہیں اور جہاں آج جگنوؤں کے مکان ہیں یہاں اسلحے کی دکانیں تھی موت تھی اور خوف تھا کراچی کے دن یاد ہیں موت کا خوف اس قدر کہ شاعر وں نے اس پر لکھا اللہ جنرل بلال اکبر اور ان کے ساتھیوں کو سلامت رکھے جو میدان میں اترے بوریوں میں بند لاشیں ہمارے دیہات تک پہنچتی رہیں۔جو بولتا تھا اسے ٹھوک دیا جاتا تھا کراچی کرچی کرچی ہو کے رہ گیا تھا۔آج کراچی جاگتا ہے اور دشمن بھاگتا ہے۔یہ سب کچھ انہی ماؤں کے سپوتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ملنے والی خوشیاں بھی نہیں مناتے افغانستان میں اللہ نے ہمارے انہی جوانوں کی وجہ سے ہمیں خوشی دلائی بھارت کے اندر جو صف ماتم بچھی ہوئی ہے اسے دیکھ کر ہمیں خوش ہو جانا چاہئے تھا۔
آج جنرل ندیم تاج کے جانے سے پاکستان کی فوج کے سر سے تاج اترا ہے اللہ فوج کو سلامت رکھے ہم آرمی چیف جنرل باجوہ اور پوری قوم بشمول ہیروں میں رہنے والے وزیر اعظم سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

الیکشن کمیشن،نادرا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم

کنور محمد دلشاد
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے بین الاقوامی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر،کرکٹ میچ سے چند منٹ پہلے دور ہئ پاکستان ختم کرکے بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ میں نئی روایت رقم کردی،وزیرِاعظم عمران خان کا نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم سے ذاتی رابطہ بھی کام نہ آیا اور مہمان ٹیم چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے اسلام آباد سے وطن روانہ ہوگئی۔اگر یہ سمجھا جائے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم محض مفروضے کی بنیاد پر واپس چلی گئی تو یہ درست نہیں ہوگا۔اطلاعات کے مطابق نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم کو پانچ ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں نے الرٹ کیا تھا۔جس کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم نے اہم فیصلہ کیا۔اسی طرح بین الاقوامی میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ اور پاکستان کے اعلیٰ حکام اور کرکٹ بورڈکے حکام بارہ گھنٹے تک مذاکرات کرتے رہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ میچ کے منسوخ کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں ہواتھا۔دوسری طرف نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ عوام کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہا اور معاملہ کو انتہائی پراسراریت کے انداز میں ہینڈل کیا گیا۔کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کی پریس کانفرنس منسوخ کی گئی اور پھر اچانک مہمان ٹیم کو کمروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی اور شک و شبہ کے سائے منڈلانے لگے۔پاکستان کے عوام حکومت پاکستان کے وزراء کے بیانات سے ورطہ حیرت میں ڈوبے رہے۔نیوزی لینڈ کے دورے کے ختم ہونے کے بعداب برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے،جبکہ وزیرِ داخلہ فلمی انداز میں مادھوری ڈکشٹ کا گانا قوم کو سنارہے ہیں کہ چلمن کے پیچھے کیا ہے۔وزیرِداخلہ کو ادراک ہونا چاہیے تھا کہ سوال کرکٹ ٹیم کے ارکان کے تحفظ اور سکیورٹی پر نہیں،سوال یہ ہے کہ نیوزی لینڈ نے دھمکی دینے والے گروپ کی طرف سے ملنے والی دھمکی کو پاکستان کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کیا؟سوال یہ بھی ہے کہ نیوزی لینڈ کو کیوں گمان تھا کہ کابل ایئرپورٹ کی طرح پاکستان میں بھی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جائے گا۔اب کابینہ میں اہم تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے۔نیوزی لینڈ کی ٹیم کا اچانک وطن واپسی کے محرکات پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات پڑیں گے اور اداروں کے مابین شکوک و شبہات سے پاکستان کا پارلیمانی طرزِ حکومت بھی عوام کی نظروں میں اعتماد کھوبیٹھا ہے۔ 2023کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کروانے کا معاملہ ایک سطح پر مؤخر ہوچکا ہے کیونکہ سائنس وٹیکنالوجی کی منسٹری کے ماہرین الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر جو 37اعتراضات حکومت پاکستان کو بھجوائے تھے،اس کے ازالہ کے بجائے الیکشن کمیشن کے حکام کو تنقید کا نشانہ بنا کر آئینی بحران پیدا کردیا گیا اور الیکشن کمیشن نے دو وفاقی وزرا سے سات روز میں جواب طلب کر لیا ہے۔