All posts by Daily Khabrain

امریکہ چین کی نئی سرد جنگ،نتائج کیا ہو نگے؟

ملک منظور احمد
دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں،دنیا میں طاقت کے مراکز میں تبدیلی آرہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی سرد جنگ دنیا کی منتظر ہے،جنگ عظیم دوئم کے بعد سے حالیہ کچھ برسوں تک مغربی دنیا نے امریکی کی زیر قیادت پوری دنیا پر راج کیا ہے،ایک وقت تھا جب کہ سویت یونین کی شکل میں دنیا جنگ عظیم دوئم کے بعد بھی ایک با ئی پولر دنیا تصور کی جاتی تھی اور سویت یونین اور اس کے اتحادی کسی حد تک مغربی دنیا کے لیے ایک چیلنج تھے لیکن 80ء کی دہائی میں سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا شرف حاصل ہو ا اور تمام عالمی معاملات بلا شرکت غیرے امریکہ اور اس کے اتحادی بلا روک ٹوک ہی طے کرنے لگے،لیکن اس عرصہ کے دوران امریکہ نے اپنی اس طاقت کا عالمی دنیا میں حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے اپنے آپ کو اتنی غیر ضروری جنگوں میں الجھا لیا کہ دنیا میں امریکہ کے مقابلے میں کچھ نئی قوتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں،جن میں چین سر فہرست ہے۔اس کے علاوہ روس بھی ایک مرتبہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہو چکا ہے اور دنیا کے کئی خطوں میں امریکہ کو چیلنج دے رہا ہے۔لیکن اس وقت امریکہ نے اپنا ہدف نمبر 1چین کو قرار دیا ہے اور اپنی تمام توانا ئیاں چین کو روکنے اور اس کو محدود کرنے پر صرف کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کے لیے چین کی ابھرتی ہوئی معیشت سب سے بڑا خطرہ ہے اور امریکی کسی صورت نہیں چاہتا ہے کہ چین بطور دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت اس کی جگہ لے،اس وقت اگر دنیا کی دونوں بڑی معاشی طاقتوں امریکہ اور چین کی معیشت پر نظر ڈالی جائے تو امریکہ اس وقت بھی،21کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے جبکہ چین 16کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔امریکہ کو اتنا خطرہ روس کی عسکری قوت سے نہیں ہے جتنا خطرہ اسے چین کی ابھرتی ہوئی معا شی قوت سے محسوس ہو رہا ہے،امریکہ کی پوری کوشش ہے کسی بھی طریقے سے چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہو ئی معیشت کو بریک لگائی جاسکے اور اس مقصد کے لیے نہ صرف اس نے بلکہ اس کے یورپی اتحادیوں نے چین کی مصنوعات پر ٹیرف لگا رکھے ہیں بلکہ کئی طرح کی پابندیاں بھی عائد کر دی گئی ہیں۔اور اب معاملات صرف معاشی اور تجارتی مقابلے اور پابندیوں سے بڑھ کر عسکری اور دفاعی معاملات تک بھی پہنچ چکے ہیں۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ چین کی تمام تجارت سا ؤتھ چائنہ سی اور سٹریٹ آف مالاکا کے ذریعے ہوتی ہے اور امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی اس سمندر میں چین کی تجارت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں،اور اسی خطرے کے پیش نظر چین نے پاکستان اور گوادر کے راستے سے سمندر تک رسائی حاصل کی ہے تاکہ ساؤتھ چائنہ سی کے علاوہ بھی اس کے پاس اپنی تجارت کے لیے کوئی دوسرا آپشن موجود ہو۔اسی لیے گوادر اور سی پیک کی اہمیت چین کے لیے بہت زیادہ ہے اور چین کے دشمنوں کے لیے ایک بڑا ہدف بھی ہے۔
بہر حال اس وقت ہم بات چین کی کررہے ہیں،امریکہ نے کواڈ کے نام سے ایک علاقائی اتحاد تشکیل دیا ہے جس میں امریکہ کے علاوہ،جاپان،آسٹریلیا ار بھارت شامل ہیں اور اس اتحاد کا مقصد صرف اور صرف چین کو نکیل ڈالنا ہے،اور اسی سلسلے کی نئی کڑی میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے آسٹریلیا کو جوہری آبدوزیں فراہم کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت آسٹریلیا اب بحر اوقیانوس میں اپنی بحری قوت کو کو بڑھانے جا رہا ہے اور اس معاہدے کا ہدف بالا شبہ چین ہی ہے،امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے چین کے خلاف اقدامات کا سلسلہ مسلسل تیز ہو تا جا رہا ہے او ر دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔دنیا واضح طور پر ایک نیا بلاک بھی ابھر رہا ہے جس میں چین،روس،ایران،پاکستان،ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستیں ایک طرف جبکہ امریکہ،یور پ،برطانیہ،کینیڈا،ہندوستان،جاپان،آسٹریلیا اور اسرائیل دوسری جانب کھڑے ہیں۔ اس تمام عالمی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے سامنے بھی بڑے چیلنجز موجود ہیں۔افغانستان کی صورتحال میں قربانی کا بکرا پاکستان کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ پاکستان کو مستقبل قریب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قربانی کا بکرا بنایا جائے۔اور شاید افغان صورتحال کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کے ساتھ تعلقات اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے بنایا جائے۔لیکن ظاہر یہی کیا جائے کہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی مدد کی پاداش میں پابندیوں کا سامنا ہے۔پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس نئی سرد جنگ میں کسی ایک گروپ کے ساتھ نتھی ہونا پڑے گا بلکہ اگر کہا جائے کہ پاکستان چین کے بلاک میں شامل ہو چکا ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔
امریکہ اور مغربی ممالک نے گزشتہ 3صدیوں تک اس دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی ہے اور اپنی مرضی چلائی ہے لیکن اب اس کی طاقت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے،اور اس بات میں ہمیں کو ئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ اور یورپ دنیا میں اپنی موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا ئیں گے۔ماہرین کی جانب سے امریکہ اور چین کے سرد جنگ کے ہاٹ وار میں بھی تبدیل ہونے کے خطرات سے خبر دار کیا جا رہا ہے لیکن میرے خیال میں امریکہ اور چین دونوں بڑی قوتیں ہیں وہ براہ راست ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے سرد جنگ تک ہی محدود رہیں گی اور ایک دوسرے کے خلاف پراکیسز کا استعمال کیا جائے گا،ایسی صورتحال پاکستان جیسے ممالک کے لیے مزید مشکلا ت کا باعث بنے گی اور ہماری قیادت کو مکمل قومی ہم آہنگی اور اتفاق رائے کے ساتھ نہایت ہی دانش مندی اور برد باری کے ساتھ اس صورتحال سے نمٹنا ہو گا۔نئی سرد جنگ کا آغاز تو ہو چکا ہے پاکستان بھی گزشتہ سرد جنگ کی طرح اس سرد جنگ میں بھی ایک بلاک کا حصہ بن ہی چکا ہے،گزشتہ سرد جنگ میں امریکہ کو فتح حاصل ہوئی تھی،کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ تاریخ ہمیشہ ہی خود کو دوہرائے امریکہ نے گزشتہ 30برس کے دوران جس بے دریغ انداز میں اپنی اقتصادی اورمعاشی کے ساتھ ساتھ عسکری قو ت کا دنیا بھر میں استعمال کیا ہے،جس کے باعث اس کو کئی ممالک کے جانب سے مخالفت کا سامنا بھی رہا ہے،امریکہ اور چین کی پالیسی میں واضح فرق بھی موجود ہے،امریکہ دھونس اور طاقت کے زور پر مختلف ممالک سے ڈیل کرتا آیا ہے جبکہ چین معاشی تعاون اور سرمایہ کاری کے ذریعے دنیا میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے، امریکہ ابھی بھی سپر پاور سہی لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں اپنی اخلاقی برتری کھو چکا ہے،اسی لیے میرا خیال ہے کہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ اس سرد جنگ کا نتیجہ بھی گزشتہ سرد جنگ والا ہی نکلے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

