تازہ تر ین

حکمران کنٹونمنٹ کے بعد بلدیات میں بھی ہاریں گے؟

سید سجاد حسین بخاری
حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں پنجاب بھر میں حکمران جماعت شکست سے دوچار ہوئی ہے جس کی تحقیقات کا حکم وزیراعظم عمران خان نے دے دیا اور پی ٹی آئی کے جن ذمہ داران سے رپورٹیں مانگی گئی ہیں انہوں نے واضح الفاظ میں تحریک انصاف کی آپس میں ذاتی پسند ناپسند کے ساتھ مقامی تنظیموں کا غیرفعال اور پیسے کے بے دریغ استعمال کو حکمران جماعت کی شکست کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ جن ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کے حلقوں میں کنٹونمنٹ بورڈ آتے تھے انہوں نے جیتنے والے گھوڑوں کے بجائے ہارنے والے گھوڑوں پر داؤ لگائے کیونکہ وہ سست اور لاغر گھوڑے ان کے ذاتی تھے۔ کسی ایک ممبر نے بھی میرٹ کا خیال نہیں کیا اور پھر سٹی اور ضلعی تنظیمیں مکمل طور پر غیرفعال رہیں، ان پر ممبران اسمبلی حاوی رہے اور عہدیداروں کی آپس کی لڑائیاں بھی ختم نہیں ہوتی تھیں جو حکمران جماعت کی عبرتناک شکست کا موجب بنا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکمران جماعت کے کچھ عہدیداران اور پی ٹی آئی کے بااثر افراد نے صرف پیسے والے اُمیدواروں کی حمایت کی ہے جس کا نتیجہ حکمران جماعت کی پنجاب بھر کے کنٹونمنٹ بورڈ میں عبرتناک شکست ہے۔
اب جنوبی پنجاب کے نتائج پر بات کرتے ہیں۔ سرائیکی خطے میں صرف بہاولپور اور ملتان کنٹونمنٹ بورڈ ہیں۔ بہاولپور کنٹونمنٹ کی کل 5سیٹیں اور ملتان بورڈ کی 10سیٹیں ہیں۔ بہاولپور بورڈ کی 5میں سے 2حکمران جماعت اور 3مسلم لیگ (ن) نے جیتی ہیں جبکہ ملتان بورڈ کی کل 10نشستوں میں سے ایک مسلم لیگ (ن) نے جیتی، باقی 9آزاد اُمیدواروں نے جیتی ہیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے اُمیدوار بھی کھڑے نہیں کئے تھے جوکہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اب سنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے مقامی قیادت سے جواب طلب کرلیا ہے۔ بہرحال جنوبی پنجاب وہ خطہ ہے جہاں سے حکمران جماعت 2018ء کے الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی اور یہاں کے عوام سے صوبے کا وعدہ کیا گیا تھا جو اب سیکرٹریٹ میں بدل چکا ہے اور لگتا ہے کہ سیکرٹریٹ بھی حکمران جماعت کی مدت پوری ہونے کے بعد مکمل ہو گا۔ اس وقت صورتحال اس خطے کی یہ ہے کہ حکمران جماعت کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اپنے حلقوں میں جانے سے کتراتے ہیں ماسوائے اگر کسی بااثر آدمی کی وفات یا شادی ہو تو ورنہ ترقیاتی کاموں کے خالی نعرے لگائے جارہے ہیں۔ اگر کہیں ترقیاتی کام ہورہے ہیں تو ان کی رفتار اس قدر سست ہے کہ وہ کسی صورت حکمران جماعت کے دور میں مکمل نہیں ہوسکتے۔ جنوبی پنجاب کی ہر ضلعی انتظامیہ کا ممبران اسمبلی کے ساتھ گزشتہ تین سالوں میں رویہ بہتر نہیں تھا۔ اب تو مدت کم ہونے کے ساتھ مزید خراب ہورہا ہے۔ متعدد اضلاع کی انتظامیہ کو تبدیل کیا گیا ہے۔ فنڈز کا بروقت جاری نہ ہونا اور افسران کی تبدیلی بھی ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے جس کا شاید حکمران جماعت کے ممبران اسمبلی کو احساس نہیں ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ میں حکمران جماعت کی جہاں پر میرٹ پر ٹکٹوں کی تقسیم کا نہ ہونا ہے اور وہاں پر ووٹرز نے حکمران جماعت کی 3سالہ کارکردگی کو بھی مدنظر رکھا ہے اور جواباً اپنا ری ایکشن دیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک نئی چیز جو ہم نے فیلڈ میں دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو جن لوگوں نے دن رات ایک کرکے اپنا خون پسینہ دے کر بنایا تھا وہ منظر سے بالکل غائب ہیں۔ ان کی بابت متعدد مرتبہ عہدیداروں سے پوچھتے ہیں تو جواب ناراضگی کا آتا ہے، یعنی حکمران جماعت کے بانی کارکنان جو 17سال تک محنت کرتے رہے وہ غائب ہوچکے ہیں اور وہ لوگ جن کو گزشتہ انتخاب میں مسلم لیگ (ن) میں یا دوسری جماعتوں میں دیکھا تھا وہ آج کل فرنٹ فٹ پر ہیں اور اب تو عہدیداروں میں وہ لوگ شامل ہوچکے ہیں جن کے خلاف مقدمات درج ہیں اور کچھ عہدیداروں نے تو ووٹروں سے کام کرانے کے بہانے رقمیں لی ہوئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملتان کی ایک خاتون ضلعی عہدیدار کو جماعت سے نکالا گیا ہے تو دوسری عہدیدار خاتون کے خلاف 15لاکھ روپے ٹھگنے کا سکینڈل سامنے آچکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس جماعت کے بانی کارکنان پارٹی سے لاتعلق ہوجائیں وہ جماعت زوال کا شکار ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہے۔ حکمران جماعت نہ صرف تتر بتر ہے بلکہ ان کی اکثریت مال پانی بنانے کے چکروں میں رہتی ہے جوکہ ہر حکمران جماعت کے لوگ کرتے ہیں مگر ان کی اوورآل کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ حکمران جماعت میں تو تمام خامیاں اکٹھی ہوکر درجہ اوّل تک جا پہنچی ہیں تو پھر الیکشن کہاں سے اور کیسے جیتے جائیں گے۔
موجودہ صورتحال میں ہر کام میں حکمران جماعت نے تاریخی ریکارڈ بنائے ہیں۔ کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے والوں نے تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا ہے۔ اشیائے خوردنی کی قیمتوں کا بھی تاریخی ریکارڈ بن چکا ہے۔ بیروزگاری عروج پر ہے۔ سروے کے مطابق 47لاکھ 10ہزار افراد بیروزگار ہیں۔ اس وقت ملک میں محنت کش 6کروڑ 87لاکھ 30ہزار ہیں۔ کہاں ہیں 50لاکھ گھر اورایک کروڑ ملازمتیں؟ ایک گھر اب تک نہیں بنایا گیا۔ ملکی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر وہ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ریکارڈ پیداوار کے باوجود گندم، چینی، دالیں درآمد ہورہی ہیں۔ ریلوے، سٹیل ملز، پی آئی اے جیسے درجنوں قومی ادارے بحال نہیں ہوسکے۔ بہترین معاشی ٹیم کا نعرہ لگانے والوں سے ڈالر قابو نہیں ہورہا تو باقی کیا ہوگا؟ جس شعبے کو دیکھو تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں مگر حکمران جماعت سب اچھا اور بہترین ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔
پتہ نہیں حکمران جماعت آسمانوں پر یہ سب کچھ کررہی ہے جو ہمیں نظر نہیں آرہا ورنہ زمین پر تو حقائق عوام کے سامنے ہیں۔ صرف آخری تین باتیں کرنے والی ہیں۔ حکمران جماعت انتشار کا شکار ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو ممبران اسمبلی میرٹ پر کام نہیں کرنے دیتے اور ملکی سطح پر مہنگائی کا جن حکمرانوں کے قابو میں نہیں آرہا تو پھر اس کارکردگی میں اگر بلدیاتی انتخابات ہوجائیں گے تو حکمران جماعت جیت سکتی ہے؟
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain