حیات عبداللہ
اہلِ کشمیر کی دل گیر آہیں اور لِیرولِیر نوحے، سنگلاخ خمیر سے بنے عالمی ضمیر سے ٹکرا کر لَوٹ آتے ہیں۔کشمیری حسب و نسب کے حامل پاکستانی سیاست دانوں کے بھارت کے ساتھ وابستہ ہٹّے کٹّے مفادات اور وہاں پر سانڈھ بنے ذاتی کاروبار نے ان کی فہم کو غلام، بصارتوں کو ناتواں اور منطقوں کو بالکل ہی اندھا بنا کر رکھ دیا ہے۔بھارتی مَحبّت کے کاجل سے آراستہ اِن کے کٹیلے نَین اور ذاتی مفادات کے بدنما غازے سے لتھڑے احساسات، اتنے شرمیلے بن چکے ہیں کہ ان کی قوتِ گویائی تک مسلوب ہو کر رہ گئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں مسئلہ ء کشمیر پر اتنے سرد مزاج اور ٹھنڈے پیٹ رکھنے والے سیاست دان تو اِس سے قبل کبھی نہیں دیکھنے، سُننے میں آئے۔جب بھی پاکستانی سیاسی پہلوان کشمیر پر کوئی بیان دیتے ہیں تو وہ اتنا نپا تُلا ہوتا ہے کہ جس سے بھارت کے دل اور احساسات پر کسی قسم کی ناگواری کا بوجھ نہیں پڑتا۔اِتنے مصلحت آمیز بیانات کہ جس سے بھارت کے ماتھے پر کوئی ایک لکیر بھی نمودار تک نہیں ہوتی۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی سیاست دانوں کے سُرخ لبوں کی نازکی، دلوں کی نرماہٹ اور فراستوں کی نزاکتوں سے بھارت خوب واقف ہے۔کشمیر کو اپنی شہہ رگ بھی کہا جاتا ہے اور اس شہہ رگ کو بھارت کے قبضے میں دیکھ کے بے چینی پر مشتمل کوئی ایک لمحہ، گھبراہٹ سے وابستہ کوئی ایک پَل اور بے کلی پر مبنی کوئی ایک ثانیہ بھی اِن سیاست دانوں کی زندگیوں میں آج تک دِکھائی نہ دیا۔عمران خان نے بھی محض ایک بار عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کیا۔
بھارت کی ہمہ قسم کی بہیمیت پر کسی پشیمانی اور پچھتاوے کی بجائے بھارتی سیاست دان بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ”کشمیر کی صورتِ حال بھارت کا اندرونی معاملہ ہے“ اگر واقعی یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے تو بھارت کے اِس”اندرون“ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟ اگر یہ بھارت کا داخلی مسئلہ ہے تو اس کے”اندر“ بھارت کی بجائے پاکستان کی مَحبّت کس طرح داخل ہو گئی ہے؟ اگر واقعی یہ بھارت کا اپنا مسئلہ ہے تو گولیوں کی بوچھاڑ میں درندہ صفت فوجیوں کے سامنے کشمیری لوگ سینہ تان کر”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ عقیدتوں سے سَرسبز، سُندر جذبوں اور کومل وفاؤں سے شاداب ان رشتوں کا کوئی ایک سلسلہ بھارت کے لیے نمودار کیوں نہیں ہوتا؟ اگر بھارت کے اس”اندرون“ میں پاکستان کے ساتھ مَحبّتوں کے تلاطم خیز طوفان، آشفتہ سَری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تو اس کا مطلب ہے کہ بھارت کو اپنے”بیرون“کی بھی فکر کرنی چاہیے، اس لیے کہ”اندرون“ جس کا ہوتا ہے، ہزاروں قربانیوں کے بعد ہی سہی”بیرون“ بھی اُسی کا ہو کر رہتا ہے۔
اگر بدخواہ بھارت کی سفّاکیت کے باعث کشمیریوں کے خون کی ارزانی اور بے توقیری دنیا دیکھ رہی ہے تو کشمیریوں کے جذبوں کی جولانی میں حرّیّت کی تڑپ کی فراوانی نے بھی دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا ہے۔بات صرف حرّیّت کے بے پایاں جذبوں تک موقوف اور محدود نہیں، ان کے دل کے صحنوں میں پاکستان کے لیے جو مَحبّت انگیز یاسمین مہکتے ہیں، ان کو دیکھ کر بھی دنیا سٹپٹا کر رہ گئی ہے۔برہان مظفّر وانیؒ کی شہادت کے بعد سے اب تک سیکڑوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں، آج بھی بھارتی جبر و استبداد کے باعث ہزاروں کشمیری زخمون سے لہولہان ہیں، بعض کی حالت اتنی نازک ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان کش مکش میں مبتلا ہیں۔شاہدہ لطیف نے کچھ ایسا ہی منظر اِس طرح بیان کیا ہے۔
یہ کیسی آگ ہے ابرِ بہار جلتے ہیں
چراغ جلتے نہیں ہیں، چنار جلتے ہیں
اگرچہ سیکڑوں افراد بصارت سے محروم ہو چکے ہیں لیکن ان کے جذبے بڑے ہی بصیرت افروز ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ وفاؤں کے ایسے جنون اور بندھن میں بندھے ہیں کہ بصارت چِھن جانے کے باوجود، پاکستان کی طرف آس اور امید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
خوش رنگ مقبوضہ جمّوں وکشمیر کو صرف بھارتی فوج ہی نہیں بلکہ آر ایس ایس کے غنڈے اور تربیت یافتہ بدمعاش عورتیں بھی بڑے دھڑلّے کے ساتھ تلواریں اور لاٹھیاں اٹھا کر مظاہرہ کرتی ہیں۔ہمدم کاشمیری کے دو شعر ہیں۔
وحشت ہے بہت کم، تو ہے زنجیر زیادہ
چھوٹا سا مرا خواب ہے تعبیر زیادہ
کیا جان میری صرف سُلگنے کے لیے ہے
کیجے نہ مرے جسم کی تفسیر زیادہ
بھارت اور اس کے بہی خواہوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی کی جو راہیں شہید متعیّن کرتے ہیں، ان پر چلنے سے یہ گولیاں کب روک سکتی ہیں؟ حرّیّت کی جن راہوں پر برہان مظفّر وانیؒ اور ابوالقاسمؒ جیسے شہدا اپنے خون سے جو شمع روشن کر گئے، ان پر آٹھ لاکھ تو کیا اَسّی لاکھ بھارتی فوج بھی بٹھا دی جائے تو ان راہوں کو مسدود نہیں کیا جا سکتا۔شہادتوں کے یہ سلسلے، جذبوں میں خلوص کی انتہائیں اور ولولوں میں تازگی، پختگی اور استقلال کو دوام بخشتے ہیں۔شہادتوں کو پہاڑوں، وادیوں، صحراؤں اور ریگستانوں میں کھوجتے ان نوجوانوں کے سینے ستایش کی افزایش سے پاک و پوتر ہوتے ہیں۔ان کے دلوں میں اُگنے والی تمنّائیں، جاہ ومنصب کی آلایشوں سے تہی ہوتی ہیں۔کیا دنیا اندھی ہے کہ اسے دِکھائی نہیں دے رہا کہ کشمیر کے لوگ، شہدا کے مطہّر و مقدّس جسموں کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں؟ شہدا نے شہادتوں کے پھول کِھلائے تو اہلِ کشمیر نے پاکستان کے ساتھ چاہتوں کے سلسلوں کو اتنا دراز کیا کہ ہر طرح کی صعوبتوں اور مصیبتوں کے باوجود انھوں نے اس اَن مول رشتہ ء اخوّت کو فروزاں کیے رکھا۔آج کشمیر پر دو ٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔آخر ہم اپنی شہہ رگ کو کب تک بھارت جیسے سفاک اور عیّار دشمن کے شکنجوں میں دیکھتے رہیں گے؟
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
حلقہ ارباب ذوق اور کرونا وبا
میم سین بٹ
لاہورکی قدیم ادبی تنظیموں میں انجمن ترقی پسند مصنفین اورحلقہ ارباب ذوق سرفہرست ہیں جن کے ہفتہ وار اجلاس اب بھی ہوتے ہیں دونوں ادبی تنظیمیں 1930ء کے عشرے میں قائم کی گئی تھیں۔ کرونا وباء شروع ہونے کے بعد پاک ٹی ہاؤس میں پابندی کے باعث حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس واٹس ایپ گروپ میں آن لائن ہوتے رہے۔ دسمبر کے آغاز پردوبارہ پاک ٹی ہاؤس میں اجلاس شروع کئے گئے تاہم دفتر سے اتوارکی جگہ ہفتے کے روز چھٹی کرنے کے باعث ہم اجلاسوں میں شریک نہ ہوپائے۔
ہم دفتر میں ہفتہ وارچھٹی تبدیل کروانے کا پروگرام بناہی رہے تھے کہ کرونا وباء ایک بارپھرشروع ہوجانے کے باعث حکومت نے دوبارہ ہوٹلوں میں تقریبات کروانے پر پابندی عائدکردی۔ سیکرٹری حماد نیازی اورجائنٹ سیکرٹری فرح رضوی نے گروپ میں پوسٹ کے ذریعے جب اطلاع دی کہ وبائی صورتحال کے پیش نظر حلقہ ارباب ذوق لاہورکے ہفتہ وار اجلاس دوبارہ واٹس ایپ پر آن لائن ہوں گے تو ہم سوچنے لگے کہ دانشوروں سے تو سبزی منڈی کے آڑھتی اورخریدارہی اچھے ہیں جنہیں وباء کے آغاز سے اب تک حکومت نے رش کے دوران سرگرمیاں جاری رکھنے سے نہیں روکا، نجانے کرونا وائرس طلبہ وطالبات اورادیب دانشور طبقے کا ہی سب سے بڑا دشمن کیوں ثابت ہوا ہے ویسے آن لائن اجلاس کے چند فائدے بھی ہیں، اجلاس میں شرکاء کا ٹرانسپورٹ خرچ بچ جاتا ہے،حلقہ ارباب ذوق کی انتظامیہ کو چائے پانی پر اٹھنے والے اخراجات بھی نہیں کرنا پڑتے اورسب سے بڑھ کر لاہورکے علاوہ دوسرے شہروں بلکہ دوسرے ممالک میں مقیم دانشوربھی گھر بیٹھے آن لائن ادبی نشست میں شریک ہوجاتے ہیں۔