فیس ماسک پابندی کی ‘خلاف ورزی’ پر باکسر عامر خان کو پرواز سے نکال دیا گیا

پاکستانی نژاد باکسر عامر خان کو مبینہ طور پر فیس ماسک نہ پہننے پر ایک ساتھی سمیت امریکی فضائی کمپنی کی پرواز سے نکال دیا گیا۔

سابق عالمی لائٹ ویلٹر ویٹ چیمپئن عامر خان نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ وہ نیویارک سے ایک تربیتی کیمپ میں شرکت کے لیے کولوراڈو جانا چاہتے تھے۔

مگر پرواز کے دوران عامر خان اور ان کے ساتھی نے فیس ماسک اس وقت اتار دیئے جب کسی مسافر نے شکایت کی کہ باکسر کے ساتھی کا ماسک صحیح طرح ایڈجسٹ نہیں۔

عامر خان نے دعویٰ کیا کہ انہیں ان کے ساتھی سمیت بغیر کسی وجہ کے پولیس نے پرواز سے نکال دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے آج طیارے سے پولیس نے اس وقت نکالا جب میں کولوراڈو کے ٹریننگ کیمپ میں جارہا تھا’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘امریکی ایئرلائنز کے عملے کو شکایت کی گئی تھی کہ میرے ساتھی کا ماسک ٹھیک طرح سے اوپر نہیں، جس کے بعد طیارے کو روک کر مجھے اور میرے دوست کو لے جایا گیا’۔

کراچی میں‌ آئندہ ہفتے بارشوں‌ کی پیش گوئی

کراچی : محکمہ موسمیات نے شہر قائد میں آئندہ ہفتے میں دو دن تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی کہ مون سون ہوائیں بیس ستمبر کی شام یا رات ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہوجائیں گی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں 23 سے 25 ستمبر تک مون سون بارشوں کا امکان ہے۔

ترجمان محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی کہ 23 سے 24 ستمبر کے دوران کشمیر، اسلام آباد، راولپنڈی، اٹک، چکوال، جہلم، لاہور اور دیگر علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرچ چمک کے ساتھ بارش ہوسکتی ہے۔

ان دنوں میں جنوبی پنجاب، بلوچستان کے مشرقی علاقوں اور صوبہ سندھ میں بھی تیز بارشوں کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات نے بتایا کہ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، تھر پارکر، عمر کوٹ، سانگھڑ، ٹھٹہ، بدین، دادو، شہید بینظیرآباد، سکھر ، لاڑکانہ میں بھی تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ جبکہ چند علاقوں میں موسلا دھار بارش کا بھی امکان ہے۔

محکمہ موسمیات نے بتایا کہ 25 ستمبر کے بعد گرمی کی شدت میں کمی آجائے گی۔

مفتی تقی عثمانی وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ منتخب

                                                                                                                                

ممتازعالم دین مفتی تقی عثمانی کو وفاق المدارس العربیہ کا سربراہ منتخب کرلیا گیا ہے   

وفاق المدارس العربیہ کی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقد ہوا جس میں جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی شریک ہوئے۔

مولانا فضل الرحمان نے وفاق المدارس کے سربراہ کے لیے مفتی تقی عثمانی کا نام تجویز کیا تو اجلاس میں شریک علمائے کرام نے ان کی حمایت کی جس کے بعد مفتی تقی عثمانی کو بلامقابلہ وفاق المدارس العربیہ کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کو مبارک باد دی اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مفتی تقی عثمانی معروف عالم اور جید فقیہ ہیں۔ ان کا شمارملک کی نامور علمی اور مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ وہ بین الاقوامی اسلامی فقہ اکادمی جدہ کے نائب صدر اور دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ 7 اسلامی بینکوں میں بحیثیت شرعی مشیر کام کر رہے ہیں اور البلاغ جریدے کے مدیر اعلی بھی ہیں۔

واضح رہے کہ مولاناعبدالرزاق سکندرکی وفات کے بعد وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ کا عہدہ خالی تھا۔

