All posts by Daily Khabrain

کرپشن‘ مرض بڑھتا گیاجوں جوں دوا کی

ملک منظور احمد
تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کے عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک وعدہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ انھوں نے 22 سال تک جد و جہد کی ہی ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور کرپٹ لوگوں کے خلاف کی ہے اور جیسے ہی وہ بر سر اقتدار آئیں گے ملک سے بڑی کرپشن کا خاتمہ 3ماہ کے اندر اندر کر دیا جائے گا اور یہی بات انہوں نے حالیہ دنوں میں بھی کی ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ 3ماہ میں کر دیا گیا تھا لیکن وزیراعظم کے دعوے تو اپنی جگہ پر ہیں لیکن اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ کرپشن میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ سرکاری اداروں کا حال تو پہلے سے بھی برا ہو گیا ہے۔ چاہیے بجلی کا میٹر لگوانا ہو یا پھر گیس کے محکمے سے کوئی کام پڑ جائے یا پھر پولیس سے واسطہ پڑے عوام کے جائز کام بھی کرپشن کے بغیر نہیں ہو تے ہیں اور عوام پہلے سے بھی زیادہ رل رہے ہیں۔
عالمی ادارے ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے حالیہ دنوں میں دنیا میں کرپشن کے تاثر کے حوالے سے ایک فہرست کا اجراء کیا گیا جو کہ ہر سال کیا جاتا ہے اور اس سال بھی کیا گیا لیکن فرق یہ ہو ا کہ اس سال پاکستان کی رینکنگ میں ریکارڈ 16درجے کی تنزلی دیکھی گئی اور اس رپورٹ نے ملک کی سیاست میں ایک بھونچال سا بر پا کر دیا ہے۔اپوزیشن اس رپورٹ کو لے کر حکومت کو ہدف تنقید بنائے ہو ئے ہے تو دوسری طرف حکومت کے وزراء حزب معمول اس حوالے سے عجیب و غریب بیان بازی کرتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری نے پہلے تو اس رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کا کوئی سر پیر نہیں ہے اور پھر اس کے بعد یہ مؤقف اپنایا کہ رپورٹ میں مالی کرپشن کی بات نہیں کی گئی ہے بلکہ رول آف لاء کی بات ہوئی ہے۔ بہرحال حکومتی وزراء نے اس رپورٹ کو ہر طرح سے بے معنی قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کیا کیا جائے جیسا کہ کہا جاتا ہے یاد ماضی عذاب ہے یا رب میڈیا نے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی ماضی کی رپورٹس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے بیانا ت چلا چلا کر ان کو اس حوالے سے ان ہی کا ماضی کا مؤقف یاد دلوایا۔سمجھ نہیں آتا کہ کیا حکومتی اکابرین واقعی اپنی باتوں کو حقیقت مانتے ہیں یا پھر واقعی ان کا زمینی حقائق کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں ہے۔کیا وہ اتنے ہی بے خبر ہیں یا پھر ان کو درحقیقت معلوم ہی نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ بہر حال اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس رپورٹ سے وزیر اعظم اور حکومت کے کرپشن کے بیانیہ کو بہت نقصان پہنچا ہے اور پہنچنا بھی تھا کیونکہ اب ان کو حکومت میں آئے ہوئے پونے چار سال کے قریب کا عرصہ گزر چکا ہے اور اتنے عرصے کے بعد بھی کسی سیاست دان سے کوئی ریکوری نہیں کی جاسکی ہے۔
سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر کی سربراہی میں قائم کیے جانے والا ایسٹ ریکوری یونٹ قومی خزانے سے 9کروڑ سے زائد رقم استعمال کرنے کے باوجودکچھ بھی ریکورنہیں کر سکا اور اب اس وقت شہزاد اکبر کا جانا ازخود حکومت کی ناکامی ہے لیکن بہرحال ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم پرعزم ہیں، وہ الیکشن سے پہلے پہلے عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اس وعدے پر ڈلیور کیا ہے اور اسی وجہ سے شاید اب نئے مشیر احتساب مصدق عباسی کا تقرر کیا گیا ہے لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اب شاید اس حوالے سے کافی دیر ہو چکی ہے اور اب وقت حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے جیسا کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اور حکومت کے اتحادی چودھری شجاعت حسین نے اس حوالے سے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ حکومت نواز شریف کو واپس لانے کی کوششوں کے بجائے اپنی گورننس پر توجہ دے اسی طرح اس کو عوامی پذیرائی مل سکتی ہے لیکن اس حکومت کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ایسا ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے۔
اگر ملک میں گزشتہ ساڑھے تین سال سے ہونے والے احتساب کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اپوزیشن کو ہی اس احتسابی عمل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کچھ حکومتی ارکان بھی اس عمل کے نرغے میں آئیں ہیں لیکن زیادہ تر اپوزیشن کے رہنماؤں کو ہی نشانہ بنایا گیا اب تو حکومت کے چاہنے والے بھی کئی لو گ کہہ رہے ہیں کہ احسن اقبال،شاہد خا قان عباسی اورمفتاح اسماعیل جیسے رہنماؤں کے خلاف کمزور کیسز بنائے گئے اور اس طرح کے کاموں سے احتسابی عمل کو ہی نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعظم ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کے نیچے کام کرنے والے سرکاری اداروں کا عوام کے ساتھ ایک استحصالی تعلق ہے جو کہ ان کے دور میں مزید بگڑ گیا ہے اور عوام اور زیادہ رل رہے ہیں،اپنی کمزوریوں کو سدھارنے کے لیے سب پہلا قدم ان کا اعتراف ہوتا ہے اگر تسلیم ہی نہ کیا جائے کہ کوئی مسئلہ موجود ہے تو اس کا حل تو پھر بڑی دور کی بات ہو گی۔موجوہ حکومت جتنی جلد ہی اس بات کو سمجھ لے ان کے لیے بہتر ہو گا اور غلطی کو تسلیم کرکے ہی بہتر انداز میں آگے بڑھنے کے راستے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

”لاہور‘ جو میں نے دیکھا“

میم سین بٹ
لاہور کی ثقافت کے حوالے سے یونس ادیب کی ”میرا شہر لاہور“،طاہر لاہوری کی ”سوہنا شہر لاہور“ اورڈاکٹر اعجاز انور کی ”نئیں ریساں شہر لہور دیاں“ اہم کتابیں ہیں پہلے دونوں لکھاریوں نے اندرون شہر اور تیسرے لکھاری نے بیرون شہرکی ثقافت زیادہ بیان کی، اب لاہور کی ثقافت کے حوالے سے چوتھی اہم کتاب مسعود حیات کی ”لاہور جو میں نے دیکھا“ کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے فیضان عباس نقوی المعروف لاہور کا کھوجی نے مصنف کی وفات کے بعد مسودہ ترتیب دے کر شائع کروایا ہے۔ کتاب کا انتساب ہی کسی کے نام نہیں کیا گیا، فہرست کے بعد فیضان نقوی ”یہ کتاب کیسے وجود میں آئی“ کے عنوان سے ابتدائیہ میں بتاتے ہیں کہ مسعودحیات مرحوم ان کے دوست عثمان مسعود ٹونی کے والد تھے اور وہ ان کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر لاہورکی پرانی ثقافت کے قصے سناکرتے تھے، مسعود حیات نے لاہور شہرکے حالات پر اپنی یادداشتیں دس بڑے رجسٹرز میں لکھ رکھی تھیں جنہیں کتابی صورت دینے کیلئے انہوں وہ رجسٹرز فیضان نقوی کے سپردکردیئے تھے تاہم کرونا وباء کے دوران مسعود حیات انتقال کر گئے اور ان کی زندگی میں کتاب شائع نہ ہو سکی تھی۔
کتاب میں مسعود حیات ”اظہار خیال“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ انہیں 1988 ء میں کتاب لکھنے کا خیال آیا اور مسودہ لکھنا شروع کردیا اسی دوران ”قیامت کب آئے گی؟“ کے عنوان سے ان کا مضمون شائع ہوا پھر دوسرا مضمون ”قیامت سے پہلے قیامت کے بعد“بھی شائع ہوا اس کے بعد ”فن پہلوانی موت کے دروازے پر“ کے عنوان سے ان کا مضمون چھپا بعدازاں وہ فن پہلوانی پر مزید مضامین بھی لکھتے رہے تھے، مسعود حیات نے اپنی اس مجوزہ کتاب کا نام پہلے ”گردش دوراں“ رکھا پھر اسے تبدیل کرکے ”چودھویں صدی ہجری“ رکھ دیا تھا تاہم فیضان نقوی نے ان کے مسودے میں سے لاہور شہربارے مواد الگ کرکے اسے کتابی صورت میں شائع کردیا کتاب کے عنوان ”لاہور جو میں نے دیکھا“ سے ہی اس میں آخری باب بھی شامل ہے، مسعود حیات مرحوم کے صاحبزادے عثمان مسعود ٹونی ”میرے ابو“ کے عنوان سے اپنے والد مرحوم کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ نیشنل بینک میں ملازمت کرتے رہے اس کے ساتھ ہی وہ شاعری، مصوری اورپتنگ بازی بھی کرتے رہے، انہیں ستار بجانے، مرغ لڑانے اور اکھاڑے میں کسرت کرنے کا بھی شوق تھا، رسائل و جرائد میں مضامین بھی لکھتے رہے تھے۔
ڈاکٹر اعجاز انور ”میرا دوست مسعود حیات“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ وہ ان سے 1962ء میں پہلی بار ملے تھے دونوں الحمراء کی آرٹ کلاسز کے طالب علم رہے تھے، مسعود حیات مصوری کا سبق لینے کیلئے راوی روڈ پر عبدالرحمان چغتائی اور نیو مسلم ٹاؤن میں استاد اللہ بخش کے گھراکثر جایا کرتے تھے، ان کے پاس دنگلوں کے پوسٹرز اورتصاویرکا نایاب ذخیرہ موجود تھا انہوں نے پہلوانوں پر کتاب لکھنے والے قلمکار کو اپنا تحقیقی مواد دے دیا تھا جس نے شہ زوروں پر اپنی کتاب میں مسعود حیات کا شکریہ تک ادا کرنا گوارہ نہ کیا تھا مسعود حیات کا اپنا تعلق بھی پہلوانوں کے مشہور خاندان سے تھا، ڈاکٹر اعجاز انور نے رستم زماں گاماں پہلوان کو مسعود حیات کا ماموں لکھ دیا ہے حالانکہ وہ ان کے پھوپھا تھے، مسعود حیات کے دادا گاموں پہلوان بھی رستم ہند رہے تھے جن کے رستم زماں گاماں پہلوان داماد تھے، گاماں پہلوان ریاست دتیہ جبکہ ان کے سسرگاموں پہلوان ریاست جودھ پورکے درباری پہلوان رہے تھے، گاماں پہلوان کے بھائی امام بخش پہلوان جبکہ گاموں پہلوان کے بھائی کریم بخش پیلڑے والے دونوں رستم ہند رہے تھے بلکہ مسعودحیات کی اہلیہ کے دادا رحیم پہلوان سلطانی والا بھی رستم ہند رہے تھے۔
دیباچے میں ڈاکٹر اعجاز انور مزید بتاتے ہیں کہ مسعود حیات لاہورشہر سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور لاہور کنزرویشن سوسائٹی کے فعال رکن رہے تھے، یہ کتاب ان کی لاہور سے محبت کا اظہار ہے جس میں انہوں نے لاہور شہر کی تہذیب و ثقافت اور حالات وواقعات کو بیان کیا ہے، کتاب میں مسعود حیات کی بنائی ہوئی پینٹنگز کے عکس اور دوستوں اعجاز انور، قمر یورش کے علاوہ گاماں پہلوان اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ میاں نواز شریف کی خوشدامن اور بیگم کلثوم نواز (مرحومہ) کی والدہ مسعود حیات (مرحوم) کی پھوپھی زاد تھیں، مصوری میں مسعود حیات کے استاد عبدالرحمان چغتائی تھے، کتاب میں شامل مسعود حیات کے بنائے ہوئے فن پارے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ پہلوانوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اتنے اچھے مصور کیسے بن گئے؟ انہوں نے زیادہ تر مسجد وزیر خان اور بادشاہی مسجد سمیت اندرون شہر کے داخلی دروازوں اور قدیم عمارتوں کی تصاویر بنائی تھیں، شیخ مسعودحیات بیرون شہر فاروق گنج میں رہتے تھے بلکہ ان کے والد شیخ غلام دستگیر نے ہی اس بستی کا نام رکھا تھا جو ریلوے سے ریٹائر ہوئے تھے، مسعود حیات نے موسیقی کا ذوق ورثے میں پایا تھا، ان کے والد کو استاد بڑے غلام علی خاں، برکت علی خاں، عاشق علی خاں، امیر بائی کرناٹکی، اختر بائی فیض آبادی جبکہ خود مسعود حیات کو کملا جھریا اور ماسٹر مدن کی گائیکی پسند تھی،گلوکارہ خورشید ان کی ممانی رہ چکی تھیں، ان کے ماموں اداکار لالہ یعقوب نے خورشیدکوطلاق دیدی تھی، مسعود حیات کو نورجہاں کے مقابلے میں لتا منگیشکر کی آواز پسند تھی۔
مسعودحیات اپنے رہائشی علاقے بارے کتاب میں بتاتے ہیں کہ میراں دی کھوئی (چاہ میراں) کے علاقے میں مٹی کی پہاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ بادامی باغ ریلوے سٹیشن کے قریب تلک نگر بستی میں مندر کے پاس ہندو پہلوان چھبے کا اکھاڑہ ہوتا تھا، مندر کو مہاجر خاندان نے رہائش گاہ میں تبدیل کرلیا، اندرون شہر شیرانوالہ دروازہ میں بھی اسلامیہ ہائی سکول کے ساتھ مندر ہوتا تھا، تقسیم ہند کے بعد یہ مندر مسمار کرکے وہاں دکانیں بنالی گئی تھیں۔ صرافہ بازار کے اندر بھی پرانا مندر ہے جو زمین میں دھنس چکا ہے۔ اس میں بھی لوگ رہائش پذیر ہیں۔ بانسانوالہ بازار کی رتن چند سرائے میں بھی مندر ہوا کرتا تھا۔ شیخ مسعود حیات نے مزدور ادیب قمر یورش کے آخری دنوں کا احوال بھی لکھا ہے۔ قمر یورش کی وفات سے چند ہفتے پہلے ان کی وہیں آخری ملاقات ہوئی تھی اب مسعودحیات خود بھی اپنے دوست قمریورش کے پاس جاچکے ہیں۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