جنوری میں حلقہ ارباب ذوق لاہورکے سالانہ انتخابات بھی تھے، الیکشن شیڈول جاری ہونے سے پہلے مجلس عاملہ نے سیشن کے دوران نئے بنائے جانے والے 26 ممبرزکے ناموں کا اعلان کیا تھا جن میں اجالا کاظمی، فارحہ ارشد، نیلوفر افضل، خواجہ آفتاب حسن، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹرمنور عثمانی، ڈاکٹر اشفاق ناصر، ڈاکٹر محمدنعیم، رانا عامر لیاقت، قیصر نذیر خاور، احمد محی الدین، محمد عامر سہیل، عباد نبیل، ریاض رومانی، سیماب ظفر، ادریس بابر، عمار اقبال، انعام اکبر، فرہاد ترابی، احمد رضا، احمد اخلاق، محمد اویس، محمد عامر، خرم آفاق، اسد فاطمی اورچاند شکیل شامل ہیں۔ الیکشن شیڈول کے مطابق 16جنوری تک کاغذات نامزدگی جمع ہونا تھے اور 30 جنوری کوپولنگ ہونا تھی مگر سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری کی نشستوں پر صرف فرح رضوی اور میاں شہزاد نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، ان کے مقابلے پر مقررہ تاریخ تک کوئی امیدوار میدان میں نہ آیا تھا ماضی میں حلقے کاالیکشن لڑنے والے راناسرفرازانور بھی ادب وصحافت کی دنیا سے غائب ہیں لہٰذا الیکشن کمشنر آفتاب جاوید نے فرح رضوی اور میاں شہزادکی کامیابی کا اعلان کردیا اوریوں رواں سال حلقہ ارباب ذوق کے انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کی نوبت ہی نہ آسکی تھی۔
سیکرٹری فرح رضوی سیکرٹری بننے سے پہلے حلقے کی جائنٹ سیکرٹری تھیں اورپہلے بھی بلامقابلہ منتخب ہوئی تھیں۔ حلقہ ارباب ذوق لاہورکی پہلی خاتون سیکرٹری بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا، حلقہ ارباب ذوق کی رکن رہنے والی خواتین میں سے بانو قدسیہ، افضل توصیف، جمیلہ ہاشمی، سعیدہ ہاشمی، پروین عاطف، شائستہ حبیب، نسرین انجم بھٹی اورعفرا بخاری اب دنیا میں موجود نہیں رہیں البتہ کشورناہید، سلمیٰ اعوان، یاسمین حمید، مسرت کلانچوی، حمیدہ شاہین، روبیہ جیلانی، صبا ممتاز بانو وغیرہ گاہے گاہے حلقے کے اجلاس میں شریک ہوتی رہتی ہیں۔
نومنتخب عہدیداروں فرح رضوی اور میاں شہزاد نے اتوارکو اپنے سیشن کا پہلا ہفتہ وارتنقیدی اجلاس آن لائن کروایا جس کی صدارت سابق سیکرٹری حسین مجروح نے کی جبکہ آغا سلمان باقراورعقیل اختر نے تخلیقات تنقیدکیلئے پیش کیں۔ آغا سلمان باقر کے مقدمہ اردوسفرنامہ نگاری پر میاں شہزاد، علامہ نواز کھرل، ڈاکٹر عمران جاوید، قیصرنذیر خاور اورعبدالوحید نے پسندیدگی کا اظہارکیا جبکہ پروفیسر شاہد اشرف نے سفرنامہ نگاری کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد آغا سلمان باقر کی جانب سے سفرنامے کو اصناف ادب کے سنگھاسن پر بٹھانے کی مخالفت کرتے ہوئے قراردیاکہ نثری اصناف ادب میں سب سے زیادہ افسانہ، مضمون اورناول لکھا جارہاہے، حسین مجروح نے صدارتی رائے دیتے ہوئے زبان و بیان اورطلسمی پیراہن کو لائق تحسین قراردیا۔
صدر محفل حسین مجروح نے سابق سیکرٹری عقیل اخترکی غزل پر اظہارخیال کی دعوت دی توسابق سیکرٹری غلام حسین ساجد نے غزل کوقدرے ابہام اورعجزبیان کے درمیان، شاہد بلال نے کمزور،قیصر نذیر خاور نے صرف قافیہ پیمائی، سلمان رسول نے نظم یا مسلسل غزل جبکہ میاں شہزاد نے اسے بہت اچھی،ریاض رومانی نے مخصوص اندازکی اور جنید خان نے عمدہ غزل قراردیا۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
آئینِ وطن
جاوید کاہلوں
بالآخر بینک دولت پاکستان سے متعلق ترمیمی بل کی سادہ اکثریت سے سینٹ آف پاکستان نے بھی منظوری دے دی۔ اس طرح سے وہ اب صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد ایک مستقل قانون بن چکا ہے۔ اس بل کی اس سے قبل ملک کی (قومی اسمبلی) بھی منظوری دے چکی تھی۔ سینٹ میں چونکہ اپوزیشن پارٹیاں اکثریت رکھتی تھیں لہٰذا خیال کیا جاتا تھا کہ یہ مجوزہ بل وہاں پھنس جائے گا اور منظوری حاصل نہیں کر پائے گا اب کی بار ہماری سینٹ میں اپوزیشن کو دوسرا بڑا دھچکا لگا کہ وہ اُدھر اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ پہلی بار جب اپنی عددی اکثریت کے زعم میں پی ڈی ایم نے بڑھکیں لگاتے ہوئے سینٹ کے موجودہ چیئرمین کو ہٹانے کے لیے قرارداد پیش کی تو خلاف توقع خفیہ ووٹنگ کا نتیجہ اپوزیشن کی امیدوں کے برعکس نکلا تھا اس قرارداد کے ناکام ہونے پر حزب اختلاف کی صفوں میں کافی ہلچل دیکھی گئی۔ ایک دوسرے پر پھبتیاں کسی گئیں۔
پارٹی سربراہوں نے بھی خطاکار سینیٹر وں کو ڈھونڈ کر اپنی صفوں سے نکال باہر پھینکنے کے بیانات داغے۔ اِدھر اُدھر کچھ اظہار وجوہ کے نوٹس بھی بھجوائے گئے مگر آخر میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ظاہر ہے کہ جن سینیٹروں نے کروڑوں لگاکر اپنی نشستیں محفوظ کی تھیں، پارٹی سربراہوں تک کی جیبیں گرم کی تھیں ان کو ایسی گیدڑ بھبکیوں کی کیا پروا ہوسکتی تھی۔ یہ دوسرا مرحلہ سینٹ میں ترمیمی بل کے حوالے سے جواب درپیش تھا حکومت اپنی اقلیت کے باوجود ایک بار پھر کامیاب رہی اور مولانا فضل الرحمن، شریف برادران اور زرداری ٹولے کو پھر سے پرانی طرز کی خفت اٹھانا پڑی۔ اس دھچکے کے بعد اپوزیشن کی صفوں میں پھر سے ایک دوسرے پر بلیم گیم جاری ہے جوکہ ظاہر ہے کہ چند روز کے بعد اپنی موت آپ ہی مرجائے گی۔ یہ سب کچھ تو ہوگیا۔ اب یقینا اپوزیشن سربراہوں کی صف میں شامل چند درشنی لیڈروں کو بھی اس بات کی سمجھ آچکی ہوگی کہ کیا وجہ ہے کہ ہاؤس میں سپیکر، وزیراعظم یا پھر کسی صوبے کے وزیراعلیٰ وغیرہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بات سے یہ لوگ سلپ ہوتے کیوں دکھائی دیتے ہیں اگر وطن عزیز کی پارلیمانی روایات میں کچھ اخلاقی شائستگی کی رمق باقی ہوتی تو پھر شائد اپوزیشن پہلے مرحلے ہی میں اسلام آباد مارچ اور دھرنے وغیرہ کے بجائے حکومت سے چھٹکارے کے لیے کوئی نیا راستہ اختیار کرسکتی تھی مگر جب ایوان بالا بالخصوص اور ایوان زیریں بالعموم کے ممبران کی کثیر تعدار کو ٹکٹ کے حصول کے لیے پارٹی رہنماؤں کے کھیسے بھرنے کی ضرورت پڑے تو انتخابات جیت کر اسے کسی اعلیٰ پارلیمانی روایت کی پاسداری کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔کوئی بھی دنیا کا سرمایہ کار سرمایہ کاری کے بعد اصل زرکو نفع کے ساتھ وصولی کا حق کیوں نہیں رکھ سکتا لہٰذا سینٹ آف پاکستان میں لگے دھچکے سے کو بلبلانے کی کوئی ضرورت نہیں جَو کاشت کرکے گندم کی فصل کاٹنے کی توقع کرنا ہمیشہ عبث ہی رہا ہے۔
مگر یہ حالات کا فقط ایک ظاہری سا رخ ہے اس کا خطرناک رخ وہ ہے جس میں کہ عوام پون صدی سے لگے اس پارلیمانی جمہوری تماشے سے اب اکتاہٹ میں مبتلا دکھائی دینے لگے ہیں وہ اپنے سینکڑوں اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی بدکرداریوں اور پارلیمانی روایات سے انحراف کو اس نظام کے فیل ہوجانے پر محمول کر رہے ہیں۔ ہمارے نظام اور ہماری چھوٹی سی تاریخ میں لگے بار بارکے مارشل لاؤں کی ذمہ داری بھی وہ اسی ناکام پارلیمانی نظام پر ڈال رہے ہیں حالانکہ وہ یہ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ حال ہی میں سینٹ میں جو پارلیمانی نظام کی درگت بنی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ ثابت ہوا کہ غلطی نظام میں نہیں بلکہ اس کے چلانے والوں میں ہے۔ نظام کوئی بھی مکمل اچھا یا مکمل برا نہیں ہوتا بلکہ اسے چلانے والے اچھے یا برے ہوسکتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کا یہ المیہ بہرحال اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ قائداعظمؒ قضائے الٰہی سے جلد رخصت ہوگئے اور ہمارا پارلیمانی نظام کچھ طالع آزماؤں کے ایسے ہتھے چڑھا کہ مارشل لا لگنے شروع ہوگئے جبکہ دوسری طرف بھارت کو گاندھی اور نہرو وغیرہ کی شکل میں ایسے رہنما میسر آئے کہ وہاں پارلیمانی نظام کی مضبوط بنیادیں استوار ہوگئیں جوکہ تاحال قائم ہیں۔
کچھ ایسے ہی حالات کا پاکستان میں جبر ہے کہ ایک بار پھر سے کونے کھدروں سے صدراتی نظام کی آوازیں ابھرنا شروع ہوگئی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اس قوم پر یہ ایک احسان عظیم تھا کہ ملک کے دولخت ہونے کے المیہ کے بعد اس نے پارلیمانی دستور وضع کیا۔ اس کو متفقہ منظوری دلوائی اور اس کو بقیہ ماندہ پاکستان میں نافذ بھی کر دیا۔ مگر پھر اسی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہی تھانوں سے اس نظام کو اپنی جاگیردارانہ اور آمرانہ ذہنیت سے یوں مفلوج کردیا کہ نہ صرف دوصوبوں میں اپوزیشن کی حکومتوں کو چلتا کیا بلکہ آنے والے عام انتخابات میں ایسا جھرلو پھیرا کہ نتیجے میں اٹھنے والی تحریک میں خود بھی بہہ گئے۔