علم کی دولت سے محروم بچے

رانا زاہد اقبال
خواندگی کے عالمی دن کے موقع پر محکمہ تعلیم سندھ اور جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2 کرو ڑ 2 لاکھ بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ 60 لاکھ بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہو سکے ہیں۔لاکھوں بچوں کا تعلیم سے دور ہونا لمحہ فکریہ ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار صحت مند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی وجہ سے ممکن ہے۔ نوجوان اور تعلیم لازم و ملزوم ہیں۔ علم افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور سیرت و کردار کی تعمیر کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور مستقبل کی منصوبہ بندی لازم و ملزوم ہیں۔ سنہرے مستقبل کے خواب ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو عہد حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا ہے۔
تعلیم صرف معاشی پہلو کے لئے ضروری نہیں ہے بلکہ یہ تہذیب اور تربیت بھی مہیا کرتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان ہی اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکتا ہے۔ تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کی کردار سازی میں اہم رول ادا کرتا ہے اور پھر اس کے ذریعے ایک بہترین معاشرہ عمل میں آتا ہے۔ کسی بھی دور میں علم کی افادیت اور روحانیت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی میں وہاں کی تعلیمی پالیسی کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ان ممالک میں بالخصوص بنیادی تعلیم کو مستحکم کرنے کے لئے مسلسل انقلابی اقدامات بھی کیے جاتے رہے ہیں اور تغیر زمانہ کے تقاضوں کو کماحقہئ پورا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں تعلیمی پالیسیاں اگر بنیں تو بھی ان کے نفاذ کی ایماندارانہ کوششیں نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک تجربوں کے دور سے ہی گزر رہے ہیں۔کیا ہم پڑھے لکھے ہیں؟ کیا ہم معاشرے کے ذمہ دارفرد ہیں؟ لہٰذا ایسے سوالات تو پیدا ہوں گے ہی جب کروڑوں بچے اسکولوں کی شکل ہی نہیں دیکھیں گے۔ کسی بھی معاشرے کے لئے اس کی اولین ترجیح اور ضرورت تعلیم ہے جو اس قوم کے مہذب ہونے کی دلیل مانی جاتی ہے۔ مشہور مؤرخ ایچ جی ویلز لکھتا ہے ” دنیا کا سب سے اچھا سیاسی اور سماجی نظام مسلمانوں کے پاس تھا اور اس کی وجہ سے ان کو غلبہ حاصل ہوا”۔
تعلیم زندگی کے لئے تیاری نہیں بلکہ بذاتِ خود زندگی ہے۔ ایک انسان اس وقت تک معاشرے کے لئے مفید نہیں بن پاتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو۔ پڑھی لکھی ماں ہی بہترین معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتی ہے۔ یہ وہ رٹے رٹائے بیانات ہیں جو پبلک سے لے کر پرائیویٹ سیکٹر تک ہر صاحبِ اختیار و اقدار کی زبان پر ہوتے ہیں۔ لیکن موجودہ رپورٹ اس تمام صورتحال کی نفی کر رہی ہے۔ حکومتی اجلاسوں، جلسوں اور این جی اوز کی بڑے بڑے ہوٹلوں میں تعلیمی کانفرنسز تک ہر مقرر جب بولتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر ملک میں تعلیمی بد حالی کا کوئی غم خوار ہی نہیں۔ لیکن افسوس تعلیمی پسماندگی کے درد میں ڈوب کر کی جانے والی یہ تمام باتیں صرف لفاظی تک محدود ہیں۔ عملی کوششوں سے ان کا دور دور تک کا کوئی رشتہ نہیں۔ کسی کو عملاً اس کام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، صرف فوٹو سیشن کی حد تک بڑی جد و جہد ہو رہی ہے۔
جب ملک کی ترقی اور خوشحالی میں پڑھے لکھے لوگوں کا کردار تسلیم کیا جاتا ہے تو یہ بھی مان لیا جانا چاہئے کہ کسی مہذب معاشرے کی تشکیل کے لئے ہر شخص کا تعلیم یافتہ ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن ہمارے ہاں غربت اور مہنگائی کی وجہ سے والدین اپنے بچوں سے تعلیم کی بجائے مزدوی کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں والدین کو رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کس طرح حصولِ تعلیم سے ان کے بچے بہتر انداز میں گھر چلا سکتے ہیں اور غربت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان بھی چھوٹ سکتی ہے۔ جس قوم کے 2 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہوں گے اس کے جدید دور میں داخل ہونے کی بات محض سراب ہی سمجھی جا سکتی ہے۔ تعلیمی نظام کی بہتری کی صورت تو یہی ہو سکتی ہے کہ اس کے ہاں کے تمام بچے سکولوں کا رخ کریں۔ موجودہ حکومت تعلیمی بہتری کی بڑے زور شور سے بات تو کرتی ہے لیکن ابھی نتائج کا انتظار ہے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نظریہ پاکستان‘ قائداعظم اور علامہ اقبال