باتوں سے پھول

انجینئر افتخار چودھری
گزشتہ ہفتے پارٹی کے مرکزی ترجمانوں کی نشست میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ میں وزیراعظم کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے عزت بخشی۔ پاس سے گزرے تو مسکرا کر پوچھا ”کیا حال ہے تمہارا“۔ قائد کا پوچھنا ہی میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ یقین کیجئے ایک دن پریشان تھا کہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں، میں ان سے نہیں مل سکا، پتہ نہیں ہم ان کی یاد میں ہیں بھی نہیں۔ اللہ بھلا کرے عامر کیانی جس نے چار سال پہلے ملوایا تھا۔ ہر شخص کی اپنی ایک خواہش ہوتی ہے۔ میرے جیسے لاکھوں کارکن عمران خان سے پیار کرتے ہیں۔ بہت سوں کو موقع بھی مل جاتا ہے لیکن دوسال سے مجھے مرکز سے صوبے میں بھیج دیا گیا تھا۔ نارتھ پنجاب کی تنظیم میں رہ کر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے سوائے وقت ضائع کرنے کے مجھے کچھ نہیں ملا چونکہ ہم تنظیمی بندے ہیں، اپنی رائے سوچ کا اظہار پارٹی کے اندر رہ کر بخوبی کیا۔ تنظیموں میں جو خرابیاں تھیں اس کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں لیکن تنظیمیں ٹوٹی کیوں اس کی وجہ بھی کچھ لوگوں کی ذاتی ہوس تھی۔ کچھ لوگ پارٹی عہدہ پاکر اونچی جگہ چڑھ گئے، قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ آج پارٹی پر اندر اور باہر سے حملے ہورہے ہیں۔ احمد جواد جیسے لوگ جھپٹ رہے ہیں جن کو کئی سالوں سے اعلیٰ سطحی اجلاس میں نہیں بلایا گیا تھا، نکلنے پر اچھل کود کررہے ہیں۔ میں قائد سے دور مگر دل سے دور نہ تھا لیکن اس دن کی میٹنگ سے اندازہ ہوا کہ میرے قائد کا حوصلہ ہمالیہ کی چوٹیوں کی طرح بلند ہے۔ ان کی پارٹی پر کمانڈ بھی اسی طرح ہے جس طرح پہلے ہوتی تھی۔
پہلے بھی ہم لوگ آزادانہ طور پر اظہارِ خیال کیا کرتے تھے اور آج بھی وزراء، اراکین اپنی باتوں کا اظہار کھل کر کررہے تھے۔ کوئی چاپلوس نہ تھا۔ کسی نے کہا وزیراعظم آپ مہان ہیں، آپ عظیم ہیں کہ اپنے اعتراضات اپنی تجاویز اس قدر خوبصورتی سے بیان کیے جارہے تھے جیسے ایک کارپوریٹ کلچر میں بیٹھے منظم لوگ بات کرتے ہیں۔ کسی نے چیئرمین کی اجازت کے بغیر بات نہیں کی۔ حماد اظہر، خسرو بختیار، شہباز گل، شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر وسیم شہزاد، فیصل جاوید خان، کنول شوذب، عالیہ حمزہ، علی محمد خان ہوں، ہمایوں اختر یا کوئی اور انہیں مکمل موقع دیا گیا۔ عمران خان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنا نقظہ نظر ہاتھ پھیلا پھیلا کر ہاتھ کی پانچوں انگلیاں کھول کر اس طرح گفتگو کرتے ہیں کہ اگلے کے کانوں سے ہوکر باتیں دل میں اتر جاتی ہیں۔ جاڑے کے دنوں میں جب وزیراعظم ہاؤس میں کھابے کھائے جاتے تھے، رؤف حسن بھائی کھڑکی سے باہر برستی بارش اور دُھند سے لطف اندوز ہوئے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ آج جو میز سجے گا۔ اس میں کم ازکم دو تین ڈشیں ہوں گی لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایک روسٹڈ چھوٹا سا رس کا ٹکڑا اور آدھی سے کچھ زیادہ پیالی میں یخنی پیش کی گئی۔ میں نے زندگی میں پہلی بار چائے کی پیالی کا یہ استعمال دیکھا۔ وزیراعظم نے جس بچت کی بات کی تھی، وہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی جگہ میاں نوازشریف ہوتے تو گل چھرے اڑائے جاتے۔
عمران خان ہر شریک مجلس کی گفتگو بڑے غور سے سن رہے تھے۔ لاہور سے جمشید چیمہ لائن پر لیے گئے، ان کی اس بات کو وزیراعظم نے سراہا کہ آج مزدور 600کے بجائے ایک ہزار لے رہا ہے۔ مستری 1500کمارہا ہے۔ قارئین! میں نے سب سے پہلے یہ بات کی تھی کئی ماہ سے کہہ رہا تھا کہ ہر شخص نے اپنی اجرت بڑھالی ہے، ایک رہ گیا ہے وہ تنخواہ دار طبقہ ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ اس شوروغل میں ہمارے گھر کے نوکروں کی تنخواہ 18ہزار سے 20ہزار کی گئی ہے۔ میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ اپنے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کی حیات آسان کریں۔ میرے پاس کئی ملازم آئے، بے چارے پچھلے مالکان سے تنخواہ نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں۔
وزیراعظم فون پر آئے، انہوں نے کس معصومانہ انداز سے کہا کہ لوگ مجھے اسمبلی میں نہیں بولنے دیتے۔ قارئین! کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو فخر ایشیا تھے لیکن بہت سے لوگوں کو علم نہیں کہ اپنے ممبران کو دھمکی دی تھی کہ جو کوئی ڈھاکہ گیا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہوگئے۔ انہی کے دور میں سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق کو لاہور کی سڑک پر گولی مار دی گئی۔ اس کے بجائے میرے قائد کی سنئے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے بولنے نہیں دیا جاتا۔ یہ ملک خداداد ہے، یہاں کبھی عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہا جاتا ہے اور آج عمران خان نے یہ کہہ کر ان کے منہ پر طمانچہ مارتے ہوئے کہا کہ اب مجھے کہا جارہا ہے کہ یہ شخص مذہب کے پیچھے چھپ رہا ہے۔ جی اس لئے کہ وہ ریاست مدینہ کی بات کررہا ہے۔ وہ بل گیٹس کے بجائے نبی پاکؐ کے اُسوہئ حسنہ سے سیکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ مجھے ایک جماعتی لیڈر نے کہا کہ عمران خان نے مدارس کے بچوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ عمران خان نے یکم محرم کی چھٹی دیکر حضرت عمرؓ کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جس کی وجہ سے لیڈر صاحب کو ڈر تھا کہ وہ حمایت کھوتے جارہے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ عمران خان کو بدترین یہودی کہنے والے مولانا فضل الرحمن نے امریکی بڑوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ کبھی داڑھی والوں پر بھی اعتبار کرکے دیکھ لیں۔ جس گھر میں گیا، اس کا نام وزیراعظم ہاؤس ہے اور اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ شیر اب شیر نہیں ببر شیر بن گیا ہے۔ اسے آج بھی کوئی نہیں ورغلا سکتا۔ کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کو اپنے اشاروں پر چلا سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ ملک دشمن یہ چاہتے ہیں کہ فوج اور میرے قائد میں دوری پیدا ہوجائے۔ اگر کبھی معمولی سوچ میں فرق آیا بھی تو عمران خان نے اپنے دلیرانہ اور دبنگ فیصلوں سے اپنے آپ کو منوایا۔ لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن نہ دیں لیکن عمران خان کو علم تھا کہ خطے کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ توسیع دی جائے۔ توسیع دینا اگر غیرقانونی ہے تو پھر تو بات کریں۔ اگر ریاست کا قانون وزیراعظم کو اجازت دیتا ہے تو پھر تکلیف کیوں۔ وہ دور چلاگیا کہ وقت کے حکمران صرف آئی بی سے انفارمیشن لیتے تھے۔ عمران خان نے آج یہ بھی واضح کردیا کہ میرا موبائل مجھے اطلاع دیتا ہے، اللہ کا کرم ہے اپنے قائد کو ہم جو بات مناسب ہوتی ہے، بتاتے رہتے ہیں جو بات سمجھتے ہیں، ٹھیک ہے وہ کردیتے ہیں۔
وزیراعظم نے لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہ حکومت ہیں جسے سب سے بڑا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملا۔ قارئین! آج اللہ کے فضل سے دودھ کی نہریں نہیں مگر 5.37 فی صد گروتھ پر ہم پہنچے ہیں۔ ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹ خطے میں سب سے زیادہ ہوئی ہیں۔ ورکنگ لیبر کا قحط ہے۔ آج وزیراعظم نے ان صحافیوں کا ذکر بھی کیا جو ایمانداری سے اپنا کام کررہے ہیں۔ ان کا اشارہ ان کی طرف بھی تھا جو لفافے اور ٹوکروں سے خریدے گئے ہیں۔ کہتے ہیں خوشخبری پہلے سنا دینی چاہیے۔ وزیراعظم نے یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ بھی بڑھائی جائے گی۔ سچی بات ہے اگر مارا گیا ہے تو تنخواہ دار طبقہ۔ لوگ کہتے ہیں رشوت بڑھ گئی ہے، وزیراعظم نے ان مجبور لوگوں کی بات کرکے دل جیت لیا ہے۔ فراز نے جو کہا وہ سنا:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
اگر یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

بس میں ملی اک لڑکی

افضل عاجز
جب میں بس میں داخل ہوا تو اس نے مجھے ایسے مخاطب کیا جیسے ہم ایک دوسرے کو بہت جانتے ہیں مگر حافظے پر زور دینے کے باوجود مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ ہم کب اور کہاں ملے ہیں۔ اسی گومگو کی کیفیت میں میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اتفاق سے میری سیٹ بائیں جانب کی پہلی سیٹ تھی اور اس کے بالکل آگے اس کی سیٹ تھی۔ تھوڑی دیر بعد بس چلی تو اس نے مائیک پکڑتے ہوئے پہلے عربی میں سفر کی دُعا پڑھی پھر اُردو اور انگلش میں دورانِ سفر کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے کہا اور پھر کہا سفر کے دوران اگر کسی کو قے کی حاجت ہو تو وہ مجھ سے بیگ لے سکتا ہے۔ اس کی اس آفر پر تقریباً آدھی بس نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔ وہ سیٹوں کے درمیان اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ہر ایک کو بیگ تھماتی ہوئی واپس اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے مسکراتے ہوئے پوچھا کیا حال ہے آپ کا اور خیریت سے جارہے ہیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا تو اس نے پوچھا آپ کی بیگم صاحبہ کی طبیعت کیسی ہے۔ میں ان کیلئے دُعا کرتی رہتی ہوں۔
میں نے اسے بتایا علاج جاری ہے، دُعا کیجئے پروردگار صحت عطا فرمائے اور پھر سوالیہ انداز میں نے اسے دیکھا تو اس نے مجھے بتایا میں آپ کی فیس بُک فرینڈ ہوں، وہاں سے آپ کی بیگم صاحبہ کے بارے میں پڑھتی رہتی ہوں۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا فلاں نام کے ساتھ آپ کی فرینڈ ہوں۔ میں نے پھر اس کا شکریہ ادا کیا۔ دورانِ گفتگو اچانک اسے پیچھے سے آواز آئی ”پانی لاؤ“۔ وہ خوش دلی سے اٹھی، بوتل اور گلاس ہاتھ میں تھامے نشستوں کے بیچوں بیچ چل پڑی مگر بس کے ہچکولوں سے اس کا جسم کسی نہ کسی سواری کے ساتھ ٹچ کر جاتا اور وہ شرم ساری کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتی۔ وہ پانی دینے کے بعد ابھی اپنی نشست پر بیٹھنے ہی والی ہوتی کہ پھر آواز آتی ”شاپر“ دے دو۔ وہ پھر جھٹکے کھاتے ہوئے شاپر دینے کیلئے چل پڑتی۔ اس طرح بار بار اٹھنے پر میں نے اسے کہا تم یہ سب کچھ بس سٹینڈ پر ہی کیوں نہیں دے دیتیں۔ اس نے قدرے تلخ لہجے میں کہا یہ بھی کرکے دیکھ چکی ہوں، یہ لوگ دراصل ایسے ہی آوازیں لگاتے رہتے ہیں۔ یہ لڑکی ظاہر ہے کسی امیر خاندان کی نہیں تھی۔ اس کے والد شوگر اور دل کے مریض تھے۔ پانچ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ ماں آس پاس کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ اس کی تعلیم بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ پڑوس میں رہنے والے ایک ڈرائیور نے اسے بس کمپنی میں ملازمت دلوائی تھی اور گزشتہ دوسال سے وہ یہ سروس کررہی تھی۔ اس نے دورانِ گفتگو ملازمت کے سلسلے میں بس میں موجود لوگوں کے کردار کے حوالے سے جو واقعات سنائے وہ انتہائی تکلیف دہ تھے۔ اس نے بس میں سوار اور اترتے ہوئے لوگوں کی حرکتیں بتائیں تو میرا سرشرم سے جھک گیا۔
میں نے کہا کہ آپ بس مالکان سے شکایت کیوں نہیں کرتیں۔ اس نے کہا بس مالکان کیا کرسکتے ہیں، وہ روزانہ لوگوں کے گلے تھوڑی پڑ سکتے ہیں۔ میں نے کہا بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر موجود ہوتا ہے وہ بھی کچھ نہیں کرتے۔ اس نے بتایا ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی کون سنتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران وہ خاصی افسردہ ہوگئی تو میں نے بات بدلنے کیلئے پوچھا کھانا کھاؤگی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا بس جب اپنے مقام پر پہنچے گی تو پھر کھانا کھائیں گے۔ میں نے کہا میرے پاس کھانا موجود ہے اور میں دورانِ سفر گھر سے چند روٹیاں اور سالن ساتھ لے لیتا ہوں۔ آپ میرے ساتھ کھانا کھا لو۔ اتفاق سے اس دن چنے کی دال پکی ہوئی تھی جو میری بیٹی نے بناکر بھیجی تھی۔ انکار کے باوجود میں نے اسے کھانے میں شریک کرلیا۔ تین روٹیاں اور سالن ہمارے لیے کافی ہوگیا۔ کھانے کے دوران بھی اسے ”پانی، شاپر“ کی آوازیں آنے لگیں مگر میں نے اسے روکے رکھا۔ کھانے کے بعد اس کی اداسی دور ہوگئی تو اس نے پوچھا سر لوگ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ قانوناً بھی انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارا قانون بھی عورت کو تحفظ دیتا ہے۔ سب سے زیادہ تحفظ تو اسلام دیتا ہے مگر یہاں معاملہ قانون کا نہیں ہے، اخلاقیات کا، ہمارے سماجی رویوں کا ہے، مرد کی خودساختہ مردانگی کا ہے جو اسے چین نہیں لینے دیتی۔ تم دیکھو اس بس میں مجھ سمیت کوئی ایسا نہیں ہوگا جس کے گھر میں ماں، بیٹی، بہن، بیوی نہ ہو اور ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو اپنے کسی بھی رشتے کے ساتھ کسی بھی طرح کی بداخلاقی پسند کرتا ہو مگر بدقسمتی سے ہم جب گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو تمام رشتوں سے آزاد ہوجاتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو بس میں تمہارے ساتھ کرتے ہیں۔ اس نے خاموشی سے سرجھکا لیا اور میں نے بھی شرمندگی سے سر نیچے کرلیا۔
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭

رابطے بہت ضروری ہیں

شفقت اللہ مشتاق
پنجاب بنیادی طور پر تین بڑے علاقوں پر مشتمل ہے۔ وسطی پنجاب،شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب۔ وسطی حصے میں پنجابی،شمالی حصے میں پوٹھوہاری اور جنوبی حصے میں سرائیکی زبانیں عام طور پربولی جاتی ہیں۔ معاشرت، ثقافت اور طرز زندگی میں بھی بڑا فرق ہے۔ ان ساری چیزوں کی ایک تاریخ ہے اور تاریخ راتوں رات قلمبند نہیں ہوجاتی۔ ارتقائی لحاظ سے اگر مذکورہ عوامل کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی غیر عقلی یا غیر فطری بات نظر نہیں آتی۔ جنوبی پنجاب کا مرکز ہمیشہ سے ہی ملتان رہا ہے اور 712ء میں محمد بن قاسم نے اس کو فتح کیا اور یوں عرب کلچر اور ثقافت نے یہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا۔ آج بھی اس علاقہ میں جمعرات کو خمیس کہا جاتا ہے۔ شورکوٹ سے کراچی تک آپ کو کھجوروں کے پودے بکثرت نظر آتے ہیں۔ دستار پہننا یہاں کی روایت ہے۔ خوشی اور غم کی رسومات بڑے ذوق شوق سے ادا کی جاتی ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی کا رجحان مذہب کی طرف ہے۔ زبان بھی پنجابی،عربی اور مقامی زبانوں سے مل کر سرائیکی بنتی ہے اور اس کی ایک اپنی مٹھاس ہے۔ بڑے آدمی کو سائیں کہنا یہاں کا کلچر ہے۔ بڑی بڑی درگاہیں مرجع خلائق ہیں۔ سجادہ نشینوں اور جاگیر داروں میں انیس بیس کا فرق ہے۔ وضعداری یہاں کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ بلا کے مہمان نواز ہیں.اول تو بات کو دل میں رکھتے ہیں اور اگر بات کرنا بہت ہی ضروری ہو تو بڑے ہی سلیقے اور طریقے سے کرتے ہیں اور بات کو پہلے مٹھاس اور شیرینی کے آٹے سے گوندھتے ہیں اور پھر حکمت کی آگ پر پکاتے ہیں اور پھر شائستگی اور نفاست کے برتن میں پیش کر دیتے ہیں۔ یوں جذباتیت اور حساسیت کے دھوئیں اٹھنے کا امکان بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے۔ حفظ مراتب کے سارے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ عربوں کے بعد سرائیکی علاقہ پر تغلق خاندان نے پوری توجہ دی اور یوں قلعہ پر خواجہ بہاؤالدین زکریا ملتانی اور شاہ رکن عالم کے مزارات اس وقت کے جدیدفن تعمیر کا شاہکار بنے۔ دھرتی انتہائی زرخیز تھی۔ کپاس سب سے اہم فصل ہے اور آموں کے باغ جنوبی پنجاب کی پہچان ٹھہرے۔جنہیں بدقسمتی سے سنا جارہاہے کہ تلف کرکے بڑی بڑی ہاؤسنگ کالونیاں تعمیر کی جائیں گی اوریوں معیشت میں استحکام لانے کاایک ذریعہ ختم کردیا جائے گا۔ اس علاقہ کی سرحدیں ڈیرہ غازی خان کی وساطت سے سارے صوبوں سے ملتی ہیں۔ اسی طرح بہاولپور اور وہاں کے نوابوں کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ خواجہ غلام فرید کی شاعر اور پردرد آواز روہی کی پہچان بن گئی۔ نوابوں نے بڑی بڑی علمی درسگاہیں بنا کر لوگوں کے دلوں میں مستقل گھر بنا لئے ہیں یہ علیحدہ بات ہے ان کے اپنے گھر گھر نہیں رہے۔ مذکورہ عوامل کے باوجود شاید ہم میں کوئی کمی تھی کہ اتنے سارے وسائل کے باوجود ترقی کا پہیہ اس رفتار سے نہ گھمایا جا سکا جس کی جنوبی پنجاب کی تعمیر و ترقی کے لئے ضرورت تھی۔ بادی النّظر میں مغلوں کا لاہور پر فوکس ہونا اور دوسرا یہ کہ لاہور پنجاب کا دار الحکومت تھا۔ وسطی پنجاب میں انگریزوں کے دور میں آباد کاری نے بھی صنعت سازی کے شعبے کو فروغ دیا۔ خام مال کو انڈسٹری کی آگ سے نکال دیا جائے تو پیسہ ڈالر کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں صنعت سازی کو بالکل نظر انداز کیا گیا۔ جاگیر داری کلچر نے سوچ کے سارے دروازے بند کر دیئے۔ ہاں البتہ یہاں بھی آبادکاروں کے آنے سے عملی طور پر کچھ کام شروع ہوا ہے۔
یہ ایک تقابلی جائزہ دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ چند دن پہلے وسیب کے ایک نوجوان سیاستدان رانافراز نون اورچندسرائیکی دوستوں سے ملاقات ہوئی تو خیالات کے تبادلے کے نتیجے میں مذکورہ حقائق کھل کھلا کر سامنے آئے۔ دوران گفتگو خواجہ شعیب نے اپنے مخصوص انداز میں خواجہ غلام فرید کی قافیاں کو سنایا جس سے روحانی ماحول تو ضرور پیدا ہوا لیکن ہیر اور سسی کے ذکر پر ہمارے ایک دوست جن کا تعلق لاہور سے ہے ان کی غیرت نے انہیں دولتیاں مارنی شروع کردیں اور آگے سے انہوں نے وارث شاہ کے سارے کئے کرتے پر پانی پھیر کر کیدو کی خدمات کو کھل کھلا کر خراج تحسین پیش کردیا۔ غیرت اور محبت دو حصوں میں بٹ گئی اور پھر ہم نے دونوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا اور ملتان میں سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم کے دور میں بننے والے پلوں کی دل کھول کر تعریف کی۔ یوں بات عشق معشوقی سے نکل کر سیاست کے میدان میں آگئی اور سیاسی میدان میں جنوبی پنجاب کے بے شمار خاندانوں نے بڑا نام کمایا ہے۔ 1985 میں مخدوم زادہ حسن محمود کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر میاں محمد نواز شریف کو اس میدان میں ایک کھلے مینڈیٹ کے ساتھ اتارا گیا اور پھر انہوں نے تو سب کچھ کمایا ہے۔ ہر شخص کی کامیابی کا کوئی نہ کوئی تو راز ہوتا ہی ہے۔ نون خاندان کا پاکستان اور پنجاب کی سیاست میں ایک نام رہا ہے۔ محترم رانا فراز خان نون کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ اب وہ جنوبی پنجاب کی آواز بن کر ایک ہی کام کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے جنوبی پنجاب کے صوبے کا قیام۔
مبارک ہو ان کو کہ ملتان اور بہاولپور میں سیکریٹیریٹ کے دفاتر کے قیام سے صوبے کی بنیاد موجودہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب نے رکھ دی ہے اور مبارک ہو وہاں کے علاقے کی عوام کو کہ ان کے روشن مستقبل کے بارے میں ان کے بڑوں نے زور شور سے سوچنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جوش اور ہوش کے سوچنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سوچ کو بیدار کرنا لیڈرشپ کا کام ہے۔ بہرحال سوچ کے گل کھلنے سے ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ موٹر وے نے فاصلے ختم کردیئے ہیں۔ اب ہم سب کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقعہ مل گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہی ہے کہ ہر شخص ایک دفعہ موٹر وے پر سفرضرورکرے اور پھر سارے صوبوں سے گھومتا گھماتا ہوا واپس آکر سوچے کہ ہم سب کو مل کر کیا کرنا چاہئے۔ یقینا ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ دلوں کی کدورتیں اور نفرتیں ختم کرنا ہوں گی۔ سب کو کام کرنے کے برابر مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہم سب کے لئے اشد ضروری ہے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو نعروں کی دنیا سے نکل کرحقیقت کی دنیا میں آنا ہوگا۔ عوام الناس کو اپنے حقوق کی آگاہی اور ان کے حصول کے طریقوں سے روشناس کرنا ہوگا۔ موروثی سیاست کو جمہوریت کی اصلی روح کا ٹیکہ لگا کر مارنا ہوگا اور جمہوریت اور تجارت میں فرق کو واضح کرنا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ اگر یہ سارا کچھ ہو گیا تو پھر واقعی کچھ ہو گا بصورت دیگر نعروں سے ہم سب بہلائے جائیں گے اور رب جانے کب بہار کے دن آئیں گے۔
(کالم نگار سیکرٹری ٹیکسز ریونیو بورڈ پنجاب ہیں)
٭……٭……٭