اگر ان وزرا نے لیت ولعل کا سہارا لیا تو الیکشن کمیشن یک طرفہ بھی فیصلہ سنانے کا مجاز ہے۔اسی دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے نادرا کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے حوالہ سے لکھا گیا خط لیک ہونے سے ایک نیا قانونی بحران کھڑا ہو گیا ہے،نادرا کے مراسلہ سے پتہ چلتا ہے کہ نادرا سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انٹرنیٹ ووٹنگ بیلٹ میں بہتری کے لیے الیکشن کمیشن کو دو ارب چالیس کروڑ روپے کے نئے معاہدے میں شامل کرنے کا ارداہ رکھتا ہے،جبکہ اس کے برعکس الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نادرا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطمئن کرے کہ نظام کی پہلے سے ہی موجودگی میں الیکشن کمیشن کو دوارب چالیس کروڑ روپے کا نیا معاہدہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟اگر نادرا کے زیرِ استعمال موجودہ نظام میں کچھ خامیاں ہیں تو ان خامیوں کا ذمہ دار کون ہے؟الیکشن کمیشن نے اپنے جوابی خط میں نادرا سے دریافت کیا ہے کہ نادرا نے کس پر ذمہ داری عائد کی؟الیکشن کمیشن نے نادرا کے خط کی زبان،طریقہ کار پر بھی اعتراضات اُٹھائے ہیں کہ نادرا نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دینے کے انداز میں خط لکھا ہے اور نادرا کو احساس ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہونے کے ناطے آئین کے آرٹیکل 218(3)کے مطابق اپنی ذمہ داری پورے کرے گا،لہٰذا الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھیجتے وقت الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات کو ملحوظ خاطررکھا جائے۔الیکشن کمیشن کی برہمی کے نتیجہ میں چیئرمین نادرا طارق ملک نے الیکشن کمیشن کے نقطہ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ نادرا کے مراسلہ سے جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے،اس کا ازالہ کردیا جائے گاکیونکہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جب کہ نادرا ایک ٹیکنیکل ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔چیئرمین نادرا نے ماتحت افراد کی سرزنش بھی کی۔طارق ملک کے مؤقف سے اب ان دونوں اداروں کے مابین تنازعہ ختم ہی ہوگیا ہے۔اس کے سات ساتھ نادرا کا مؤقف ہے کہ انٹر نیٹ ووٹنگ بیلٹ کا نظام پہلے سے جو موجود تھا اور فی الحال الیکشن کمیشن کے پاس ہے،معاہدے کی ذمہ داروں کے مطابق الیکشن کمیشن کو دوکروڑ پچاسی لاکھ روپے جاری کرنے تھے،نئے مجوزہ نظام کے ذریعے نادراالیکشن کمیشن کو اسی کے آزاد سسٹم اور الیکشن کمیشن کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صلاحیت بڑھانے میں مدد دے گا۔نادرا کی سابقہ انتظامیہ کے روّیے کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور نادرا میں خدمات کی فراہمی پر ہونے والا اختلاف ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اب جب کہ حکومتی وزرا نے الیکشن کمیشن پر بلاوجہ تنقید کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے۔اس کی روشنی میں نادرا اور الیکشن کمیشن کے درمیان نیا تنازعہ نہیں کھڑا ہونا چاہیے۔
نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو اپنے گھر کی بھی خبرلینی چاہیے،ان کے سابقہ چیئرمین معین عثمان اپنے ماتحت ڈائریکٹر جنرلوں سے نالاں تھے اور ان کی باہمی ناراضی کی وجہ سے نادرا میں بدنظمی پیدا ہوئی تھی تو اُس وقت کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کو باربار مداخلت کرنا پڑی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ نادرا کے بعض ڈائریکٹر جنرل،چیئرمین نادرا کی شرافت کی آڑ میں ان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں،اسی دوران 25جولائی 2018کے انتخابات میں آرٹی ایس کے فلاپ ہونے میں بھی نادراپر اعتراضات کیے گئے تھے کیونکہ سسٹم کو تیار کرنے کے لیے نادرا نے الیکشن کمیشن سے 18کروڑ حاصل کیے تھے،جس کی آخری قسط شاید ابھی تک الیکشن کمیشن کے ذمہ ہے۔