میاں انوارالحق رامے
نظریہ پاکستان کی تعبیر و تشریح کیلئے ہمارے پاس کون سے معیارات ہیں کیا ان کو واقعات کی روشنی سے کشید کیا جا سکتا ہے۔ نظریہ پاکستان کی اصطلاح کے منابع تحریک پاکستان سے وابستہ کئے جا سکتے ہیں یا یہ نظریہ پاکستان کی تخلیق کے بعد عالم وجود میں آیا ہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہ اصطلاح میجر جنرل شیر علی کے دماغ کی پیداوار ہے۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ اصطلاح عشروں پہلے قومی مباحث کا حصہ بن چکی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو بھی نظریہ پاکستان کے عظیم داعی تھے۔ پاکستان کے ایک متنازعہ جج جسٹس منیر بھی اس کے بڑے حامی تھے۔
ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ ہم پاکستان کی پارلیمانی اور سیاسی کوششوں کا جائزہ لیں پاکستان کو اسلامی تشخص دینے کے لئے کن کن لوگوں نے کیا کیا خدمات سرانجام دی تھیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی داغ بیل اور اس کی آئینی حیثیت 1973ء کے دستور میں رکھی گئی تھی لیکن اس کا خاکہ کسی دوسرے نام کے ساتھ عوام الناس کے ذہن میں موجود تھا۔ اگر ہم تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ایک ڈاکٹر اسد نام کی شخصیت کا خاکہ ہمارے ذہنوں میں ابھرے گا۔ ان کو محکمہ ”اسلامی تعمیر نو“ کے نام سے قائم ایک ادارے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ جو بالآخر اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے عالم وجود میں آیا۔ پاکستان میں 1958ء سے مارشلاؤں کی بدعت کا آ غاز ہوا ہے۔ مارشل لاء کا پہلا نزلہ سیاسی جماعتوں پر گرتا ہے۔ 1962ء کے انتخابات کے بعد حکومت نے سیاسی جماعتوں کو بحال کردیا تھا 1962ء کے الیکشنز کا الیکٹرک کالج بلدیاتی اداروں کے منتخب کونسلر تھے۔ پاکستان کے وزیر قانون جسٹس محمد منیر نے 30جون 1962ء کو اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا۔4جولائی کو یہ بل سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ 8جولائی کو کمیٹی نے اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کردی تھی۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث کا آغاز ہوتا ہے وزیر قانون نے بتایا کہ یہ بل دواصولوں پر مشتمل ہے۔ ایک اصول یہ ہے کہ ملک میں آزادانہ سیاسی سرگرمیاں ہونی چاہئیں مگر حالات کے پیش نظر کچھ تنظیموں پر قانون کے مطابق پابندی ہونی چاہئے۔ دوسرے یہ کہ خاص لوگوں کوکسی سیاسی پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ بل کی دفعہ 3 کے مطابق کوئی ایسی مجلس اور تنظیم نہیں قائم ہونی چاہیے جس کے مقاصد میں پاکستان یا اس کی وحدت کو نقصان پہچانا شامل ہو تیسرا ایسی سیاسی جماعت بھی نہیں ہونی چاہیے جو اپنی بقا کے لئے بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہو۔ سلیکٹ کمیٹی نے اس دفعہ میں لفظ نظریہ (ideology)شامل کرنے کی سفارش کی تھی۔ کمیٹی کے ایک اہم رکن قمرالاسلام نے اسمبلی کو اس کی وجہ بتاتے ہوئے جو سیاسی جماعتیں انقلاب سے پہلے کام کر رہی تھیں ان میں سے کچھ جماعتوں کا منشور اور حکمت عملی براہ راست پاکستان کے نظریے سلامتی اور وحدت کے خلاف تھیں کچھ جماعتوں کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ محب وطن نہیں ہیں دائیں اور بائیں بازو میں بھی شکر رنجی رہتی تھی اس بنا پر سلیکٹ کمیٹی نے مناسب سمجھا کہ بل میں نظریہ کا لفظ شامل کیا جائے۔ بل پر دھواں دھار بحث کے دوران نظریہ کا لفظ بنیادی نقطہ بن گیا اورتین آرا سامنے آئیں ایک یہ کہ نظریہ کا لفظ شامل نہ کیا جائیدوسرا یہ کہ نظریہ مبہم لفظ ہے۔ بل کی دفعہ دو جو تعریفات کے متعلق ہے اس میں نظریے کی تعریف درج کی جائے۔تیسرا یہ کہ دفعہ تین میں نظریہ کی بجائے اسلامی نظریہ (۔ islamic ideology) کے الفاظ شامل کئے جائیں۔ ترمیم کے بعد دفعہ 3کے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کوئی ایسی جماعت تشکیل نہیں دی جا سکتی جس کا مقصد ایسی رائے تبلیغ کرنا ہو یا کسی ایسے طریقے سے کام کرنا ہو جو اسلامی نظریہ برائے وحدت سلامتی پاکستان کیلئے نقصان دہ ہو۔اس ترمیم کے ساتھ بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ جسٹس منیر نے بل پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا جو ان کے عام آزادانہ خیالات سے بالکل مختلف تھا۔ انہوں نے کہاکیا کہ میں نے اس مسلئے پر خوب غور کیا ہے لفظ آئیڈیالوجی سے پہلے اسلامک کا لفظ اضافہ کرنے سے کسی طرح بھی اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر فرق نہیں پڑے گا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ان الفاظ کی موجودگی میں بھی وہ سیاسی جماعتوں کی تشکیل میں آزاد ہونگی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو اسلامی تصورات کے خلاف پروپیگنڈہ کی شکل نہیں دے سکیں گی۔ اس بل کے حوالے سے اگر بھٹو صاحب کی تقریر پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جامعہ قاہرہ کا کوئی معلم گفتگو کر رہا ہے۔ بھٹو نے کہا کہ ریاست پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ایک علاقائی ریاست نہیں ہے اگر ہمارے نظریے کو کوئی چیلنج درپیش ہے تو ہم اپنے نظریے کی برتری ثابت کریں گے۔ ہم مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہم اپنے دین کے لئے جانیں قربان کریں گے اور ہم اپنے نظریے کیلئے موت کو گلے لگا لیں گے۔ مزید کہا کہ اقلیتوں کے برابر حقوق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقلیتیں ریاست کی بنیادی قوت کو ختم کر سکیں اور انہیں ریاست کی بنیادوں کو ملیا میٹ کرنے کی اجازت ہو گی اس کی اجازت کبھی نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی کبھی دی جائے گی۔ اگر آپ پاکستان کے نظریہ کو مٹا دیتے ہیں تو پاکستان کے وجود کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں اور اس بات کی اجازت کبھی اور کسی حال میں نہیں دی جائے گی۔ اس پر طرفین کی طرف سے عمدہ بحث ہوئی بالخصوص بھٹو چوہدری فضل الٰہی‘ اختر السلام احمد‘سید عبدالسلطان‘حسن اخترحسن راجہ اور عبدالمنتقم چوہدری کی تقاریر پڑھنے کے قابل ہیں۔ مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک نے بعض اپنی تحریروں میں یہ بتایا ہے قائد اعظم نے کب اور کہاں اًئیڈیالوجی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان شہادتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آئیڈ یالوجی کا لفظ نواب شیر علی کا مرہون منت نہیں ہے۔
بد قسمتی سے بہت سے پاکستانی دانشور نظریاتی حوالے سے قائد اعظم کو سیکولر سمجھتے ہیں جبکہ ہندوستانی مصنفین پاکستان کو منفی سیاست کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔ قائد اعظم نے علی گڑھ میں 8مارچ 1944ء کو ایک تقریر کی تھی جس کے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں یہ تقریر ثابت کرتی ہے کہ قائداعظم ایک نظریاتی لیڈر تھے۔ پاکستان ہند وؤں کے مناسب یا غیر مناسب رویے کی پیداوار نہیں ہے یہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ صرف انہیں اس کا شعور نہیں تھا ہندو اور مسلمان اکٹھے رہنے کے باوجود ایک قوم نہیں بنے۔ان کا تشخص ہمیشہ جدا جدا رہا جونہی ایک ہندو مسلمان ہوتا ہے وہ سیاسی۔ سماجی۔ ثقافتی امور معاشی طور پر اپنے ماضی سے کٹ جاتا ہے۔مسلمان اپنی انفرادیت اور تشخص کسی بھی معاشرے میں ضم نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک اکٹھے رہنے کے باوجود ہندو ہندو اور مسلمان مسلمان رہے اور یہی پاکستان کی بنیاد ہے۔ یورپین اور امریکی باشندوں کے اس اجتماع میں ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا خالق کون تھا تو جناح کا جواب تھا ہر مسلمان۔ قائد اعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ 1939ء میں کی گئی تقریر کے چند فقرے نمونے کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا ہے دولت۔ شہرت۔عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے ہیں اب میری زندگی کے واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں۔میں چاہتا ہوں جب میں مروں تو یقین اور اطمینان لے کر مروں میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی ہے۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل۔ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کردیا ہے۔ جناح تم مسلمانوں کے حمایت کا فرض بجا لائے ہو۔ میرا خدا کہے بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفرکی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سر بلند رکھتے ہوئے مسلم مرے۔
قائد اعظم مسلسل یہ کہتے رہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ سیرت النبیؐ ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے جمہوریت مساوات اور انصاف ہم نے اسلام سے سیکھا ہے۔ علامہ اقبال کا سا راکلام نظریہ اسلام اور پاکستان کی گواہی دیتا ہے قائد اعظم نے کہا تھا اگر میری زندگی میں مسلم ریاست کا قیام ظہور پذیر ہوا اور مجھے اس ریاست کی حکمرانی اور کلام اقبال میں انتخاب کرنے کو کہا جائے تو میں کلام اقبال کو ترجیح دوں گا۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭

 

جرمنی کا انتخابی نظام

مرزا روحیل بیگ
جرمنی میں پارلیمانی انتخابات 26 ستمبر کو ہونا ہیں۔ کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے آرمین لاشیٹ، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اولاف شولس اور گرین پارٹی کی طرف سے اینا لینا بئربوک، چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ جرمن پارلیمانی انتخابات میں امیدوار سے زیادہ اس کی جماعت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جرمنی میں اگر کوئی کسی سیاسی جماعت کا رکن نہیں ہے تو اس کے پارلیمنٹ میں پہنچنے کے امکانات بھی بہت معدوم ہوتے ہیں۔ کوئی بھی آزاد امیدوار بہت زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی پارلیمان کا حصہ بن سکتا ہے۔ جرمنی کے بنیادی آئین میں درج ہے۔جرمنی میں ”سیاسی جماعتیں ہی فیصلہ سازی میں شامل ہو سکتی ہیں“۔ سیاسی امور کے متعدد ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جرمنی میں سیاسی جماعتیں فیصلہ سازی کے علاوہ یہ فیصلے بھی کرتی ہیں کہ کون سیاست کے میدان میں سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس بات کا تعلق جرمنی کے انتخابی نظام سے ہے، جس میں ہر ووٹر کے دو ووٹ ہوتے ہیں۔ جرمنی میں اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہر شہری ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔ اس طرح اہل ووٹرز کی موجودہ تعداد 61.8 ملین بنتی ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند تمام جماعتوں کو الیکشن کمشنر کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے۔ آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے والی تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔ نظریاتی طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہیں۔ جمہوری طریقہ کار میں فیصلہ ہمیشہ اکثریت کی مرضی سے ہوتا ہے اور چھوٹی جماعتیں مختلف اتحادوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ جرمنی میں یہ قانون بھی موجود ہے کہ صرف وہی سیاسی جماعتیں اپنے نمائندے پارلیمان میں بھیج سکتی ہیں جنہیں انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد ووٹ ملیں۔ اسی طرح ہر رائے دہندہ کا ایک ووٹ امیدوار کے لیے ہوتا ہے اور اپنے دوسرے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے وہ کسی بھی پارٹی کی حمایت کر سکتا ہے۔ جرمنی میں بیلٹ پیپر کے بھی دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلے ووٹ کے ذریعے امیدوار کو چنا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے پر سیاسی جماعتوں کے نام درج ہوتے ہیں۔ یہ حصہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ جس جماعت کو جتنے زیادہ ووٹ ملیں گے پارلیمان میں اس کی موجودگی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اس طرح یہ جماعت اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو پارلیمان میں پہنچا سکتی ہے۔ منتخب ہونے والے ارکان سربراہ حکومت یعنی وفاقی چانسلر کا انتخاب کرتے ہیں۔
گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران اس انتخابی نظام میں نہ ہونے کے برابر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جرمنی میں ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ کورونا وائرس کی وبا کے سبب امریکا کی طرح جرمنی میں بھی بذریعہ پوسٹ ووٹ ڈالنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ جرمنی میں 1957 سے بذریعہ ڈاک ووٹ دیئے جا رہے ہیں۔ پوسٹل ووٹوں کے بیلٹ بکسوں کا بالکل ویسے ہی خیال رکھا جاتا ہے جیسے پولنگ بوتھ میں موجود بلٹ بکسوں کا۔ جرمنی میں بذریعہ ڈاک ووٹ ارسال کرنے کے لیئے پہلے متعلقہ ادارے میں درخواست جمع کرائی جاتی ہے۔ ووٹر رجسٹریشن لسٹ سے تصدیق کے بعد ووٹر کو رجسٹرڈ پتے پر ووٹ کی پرچی ارسال کی جاتی ہے۔ جب حکام کو ووٹ کی پرچی کے ساتھ بند لفافہ واپس موصول ہوتا ہے تو اسے ایک محفوظ مقام پر الیکشن کے روز تک ایک بیلٹ باکس کے اندر ڈال کر لاک کر دیا جاتا ہے۔ ان بیلٹ باکسز پر ہر وقت کڑی نظر رکھی جاتی ہے تاکہ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کو بروقت روکا جا سکے۔ بعدازاں الیکشن کے دن شام چھ بجے ووٹنگ کا مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد انتخابی کمیٹی اور مبصرین کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے۔
اس بار وفاقی انتخابات میں دو پاکستانی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ گرین پارٹی کی طرف سے مصباح خان اور Team Todenhöfer کے پلیٹ فارم سے مقصود اکرام امیدوار ہیں۔ جرمنی کی سیاست میں پاکستانیوں کا متحرک ہونا خوش آئند بات ہے۔ دونوں امیدوار اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رواں سال 2021 کو“ سپر الیکشن برس“ قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سال چھ صوبائی انتخابات کے ساتھ ساتھ وفاقی انتخابات بھی منعقد ہو رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق الیکشن میں سخت مقابلے کی توقع ہے اس بار سی ڈی یو کے لیے انتخابات میں فتح آسان نہیں ہو گی، کیونکہ ایک طرف تو مہاجرین کے حوالے سے انجیلا میرکل کی پالیسیوں پر انہیں دائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے تنقید اور دوسری طرف مہاجرین اور مسلم مخالف جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی کی مقبولیت میں بڑھتا ہوا اضافہ ہے۔
(کالم نگارجرمنی میں مقیم،بین الاقوامی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