اسلام آباد کا اگلا مئیر کون ہو گا؟

ملک منظور احمد
بلدیاتی انتخابات کا دور دورہ ہے،سندھ کو چھوڑ کر ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات مارچ سے مئی تک ہونے جا رہے ہیں، خیبرپختونخوا میں پہلے مرحلے میں کچھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں، جبکہ دوسرے مرحلے کی تیاری جاری ہے۔ پنجاب میں پہلے مرحلے میں چار ڈویژنز میں انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوا ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں میٹرو پولیٹن کی سو یونین کونسلز کے اور میئر کے الیکشن اکٹھے ہونے ہیں۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بیو کرو کریسی کبھی بھی بلدیاتی نظام کو پھلتا پھولتا ہو ا نہیں دیکھ سکی یہی وجہ رہی ہے کہ وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد شہر کے مسائل میں اضافہ ہی ہو تا چلا گیا ہے۔
اسلام آباد کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں کبھی کوئی مستحکم بلدیاتی ڈھانچہ نہیں رہا، ہمیشہ عارضی بنیادوں پر قانون سازی یا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کچھ عرصہ کے لئے بلدیاتی ادارے فعال کئے گئے اگرچہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں 12 دیہاتی یونین کونسلز میں الیکشن ہوتے رہے، مگر شہر شروع سے ہی بیوروکریسی کے رحم و کرم پر رہا، جو سی ڈی اے یا آئی سی ٹی ایڈمنسٹریشن میں بیٹھے لوگ شہر اور شہریوں کی قسمت کے فیصلے کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 2000 میں بلدیاتی اور ضلعی نظامت کا نظام متعارف کرایا تھا، اس میں بھی اسلام آباد واحد ضلع تھا جہاں ناظم نہیں تھا اور ڈپٹی کمشنر انتظامی سربراہ تھا۔ 2015 میں مسلم لیگ نون نے شہر اور دیہات میں پچاس یونین کونسلز پر مشتمل میٹروپولیٹن قائم کی جس کا سربراہ میئر تھا۔پچاس یونین چیئرمین نے میئر منتخب کرنا تھا، اس طرح نواز شریف نے حکومتی وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنے ایک دوست اور کنٹریکٹر شیخ انصر عزیز کو میئر بنوایا، مگر وہ شہر کو نہ سنبھال سکے، بلکہ سی ڈی اے کو بھی کنٹرول نہ کر سکے اور یہ بھی دنیا نے دیکھا کہ میئر کے خلاف شہر کے سویپرز نے جلوس نکالے، میئر کی شکایات پر نواز شریف نے شیخ انصر عزیز کو سی ڈی اے کا چیئرمین بھی بنا دیا، مگر معاملات درست نہ ہوئے، پھر شیخ انصر عزیز نے عہدے سے ہی استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد چند ماہ کی مدت کے لیے ن لیگ نے ایک مقامی رہنما کو میئر تو بنوا دیا لیکن عملی طور پر میئر آفس خالی رہا، اب نئے قوانین کے تحت تحصیل و یونین چیئرمین اور میئر کے الیکشن براہ راست ووٹ سے ہوں گے، اور اسلام آباد کی قومی اسمبلی کے تین حلقوں پر مشتمل پورا شہر اور ضلعی حدود سے براہ راست میئر منتخب کرانا کسی سیاسی جماعت کے بس میں بھی نہیں ہے، اس لئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے میئر کے امیدوار کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا اور نہ ہی غیر جماعتی طور پر زیادہ دلچسپی نظر آرہی ہے، یہ بات طے ہے کہ اسلام آباد کا میئر وہی ہوسکتا ہے جس کا 100 یونین کونسلز میں ووٹ بینک ہو۔ خیبر پختونخواہ کے پہلے مرحلے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صرف پارٹی ٹکٹ ہی جیت کی ضمانت نہیں ہوسکتا۔
اسلام آباد ایک مختلف مزاج کا شہر ہے یہاں شہر میں اکثر سرکاری ملازم اور کاروباری افراد بستے ہیں تو ملحقہ دیہات میں قدیم آبادیاں اور برادریاں آباد ہیں، اور اب تو ہاؤسنگ سوسائٹیز کی شکل میں نئی بستیاں بھی بس گئی ہیں، اور ہر ایک کے الگ مسائل اور مطالبات ہیں، میئر کے لیے ضروری ہے کہ اس کو نہ صرف آبادی کے ہر حصے اور طبقے کے مسائل سے آگاہی ہو بلکہ شہر اور دیہات میں اس کی ذاتی پہچان اور تعارف بھی ہو، اگر سیاسی جماعتوں کی مقامی لیڈر شپ کو دیکھا جائے تو کوئی رہنما اس فارمولے پر پورا نہیں اترتا، ابھی تک اس حوالے سے صرف ایک شخصیت سامنے آئی ہے اور انہوں نے اپنا گروپ بھی متعارف کرایا ہے۔موصوف جنرل پرویز مشرف کے دور میں نگران وفاقی وزیر بنے تھے، اگرچہ چند ماہ کی مختصر مدت کے لیے وزارت میں رہ کر کوئی کام کرنا مشکل ہوتا ہے، مگرکچھ کرنے کا جذبہ اور صلاحیت ہو تو مدت یا عرصہ اہمیت نہیں رکھتا، انہوں نے اپنے دور وزارت میں اسلام آباد کے مشرقی اور مغربی حصوں کے دیہات میں نہ صرف ترقیاتی کام کروائے، بلکہ اپنے وسائل سے غریب اور مستحق خاندان کو کفالت کے ذرائع بھی مہیا کیے، اور یہ سلسلہ وزارت سے الگ ہونے کے بعد بھی جاری رہا اور اب اگر اسلام آباد کے کاروباری اور شہری آبادی ان کو اپنا دوست اور ساتھی سمجھتی ہے تو دیہی علاقوں کے عوام بھی ان کو ایک انسان دوست اور ہمدرد انسان کے طور پر جانتے ہیں۔ اگر انہوں نے سو مخلص چیئرمین کی ٹیم بنا لی تو وہ آسانی سے میئر کا الیکشن جیت سکتے ہیں، فی الحال وہ جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، یہ بھی ضروری ہے، مگر ان کو دیہی علاقوں میں اپنے پرانے تعلق اور سورس تلاش کرکے ان کو متحرک کرنا ہوگا۔
اسلام آباد کی شہری آبادی کا مسئلہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دینے کو نکلتے ہی نہیں، زیادہ ووٹ دیہی علاقوں میں پول ہوتا ہے اور اس لیے وہاں انتخابی ماحول بنانا پڑتا ہے، ڈاکٹر امجد کا ممکنہ مقابلہ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ساتھ ہو سکتا ہے، کیونکہ مصطفی نواز کھوکھر کے والد حاجی نواز کھوکھر کی خدمات اور تعلق کی بنیاد پر اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں میں ووٹ بنک موجود ہے لیکن فی الحال سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر بلدیاتی انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
قصہئ مختصریہ کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اسلام آباد کامیئرمصطفی نواز کھوکھر کاکوئی امیدوار بنے یا ڈاکٹرامجد یا پھر کوئی تیسرا اس کا پتا تو وقت آنے پر چل جائے گا۔ فی الوقت امید کی جانی چاہیے کہ بی ڈی الیکشنز آزادانہ اور منصفانہ بنیادوں پر بلاادنیٰ تاخیر منعقد کروائے جائیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