جب کہ آرٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم)کی بھرپور کامیابی کے لیے نادرا نے الیکشن کمیشن کو یقین دہائی کرائی تھی اور اطلاع کے مطابق غالباً الیکشن کمیشن اور نادرا نے آرٹی ایس کی کامیابی کے لیے چیف آف آرمی سٹاف کو بھی بریفنگ دی تھی،لیکن اس کے باوجود دونوں اداروں کی باہمی اعتماد کے فقدان سے سسٹم فلاپ ہوگیا اور الیکشن کمیشن کی باربار یاددہانیوں کے باوجود کیبنٹ سیکرٹری نے اپنی انکوائری رپورٹ الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائی۔یہاں پر دلچسپ حالات بھی سامنے آئے۔نادرا کے سابق چیئرمین معین عثمان کو میرٹ میں تبدیل کرکے اس وقت کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے ان کو چیئرمین نادرا مقرر کیا تھا جبکہ وہ نادرا کے قواعد و ضوابط کے مطابق میرٹ پر پورے نہیں اُترتے تھے۔اسی لیے ان کے ماتحتوں نے ان کو چیئرمین تسلیم نہیں کیا تھااور ان کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں جاری رہیں۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی 2016کے متعدد اجلاسوں میں جب انتخابی اصلاحات کے ذریعہ بعض اہم تبدیلیاں زیرِ بحث تھیں تو آر ٹی ایس کا فلسفہ تحریکِ انصاف کے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے پیش کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ سسٹم ناکام ہو جائے گاکیونکہ اَسی ہزار پریزائڈنگ آفیسران میں بعض اس سسٹم سے نابلد ہی رہیں گے،لیکن انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی مخالفت کے باوجود اس کو الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 13(2)کا حصہ بنادیا۔
الیکشن کمیشن نے جو نوٹس دووفاقی وزراء کو جاری کیے ہیں اس پر سنجیدگی پر عمل کرتے ہوئے ان وزراء کو غیر مشروط طورپر معافی مانگ کر معاملہ ختم کر دینا چاہیے۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭

سی پیک کو درپیش چیلنجز۔۔۔

ملک منظور احمد
پاکستان کی معیشت کی کمزوری ہمیشہ سے پاکستان کے لیے ایک درد سر رہی ہے،پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کی معیشت ہچکولے کھاتی آئی ہے،کبھی کسی دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظا ہرہ کرتی ہے تو پاکستان کے جلد ہی ایک عظیم معاشی طاقت بننے کی نوید عوام کو سنا دی جاتی ہے لیکن پھر چند سال بعد ہی معیشت کو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ پھر سے ساری ترقی پر پانی پھر جاتا ہے۔پاکستان کی معیشت کے ساتھ جو بنیادی مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنی برآمدات کو اس رفتار کے ساتھ اور اس تیزی کے ساتھ نہیں بڑھایا سکا ہے جس تیزی سے پاکستان کی درآمدات بڑھتی ہو ئی آ ئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر چند سال بعد فارن ایکسچینج کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے در پر ہوتا ہے۔پاکستانی قوم عرصہ دراز سے اس چکی میں پستی ہو ئی آئی ہے،اور قوم کو لگنے لگا تھا کہ یہ دھکے ہی اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں لیکن پھر اچانک 2013ء میں چین کی جانب سے پاکستان کو ایک پیغام ملا کہ ہمارے پاس آپ کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔اور یہ تحفہ چین کی جانب سے پاکستان کو سی پیک کی صورت میں دیا گیا۔گو کہ اس دور میں پاکستان میں نواز شریف صاحب کی حکومت تھی لیکن اس منصوبے کا کریڈٹ سابق صدر آصف زرداری بھی لیتے ہیں۔
بہر حال یہ منصوبہ با قاعدہ طور پر 2015ء میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے بعد شروع ہوا اور سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت پاکستان میں توانائی اور انفرا سٹرکچر کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سٹرکیں بنیں مو ٹر ویز بنے اور بجلی گھر بھی لگے۔2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں حکومت تبدیل ہو ئی تو یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ منصوبہ رک گیا ہے کام بند ہو گیا ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ،لیکن بہر حال اس کے باوجود سی پیک کا منصوبہ بہر حال چلتا رہا،منصوبے مکمل بھی ہوئے جن میں سے قابل ذکر ملتان سکھر موٹر وے اور بجلی کے منصوبے تھے۔