اجتماعی دانش بروئے کارلائیں

وزیر احمد جوگیزئی
حال ہی میں جناب وزیر اعظم عمران خان نے سی این این کو ایک انٹر ویو دیا۔اس انٹر ویو پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔بڑی تعداد میں اہل دانش اور تجربہ کا ر لوگوں کے قلم سے بہت سی تحریریں اس حوالے سے آئی ہوں گی۔مجھے ذاتی طور پر وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس انٹر ویو میں کی جانے والی بیشتر باتوں سے کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ کچھ باتوں کی تو میں تعریف بھی کروں گا کچھ باتیں جو انہوں نے اس انٹر ویو میں کہیں وہ کہنی چاہیے تھیں بلکہ کہنی ضروری بھی تھیں۔لیکن ایک بات جو وزیر اعظم نے کی اس سے میں شدید اختلاف کروں گا اور یہ بات تھی کہ حقانی نیٹ ورک ایک پشتون قبیلہ ہے۔ایک نا قابل فہم بیان ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے ایک افسردہ کر دینے والا بیان ہے، جو کہ کسی صورت بھی وزیر اعظم پاکستان کی زبان سے ایک ہائی پروفائل بین الا اقوامی انٹر ویو میں نہیں آنا چاہیے تھا۔یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ حقانی کوئی پشتون قبیلہ نہیں ہے۔اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ جتنے ایچسن کالج لاہور سے فارغ التحصیل طلبا کو جتنا قبیلہ تصور کیا جاسکتا ہے حقانی بھی بس اتنا ہی قبیلہ ہیں۔
حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے درحقیقت مدرسہ حقانیہ کے فارغ الّتحصیل طلبا ہیں جن کو حقانی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔یہ وہ مدرسہ تھا جو مولانا عبد الحق صاحب مرحوم کے نام سے منسوب ہے۔حقانیوں کے بارے میں یہ بات وزیر اعظم صاحب کے منہ سے سن کر مجھے یہ احسا س ہو ا کہ وزیر اعظم کو اپنے ہی ملک کی معلومات پوری طرح نہیں رکھتے ہیں۔بہر حال میں اس کے علاوہ ایک اور موضوع پر بھی بات کرنا چاہوں گا اور وہ ہے،انگریزی زبان کے استعمال کے خلاف وزیر اعظم کے بیانات۔
معلوم نہیں کہ وزیر اعظم کسی بھی موضوع پر بیان دینے سے قبل کچھ سوچتے ہیں یا پھر ایسے ہی بیان داغ دیتے ہیں۔بظاہر محسوس ایسا ہو تا ہے کہ وزیر اعظم صرف اور صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اردو زبان بولنے پر زور دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کی ترقی کے لیے تمام ممکنہ کوشش کرنی چاہیے لیکن یہ امر بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریزی اس وقت تسلیم شدہ رائج الوقت بین الا اقوامی زبان ہے،جس کا سیکھنا اور سمجھنا ہمارے لیے اور ہماری نئی نسلوں کے لیے دور حاضر میں ترقی کرنے کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔انگریزی زبان ایک ایسی زبان ہے جو گزشتہ تین صدیوں سے اس خطے میں رائج ہے اور تمام حکومتی نظام اسی زبان میں چلتا ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے،بھارت میں ایک طویل عرصے تک فارسی لشکری زبان رہی جس پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔اور اب چونکہ ایک زبان آج کے دور میں رائج ہے اور عوام اسے پڑھنا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھانا چاہتے ہیں بلکہ یہ زبان اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے ہر قسم کی قربانی بھی دینے کو تیار ہیں،اس وقت ہمارے ملک میں نجی شعبے میں جتنے بھی تعلیمی ادارے چل رہے ہیں۔چاہے وہ سکول ہوں،کالج ہوں یا پھر یو نیورسٹیاں سب میں تعلیم کا ذریعہ انگریزی زبان ہی ہے۔اس بات سے ہمیں یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہماری قوم کو انگریزی زبان سے چڑ نہیں ہے بلکہ عوام اسے ترقی اور ٹیکنالوجی کی زبان سمجھتے ہیں۔اور کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے،یہ زبان جدید تعلیم کا لازمی حصہ بن چکی ہے،میں یہاں پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک طے شدہ چیز کو دوبارہ سے چھیڑنا کسی صورت بھی دانش مندی نہیں ہے۔ایک نان ایشو کو ایشو بنانے والی بات ہے جو کی کسی صورت میں مثبت سوچ نہیں ہے۔ہم بات کررہے تھے وزیر اعظم کے انٹر ویو کی،وزیر اعظم صاحب اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں او ر ملک کے حوالے سے فیصلے کرنا ان کا حق ہے،لیکن وہ ایک جمہوری ملک کے وزیر اعظم ہیں کوئی مطلق العنان حکمران نہیں ہیں،یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی محسوس ہو تا ہے کہ وہ مطلق النان حکمران بننے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔
بہر حال جمہوری نظام میں تمام سیاسی رہنماؤں اور ہر قسم کی سوچ رکھنے والی شخصیات سے اہم قومی امور پر بات چیت اور ان سے مشورہ لینا نہایت ہی ضروری ہو تا ہے۔بلکہ ہر صورت میں لینا چاہیے چاہے وہ افغانستان کا مسئلہ ہو یا پھر امریکہ کے ساتھ تعلقات کا،ہندوستان کی جا رحیت کا مسئلہ ہو یا پھر کشمیر اور فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کا تمام معاملات اگر اجتماعی دانش سے فیصلے کیے جائیں تو میرا یقین ہے کہ یہ ملک بہتر انداز میں آگے بڑھ سکے گا۔لیکن کیا جائے ہمارے موجودہ وزیر اعظم تو اپوزیشن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہی پسند نہیں کرتے ان سے بات کرنا بھی ان کو گوار نہیں ہو تا،قومی مشاورت تو بہت دور کی بات ہے۔اگر ہمارے اکابرین کے درمیان ایسے ہی تناؤ اور فاصلے رہے تو ہماری پوری قومی سوچ یا ہمارا قومی وژن بالکل دب کر رہ جائے گا۔ہمیں ان حالات میں قومی مشاورت کی اشد ضرورت ہے۔
تمام اپوزیشن جماعتیں چاہے وہ پارلیمان کے اندر ہیں یا پھر پارلیمان کے باہر ہیں ان کو بلایا جائے اور آزادانہ بحث کرنے دی جائے دو سے تین روز تک تمام قومی امور پر سیر حاصل بحث کرکے قومی پالیسی تیار کی جائے تاکہ دنیا کے سامنے پاکستانی قوم کی ایک مشترکہ رائے سامنے رکھی جائے اور اسی صورت میں پاکستان کی رائے میں وزن بھی پیدا ہو گا اور دنیا ہماری بات سنے گی۔میرے لیے یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ ہم اس وقت امریکہ کو حکومتی سطح پر دھتکارنے میں لگے ہوئے ہیں،امریکہ اس دنیا کا ایک بہت بڑا ملک ہے کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے اور کسی صورت میں کمزور ملک نہیں ہے۔ہمیں ماضی میں کی گئی اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔امریکہ ماضی میں مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے،لہذا ہمیں بھی امریکہ کے ساتھ لو ہیٹ (love hate) کے اس تعلق کو برقرار رکھتے ہوئے روابط بحال رکھنے چاہئیں۔ٹیلی فون کال کے حوالے سے جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ نامناسب ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہیے۔پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات تو ہر شعبے میں ہیں اور اگر ان روابط کو درست انداز میں استعمال کیا جائے تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے،اور یہ اس وقت ہمارے دفتر خارجہ اور سفارت کاروں کا امتحان ہے کہ نا مساعد حالات میں بھی ملک کے لیے بہتری کی راہیں تلاش کی جا ئیں۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