بہر حال بھٹوصاحب کا دیا ہوا متفقہ قومی دستور پچھلی نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے پاکستان میں نافذ ہے، متفقہ دستور کا ہونا کوئی مذاق نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ کسی بھی معاشرے میں روز روز دستور سے متعلقہ بحثوں کو چھیڑا بھی نہیں جاسکتا کہ اس سے معاشرتی وحدت اور یگانگت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ پارلیمانی نظام کی بنیاد مثبت روایات پرہوتی ہے اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ یہ اندر سے ہی اپنی اصلاح کرتا رہے۔ ہمارے دستور کی اٹھارویں ترمیم اس کا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے ایک پارلیمانی دستور ہی پاکستان میں چلتا رہے اور اس کی اصلاح اور ترامیم حالات کے مطابق ہوتی رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریں اصلاح احوال کی جانب رکھی جائیں ایک ایسی چھلنی لگے کہ بد دیانت اور بدکردار شہرت کے لوگ ہمارے ایوانوں تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے سخت عملی قوانین وضع کیے جائیں۔ اس نقطہ سے ہٹ کر اگر پھر سے ملک میں دستوری بحث یا صدارتی نظام وغیرہ کی بات چلائی گئی تو اس سے وحدت ملک کو نقصان بھی ہوسکتا ہے کہ دستور سازی کوئی کھیل تماشہ نہیں ہوتا کہ اسے وقتاً فوقتاً لگا کر رکھا جائے۔
(کرنل ریٹائرڈ اور ضلع نارووال کے سابق ناظم ہیں)
٭……٭……٭
حکومتی احتساب کے بیانیہ پر اُٹھتے سوالات
ملک منظور احمد
احتساب اور بلاامتیاز احتساب پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں ایک اہم ترین وعدہ تھا جو کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سپورٹرز کے ساتھ کیا۔ اگرچہ کہ ملک میں احتساب کا عمل ان کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ سابق وزیر اعظم نااہل قرار پا چکے تھے، اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کے خلاف بھی کارروائی شروع ہو چکی تھی لیکن بہرحال اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد احتساب کے عمل میں خاطرخواہ تیزی آئی اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت اہم ترین اپوزیشن رہنماؤں کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان پر اربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ ان رہنماؤں سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کے اربوں روپے نکلوائے جا ئیں گے لیکن آج ہم اس حوالے سے کہا ں کھڑے ہوئے ہیں؟ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ اور خورشید شاہ سمیت دیگر رہنما ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں ضمانت کے فیصلوں میں ہائی کورٹس اور کچھ کیسز میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نیب کی جانب سے اپنے الزامات کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے ہیں اور اب اس سب کے بعد ہم آج یہاں کھڑے ہوئے ہیں۔
نیب کا ادارہ جو کہ کرپشن کے خلاف اس جنگ میں صف اول میں تھا اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے گزشتہ چند سالوں میں اربوں روپے ریکور کرکے ملکی خزانے میں جمع کروائے ہیں لیکن نیب کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا اتفاق ہے کہ نیب نے یہ ریکوری کا روباری سمیت دیگر افراد سے کی ہے۔ سیاستدانوں سے اور ہائی پروفائل سیاستدانوں سے نیب کچھ بھی ریکور نہیں کر سکا ہے۔یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم کی خواہش کے باوجود ملک میں اس طرح کا احتساب نہیں ہو سکا جس کی امید وہ کیے ہو ئے تھے اور بات کا اظہار انہوں نے میڈیا پر بر ملا بھی کیا ہے۔اب اس کی وجہ کیا ہے اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے؟ کچھ لوگ تو حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بنائے جانے والے کیسز کو کمزور اور بدنیتی پر قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کیسز میں کمزوری کی وجہ سے ریلیف اپوزیشن کو مل رہا ہے جبکہ بعض کی جانب سے پراسیکیوشن کی کمزوری کو اس ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا تا ہے اور بعض جانب سے تو عدلیہ کے خلاف بھی کچھ انگلیاں اٹھتی ہیں۔
بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل اور حکومتی احتساب کا بیانیہ ناکامی کی جانب جاتا ہو ا محسوس ہو تا ہے۔اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ پونے چار سال کے بعد جو شخص حکومتی احتساب کے عمل اور بیانیہ کو لیڈ کررہا ہے، وہ ایک طرح سے اپنی ناکامی کے اعتراف میں استعفیٰ دے کر چلا گیا اور بعض ذرائع کے مطابق تو ان سے استعفیٰ لیا گیا۔ اس واقعے نے بھی خاص طور پر حکومت کے احتساب کے بیانیہ کو بہت زک پہنچائی ہے۔
ظاہر ہے جب سپہ سالار ہی ناکامی کا اعتراف کر لے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے لیکن وزیر اعظم عمرا ن خان اس حوالے سے پر امید ضرور ہیں اور انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اس عمل کو آگے بڑھائیں گے اور اپوزیشن رہنما سزا سے نہیں بچ سکیں۔ ملک کے وزیر اعظم کو اس طرح کی بات کرنی بھی چاہیے کہ نہیں یہ ایک الگ بحث ہے،نئے مشیر احتساب مصدق عباسی نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور ان کے چارج سنبھالنے کے چند روز میں ہی ہمیں ایف آئی اے افسران کے تبادلے کا کیس دیکھنے کو ملا۔ افسران کے تبادلوں کے حکم تو وزیر اعظم نے واپس کروا دیا ہے لیکن یہ چہ مگوئیاں بہرحال شروع ہو گئی ہیں کہ حکومت میں اس حوالے سے کس لیول میں مس کمیونیکیشن ہوئی ہے اور کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ نئے مشیر احتساب کے آنے کے بعد بھی احتساب کا عمل زیادہ بہتر انداز میں چلتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اور یہ واقعہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے ایک نمونہ ہے۔
بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ملک کوئی بھی ریاست یا کوئی بھی حکومت احتساب کے بغیر نہیں چل سکتی ہے۔ اگر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو تو کوئی بھی نظام نہیں چل سکتا ہے اور اند ر ہی اندر سے کھوکھلا ہو تا چلا جا تا ہے لیکن اس حوالے سے اس بات کی اہمیت کلیدی ہے کہ احتساب کا عمل شفاف ہو بلاامتیاز ہو اور بلاتفریق ہو لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا ہو تا نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں اس تمام عمل میں سیاسی آمیزش ہو جاتی ہے اور اس کا تمام فائدہ اپوزیشن کو ہوجاتا ہے۔جہاں تک سوال ہے موجودہ حکومت کے احتسابی عمل کا تو اس حوالے سے کوئی پیشین گوئی تو نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ حکومت کے پاس وقت کم رہ گیا ہے اگر آئندہ الیکشن سے قبل اگر اپنے سپورٹرز کو اس حوالے سے کوئی ٹھوس پیشرفت دکھانا چاہتے ہیں تو پھر جو وقت حکومت کے پاس رہ گیا ہے اس میں بلاامتیاز اور اکراس دی بورڈ احتساب کو یقینی بنائے۔ اسی طرح اب اس عمل کی گرتی ساکھ اور ٹوٹتے ہوئے مومینٹم کو بحال کیا جاسکتا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭
مثبت اشاریئے
فوزیہ افسر
ملک کی برآمدات میں بہتری کا سفر ہو یا ملکی مصنوعات کی نئی عالمی منڈیوں تک رسائی اور اس کے نتیجے میں برآمدی شعبے کی بہتری، ٹیکسوں کے اہداف میں بہتری ہویابیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافہ معاشی میدان میں اب ہمیں اچھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشی مشکلات سے چھٹکارا پانے اور ملک کو درست معاشی سمت گامزن کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑے جن کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہورہے ہیں۔
عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے تمام شعبوں کو بہتر بنانے کا تہیہ کرکے مفاد عامہ کو پیش نظر تمام شعبوں کا بہتر کام کرنے اور نتیجہ خیز ہونے سے ہی وطن عزیزخوشحالی کی جانب رواں دواں ہو گا، اس سے قبل جہاں ہمیں متعدد اچھی خبریں سننے کو ملیں وہیں پر وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار میں نمایاں بہتری کے لیے حوالے سے اچھی خبر سنائی ہے مجموعی گھریلو پیداوار یا جی ڈی پی کسی ملک کی خوشحالی کا اندازہ لگانے کے لیے حتمی کارکردگی کی اصطلاحات میں سے ایک ہے۔ بنیادی طور پر جی ڈی پی کسی ملک کی اقتصادی تصویر ہے جو معیشت کے سائز اور شرح نمو کا تخمینہ فراہم کرتی ہے۔ معیشت کے اعدادوشمار جاننے کیلئے ملک کا سب سے بڑا فورم نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی ہے جو ملکی معیشت کا موزانہ مالی سال 2005-06ء سے کرتا رہا ہے تاہم اب معیشت کو جاننے کیلیے بنیادی سال 2005-06ء کے بجائے ری بیس کرکے 2015-16ء کو بنیاد بنایا گیا ہے جس سے معیشت کے کئی اعداد و شمار حیران کن حد تک تبدیل ہوگئے ہیں۔ معاشی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معیشت کی ری بیسنگ ایک اچھی چیز ہے اس سے آنے والے دنوں میں معاشی شعبے میں مزید بہتری آئے گی نئے شعبوں کوشامل کرنے سے ریلیف ملے گا نیشنل اکانٹس کمیٹی کی جانب سے ری بیسنگ کرکے بنیادی سال تبدیل کرنے کافیصلہ کیا گیا۔
30 جون 2021 ء کو ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 5.37 فی صد رہی جو گزشتہ 14 سال میں بلند ترین شرح نمو ہے۔ ری بیسنگ کے فیصلے سے مالی سال 2015-16 ء میں انڈسٹریز کی گراس ویلیو ایڈیشن 3.1 ٹریلین اضافے سے 30.5 ٹریلین ہوگئی۔ اس عرصہ میں زراعت کی گراس ویلیو ایڈیشن 8.3 فیصد اضافے سے 7.3 ٹریلین ہوگئی۔ اس طرح سروسز شعبے کی گراس ویلیو ایڈیشن 12.5 فیصد اضافے سے 17.3 ٹریلین ہوگئی۔ حکومت کے کرونا کے دوران موثر منصوبہ بندی اور بہتر حکمت عملی سے کرونا وبا کے باوجود گذشتہ زراعت 3.48 فیصد، صنعت میں 7.79 فیصد اور سروسز میں 5.70 فیصد گروتھ ریکارڈ کی گئی۔ کرونا اور دیگر مسائل کے باوجود گروتھ 5.57 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس طرح معیشت کا حجم 298 ارب ڈالر کی بجائے 346.7 ارب ڈالر رہا۔ فی کس آمدن بھی بہتری ہوئی اور فی کس آمدن 1543 ڈالر کی بجائے 1666 ڈالر تک جا پہنچی۔ معیشت پر قرضوں کا حجم اب 84 فیصد سے کم ہو کر 72 فیصد رہ گیا، ملکی معاشی ترقی کی رفتاربڑھنے کے حوالے سے یہ ڈویلپمنٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ملکی معیشت نقصان پہنچانے کے الزامات کا سامناہے، دنیا بھرمیں گزشتہ دو سال سے جاری کرونا وبا کے پھیلاؤ نے جہاں بڑی مضبوط معیشتوں کومتاثرکیاہے وہیں پرملکی معاشی ترقی کی شرح 5.7 فیصد پرپہنچنا بلاشبہ حکومتی اقدامات کا نتیجہ ہے۔
کرونا کے دوران معاشی ماہرین کا یہ کہناتھا کہ اگر 2021ء میں پاکستان ایک فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرلیتاہے تو یہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہوگی لیکن یہاں تو صورتحال اس سے بھی کہیں زیادہ بہتر رہی، معروف عالمی ادارے بلوم برگ نے بھی حکومت کی اقتصادی کامیابی کو عالمی سطح پر اعتراف کرتے ہوئے درست معاشی سمت کو تسلیم کیا ہے بلوم برگ نے کہاہے کہ پاکستان بڑھتی ہوئی شرح نموکا تسلسل جاری رکھے گاحکومت کی جانب سے ٹیکس اصلاحات پر عملدرآمد کرنے سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا سی پیک کے تحت مختلف شعبوں میں چلنے والے منصوبوں سے انفرادی سطح پر معاشی بہتری آئیگی۔
عالمی ادارے کا مزید کہنا ہے کہ شرح نمو میں اضافے سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ حکومت کی جانب سے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے متعارف کروائے گئے کامیاب جوان پروگرام کو سراہتے ہوئے بلوم برگ نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ روزگار فراہمی کے جامع پروگرام سے ہنرمند افراد کی ڈیمانڈ اورسپلائی میں فرق مزید کم ہوگا اور پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ کرونا وبا کے دوران معاشی شرح نمو میں بہتری لانے کے حوالے سے لاک ڈاون سے متعلق حکومتی پالیسی کا بڑا واضح عمل دخل ہے کرونا کے پھیلاؤ کے دنوں میں سب کچھ بند کرنے کی بجائے انڈسٹری کو کھولنے اورچلانے کے مثبت نتائج ظاہرہوچکے ہیں،ملکی جی ڈی پی گروتھ کا 5.7 فیصد کی گروتھ حاصل کرنے کی ایک اور بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زراعت، صنعتی شعبے، اور سروسز سیکٹر نے بھرپورکار کردگی دکھائی ہے سابق حکومتوں نے زرعی شعبے اور اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی، موجودہ حکومت کے اقدامات کے باعث تین سال میں کسان کو ہر فصل میں منافع ہے، اب 90 فیصد کسان بلا سود قرضہ حاصل کر سکیں گے، ٹریکٹر اور دیگر زرعی آلات پر بھی بلا سود قرضہ فراہم کیا جا رہا ہے، کسانوں کو ان کی فصل کے بہتر معاوضے اور اسے محفوظ بنانے کے لئے کمیونٹی سٹوریج کاتصور پیش کیا گیا ہے کسان کارڈ کااجرا ایک اور اہم اقدام ہے ایسے تمام اقدامات نے زرعی شعبے میں بہتری کی نوید سنائی ہے ملک کی نصف آبادی زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور زرعی شعبے کا کارکردگی دکھانا انتہائی خوش آئند ہے زرعی شعبے کے ساتھ ساتھ شرح نمو کی بہتری میں صنعت اور سروسزسیکٹر نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔
حکومت نے صنعتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے جہاں بااعتماد ماحول پیدا کیا وہیں پر صنعتی پیداوار کو منڈیوں میں مسابقتی بنانے کے لیے انڈسٹریل سپورٹ پیکیج کااعلان کرکے صنعتی سرگرمیوں کی خوب حوصلہ افزائی کی پاورسیکٹر کے ریگولیٹری ادارے نیپرا کے چیئرمین نے بھی حکومتی پیکج کے تحت صنعتی گروتھ کو تسلیم کیا ہے، موجودہ حکومت نے صنعتی شعبے کے لیے بداعتمادی کی فضا ختم کی معاشی گروتھ کے حوالے سے جو اعدادوشمار دیئے گئے ہیں یہ گزشتہ مالی سال یعنی 2021 ء کے ہیں اور 2022 ء کے اعدادوشمار ان سے مزید بہترہونے کی واثق امید ہے معاشی ترقی کے اس سفر کو جاری رکھنے اور اس میں تیزی لانے کے لیے صنعتی ترقی پر مزید توجہ دینا ہوگی مارکیٹ کی طلب کو دیکھتے ہوئے صنعتی پیدوار میں جدت لانا ہوگی تاکہ عالمی منڈیوں میں جن مصنوعات کی طلب زیادہ ہے ان کی پیداوار بڑھا کر اس طلب کو پورا کیاجاسکے زرعی شعبے میں پیداواری صلاحیتوں کو مزید فروغ دیاجائے جو بہترٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت ہی ممکن ہے کسی بھی شعبے میں پالیسی سازی کے عمل میں تمام متعلقہ شراکت داروں کی شمولیت کے ذریعے مستقبل میں مزید بہتر نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔
(کالم نگار معاشی اورمعاشرتی ایشوز پرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭
منی بجٹ کے آفٹر شاکس؟
کامران گورائیہ
حکمران جماعت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منی بجٹ منظور کروا کر آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پورے کر دیئے ہیں۔ منی بجٹ کی منظوری کے بعد گو یا حکومت کے ہاتھ میں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات اور روز مرہ میں استعمال ہونے والی تمام اشیاء کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرنے کا اختیار حاصل ہو چکا ہے۔ حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اقتدار کے ساڑھے تین برسوں کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف ملک میں مہنگائی اور بدترین معاشی بحران کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ڈال رہی ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان تو اس حد تک فرما چکے ہیں کہ انہیں بے روز گاری اور کسمپرسی کی وجہ سے کسی کے جینے مرنے کی بھی پرواہ نہیں کیونکہ انہیں ملک میں تاریخ ساز مہنگائی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے تقریبا 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے یا اس کی شرح 17 فیصد کر دی گئی ہے جس سے حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔
درآمدی اشیا پر بھی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے جس سے بظاہر تاجر پیشہ لوگ متاثر ہوں گے لیکن یہ اشیاء غریب آدمی استعمال نہیں کرتا۔ یہ درست ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وباء کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مہنگائی کا تناسب بڑھا ہے لیکن کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت نظر انداز کرنا زیب دیتی ہے کہ وہ مہنگائی اور بے روز گاری کے ذمہ دار نہیں۔ کینیڈا سمیت دنیا کے جن ممالک میں مہنگائی بڑھی وہاں پر ذرائع آمدن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی حکمران جماعت تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرتی ہے، اسی لیے سالانہ بجٹ ہو یا منی بجٹ عوام کو ہی مہنگائی اور بے روز گاری کے آفٹر شاکس بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ موجودہ برسر اقتدار جماعت نے پٹرول، ڈالر، بجلی، گیس، آٹا، چینی، گھی اور حتیٰ کہ ادویات کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ کیا ہے اس اعتبار سے سابق ادوار کے تمام ریکارڈ پاش پاش ہو چکے ہیں۔ حیران کن طور پر یوٹیلیٹی اسٹورز پر برانڈڈ گھی کی فی کلو قیمت میں 47 روپے اور برانڈڈ آئل کی قیمت میں 57روپے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد درجہ اول کا برانڈڈ گھی 355 روپے فی کلو سے بڑھ کر 402 روپے اور آئل 355روپے فی کلو سے بڑھ کر 412روپے فی کلو ہوگیا۔
درجہ اول کے گھی کا 5 کلو والا ڈبہ 1795سے بڑھ کر 2032روپے ہو گیا، پانچ کلو گھی کے ڈبے کی قیمت میں 237روپے اضا فہ ہوا، درجہ اول کے 5 کلو آئل کے ڈبے کی قیمت 1795سے بڑھ کر 2085روپے ہوگئی، پانچ کلو آئل کی قیمت میں 287روپے کا اضافہ ہوا، مختلف برانڈ ز کے درجہ اول اور دوئم کے مختلف گھی آئل کی فی کلو قیمت میں 70روپے تک اوسط اضافہ کیا گیا۔ گرم مصالحہ کی قیمت میں 16روپے اضافہ کیا گیا، سفید زیرہ 200گرام پیکٹ 198سے بڑھا کر 230روپے کر دیا گیا، سفید زیرہ کی قیمت میں 32روپے اضافہ ہوا، بڑی الائچی کی100گرام قیمت 95روپے سے بڑھا کر 98روپے کر دی گئی۔
مہنگائی کے پے درپے حملوں کی وجہ سے متوسط طبقہ کا وجود نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے اب ہمارے ہاں صرف بہت زیادہ امیر یا پھر بہت ہی زیادہ غریب بچے ہیں اور بچے کھچے یہ غریب بھی سسکیاں لے رہے ہیں کیونکہ بدحالی اور پسماندگی کی وجہ سے ان میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ بے بسی اور بے چارگی کی کیفیت میں حکومن مخالف ردعمل کا اظہار کر سکیں۔حکومت کی بیڈ گورننس اور عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ پٹرول، گیس، اور بجلی کے جھٹکے دے کر بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اگلے دو ماہ میں مہنگائی میں نمایاں کمی آئے گی اور روز گار کے بے پناہ مواقع میسر ہوں گے لیکن عالمی اداروں کی رپورٹس حکومتی دعواؤں کے برعکس ہیں اور پاکستانی عوام کے اوسان خطاء کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پیش کردہ اعدادوشمار میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں آئندہ کئی سالوں تک معاشی بحران برپا رہے گا یہ حقائق لمحہ فکریہ ہیں لیکن ملک کی اشرافیہ اور مقتدر حلقے اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی بجائے صدارتی نظام متعارف کروانے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ یوں تو ماضی میں بھی حکمرانوں نے عوامی مسائل سے پہلو تہی کی ہے لیکن موجودہ حکومت غالباً عوام سے انتقام لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حکمران اعلانیہ طور پر اعتراف تو کر رہے ہیں کہ مہنگائی ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں لیکن ان تمام مسائل کا خاتمہ کن تدابیر سے کیا جائے گا اس حوالہ سے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی ہے نہ منصوبہ۔ عوام کو پسماندگی کے ایسے کنویں میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں سے نکلنا اب عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔ موجودہ حکومت کی بدترین کارکردگی میں ملک کی وہ اپوزیشن جماعتیں بھی برابر کی شریک ہیں جو بظاہر حکومت مخالف بیانات دیتی ہیں، جلسے جلوس کرتی ہیں، ریلیاں نکالتی ہیں لیکن جب پارلیمنٹ میں منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک جیسے بلاجواز اور متنازعہ بلز لائے جاتے ہیں تو اپنی عددی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف محض اپنے اتحادیوں کے ووٹوں پر اقتدار پر براجمان ہے لیکن عوامی مسائل کے معاملہ میں ہمیشہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ ان حالات میں ملک کے عوام میں بے بسی، مایوسی اور بے یقینی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ امن و امان کی صورت حال نے ایک اور پریشانی کھڑی کردی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، افراتفری کا جواب اب صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اپنے ان تمام نام نہاد نمائندوں کو نشان عبرت بنائیں جو ملک کو بدترین بحرانوں سے دو چار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ملک کے عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے ایسا نا کہ سکے تو پھر ان کے پاس صرف دو ہی راستے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ وہ گھروں کے لئے راشن کا بندوبست کرنے کی بجائے اہل خانہ سمیت لنگر خانوں کا رخ کریں یا پھر منی بجٹ کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی کے آفٹر شاکس برداشت کرتے کرتے زندگی گزاریں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭
روح بیدار ہورہی ہے
کنور محمد دلشاد
سینٹ میں اکثریت کے باوجود بین الاقوامی ادارے کی بالادستی قبول کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے نظام حکومت کے ساتھ سنگین مذاق کیا ہے۔ سینٹ میں اپوزیشن اکثریت کے باوجود اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر حکومت کے ترمیمی بل منظور کرا کے صرف عوام کو دھوکہ دینے کیلئے چیئرمین سینٹ کے ڈائس کا گھیراؤ کرتی رہی۔ ترمیمی بل کے حق میں 43‘ مخالفت میں 42ووٹ اور خصوصی منصوبہ بندی کے تحت حسب روایت اپوزیشن کے 8سینیٹرز غیرحاضر ہوگئے۔ اپوزیشن کے کردار نے آئندہ الیکشن میں وزیراعظم کی کامیابی کیلئے راہ ہموار کردی ہے اور اپوزیشن کے نام نہاد لانگ مارچ پر بھی کئی سوالات اور خدشات سامنے آگئے ہیں۔ اپوزیشن کے آٹھ ارکان کی پراسرار غیرحاضری سے عوام نے اپوزیشن کے اندرونی خفیہ عزائم کو بھانپ لیا ہے اور اپوزیشن کی اصولی سیاست کی توقع کرنا سنگین غلطی ہوگی۔ اپوزیشن کی ملک وقوم سے بیوفائی کرنے کے نتیجہ میں سٹیٹ بینک کی دستاویزات سے انٹرنیشنل مالی ادارے کو پاکستان کو نوآبادیاتی کالونی بنانے کا موقع مل جائے گا اور آئندہ آگے چل کر پاکستان کے ایٹمی اثاثے بھی ان کی زد میں آ جائیں گے اور کشمیر جیسے حساس خطہ کی آزادی سے پاکستان کو محروم کردیا جائے گا۔ کشمیر کے مظلوم مسلمان اب ہمیشہ کیلئے بھارت کے رحم وکرم پر ہی ہوں گے۔
سٹیٹ بینک کے ترمیمی بل کی مخالفت اور مزاحمت کے حوالہ سے اپوزیشن کے ارکان تو مسلسل بلند بانگ دعوے اور پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے جانے کے تناظر میں پاکستان کی سلامتی کے بارے میں خدشات کا اظہار کررہے تھے۔ پھر قومی اسمبلی کے ایوان میں اس ترمیمی بل کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن کے 12ارکان غیرحاضر ہوگئے اور میڈیا نے ان غیرحاضر ارکان کی گوشمالی بھی کی اور میں نے بھی اخبار کے کالم میں واضح طور پر آئینی حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ان ارکان کو آئین کے آرٹیکل 63 (1) کے تحت نااہل کیا جا سکتا ہے۔
