تازہ تر ین

آئینِ وطن

جاوید کاہلوں
بالآخر بینک دولت پاکستان سے متعلق ترمیمی بل کی سادہ اکثریت سے سینٹ آف پاکستان نے بھی منظوری دے دی۔ اس طرح سے وہ اب صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد ایک مستقل قانون بن چکا ہے۔ اس بل کی اس سے قبل ملک کی (قومی اسمبلی) بھی منظوری دے چکی تھی۔ سینٹ میں چونکہ اپوزیشن پارٹیاں اکثریت رکھتی تھیں لہٰذا خیال کیا جاتا تھا کہ یہ مجوزہ بل وہاں پھنس جائے گا اور منظوری حاصل نہیں کر پائے گا اب کی بار ہماری سینٹ میں اپوزیشن کو دوسرا بڑا دھچکا لگا کہ وہ اُدھر اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ پہلی بار جب اپنی عددی اکثریت کے زعم میں پی ڈی ایم نے بڑھکیں لگاتے ہوئے سینٹ کے موجودہ چیئرمین کو ہٹانے کے لیے قرارداد پیش کی تو خلاف توقع خفیہ ووٹنگ کا نتیجہ اپوزیشن کی امیدوں کے برعکس نکلا تھا اس قرارداد کے ناکام ہونے پر حزب اختلاف کی صفوں میں کافی ہلچل دیکھی گئی۔ ایک دوسرے پر پھبتیاں کسی گئیں۔
پارٹی سربراہوں نے بھی خطاکار سینیٹر وں کو ڈھونڈ کر اپنی صفوں سے نکال باہر پھینکنے کے بیانات داغے۔ اِدھر اُدھر کچھ اظہار وجوہ کے نوٹس بھی بھجوائے گئے مگر آخر میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ظاہر ہے کہ جن سینیٹروں نے کروڑوں لگاکر اپنی نشستیں محفوظ کی تھیں، پارٹی سربراہوں تک کی جیبیں گرم کی تھیں ان کو ایسی گیدڑ بھبکیوں کی کیا پروا ہوسکتی تھی۔ یہ دوسرا مرحلہ سینٹ میں ترمیمی بل کے حوالے سے جواب درپیش تھا حکومت اپنی اقلیت کے باوجود ایک بار پھر کامیاب رہی اور مولانا فضل الرحمن، شریف برادران اور زرداری ٹولے کو پھر سے پرانی طرز کی خفت اٹھانا پڑی۔ اس دھچکے کے بعد اپوزیشن کی صفوں میں پھر سے ایک دوسرے پر بلیم گیم جاری ہے جوکہ ظاہر ہے کہ چند روز کے بعد اپنی موت آپ ہی مرجائے گی۔ یہ سب کچھ تو ہوگیا۔ اب یقینا اپوزیشن سربراہوں کی صف میں شامل چند درشنی لیڈروں کو بھی اس بات کی سمجھ آچکی ہوگی کہ کیا وجہ ہے کہ ہاؤس میں سپیکر، وزیراعظم یا پھر کسی صوبے کے وزیراعلیٰ وغیرہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بات سے یہ لوگ سلپ ہوتے کیوں دکھائی دیتے ہیں اگر وطن عزیز کی پارلیمانی روایات میں کچھ اخلاقی شائستگی کی رمق باقی ہوتی تو پھر شائد اپوزیشن پہلے مرحلے ہی میں اسلام آباد مارچ اور دھرنے وغیرہ کے بجائے حکومت سے چھٹکارے کے لیے کوئی نیا راستہ اختیار کرسکتی تھی مگر جب ایوان بالا بالخصوص اور ایوان زیریں بالعموم کے ممبران کی کثیر تعدار کو ٹکٹ کے حصول کے لیے پارٹی رہنماؤں کے کھیسے بھرنے کی ضرورت پڑے تو انتخابات جیت کر اسے کسی اعلیٰ پارلیمانی روایت کی پاسداری کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔کوئی بھی دنیا کا سرمایہ کار سرمایہ کاری کے بعد اصل زرکو نفع کے ساتھ وصولی کا حق کیوں نہیں رکھ سکتا لہٰذا سینٹ آف پاکستان میں لگے دھچکے سے کو بلبلانے کی کوئی ضرورت نہیں جَو کاشت کرکے گندم کی فصل کاٹنے کی توقع کرنا ہمیشہ عبث ہی رہا ہے۔