حکمران کنٹونمنٹ کے بعد بلدیات میں بھی ہاریں گے؟

سید سجاد حسین بخاری
حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں پنجاب بھر میں حکمران جماعت شکست سے دوچار ہوئی ہے جس کی تحقیقات کا حکم وزیراعظم عمران خان نے دے دیا اور پی ٹی آئی کے جن ذمہ داران سے رپورٹیں مانگی گئی ہیں انہوں نے واضح الفاظ میں تحریک انصاف کی آپس میں ذاتی پسند ناپسند کے ساتھ مقامی تنظیموں کا غیرفعال اور پیسے کے بے دریغ استعمال کو حکمران جماعت کی شکست کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ جن ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کے حلقوں میں کنٹونمنٹ بورڈ آتے تھے انہوں نے جیتنے والے گھوڑوں کے بجائے ہارنے والے گھوڑوں پر داؤ لگائے کیونکہ وہ سست اور لاغر گھوڑے ان کے ذاتی تھے۔ کسی ایک ممبر نے بھی میرٹ کا خیال نہیں کیا اور پھر سٹی اور ضلعی تنظیمیں مکمل طور پر غیرفعال رہیں، ان پر ممبران اسمبلی حاوی رہے اور عہدیداروں کی آپس کی لڑائیاں بھی ختم نہیں ہوتی تھیں جو حکمران جماعت کی عبرتناک شکست کا موجب بنا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکمران جماعت کے کچھ عہدیداران اور پی ٹی آئی کے بااثر افراد نے صرف پیسے والے اُمیدواروں کی حمایت کی ہے جس کا نتیجہ حکمران جماعت کی پنجاب بھر کے کنٹونمنٹ بورڈ میں عبرتناک شکست ہے۔
اب جنوبی پنجاب کے نتائج پر بات کرتے ہیں۔ سرائیکی خطے میں صرف بہاولپور اور ملتان کنٹونمنٹ بورڈ ہیں۔ بہاولپور کنٹونمنٹ کی کل 5سیٹیں اور ملتان بورڈ کی 10سیٹیں ہیں۔ بہاولپور بورڈ کی 5میں سے 2حکمران جماعت اور 3مسلم لیگ (ن) نے جیتی ہیں جبکہ ملتان بورڈ کی کل 10نشستوں میں سے ایک مسلم لیگ (ن) نے جیتی، باقی 9آزاد اُمیدواروں نے جیتی ہیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے اُمیدوار بھی کھڑے نہیں کئے تھے جوکہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اب سنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے مقامی قیادت سے جواب طلب کرلیا ہے۔ بہرحال جنوبی پنجاب وہ خطہ ہے جہاں سے حکمران جماعت 2018ء کے الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی اور یہاں کے عوام سے صوبے کا وعدہ کیا گیا تھا جو اب سیکرٹریٹ میں بدل چکا ہے اور لگتا ہے کہ سیکرٹریٹ بھی حکمران جماعت کی مدت پوری ہونے کے بعد مکمل ہو گا۔ اس وقت صورتحال اس خطے کی یہ ہے کہ حکمران جماعت کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اپنے حلقوں میں جانے سے کتراتے ہیں ماسوائے اگر کسی بااثر آدمی کی وفات یا شادی ہو تو ورنہ ترقیاتی کاموں کے خالی نعرے لگائے جارہے ہیں۔ اگر کہیں ترقیاتی کام ہورہے ہیں تو ان کی رفتار اس قدر سست ہے کہ وہ کسی صورت حکمران جماعت کے دور میں مکمل نہیں ہوسکتے۔ جنوبی پنجاب کی ہر ضلعی انتظامیہ کا ممبران اسمبلی کے ساتھ گزشتہ تین سالوں میں رویہ بہتر نہیں تھا۔ اب تو مدت کم ہونے کے ساتھ مزید خراب ہورہا ہے۔ متعدد اضلاع کی انتظامیہ کو تبدیل کیا گیا ہے۔ فنڈز کا بروقت جاری نہ ہونا اور افسران کی تبدیلی بھی ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے جس کا شاید حکمران جماعت کے ممبران اسمبلی کو احساس نہیں ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ میں حکمران جماعت کی جہاں پر میرٹ پر ٹکٹوں کی تقسیم کا نہ ہونا ہے اور وہاں پر ووٹرز نے حکمران جماعت کی 3سالہ کارکردگی کو بھی مدنظر رکھا ہے اور جواباً اپنا ری ایکشن دیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک نئی چیز جو ہم نے فیلڈ میں دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو جن لوگوں نے دن رات ایک کرکے اپنا خون پسینہ دے کر بنایا تھا وہ منظر سے بالکل غائب ہیں۔ ان کی بابت متعدد مرتبہ عہدیداروں سے پوچھتے ہیں تو جواب ناراضگی کا آتا ہے، یعنی حکمران جماعت کے بانی کارکنان جو 17سال تک محنت کرتے رہے وہ غائب ہوچکے ہیں اور وہ لوگ جن کو گزشتہ انتخاب میں مسلم لیگ (ن) میں یا دوسری جماعتوں میں دیکھا تھا وہ آج کل فرنٹ فٹ پر ہیں اور اب تو عہدیداروں میں وہ لوگ شامل ہوچکے ہیں جن کے خلاف مقدمات درج ہیں اور کچھ عہدیداروں نے تو ووٹروں سے کام کرانے کے بہانے رقمیں لی ہوئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملتان کی ایک خاتون ضلعی عہدیدار کو جماعت سے نکالا گیا ہے تو دوسری عہدیدار خاتون کے خلاف 15لاکھ روپے ٹھگنے کا سکینڈل سامنے آچکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس جماعت کے بانی کارکنان پارٹی سے لاتعلق ہوجائیں وہ جماعت زوال کا شکار ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہے۔ حکمران جماعت نہ صرف تتر بتر ہے بلکہ ان کی اکثریت مال پانی بنانے کے چکروں میں رہتی ہے جوکہ ہر حکمران جماعت کے لوگ کرتے ہیں مگر ان کی اوورآل کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ حکمران جماعت میں تو تمام خامیاں اکٹھی ہوکر درجہ اوّل تک جا پہنچی ہیں تو پھر الیکشن کہاں سے اور کیسے جیتے جائیں گے۔
موجودہ صورتحال میں ہر کام میں حکمران جماعت نے تاریخی ریکارڈ بنائے ہیں۔ کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے والوں نے تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا ہے۔ اشیائے خوردنی کی قیمتوں کا بھی تاریخی ریکارڈ بن چکا ہے۔ بیروزگاری عروج پر ہے۔ سروے کے مطابق 47لاکھ 10ہزار افراد بیروزگار ہیں۔ اس وقت ملک میں محنت کش 6کروڑ 87لاکھ 30ہزار ہیں۔ کہاں ہیں 50لاکھ گھر اورایک کروڑ ملازمتیں؟ ایک گھر اب تک نہیں بنایا گیا۔ ملکی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر وہ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ریکارڈ پیداوار کے باوجود گندم، چینی، دالیں درآمد ہورہی ہیں۔ ریلوے، سٹیل ملز، پی آئی اے جیسے درجنوں قومی ادارے بحال نہیں ہوسکے۔ بہترین معاشی ٹیم کا نعرہ لگانے والوں سے ڈالر قابو نہیں ہورہا تو باقی کیا ہوگا؟ جس شعبے کو دیکھو تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں مگر حکمران جماعت سب اچھا اور بہترین ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔
پتہ نہیں حکمران جماعت آسمانوں پر یہ سب کچھ کررہی ہے جو ہمیں نظر نہیں آرہا ورنہ زمین پر تو حقائق عوام کے سامنے ہیں۔ صرف آخری تین باتیں کرنے والی ہیں۔ حکمران جماعت انتشار کا شکار ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو ممبران اسمبلی میرٹ پر کام نہیں کرنے دیتے اور ملکی سطح پر مہنگائی کا جن حکمرانوں کے قابو میں نہیں آرہا تو پھر اس کارکردگی میں اگر بلدیاتی انتخابات ہوجائیں گے تو حکمران جماعت جیت سکتی ہے؟
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