مری کا رُومان اور انتظامی نااہلی

مریم ارشد
کوئی بھی موسم ہو مری کا رومان اور جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔موسمِ گرما میں فضا میں رچی چناروں اور چیڑ کی خوشبو دل موہ لیا کرتی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں مری کے آسمان کے رنگوں کی چھب ہی نرالی ہوتی ہے۔ یکا یک بادلوں کے چھا جانے سے آسمانی رنگ لاجوردی اور گلابی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مری کا آسمان گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ مری پنجاب کا وہ سیاحتی پُرفضا پہاڑی مقام ہے جو ہر خاص و عام کی پہنچ میں ہے۔ کوئی بھی اپنے بجٹ کی منصوبہ بندی کر کے یہاں کی سیر سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اسے ملکہ کوہسار کہا جاتا ہے۔ لیکن مری کے مقامی ہوٹلوں والے ہمیشہ سیاحوں کی کھال اتارنے کو تیار ہی رہتے ہیں۔ چند دن پہلے بھی ویک اینڈ پہ لوگ پروانوں کی طرح مری کی برف باری دیکھنے کے عشق میں گھروں سے نکلے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ وہ انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے ٹھنڈی سفید برف میں ٹھٹھرتے ہوئے میٹھی موت مر جائیں گے۔
یوں تو وطنِ عزیز میں بہت سے سیاحتی مقام ہیں جیسے ناران، کاغان، سوات، کالام، ہنزہ وغیرہ جانے کے لیے جیب میں کافی روپے ہونے چاہئیں۔ لہذا زیادہ تر لوگ مری کا رُخ کرتے ہیں۔ اس دفعہ بھی برف باری کے شوقین لوگوں نے مری کا رُخ کیا۔ جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق 3جنوری سے 8جنوری تک برفانی طوفان آنے کے پیشین گوئی کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں تمام اداروں کو ریڈ الرٹ کر دیا گیا تھا۔ بلا شبہ مری ایک چھوٹا سا ہِل سٹیشن ہے جہاں اس کے قدیمی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اُلٹا اس پر بہت سی تعمیرات بنائی گئی ہیں۔ مری میں زیادہ سے زیادہ35سو گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں لیکن اس روز مری میں تقریباً ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہو گئیں۔ مری میں دو بڑے چوک ہیں جہاں ٹریفک بلاک ہو جانے کی وجہ سے نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ایک جھیکا گلی اور دوسرا سنی بینک سے کلڈنہ۔ اس روز ان دونوں رستوں کو صاف کروانے کی کوئی تیاری ہی نہیں کی گئی تھی۔ فواد چوہدری صاحب کی ٹویٹ تھی: ”اتنی بڑی تعداد میں کسی سیاحتی مقام پہ گاڑیوں کے داخلے کا مطلب ہے کہ پاکستان میں لوگ خوشحال اور معیشت مظبوط ہے۔“
کوئی ان حکمرانوں سے پوچھے کہ کیا مری جیسے چھوٹے سیاحتی مقام پر اس کی قوتِ اختیار سے زیادہ گاڑیوں کا اندھا دھند داخل ہونا اور مری انتظامیہ کا غائب رہنا حکومت کی نا اہلی ہے یا معیشت کی مضبوطی۔ ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اس کے عوام کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے۔ عوام کے لیے تعلیم و صحت کے شعبے میں ترقی دینے سے۔ عوام کے لیے بروقت سہولتیں بہم پہنچانے سے۔ اب مری کو ہی دیکھ لیجیے جب لوگ وہاں پھنسے مدد کے لیے آہ و فضاں کر رہے تھے۔ ماں اور باپ کے سامنے ان کے پھول سے بچے موت کی آغوش میں سرک رہ تھے۔ تب کوئی ان کا پُرسانِ حال نہ تھا۔ مری کی انتظامیہ شاید بھنگ پی کر سو رہی تھی۔ جب 23قیمتی جانیں میٹھی موت کے گھاٹ اتر گئیں تب کہیں جا کر اگلے روز برف صاف کرنے کی گاڑیاں پہنچیں۔ کیا یہ گاڑیاں وہاں پہلے سے موجود نہیں ہونی چاہیے تھیں۔
وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے خود کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ نتھیا گلی کی طرف سے کے پی سے آنیوالی گاڑیوں کا داخلہ بروقت بند کیا جا سکتا تھا۔ اگر مری کی انتظامیہ غفلت نہ برتتی اور بروقت مدد کی جاتی تو وہ قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں۔ اب بات کرتے ہیں اس ظلم کی جو مقامی ہوٹلوں والوں نے غریب سیاحوں پر ڈھا یا۔ ایک اُبلا انڈہ تین سو تک کا بیچا۔ منرل واٹر کی بوتل جو 60روپے میں بکتی تھی وہ پانچ سو تک کی بیچی گئی۔
گاڑیوں میں چینز لگانے والوں نے بھی منہ کھول کر پانچ ہزار روپے تک مانگے۔ لوگوں کو ناشتے دو دو ہزار روپے میں بیچے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں بچ جانیوالی ایک فیملی اپنے تاثرات بیان کرتی ہے کہ وہ پہلے سے 10ہزار روپے پر تین دن کے لیے کمرہ بُک کروا کر گئے۔ ایک رات گزارنے کے بعد ہوٹل والوں نے کمرہ خالی کرنے کو کہا۔ جب اس شخص نے بتایا کہ میری تو پہلے سے تین دن کی بکنگ ہے تو کہا کہ پھر آج آپ 40ہزار کرایہ ادا کریں گے۔ اس شخص کا کہنا ہے کہ میں ٹوٹل 60ہزار کا بجٹ لے کر گیا تھا۔ لہذا ہم واپس آ گئے اور یوں زندہ بچ گئے۔ مری والوں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایسی اہندو ناک صورتِ حال میں بغیر منافع کے اپنے دلوں کے دروازے کھول دینے چاہیئے تھے۔
اگر ایسے میں مری والے اپنے ہم وطنوں کو سہولتیں دیتے تو ان کے لیے آنیوالے دنوں میں کاروبار دُگنا ہی ہونا تھا۔ ایک سوال پرائم منسٹر عمران خان سے بھی ہے کہ آپ تو زمانے کے سیاح ہیں۔ اپنی عید کی چھٹیاں گزارنے بھی نتھیا گلی جاتے ہیں۔ کیا آپ کو اپنے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کو نہیں بتانا چاہیے تھا کہ اتنی گاڑیاں آ رہی ہیں تو اس رش کو کنٹرول کرنے کے انتظامات کر رکھے ہیں یا نہیں۔ بعد میں عثمان بزدار کا ہیلی کاپٹر میں چڑھ کر ہوائی جائزہ لینے کا مقصد کیا تھا؟ کیا وہ معصوم لوگ جو گھروں سے سیر کرنے کو نکلے اور ملکی معیشت میں حصہ ڈلا وہ یوں اپنے بچوں سمیت مرنے کو گئے تھے؟ کیا مری کے اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنر کو معلوم نہیں تھا کہ اتنی گاڑیاں آ رہی ہیں تو راستے صاف کروانے ہیں۔
حکومتِ پاکستان سے گزارش کے کہ راولپنڈی سے مری تک ٹرین ٹریک بنایا جائے اور مری کے اندر چھوٹی بس شروع کی جائے تاکہ ضرورت سے زائد گاڑیوں کے داخلے کو ممنوع قرارد دیا جائے۔ مری کی انتظامیہ کو ہر صورت محفوظ سیاحت کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اس وقت عوام اتنی دلبرداشتہ ہے کہ وہ مری کا مکمل بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ منافع خوروں کو اور اس اہندوناک واقعہ کے ذمہ داران کو فی الفور کڑی سے کڑی سزا دے۔ مری والوں نے جان بوجھ کر سڑکیں بلاک کیں۔ کمروں کے کرایے چار گُنا بڑھا دیے۔ ٹول پلازہ والوں نے لُوٹا۔ پوری قوم طیش میں ہے۔ مری کا سب بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن والوں کو سزا دی جائے۔ آخر میں اگر کوئی پھر بھی زندگی کی رعنائیوں سے تنگ ہے اور مرنے کا ارادہ ہے تو مری چلیے۔مری کے رومان کو بالآخر مری کی انتظامیہ کی نااہلی لے ڈوبی۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