قومی اسمبلی سے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد قوم ہی توقع کررہی تھی کہ سینٹ میں اس بل پر حکومت کو واضح طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس بات کی توقع ہرگز نہیں تھی کہ سینٹ کے ایوان میں یہ نفرت انگیز بل اتنی آسانی سے منظور ہو جائے گا۔ اپوزیشن کی اس شکست اور حکومت کی کامیابی سے ہی نتیجہ سامنے آیا ہے یہ سب معاملات طے شدہ منصوبے اور ہم آہنگی کا حصہ تھا! مجھے پارلیمانی راہداری سے خبریں مل رہی تھیں کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بیک ڈور پارلیمانی کے تحت منصوبہ بندی ہو چکی ہے اور سینٹ میں سٹیٹ بینک کو مالیاتی ادارے کے حوالہ کرنے کیلئے ترمیمی بل منظور کرا لیا جائے گا اور جن سینیٹروں کے غائب ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی تھیں اس میں چند ارکان کے نام بھی بتا دیئے گئے تھے! اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ اپوزیشن کے کھوٹے سکوں کی بدولت اس بات میں صداقت موجود ہے کہ اب صدارتی طرز حکومت کے نفاذ کیلئے آئین کے آرٹیکل 7 اور آئین کے آرٹیکل 41 اور سیکنڈ شیڈول‘ الیکشن آف صدر مملکت میں ترامیم کرانے کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل مرحلہ نہیں ہوگا‘ اپوزیشن کی بھاری اکثریت کرونا کی آڑ میں منظر سے غائب ہو جائے گی اور اس غیرحاضری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیکنڈ شیڈول کے آرٹیکل 19 کے مطابق حکمران جماعت اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
وزیراعظم عمران کو منقسم اپوزیشن کا سامنا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اپنے اپنے نظریئے میں باہمی طور پر یکساں سوچ کی حامل نہیں ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ کے سابق قائد الطاف حسین کی طرز پر نواز شریف اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں کی ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں اور ان کی آزادانہ حکمت عملی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے فعال سوشل میڈیا کی ٹیم مقرر کررکھی ہے۔ پرویز رشید اور ان کے گروپ نے شہباز شریف کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے اور اسی طرح بلاول زرداری بھی جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی جس کے وہ سربراہ ہیں ان کی پارلیمنٹ میں کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین جس کے چیئرمین آصف زرداری ہیں جبکہ آئینی طور پر بلاول زرداری بھی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کا ہی حصہ ہیں لہٰذا ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کا مسکرانا حق بجانب ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مئی 2013ء کے الیکشن سے پیشتر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن متنازعہ رہی اور الیکشن کمیشن کے معزز رکن جسٹس(ر) ریاض کیانی (اب مرحوم ہیں) نے سنگل رکنی بنچ کے ذریعے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن منظور کی تھی اور بعدازاں 2018ء کے الیکشن سے پہلے جولائی 2018ء میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اور پاکستان پیپلز پارٹی کو مشترکہ سمبل الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 15 کے تحت الاٹ کردیا تھا جو الیکشن ایکٹ 2017 کے رولز 162 (2) اور 163 کو مشترکہ سمبل ”تیر“ کا نشان الاٹ کردیا جو اس سے پیشتر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو جون 2002ء میں الاٹ کردیا گیا تھا۔
اس حساس معاملہ کو قانونی طور پر واشنگٹن میں مقیم سید اخترار حیدر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ریفرنس دائر کیا ہوا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو مشترکہ سمبل تیر کا نشان قانون طور پر درست نہیں ہے‘ سید اخترار حیدر نے اہم قانونی نکات پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست دائر کرتے رہے ہیں اور اب اپنے کیس کی پیروی کرنے کیلئے وہ مارچ میں پاکستان آرہے ہیں۔ اسی طرح سید اخترار حیدر نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی رجسٹریشن جو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 203 کے تحت بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 203 کے تحت ایک ممبر بیک وقت ایک ہی پارٹی کا ممبر بن سکتا ہے جبکہ یہ اصول پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبران دونوں پارٹی کے ممبر ہیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 203 سے انحراف ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں یکم فروری سے فارن فٹرک کیس کی سماعت بھی شروع ہورہی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں الیکشن ایکٹ 2017 کے واضح کردہ قوانین کی روشنی میں کیا فیصلہ کرتا ہے وہ اگلے چند ہفتوں میں واضح ہو جائے گا‘ اسلام آباد کے حلقوں میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ 27فروری اور 23مارچ کے مہنگائی مارچ کی آڑ میں جو لانگ مارچ ہونے کی نوید کے اس کے سائے تلے اہم فیصلے ہورہے ہیں اور طاقتور حلقے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین سے رابطہ میں ہے جس کے سربراہ آصف زرداری ہیں اور ان سے معاملات طے ہورہے ہیں اور اس نتیجہ میں ہی سٹیٹ بینک ترمیمی بل مخصوص حکمت عملی کے تحت منظور کرا کے اپوزیشن کو مزید تقسیم کرکے کمزور کردیا گیا ہے۔
پارلیمانی راہداری میں یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ آئندہ کیلئے قومی سیاست کا نیا رخ بدلنے جارہا ہے اور سابق صدر آصف زرداری کی پراسرار خاموشی سے یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ پالیسی اور فیصلہ سازوں کے مذاکرات تقریباً فائنل ہونے کو ہے‘ آئندہ ماہ اس حوالہ سے اہم سیاسی پیش رفت سامنے آ سکتی ہے‘ ملک میں ایک نئی تھرڈ پارٹی کی تیاریوں کو تیزی سے آگے بڑھایا جارہا ہے جس کا مقصد شریف برادران کو الگ تھلگ کرتا ہے اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی اہم شخصیات اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی ارکان کا ایک اہم گروپ نئی تھرڈ پارٹی کا حصہ ہوگا۔ تھرڈ پارٹی کے الائنس میں دیگر جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہونے کیلئے پر تول رہے ہیں اور ان سب کی نظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہم فیصلے پر لگی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 209‘ 210‘ 212 اور 2015ء کی زد میں آئی تو پھر چند دنوں میں تھرڈ پارٹی کی رجسٹریشن کیلئے فوری طور پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جائے گا۔ پارٹی کا آئین اور منشور کی تیاری زور شور سے جاری ہے عوام محسوس کررہی ہے کہ اپوزیشن نے ان ساڑھے تین سالوں میں تحریک انصاف کو ریلیف دیا ہے۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭
جناب وزیراعلیٰ پنجاب
سید سجاد حسین بخاری
وزیراعلیٰ گزشتہ ساڑھے تین سال سے ملتان، ڈیرہ اور بہاولپور ڈویژن کیلئے گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں بالخصوص ان کے اپنے آبائی علاقے، تحصیل اور ضلع ڈیرہ غازی خان کیلئے متعدد ترقیاتی منصوبے جاری ہیں اور ترقی کا رخ اب سرائیکی خطے کی طرف ہے مگر ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ کچھ قانونی اقدام بھی کرنے ضروری ہیں تاکہ آنے والی حکومت صوبے اور سیکرٹریٹ پر شب خون نہ مار سکے۔ قانونی نکات میں سب سے پہلے تو رولز اینڈ بزنس میں جو ترامیم کی ہیں اور کابینہ اس کی منظوری دے چکی ہے اب اسے صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا جائے اور پھر چیف سیکرٹری پنجاب کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کا کہا جائے۔ دوسرا کام پنجاب کے 56 محکمہ جات ہیں جن میں سے صرف 16 محکمے اس نئے سیکرٹریٹ میں قائم ہوئے ہیں۔ باقی 40 محکموں کو بھی وہی قانونی حیثیت دی جائے جو 16 محکموں کو دی گئی ہے۔ بلڈنگز کا بہانہ بنانا دانش مندی نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ وزیراعلیٰ اپنی موجودگی میں ان تمام محکموں کا نوٹیفکیشن جاری کرا دیں۔ مجھے وزیراعلیٰ کی نیت پر شک نہیں ہے اور نہ ہی ان کی محبت اور اپنائیت میں ہم کمی محسوس کرتے ہیں صرف ان کو بتانا مقصود ہے جتنے بھی ترقیاتی منصوبے ان کے دور میں شروع ہوئے ہیں۔ ان پر ڈبل شفٹ کے تحت 2022ء تک مکمل کرنے کا حکم دیں۔ بے شک ٹھیکیداروں کے لیے کیش اور اعلیٰ کارکردگی پر ایوارڈ سے ان کو نوازیں یہ کوئی مشکل کام نہیں ہیں جب فنڈز موجود ہیں اور اختیارات بھی وزیراعلیٰ کے ہیں تو پھر مدت چہ معنی۔ امید ہے اس نقطے پر وزیراعلیٰ ضرور غور فرمائیں گے۔ ہمیں انتہائی خوشی ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں تاریخ ساز ترقیاتی منصوبے ہو رہے ہیں، ضرور ہوں مگر ملتان کو وزیراعلیٰ اپنا گھر تسلیم کرتے ہیں جس کا مبینہ ثبوت ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران ان کا ملتان میں قیام ہے لہٰذا جس شدومد سے تونسہ اور ڈیرہ غازی خان میں کام ہو رہا ہے ملتان میں بھی وہی جذبہ اپنانا ضروری ہے۔ وزیراعلیٰ کے نوٹس میں ملتان کے میگا پراجیکٹس دینا انتہائی ضروری ہیں جن میں ملتان وہاڑی روڈ عذاب عظیم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسی طرح ہی لودھراں ملتان روڈ کی ایک سائیڈ کا منصوبہ بھی ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ سیداں والا بائی پاس تا ہیڈ محمد والا روڈ کب شروع ہوگا؟