مستحکم افغانستان ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے اہم ہے، وزیر خارجہ

اسلام آباد: وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور عالمی برادری افغانستان کی معاشی و انسانی معاونت کے لیے آگے بڑھے۔

کینیڈا کے وزیر خارجہ مارک گارنیو نے ہفتے کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا جس میں دونوں وزرائے خارجہ کے مابین دو طرفہ تعلقات اور افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور کینیڈین ہم منصب کو افغانستان کی صورتحال پر متفقہ لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے کیے گئے حالیہ چار ملکی دورے کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔

انہوں نے افغانستان میں اجتماعیت کے حامل سیاسی تصفیے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وہاں قیام امن کو خطے کے امن و استحکام اور ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی معاشی و انسانی معاونت کے لیے آگے بڑھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں انسانی المیے کے پیش نظر افغانوں کو ہوائی اور زمینی راستوں سے امدادی سامان کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے اور انہیں افغانستان کو امدادی سامان کی ترسیل کے لیے انسانی راہداری کھولنے کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہاکہ عالمی برادری کو ان ممالک کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو عرصہ دراز سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں۔

کینیڈین وزیر خارجہ نے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کاوشوں کو بھی سراہا اور کابل سے کینیڈین شہریوں کے انخلا میں پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی بھرپور معاونت پر وزیر خارجہ سمیت پاکستانی قیادت کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

وزیر خارجہ نے کنینڈین ہم منصب کو یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان سے انخلا کے عمل میں معاونت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔

دونوں وزرائے خارجہ نے دو طرفہ تعلقات کی نوعیت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم کورونا کی وبائی صورتحال میں بہتری کی صورت میں پاکستان اور کینیڈا کے درمیان اگلے سیاسی مشاورتی اجلاس کے بالمشافہ انعقاد کے متمنی ہیں۔

دوران ملاقات وزیر خارجہ نے کینیڈین وزیر خارجہ سے ہملٹن کینیڈا میں پاکستانی کینیڈین شہری کی ہلاکت اور ان کے 63 سالہ والد فقیر علی کے اغوا کا معاملہ بھی اٹھایا۔

کینیڈین وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کو یقین دلایا کہ متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کے لیے کینیڈین حکومت معاملے کی مکمل تحقیقات کر رہی ہے ۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کینیڈین ہم منصب سے مطالبہ کیا کہ وبائی صورتحال میں بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے طلبا اور کاروباری حضرات کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے ویزہ ایڈوائزری پر بھی نظر ثانی کی جائے۔