دہشت گردی اور اس سے نجات

عبدالباسط خان
پاکستان میں ایک طویل عرصے کے بعد صوبائی دارالحکومت لاہور کے ایک مشہور اور مصروف بازار انارکلی میں دہشت گردی کی واردات ہوئی جس میں تین سے زائد افراد شہید اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق میڈیا نے اس دھماکے کو سلنڈر دھماکے سے منسوب کیا مگر بعد ازاں سکیورٹی اداروں کی مشاورت اور تصدیق کے بعد پلانٹڈ ڈیوائس کے ذریعے جس کی شدت ایک اور ڈیڑھ کلو گرام بتائی گئی اس بات کا اعلان کیا گیا۔
دھماکہ ایک بج کر چالیس منٹ پر ہوا اور پورے پاکستان میں خوف و فکر کی لہر دوڑ گئی کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کئے ہوئے ہے اور ہمارے سینکڑوں فوجی بھائی اور افسران بارڈر پر اس جماعت کی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں لہٰذا شہری لوگوں کے خلاف دہشت گردی اور خصوصاً پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں دھماکہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ کیا ہمارے دشمن بارڈرز اورسرحدوں سے ہمارے شہری علاقوں تک پہنچ گئے ہیں۔ مقامی انتظامیہ نے عمومی طور پر دہشت گردی کے خلاف انتظامات میں دفاعی پوزیشن اختیار کی جب کہ ہمارے وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے واشگاف الفاظ میں اس بات کا اعلان کردیا کہ ملک کو پھر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے میں ٹی ٹی پی سمیت علیحدگی پسند گروپ ملوث ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے خصوصی طور پر دو دن پہلے دہشت گردی کی ایک کارروائی جس میں ہمارے اسلام آباد کے ناکے پر پولیس کے جوانوں کی ہلاکت کا تفصیلی ذکر کیا اور ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔
پاکستان دہشت گردی کی تاریخ افغانستان میں روسی حملے کی بدولت شروع میں ہوئی اور ہم امریکہ اورروس کی سرد جنگ کے نتیجے میں اور ملٹری ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی غلط پالیسی کے فیصلے سے اس خطے میں خون اور آگ کی لپیٹ میں آئے اور مذہبی انتہا پسندی نے ہمارے تمام اداروں کو متاثر کیا۔ دہشت گردی کی دو اہم وجوہات ہیں ایک داخلی یعنی اندرونی اور دوسری بیرونی ہے۔ داخلی طور پر ہم افغان وار کے بعد سیاسی سماجی معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے مفلوج اور متاثر ہوئے اگرچہ نیشنل ایکشن پروگرام اور مدرسوں میں اصلاحات کا تمام پارٹیوں نے اجتماعی طور پر معاہدہ کیا مگر چند جماعتوں نے مذہب کی آڑ میں ان پر کسی قسم کی اصلاحات اور فیصلے کو رد کر دیا جس سے ہم نہ صرف مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو گئے بلکہ عمومی طور پر پاکستان کی ایک کثیر تعداد جس میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس شامل ہیں کئی مذہبی تنظیموں کے آلہ کار بن گئے۔ اندرونی اسباب میں ہماری اقتصادی صورتحال ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
ناانصافیوں، غربت اور انصاف کے حصول میں ناکامی کے بعد ہمارے صوبوں میں مکمل ہم آہنگی، اتفاق اور یک جہتی کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے ناعاقبت اندیش سیاستدانوں نے ہمیشہ علاقائی سوچ کی وکالت اور ترجمانی کی جب کہ بعض صوبے جس میں بلوچستان، کے پی کے (KPK) اور سندھ میں وہ اصلاحات نافذ نہ ہو سکیں جس سے وہاں کے لوگوں کو اور بالخصوص نوجوانوں جو نہ تو روزگار مل سکا اور نہ ہی ترقی کے مواقع حاصل ہو سکے۔ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کے بناء پر وسائل کی تقسیم ایک ناانصافی اور تفریق کا باعث بنتی رہی ہے مگر ہم نے ہمیشہ پنجاب کو سرفہرست رکھا یہاں پر میٹرو اور گرین لائن ٹرین جیسے منصوبے شروع کئے جبکہ قائد کے شہر کو تباہ وبرباد کردیا گیا بلوچستان میں آج بھی 1947ء جیسے حالات ہیں۔ وہاں ہمارے لیڈروں نے کبھی توجہ نہیں دی جس کی بناء پر وہاں کے نوجوانوں نے بغاوت کی اور پنجاب کو اپنے وسائل بشمول سوئی گیس و دیگر ریکوڈک جیسے منصوبوں کو لوٹنے کا ذمہ دارٹھرایا۔
حال ہی میں گوادر میں ہونے والی جماعت اسلامی کے ایک لیڈر کی تحریک جس میں چین کا پاکستان کا استحصال کرنے کا ذمہ دارٹھہرایا گیا۔ اس کی ایک زندہ مثال ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان صوبے کے عوام کو ان کے حقوق یعنی روزگار، ملازمت اور سیاسی طور پر خود مختاری دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مگر وہاں پر عوامی سہولتوں اور تفریحی کاموں کا فقدان ہے اگر ہم بیرونی طور پر دیکھیں تو پاکستان دو اہم بین الاقوامی ایشوز کی بناء پر معاشی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ہوا۔
کشمیر کا مسئلہ 1947ء سے آج تک پاکستان اقوام متحدہ کے ہر فورم پر اٹھا چکا ہے مگر اس پر آج تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ماضی میں جنرل ضیاء الحق نے ہندوستان کے خلاف کشمیر کی آزادی کیلئے غیرعلانیہ جنگ کی جس کا ہندوستان کی قیادت کو سخت غصہ اور عناد تھا۔ اس مسئلے کی وجہ سے 1965ء کی جنگ اور 1971ء کا المیہ، کارگل وار اوردیگر فوجی مہم جوئی سے دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی اور عداوت کو بہت فروغ ملا لیکن ہندوستان نے پاکستان کی کشمیر پر سیاست کو بلوچستان میں مداخلت اور بیرونی طورپر دہشت گردی اسٹیٹ اور ایف اے ٹی ایف جیسے اہم مسائل سے دوچار کیا۔ دنیا کی بڑی معیشت کے حوالے سے سعودی عرب جیسا ملک بھی ہندوستان کی حمایت کرتا نظر آتا رہا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت بشمول طالبان ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر ہمیشہ پاکستان کی مخالف رہی ہے۔
طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد بھی آج ہماری جنوبی سرحد محفوظ نہیں ہے تو گویا مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات اوروہاں سے دہشت گردی ہماری خارجہ پالیسی اور معیشت کو مفلوج اور تباہ کر رہی ہے اس لحاظ سے موجودہ حکومت نیشنل سکیورٹی پالیسی ڈاکٹرائن ایک بہت مثبت اور راست قدم ہے جس میں ہندوستان سے سو سالہ نووار پیکٹ اور ایران افغانستان، ہندوستان اور چین سے ازسرنو تعلقات کو استوار کرنا ایک ترجیح ہے امریکہ کوہم نے ریسٹ آف ورلڈ میں شامل کی ہے۔ ہندوستان نے تاہم اس سلسلے میں مثبت جواب نہیں دیا مگر اگر جنرل باجووہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی پیشکش کو دہرا دیں تو شاید ہندوستان کے لئے اس پیشکش کو ٹھکرانا مشکل ہو جائے گا۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

مجھے دُکھ ہوتا ہے

عابد کمالوی
سیاسی سرگرمیوں کی جگالی بہت ہو چکی اور گزشتہ تقریباً 74سالوں کے دوران ہم نے سیاست کے نتیجے میں کیا کیا دُکھ اٹھائے، قوم کو کن مشکل مراحل سے گزرنا پڑا، کتنے حادثے اور سانحات غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے تاریخ پاکستان کا حصہ بنے ایک طویل داستان ہے۔ اس لیے اب ہمارے تجزیہ نگاروں، کالم نویسوں، تاریخ دانوں، شاعروں اور ادیبوں کو وہ کچھ لکھنا چاہیے جو پاکستان کے 22 کروڑ سے زائد عوام کو ایک قوم بنانے میں معاون ومددگار ثابت ہو سکے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں سیاستدان دست وگریبان ہوتے ہیں اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر سپیکر ڈائس اور دوسرے ممبران پر اچھال دیتے ہیں، گالیاں دی جاتی ہیں۔ بالآخر ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ ایسا کرنے والوں کو شاید یہ علم نہیں کہ جب عام انتخابات ہوتے ہیں تو ان میں پورا ملک ہل کر رہ جاتا ہے اور قومی خزانے کے اربوں روپے اس پر خرچ ہوتے ہیں۔ اسمبلیوں اور جمہوری نظام پر اٹھنے والے اخراجات الگ ہیں۔ یہ لوگ تو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب ہوئے ہیں لیکن اسمبلیوں میں پچھلے اور اب تک کے جمہوری ادوار میں جو کچھ ہوتا رہا اس پر مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر اور جان کر بھی دُکھ ہوتا ہے جب جنوبی پنجاب یا پاکستان کے کسی گاؤں کا جاگیردار ایک غریب پر اپنی مزدوری مانگنے یا کوئی سوال کرنے پر خونخوار کتے چھوڑ دیتا ہے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ سن کر اور دیکھ کر جب حوا کی ایک بیٹی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ جان کر اور پڑھ کر جب کسی خاتون کی میت کو قبر سے نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
جب ایک دکاندار اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کرکے انہیں شدہ چیزیں پوری قیمت بلکہ زیادہ قیمت وصول کرکے گاہکوں کو دیتا ہے تو مجھے دُکھ ہوتا ہے۔ میں دُکھی ہوجاتا ہوں یہ دیکھ کر جب شاہراہوں پر نوجوان اور اشرافیہ قوانین کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے جب بھی غریب کسی عدالت کے باہر یہ دہائی دے رہا ہوتا ہے کہ اس کا مقدمہ پچھلے 20سال سے عدالت میں چل رہا ہے لیکن اسے ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ مجھے اس وقت بھی بہت تکلیف ہوتی ہے جب کسی تھانے میں ایک بے اثر اور عام شہری اپنی فریاد لیکر جاتا ہے لیکن اکثر اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے بہت کوفت ہوتی ہے اس وقت جب ایک معالج بھاری فیس وصول کرکے مریضوں کا صحیح علاج نہیں کرتا اور بیماری تک نہیں پہنچ پاتا۔ مجھے ذہنی کوفت ہوتی ہے یہ دیکھ کر جب دفاتر میں چھوٹے سے کام کے لیے بھی اہلکار منہ کھول کر رشوت مانگتے ہیں۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے اس وقت جب غریب کا ایک بچہ اچھے نمبروں سے ایم اے کرنے کے بعد نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہوتا ہے لیکن ملازمتیں ان کے حصے میں آتی ہیں جن کے پاس بھاری سفارشی یا بھاری سرمایہ ہوتا ہے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ پڑھ کر جب میرے قبیلے کا ایک فرد جھوٹ لکھتا ہے اور پیسے لیکر کسی کی پگڑیاں اچھالتا یا کسی کو وقتی عزت اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اس واعظ کو دیکھ کر جو دین کو قرآن وسنت کے مطابق ہم تک نہیں پہنچاتا۔ ہائے ہائے:
ہمارے قول وعمل میں تضاد کتنا ہے
مگر یہ دل ہے کہ خوش اعتقاد کتنا ہے
میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دھرتی کا رزق کھانے والے اسی دھرتی کے خلاف سازشیں کرتے اور اسے بد نام کرتے ہیں۔ جھوٹ غیبت اور نمود ونمائش نے کتنے گھروں کا سکون برباد کردیا۔ کتنے شر ہیں جو ہماری ترقی اور خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ دھاندلی، دھونس، لاٹھی، گولی، آنسو گیس، دھرنے، احتجاج، نعرے، فحاشی وعریانی، گالیاں، سرعام بیٹیوں اور بہنوں کی بے عزتی و بے حرمتی، سوشل میڈیا پر فحاشی اور عریانی کا طوفانِ بدتمیزی، چوریاں ڈکیتیاں، قتل وغارت، چھینا جھپٹی، انسانی ذہنوں اور ایمانوں کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہیں۔
جھوٹ بول کر اپنا مال فروخت کرنے والے تاجر اور ظالم حکمران اللہ کے دُشمن ہیں، یہ میرے نبیؐ کا فرمان ہے لیکن اس کے باوجود یہ طبقات اپنی منفی سرگرمیوں سے باز کیوں نہیں آتے۔ بلیم گیم ہمارے معاشرے میں ایک رسم کی حیثیت اختیار کرچکی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ لڑنے والے دو بھائیوں کے درمیان صلح کون کرائے۔ ثالثی اور پنچایتی کا کردار کون ادا کرے؟ تقریباً سبھی متنازعہ ہوچکے ہیں اور جو دل میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں ان کا پتہ ہی نہیں وہ کہاں چھپ گئے۔ ایسے میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے ایسی جماعت کی تلاش میں نکلتے ہیں جس کے بارے میں ربِِ کائنات نے فرمایا: تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
(کالم نگار قومی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