ان تینوں منصوبوں کے ساتھ بہاولپور، لودھراں کوسکھرموٹروے سے ملاناضروری ہے تاکہ سفرمیں آسانی ہو۔ ملتان شہر کا سب سے بڑامسئلہ ٹریفک کا ہے۔ بوسن روڈ پر آپ کیلئے توٹریفک روک کرآسانی پیدا کی جاتی ہے مگرآپ کبھی پرائیویٹ گاڑی میں کسی وقت بوسن روڈ پر سفرکریں توحقیقت آشکارہوجائے گی۔ کینٹ سے غوث اعظم روڈ کو سیداں والے بائی پاس تک ڈبل کردیاجائے تاکہ ہائیکورٹ اورکینٹ کی ٹریفک بوسن روڈپر نہ آنے سے مقامی ٹریفک رواں دواں رہے۔
اب بات صحت کے منصوبوں کی ہوجائے نشتر ہسپتال نمبر1میں ایک ہزار ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ایمرجنسی پرویزالٰہی یاشہبازشریف کے دور کی طرح فری میڈیسن روانی سے تقسیم نہیں کررہی۔ غریب لوگوں کوبڑی پریشانی ہے۔ نشترہسپتال میں آپ کی مہربانی سے پٹ سکین مشین توآچکی ہے مگر پروفیشنل عملہ نہیں ہے اس کمی سے ڈیڑھ ارب کی لاگت سے پٹ سکین کی افادیت نہیں ہوگی۔ نشترہسپتال میں کینسریونٹ پرزیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ نیویٹالوجی یونٹ2018ء سے مکمل ہوچکا ہے مگرعملہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ یونٹ فعال نہیں ہوسکا۔ اس منصوبے کی فنڈنگ غیرملک نے کی تھی۔ اگر اس سال اسے فعال نہ کیاگیاتو بین الاقوامی ادارے آئندہ فنڈز نہیں دیں گے۔ اس یونٹ میں 195 رکنی سٹاف کیلئے ایس این ای آپ کی خدمت میں چار باربھجوائی جاچکی ہے۔ مگرابھی تک آپ کی طرف سے جواب ندارد۔ کیاوزیراعلیٰ صاحب آپ کے نوٹس میں یہ بات ہے کہ پورے جنوبی پنجاب میں پھیپھڑوں کیلئے ایک بھی ایکمومشین نہیں ہے اگر یہ مشین نشتر میں ہوتی تو ہمارے ڈاکٹر ودیگر میڈیکل سٹاف کے علاوہ کرونا سے دیگر اموات کم ہوتیں۔ نشترٹوکا آپ نے 2019ء میں سنگ بنیاد رکھا، دوسال میں چارارب کی لاگت سے مکمل کرناتھا مگرصدافسوس کہ یہ منصوبہ دوسال میں مکمل نہ ہوسکا جبکہ اس کی لاگت 4 ارب سے 9 ارب ہو چکی ہے اور وہ بھی نہ جانے کب مکمل ہو۔ملتان ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کیلئے نئی عمارت تومکمل ہو چکی ہے مگر ہسپتال کوچالوکرنے کی بجائے سیکرٹری ہیلتھ نے قبضہ کرکے اپنادفتر بنالیا ہے۔ اسی طرح کارڈیالوجی کے توسیع منصوبے کے 70کروڑ روپے چنددن قبل لیپس ہوگئے جبکہ آپ نے وعدہ کیاتھا کہ جنوبی پنجاب کے فندز کبھی واپس نہیں جائینگے اور اسی طرح پورے جنوبی پنجاب کیلئے بچوں کی سرجری کیلئے صرف ایک کارڈک سرجن ہے۔ وزیراعلیٰ آپ کو یہ جان کر یقینا دکھ ہوگا کہ ملتان شہر کا سیوریج کا کام گزشتہ دو سالوں سے مکمل نہیں ہوسکا۔ سوا تین ارب روپے کا ٹھیکہ ایک منظور نظر ٹھیکیدار کو دیا گیا ہے جو کام نہیں کر رہا، نتیجتاً نواب پور روڈ، چونگی نمبر14، ٹی بی اور فاروق پورہ کے رہائشی گزشتہ ایک سال سے بڑے کرب میں زندگی گزار رہے ہیں۔
صاف پانی کیلئے گورنر پنجاب اور ملتان کے مخیرحضرات بڑی مہربانی کر رہے ہیں مگر ایک کام آپ کے کرنے کا ہے۔ ملتان شہر اور انڈسٹریل اسٹیٹ کے سیور کے پانی کو دریا اور نہروں میں نہ ڈالا جائے بلکہ دونوں جگہوں پر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگوائے جائیں۔
اس کے علاوہ وزیراعلیٰ کے نوٹس میں یہ بھی دینا لازمی ہے کہ گزشتہ تین سال سے ڈسٹرکٹ جیل، لکڑمنڈی، لوہامارکیٹ، سبزی اور غلہ منڈیاں بس اورٹرک سٹینڈ کی منتقلی بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟ آخری بات یہ ہے کہ تمام منصوبوں کوایمرجنسی بنیادوں پر مکمل کرایا جائے تاکہ تحریک انصاف کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنے حلقوں میں جانے کے قابل ہوسکیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
ہم سب کرپشن کے ”ورلڈ چیمپین“ ہیں
ڈاکٹر ممتاز حسین مونس
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو دنیا کے کرپٹ ملکوں میں شامل کر کے ہمیں وہ آئینہ دکھایا ہے جس پر حکومت‘ اپوزیشن‘ بیورو کریٹ‘ صنعتکار‘ تاجر‘ اشرافیہ‘ عام شہری اور پوری قوم کو آپس میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے کم از کم خود احتسابی ضرور کرنی چاہیے۔ مفکر پاکستان‘ علامہ محمد اقبال ؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا اور عظیم قائد محمد علی جناحؒ نے جس کی تکمیل کے لیے مسلمانان ہند کو جھنجھوڑا‘ جو دو قومی نظریہ پیش کیا گیا اور پاکستان جیسے عظیم مملکت کے حصول کے لیے جن لاکھوں‘ کروڑوں مسلمانوں نے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی‘ جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ہندوؤں کے وہ وہ مظالم برداشت کیے جو رہتی دنیا تک بھلائے نہیں جا سکتے کم از کم وہ یہ پاکستان نہیں تھا جس کے بارے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2022ء میں رپورٹ جاری کی ہے۔ آج ہم مفکر پاکستان اور عظیم قائد کی روح سے صرف شرمندہ ہی نہیں بلکہ رنجیدہ بھی ہیں۔ راقم کا 22کروڑ عوام سے سوال ہے کہ قیام پاکستان کا مرکزی نعرہ ”پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ محمد رسول اللہ“ پر کیا آج ہم قائم ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو نا صرف ہمارے اسلاف سے ہمارا کیا ہوا وعدہ تو ایک طرف کیا ہم اللہ رب العزت اور اس کے پیارے محبوب صلی اللہ الیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے تو روگردانی نہیں کر رہے۔
واصف علی واصف مرحوم کا ایک قول کہ ”خوش نصیب انسان وہ ہے جو اپنی خوش نصیبی پر خوش ہے“ لیکن ہم اپنے نصیب سے بڑھ کر حاصل کرنے کی جدوجہد میں دنیا اور آخرت گنوا بیٹھے ہیں۔ حکومت کا الزام ہے کہ یہ کرپشن اپوزیشن کے ادوار کی ہے اور اپوزیشن کا الزام ہے کہ ہمارے دور میں تو کرپشن تھی اور ہم دنیا کے 123ممالک سے زیادہ کرپٹ تھے اور ہماری کرپشن دنیا کے 123ممالک سے زیادہ ریکارڈ پر ہے لیکن موجودہ دور حکومت میں ہم دنیا کے 139ممالک سے زیادہ کرپٹ ہو گئے ہیں اب اس بات پر ایک طوفان بدتمیزی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بھائی صرف کرپشن کا الزام ہی منہ کالا کرنے سے بڑا الزام ہے اور ہم 139ممالک سے زیادہ کرپٹ ہیں اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ کرپشن ہماری نسوں میں رچ بس گئی ہے اور ہم سب کرپشن کے ”ورلڈچیمپیئن“ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم آج بھی پنجابی‘ سندھی‘ بلوچ‘ پٹھان‘ سرائیکی اور اپنی اپنی لسانیت میں گھرے پڑے ہیں ایک قوم نہیں ہیں۔ آج بھی ہم اپنی دنیا و آخرت کو بھول کر صرف اور صرف مال کمانے کے چکروں میں ہیں حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی اور قبر میں الماری نہیں ہوتی۔ حرام کے مال سے صدقہ خیرات اور ایصال ثواب کا کوئی عمل قابل قبول نہیں اور جن کو ہم حرام کا مال اکٹھا کر کے دے جاتے ہیں وہ ہمارے لیے شاید دعا تک بھی نہیں کرتے تو پھر ہمیں واصف علی واصف صاحب کے سنہری قول کے مطابق اپنے نصیب پر خوش رہنے کی عادت کیوں نہیں ہے۔
پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کے لیے کیا ”خمینی انقلاب“ کی ضرورت ہے یا ”موزے تنگ“ کی ضرورت ہے کیا ہمیں کسی ایسے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی ضرورت ہے جو پوری قوم کو جوتے مار کر سیدھا کرے؟ کیا ہمارے پاس ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ الہ وآلہ وسلم کی تعلیمات نہیں ہیں جن پر عمل کر کے نہ صرف ہم صادق اور امین بن سکتے ہیں‘ پوری دنیا میں بحیثیت مسلمان پاکستان کو ایک ایماندار‘ فرض شناس‘ پُرامن اور آخوت و بھائی چارے سے بھر پور ایک مثالی ملک بنا کر پیش کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج جب ہم اپنے دن کا آغاز کریں تو ہمیں خاکروب سے لے کر سبزی فروش تک‘ کلرک سے لے کر اعلیٰ آفیسر تک‘ صنعتکار سے لے کر ایک عام دکاندار تک غرض کہ چپے چپے پر کرپشن کرپشن اور صرف کرپشن کیوں نظر آتی ہے۔ ہمارے سرکاری دفاتر کے بارے میں یہ کیوں مشہور ہے کہ ہمارا سرکاری ملازم تنخواہ صرف دفتر آنے کی لیتا ہے اور کام کرنے کی ”چٹی“۔ ارباب علم ودانش ہمیں بتائے کہ جیسے بھی ہو جو بھی ہو ہمیں ایک قوم بننا ہے اور پوری دنیا کے غیر مسلم نام لے کر بتائیں کہ پاکستان وہ دنیا کا واحد ملک ہے جو لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بنا اور یہ دنیا کی سب سے ایماندار قوم ہے۔
آج صادق اور امین کی ڈگریاں لیے ہر کوئی پھرتا ہے خود کو صادق و امین کہلوانے والوں نے کبھی اپنے گریبانوں کے اندر جھانکا کہ وہ کدھر سے صادق کی صواد اور امین کی الف پر بھی پورا اترتے ہیں۔ آج ہماری قوم ووٹ دینے کے لیے بڑی برائی سے چھوٹی برائی کو ووٹ دینا فخر سمجھتے ہیں عجب بات ہے کہ ووٹ برائی کو اور اس پر فخر پھر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایسی رپورٹ پر پوری قوم کو شرمندگی اور ندامت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگانا ہی بنتا ہے۔ آج دفتروں میں فائل کو پہیہ لگانے کا رواج ہے اگر ہم دین متین پر عمل کریں تو صاف صاف واضح ہے کہ ”رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں“ خدا را میری التجا ہے کہ ہم جہنم جہنم کھیلنا چھوڑیں اللہ کے غضب کو دعوت نہ دیں بلکہ اصلی صادق اور امین بن کر اللہ رب العزت کی رحمتوں‘ برکتوں اور عنایتوں کے طلب گار بنیں تاکہ ہماری دنیا و آخرت کی منزلیں آسان ہو سکیں اس کے لیے ہمیں آج نہیں ابھی سے ہی 22کروڑ عوام کے ہر فرد کو خود احتسابی کرنا ہو گی اور اس کرپشن کے ناسور کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭
مرشد کی صحبت
ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
مولانا روم اپنی مثنوی میں لکھتے ہیں کہ نیک لوگوں کی صحبت تجھے نیک بنائے گی اور بد لوگوں کی صحبت بد۔ اس لئے کسی بھی انسان کی زندگی میں صحبت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی بدولت صحابہ کرام کو صحابہ ہونے کا اعزاز ملا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے آداب سیکھے، تزکیہ نفس سیکھا، خاکساری سیکھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو انہیں کوئی ادب آداب کی کتاب پڑھائی اور نہ ہی لمبی چوڑی تقاریر کیں۔ صرف صحبت دی اور صحبت کے ذریعے ہی ان کی تربیت کی۔
برصغیر میں بزرگان دین نے بھی اپنی صحبت میں ایسے اولیاء پیدا کئے جن کے لو سے لوگ فیضیاب ہوئے۔ تصوف میں مرشد کی صحبت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حوالے سے ہم چشتیہ سلسلے کے اولیائے کرام کی زندگیوں جائزہ لیتے ہیں۔ چشتیہ سلسلے نے بہت بڑے بڑے بزرگ پیدا کئے۔ خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید الدین گنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیا، فخر الدین فخر جہاں، نصیر الدین چراغ دہلوی، خواجہ نور محمد مہاروی، خواجہ سیلمان تونسوی، خواجہ قمرالدین سیالوی اور پیر مہر علی شاہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ بابا فرید شکر گنج کے مرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکی ہیں۔ آپ سے بابا جی کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب بابا جی عمر اٹھارہ سال تھی۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ بہاوالدین ذکریا کے مہمان تھے۔ بابا جی بھی بہاوالدین ذکریا کی خانقاہ پر تشریف لے گئے اور خانقاہ کے ایک خادم سے کہا کہ وہ حضرت قطب کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوے ہیں۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی آٹھ دن بہاوالدین ذکریا کی خانقاہ میں مقیم رہے اور بابا جی بھی وہاں ان کی خدمت میں رہے۔
ایک دن خلوت نصیب ہوئی تو عرض کی کہ یہ غلام شاہ کے دامن لطف و عنایت سے مستقل وابستگی چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انشااللہ تمہیں یہ وابستگی بھی حاصل ہو جائے گی۔ جب قطب الدین بختیار کاکی دہلی جانے لگے تو انہوں نے بابا فرید کو فرمایا کہ کچھ دن تم علم ظاہری حاصل کرو، اللہ کے بندوں سے ملاقات کرو کہ کون کس مقام پر کیا کر رہا ہے، پھر دہلی آنا میں آپ کا انتظار کروں گا۔ اس لئے بابا فرید کی مرشد سے باقاعدہ بیعت کئی سال بعد دہلی میں ہوئی۔ بابا فرید فرماتے ہیں کہ جب میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے شرف بیعت ہوا۔ اس وقت قاضی حمید الدین ناگوری، مولانا علی کرمانی، سید نورالدین مبارک، شیخ نظام الدین ابوالموید، مولانا شمس ترک، شیخ محمود موئنہ بھی موجود تھے۔ بابا فرید گنج شکر نے مرید ہونے کے بعد غربی دروازے کے برج کے نیچے حجرہ بنایا اور عبادت میں مشغول ہو گئے۔ اس دوران آپ کی ملاقات اپنے دادا مرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے بھی ہوئی جب وہ اجمیر سے دہلی تشریف لائے۔ خواجہ معین الدین اور خواجہ قطب الدین نے اپنی توجہ باطنی سے بابا فرید کو مالا مال فرمایا اور اسم اعظم کی تعلیم دی۔ جب آپ کے مرشد کے وصال کا وقت آیا تو آپ ہانسی میں تھے۔ آپ کی غیر موجودگی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے قاضی حمید الدین اور شیخ بدرالدین کو فرمایا کہ میرا یہ خرقہ اور نعلین چوبیں فرید الدین مسعود کو دے دینا اور وہ میرا خلیفہ اور جانشین ہے۔ اسی رات ہانسی میں بابا فرید کو اپنے مرشد کے وصال کی خبر ہوئی تو دہلی کی طرف روانگی اختیار کی اور وصال کے چار دن بعد دہلی پہنچے۔ آپ نے خرقہ پہنا اور مسند پر بیٹھ گئے لیکن چند دنوں کے بعد ہی آپ نے دہلی کو الوداع کہا اور ہانسی تشریف لے آئے۔ ہانسی میں گوشہ خلوت میں رہے۔
بابا فریدالدین نے مرشد کی صحبت سے عاجزی‘ انکساری، شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت کی منازل طے کیں۔ اسی طرح خواجہ سیلمان تونسوی، خواجہ نور محمد مہاروی کے مرید تھے۔ ان کی صحبت میں رہے اور ان کی خدمت کرتے رہے۔ اس صحبت کا اتنا اثر تھا کہ آپ نے تزکیہ نفس کی منازل طے کر لیں۔ فنا فی شیخ اس حد تک ہو گئے کہ وہ جب بھی تونسہ سے چشتیاں کی طرف روانہ ہوتے تو ہمیشہ پیدل جاتے۔ ان کا خیال تھا کہ مرشد خانے تک پہنچنے تک جتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے اتنا فیض زیادہ ملتا ہے۔ پھر وہ اپنے مرشد کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ ایک دن خواجہ سیلمان تونسوی نے اپنے مرشد سے گھر جانے کی اجازت چاہی اور مل بھی گئی۔ وہ پیدل گھر پہنچے۔ آرام کرنے کے لئے لیٹے ہی تھے کہ خواب میں مرشد خواجہ نور محمد مہاروی ملے اور کہا کہ واپس جلدی آو، ہمارا آخری وقت آ گیا ہے۔ آپ جلدی میں اٹھے اور ننگے پاوں مرشد خانے کی طرف چل پڑے۔ جب چشتیاں پہنچے تو خواجہ نور محمد مہاروی نے اپنی دستار ان کے حوالے کی اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ وہ ادب آداب تھے جو مرشد کی صحبت نے خواجہ سیلمان تونسوی کو سکھائے تھے۔ جب ہم درگاہ سیال شریف کا رخ کرتے ہیں تو وہ بھی ہمیں مرشد کی صحبت کے آثار نظر آتے ہیں۔ خواجہ قمرالدین سیالوی کا مرشد خانہ خواجہ سیلمان تونسوی کا تھا۔ جب بھی کوئی تونسہ سے تشریف لاتا تو آپ ننگے پاوں اس لئے اس کا استقبال کرتے کہ وہ آپ کے مرشد خانے سے آیا ہے۔ اس کی خوب خدمت کرتے۔ آپ سادات کی بھی بہت عزت کرتے تھے۔ کسی بھی سید کی موجودگی میں کسی اور کی امامت میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ سید سے درخواست کرتے کہ وہ نماز کی امامت کرائیں۔ یہ وہ ادب آداب تھے جو مرشد کی صحبت کا فیض تھا۔ اب ہم آتے ہیں اپنے مرشد خانے کی طرف۔ پیر مہر علی شاہ کی بیعت تھی سیال شریف۔ آپ نے اپنی زندگی کے کئی سال اپنے مرشد کی صحبت اور خدمت میں گزارے۔ ان کی صحبت میں عاجزی، انکساری، محبت، قربانی کا جذبہ سیکھا۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