حال ہی میں سی پیک کے تحت لاہور مٹیاری ٹرانس میشن لائن مکمل کی گئی ہے،لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے نہ صرف نہایت ہی اہم ہے بلکہ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کے معیشت کا مستقبل جڑا ہوا ہے،اور شاید اسی لیے اس منصوبے کو مسلسل اندرون ملک اور بیرون ملک سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں موجود چینی ورکرز اور انجینئرز پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔داسو،گوادر اور کوئٹہ میں حملے ہوئے اور ان حملوں میں بد قسمتی سے چینی شہری بھی نشانہ بن گئے۔اور چین نے پاکستان سے اس حوالے سے شکوے کا اظہار بھی کیا گوکہ پاکستان نے پہلے سے چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے فوج کے اضافی دستے تعینات کر رکھے ہیں لیکن ان حملوں کے بعد چینی شہریوں اور خاص طور پر سی پیک پر کام کرنے والے ورکرز کی سیکورٹی میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن پوری قوت کے ساتھ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔سی پیک کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں منفی خبریں بھی ایک معمول بنتی جا ری تھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا ہے اور ان کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات لیے جا رہے ہیں۔سی پیک کا دوسرا مرحلہ اب شروع ہو چکا ہے جس کے تحت پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز بننے ہیں جن میں برآمدی صنعتیں لگائی جانی ہیں۔اور حکومت پاکستان کا منصوبہ یہ ہے کہ ان اقتصادی زونز کی مدد سے پاکستان کی برآمدات میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ پاکستان کو فارن ایکسچینج کی کمی کا مسئلہ جس کے باعث پاکستان کو بار بار آئی ایم کے در پر حاضری دینی پڑتی ہے کو ختم کیا ہے اور مستقبل میں ایک بہتر معیشت کی بنیاد رکھی جائے۔اس نازک مرحلے پر سی پیک پر حملے اور بیرونی سازشیں غیر متوقع نہیں ہیں،خاص طور پر جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ تیز تر ہوتا گیا پاکستان میں یکے بعد دیگر سی پیک پر بھی حملے بڑھتے چلے گئے۔ان حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی اور پاکستان نے بھی کہا کہ افغان سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں چینی شہریوں پر یہ حملے کیے گئے ہیں۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید طالبان ان حملوں میں ملوث ہیں لیکن افغان طالبان بر ملا نہ صرف چین کو اپنا دوست قرار دے چکے ہیں بلکہ چین کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی بھی دعوت دے رہے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ افغان سر زمین پر موجود راء اور این ڈی ایس ان حملوں میں ملوث تھیں۔لیکن جہاں پر بہت سا پرا پیگنڈا موجود ہے وہاں پر یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ چینی کمپنیوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے عد م ادائیگی کی شکایات بھی کی ہیں جن پر پاکستان کی حکومت نے چین کو یقین دلایا ہے کہ جلد یہ معاملہ کلیئر کر دیا جائے گا۔اور ابھی گزشہ کل ہی سی پیک پر پاکستان اور چین کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس بھی منعقد ہوا ہے اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کو روکنے کی تمام کوششوں کا سد باب کیا جائے گا۔اور کوئی قوت سی پیک کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔یہ اعلا میہ نہایت ہی خوش آئند اور ان سازی عنا صر کو سخت جواب ہے اور یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان اور چین ایک پیج پر ہیں کسی صورت بھی اپنے مشترکہ مفادات کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔بہر ال سی پیک کے تحت پاکستان میں 62ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہونی ہے اور ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون منصوبے جیسے پراجیکٹس یقینا پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس بات میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی اور معاشی خود مختاری کا ایک نا در موقع ملا ہے اور ایسے موقع قوموں کو با ر بار نہیں ملا کرتے ہیں۔اس منصوبے کی کامیاب تکمیل پاکستان کو دیرینہ معاشی مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ہمیں بطور قوم کسی صورت بھی اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