متحرک میڈیا‘ اُمید کا مرکز

جاوید کاہلوں
جب سے عمران خان نے ہوش سنبھالی ہے وہ ایک بھرپور پبلک لائف گزار رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا پہلا حصہ اور پبلک لائف کرکٹ کی دنیا کیا ایک ٹاپ انٹرنیشنل سٹار ہونے کے بل بوتے پر اسے ملی۔ دوسرا اور چھوٹا حصہ وہ تھا جب انہوں نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی اور اپنی مرحومہ والدہ کے نام پر ایک سٹیٹ آف آرٹ کینسر ہسپتال بنانے کیلئے اسے فنڈ ریزنگ کیلئے پاکستان کے علاوہ بھی دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ ان کی پبلک لائف کا موجودہ بھرپور عہد تب شروع ہوا جب انہوں نے سیاست میں آنے کا سوچا اوراس مقصد کیلئے چند دہائیاں قبل پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے نام سے شروع کی۔ سالوں کی محنت اور بھرپور پبلک لائف میں شمولیت کے بعد‘ ہم جانتے ہیں کہ وہ آج پاکستان کے وزیراعظم بن چکے ہیں اور اس طرح سے ایک بار پھر دنیائے سیاست‘ خواہ وہ پاکستان کی ہو یا بین الاقوامی۔ اس میں بھرپور اپناکردار ادا کررہے ہیں۔ اتنی طویل اور اس سطح کی پبلک سطح پر رونمائی دنیا میں خال خال لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے لہٰذا ظاہر ہے کہ جب آپ عوامی لیول پر جانے پہچانے جاتے ہیں اور بالخصوص آپ جب پاکستان کی طرز کے تیسری دنیا کے ممالک میں بے تکی اور بے رخی سیاست میں کود چکے ہوں تو آپ کی ذات کا دن رات ایک مسلسل ایکسرے نکلتا ہے جوکہ عوام کے ذہنوں اور نظروں تک پہنچایا جاتا ہے کوئی نصف صدی قبل ہی کی بات کریں تو الیکٹرانک میڈیا کا رواج ہی نہیں تھا عوام تک پیغام رسانی کیلئے دو ہی معروف طریقے تھے کہ یا تو جگہ جگہ عوامی جلسے اور جلوسوں کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا جائے یا پھر پرنٹ میڈیا کا سہارا لیا جائے یعنی کہ اخبارات‘ اشتہارات یاپمفلٹ وغیرہ چھاپے جائیں اور تقسیم کئے جائیں مگرآج کل پرنٹ کیا‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا‘ انفارمیشن کی دنیا میں ایک انقلاب بپا کرچکے ہیں۔ سو‘ عوامی زندگی گزارنے والوں کا‘ آج کل‘ لمحہ بہ لمحہ‘ خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ جائزہ جو ناجائز عوام تک بلا روک ٹوک پہنچ رہا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ جب اطلاعات رسانی یہاں تک ترقی کرچکی ہو تو پھر عوامی لوگوں کا پوسٹ مارٹم ایکسرے پر کس وناکس کو کیونکہ نہ پہنچے۔ لہٰذا ایک ایسی نام نہاد پارلیمانی جمہوریت جس میں کار ریاست چلانا کوئی سیدھا کام نہ ہوا اور اپوزیشن بھی اپنے معیارات میں ہر اخلاقی سطح اور حسن کردار سے گرچکی ہو وہاں پر کسی چیز کا چھپا رہنا یا پھر چھپایا جانا ممکن نہیں رہتا۔ سوعمران خان کی ذات کو بھی اس میں کوئی استثناء نہیں۔ آج عوام پاکستان بنی گالہ سے لے کر وزیراعظم ہاؤس تک اس کی ہر ادا کو جانتے ہیں جبکہ سیاست سے پہلے گزاری گئی اس کی زندگی کو بھی ہر کوئی خوب جانتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک کتاب کی صورت میں عمران خان نے چند سال قبل ایک کتاب بھی چھاپی تھی جو کہ خود ایک بڑا ذریعہ معلومات ہے اورمستند بھی ہے۔
ایک حسین اتفاق ہے کہ ان کے اپنے کیا‘ ان کے مخالفین بھی اس میں درجنوں عیب گنوا سکتے ہیں لیکن دو نقاط پر ہر کوئی متفق ہے۔ ایک یہ عمران خان ایماندار ہے۔ وہ قوم کے پیسے پیسے کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے اور ذاتی طور پر کوئی خورد برد نہیں کرتا۔ دوئم یہ کہ وہ کسی کا بندہ نہیں اور بالخصوص مودی کی تو اس سے جان جاتی ہے۔ یعنی کہ وہ وطن عزیز سے متعلق بالخصوص دنیائے اسلام سے متعلق بالعموم نہایت مخلص اور وفا شعار ہے۔ وہ سی آئی اے ہو یا ایم آئی فائیو یا سکس۔ کوئی اس کی بولی نہیں لگا سکتا۔ بھارتی را‘ سٹیل نائیکون یا پھر نریندر مودی تواس کے سائے سے بھی گھبراتے ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہ وہی بھارت ہے جو پچھلے ادوار میں دن رات پاکستان میں سرجیکل سٹرائیکس کا شوشہ چھوڑتا تھا کیونکہ بھارتی فکر کو پاکستان وزیراعظم کی سپورٹ حاصل ہوتی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ جب مشرقی پنجاب کے ایک ایئر فورس کے بیس پر جب حملہ ہوا تو پاکستان کی لمبی تاریخ میں میاں نوازشریف کے حکم پر پہلی مرتبہ پاکستان ضلع گوجرانوالہ کے تھانے میں اس کی ایک ایف آئی آر بھی درج ہوئی جوکہ ہمارے سیاسی دیوالیہ پن اور خارجہ پالیسی کیلئے ایک شرمناک روایت تھی۔ کون نہیں جانتا کہ پولیس تھانے کی ایف آئی آر ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جو کہ دھائیوں نہیں بلکہ صدیوں بھی ریکارڈ کا حصہ رہتی ہے۔ واپس عمران خان پر آئیں تو یہ بات طے ہے کہ اس کی دیانت‘ امانت‘ خلوص وصدق کسی بھی سوال سے بالاتر ہے۔ مگر اس کی بھی سیاسی دنیا میں الگ کوئی استثناء ہے تو وہ پھر لاہور کے شریفوں کا ہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاتون وراثت میں ملی سیاست کے احوال کو بھی بھول جاتی ہیں وہ بار بار اس سلسلے میں چینی‘ مالم جبہ‘ پشاور بس اور دوائیوں وغیرہ ہم جیسے سکینڈلز کا حوالہ دیتی ہیں حالانکہ ان ہی کی پارٹی سے بزرگ ان سکینڈلز میں عمران کی ذات کو ملوث نہیں کرتے بلکہ اسے بری حکمرانی یا وزیروں کی غلط کاریوں تک محدود رکھتے ہیں۔ ”چور مچائے شور“ جیسی ضرب المثال شائد ایسے ہی خواتین وحضرات کے لئے بنی تھی۔ ہر چور اس نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتا ہے اگر وہ اونچے سے اونچا شور مچائے گا تو شائد اس سے اصل چوری چھپ ہی جائے۔ بہرحال اسی سلسلے میں اپنی نیک نامی کے پرچار کیلئے وہ ملکی نظام انصاف اور عدالتوں سے جرم کے ثابت ہونے کو بھی اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طورپر بیان کرتے نہیں تھکتے۔ اس سلسلے میں محترم زردری صاحب بھی ان کے ہم پلہ ہوجاتے ہیں ایک موٹی سی مثال یہ ہے کہ کوئی گِن لے کہ پاکستان میں سال میں کتنے قتل ہوتے ہیں۔ دفعہ 302 میں تو قتل کی سزا موت ہے۔ کیا کوئی گن کر یہ بتاسکتا ہے کہ کتنے کیسز میں ہماری عدالتوں سے لوگ پھانسی پر جھولے۔ شاید کوئی تناسب ہی نہ ہو تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی قتل ہوتا ہی نہیں۔ عمران خان تو اس عدالتی کمی اور نا اہلی کا برملا اعتراف بھی کرچکا ہے اور وہ کیا کرے کہ قانون سازی کے لئے پارلیمانی نظام میں بہت سی بلیک میلر قوتیں موجود ہوتی ہیں جو اندرون خانہ وبیرون خانہ اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔ ان میں اپنے بھی ہوتے ہیں اور پرائے بھی۔ اب بڑی امیدیں فی الحال تو اسی جیتے جاگتے اور ہر آن متحرک میڈیا سے ہیں جو کہ یقینا کھرے کو کھوٹے سے علیحدہ کرکے ہی رکھے گا۔ شاید کہ باری تعالیٰ ایسے ہی پاکستان کا بھلا کر دے۔
(کرنل ریٹائرڈ اور ضلع نارووال کے سابق ناظم ہیں)
٭……٭……٭