مگر یہ حالات کا فقط ایک ظاہری سا رخ ہے اس کا خطرناک رخ وہ ہے جس میں کہ عوام پون صدی سے لگے اس پارلیمانی جمہوری تماشے سے اب اکتاہٹ میں مبتلا دکھائی دینے لگے ہیں وہ اپنے سینکڑوں اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی بدکرداریوں اور پارلیمانی روایات سے انحراف کو اس نظام کے فیل ہوجانے پر محمول کر رہے ہیں۔ ہمارے نظام اور ہماری چھوٹی سی تاریخ میں لگے بار بارکے مارشل لاؤں کی ذمہ داری بھی وہ اسی ناکام پارلیمانی نظام پر ڈال رہے ہیں حالانکہ وہ یہ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ حال ہی میں سینٹ میں جو پارلیمانی نظام کی درگت بنی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ ثابت ہوا کہ غلطی نظام میں نہیں بلکہ اس کے چلانے والوں میں ہے۔ نظام کوئی بھی مکمل اچھا یا مکمل برا نہیں ہوتا بلکہ اسے چلانے والے اچھے یا برے ہوسکتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کا یہ المیہ بہرحال اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ قائداعظمؒ قضائے الٰہی سے جلد رخصت ہوگئے اور ہمارا پارلیمانی نظام کچھ طالع آزماؤں کے ایسے ہتھے چڑھا کہ مارشل لا لگنے شروع ہوگئے جبکہ دوسری طرف بھارت کو گاندھی اور نہرو وغیرہ کی شکل میں ایسے رہنما میسر آئے کہ وہاں پارلیمانی نظام کی مضبوط بنیادیں استوار ہوگئیں جوکہ تاحال قائم ہیں۔
کچھ ایسے ہی حالات کا پاکستان میں جبر ہے کہ ایک بار پھر سے کونے کھدروں سے صدراتی نظام کی آوازیں ابھرنا شروع ہوگئی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اس قوم پر یہ ایک احسان عظیم تھا کہ ملک کے دولخت ہونے کے المیہ کے بعد اس نے پارلیمانی دستور وضع کیا۔ اس کو متفقہ منظوری دلوائی اور اس کو بقیہ ماندہ پاکستان میں نافذ بھی کر دیا۔ مگر پھر اسی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہی تھانوں سے اس نظام کو اپنی جاگیردارانہ اور آمرانہ ذہنیت سے یوں مفلوج کردیا کہ نہ صرف دوصوبوں میں اپوزیشن کی حکومتوں کو چلتا کیا بلکہ آنے والے عام انتخابات میں ایسا جھرلو پھیرا کہ نتیجے میں اٹھنے والی تحریک میں خود بھی بہہ گئے۔
بہر حال بھٹوصاحب کا دیا ہوا متفقہ قومی دستور پچھلی نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے پاکستان میں نافذ ہے، متفقہ دستور کا ہونا کوئی مذاق نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ کسی بھی معاشرے میں روز روز دستور سے متعلقہ بحثوں کو چھیڑا بھی نہیں جاسکتا کہ اس سے معاشرتی وحدت اور یگانگت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ پارلیمانی نظام کی بنیاد مثبت روایات پرہوتی ہے اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ یہ اندر سے ہی اپنی اصلاح کرتا رہے۔ ہمارے دستور کی اٹھارویں ترمیم اس کا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے ایک پارلیمانی دستور ہی پاکستان میں چلتا رہے اور اس کی اصلاح اور ترامیم حالات کے مطابق ہوتی رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریں اصلاح احوال کی جانب رکھی جائیں ایک ایسی چھلنی لگے کہ بد دیانت اور بدکردار شہرت کے لوگ ہمارے ایوانوں تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے سخت عملی قوانین وضع کیے جائیں۔ اس نقطہ سے ہٹ کر اگر پھر سے ملک میں دستوری بحث یا صدارتی نظام وغیرہ کی بات چلائی گئی تو اس سے وحدت ملک کو نقصان بھی ہوسکتا ہے کہ دستور سازی کوئی کھیل تماشہ نہیں ہوتا کہ اسے وقتاً فوقتاً لگا کر رکھا جائے۔
(کرنل ریٹائرڈ اور ضلع نارووال کے سابق ناظم ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain