تازہ تر ین

کوئی معجزہ نہ ہوا تو ان میں سے ایک نیا آرمی چیف ہو گا …. نامور صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چین کی خواہش ہے کہ جنرل راحیل شریف کو ایک سال کی توسیع دی جائے کیونکہ سی پیک منصوبے پر ان کی بہت خدمات ہیں۔ آرمی چیف کو توسیع ملنے سے چین خوش ہو گا لیکن توسیع ملنے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ حامد خان نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے عمران خان سے پانامہ کیس کی مزید پیروی کرنے سے معذرت کر لی ہے اور عمران خان نے کہا ہے کہ ٹھیک ہے آپ عدالت نہ جائیں لیکن قانونی ٹیم کی سربراہی کریں۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے بہت پہلے توسیع لینے سے معذرت کر لی تھی۔ شاہد ان کو توسیع لینے پر راضی کرنے کیلئے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور چودھری نثار نے چند ماہ میں 3 ملاقاتیں کیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا بار بار آرمی چیف سے ملنے جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک بار تو وہ بغیر پروٹوکول کے بھی گئے۔ شاید جنرل راحیل شریف کو یہ بھی پیشکش کی گئی ہو کر اگر آپ توسیع نہیں لینا چاہتے تو پارلیمنٹ میں آرمی چیف کے عہدے کی مدت 3 سے بڑھا کر 4 سال کر دیتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ آرمی چیف نے آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔ سعودی حکمرانوں نے بھی جنرل راحیل شریف کو ایک فائل دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آپ 35 اسلامی ممالک کی افواج کے سربراہ بن جائیں۔ کیونکہ انہوں نے دہشتگردی کے خلاف زبردست خدمات انجام دی ہیں جس پر دنیا انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے ابھی تک الوداعی ملاقاتیں بھی شروع نہیں کیں۔ 9 کور کمانڈروں سے اب ملنے کا وقت بھی نہیں رہا۔ اگر جنرل راحیل شریف کیلئے کوئی معجزہ نہیں ہوتا تو پھر ملتان کے کور کمانڈر اشفاق ندیم بطور آرمی چیف تعیناتی کیلئے پہلے نمبر پر ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بہاولپور میں ہونے والی فوجی مشقوں میں وزیراعظم کو مدعو کیا گیا تھا تا کہ کور کمانڈر سے ان کا تعارف کروا دیا جائے۔ حالانکہ وزیراعظم کو فوجی مشقیں دکھانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ آرمی چیف کیلئے دوسرا نام قمر باجوہ کا ہے۔ اسلام آباد دھرنے کے وقت لیفٹیننٹ جنرل قمر باجوہ راولپنڈی کے کور کمانڈر تھے اور انہوں نے کور کمانڈر کانفرنس میں کہا تھا کہ فوج سیاسی تماشے کا حصہ نہیں بنے گی۔ جنرل زبیر حیات سنیارٹی میں نمبر ون ہیں لیکن وہ اس لئے آرمی چیف نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے 2 سگے بھائی لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔ ایسے شخص کو آرمی چیف بنانے کی روایت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد 2 سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ سرکاری ملازم پر یہ پابندی ہوتی ہے۔ البتہ اگر جنرل راحیل بارے ریفرنڈم کروا لیں تو اس وقت ان کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے۔ جنرل راحیل شریف اگر گھر چلے جاتے ہیں تو وہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے دہشتگردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کر دیں گے جو ابھی نہیں ہوا۔ دوسرا نیشنل ایکشن پلان پر تاحال مکمل عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ جنرل راحیل شریف دنیا کے سب سے زبردست جرنیل مانے گئے ہیں۔ آصف زرداری نے جنرل راحیل کو دھمکیاں دی تھیں کہ آپ چلے جاﺅ گے ہم نے یہیں رہنا ہے پھر وہ خود بھاگ گئے اب جیسے ہی راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد گھر چلے جائیں گے زرداری صاحب چھم چھم کرتے واپس پاکستان آ جائیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بھارت ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ طلال چودھری اور دانیال عزیز دوبارہ پیدا ہو کر بھی آ جائیں تووہ کام نہیں کر سکتے جو نون لیگ کے میڈیا سیل اور چہیتوں نے عمران خان کے خلاف پروپیگنڈا چلا کر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حامد خان کا یہ کہنا مناسب نہیں کہ وہ میڈیا کی وجہ سے پانامہ کیس کی پیروی نہیں کر سکتے۔ وکیل کو اپنا فوکس صرف عدالت پر رکھنا چاہئے نہ کہ ادھر ادھر دھیان دینے پر حامد خان کو ہٹائے جانے کی بات درست نہیں ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ عمران خان سے معذرت کر چکے ہیں اور انہیں کہا گیا ہے کہ ٹھیک ہے آپ عدالت نہ جائیں لیکن قانونی ٹیم کی سربراہی آپ ہی کریں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ عدالت میں پکوڑے والی بات سن کر میرا دل چاہتا ہے کہ روزنامہ پکوڑا نکالوں۔ اخباری تراشوں پر پہلے بھی سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لئے ہیں۔ روزنامہ خبریں میں ایک عرصہ قبل سندھ میں کاروکاری کی ایک خبر لگی تھی جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے سوموٹو نوٹس لیا تھا اور مجھے شکریہ کا خط بھی لکھا تھا کہ آپ کی خبر بالکل درست ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور ماہر قانون دان حامد خان نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کی مزید پیروی کرنے سے خود معذرت کر لی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ آپ قانونی ٹیم کی سربراہی کریں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں تو کیس لڑ سکتا ہوں لیکن میڈیا کے سامنے نہیں۔ میڈیا نے عدالت کی کارروائی کو اپنے انداز میں تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ بحث مکمل ہونے تک دلائل کے کمزور یا مضبوط ہونے کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج نے غیر ذمہ دارانہ ریمارکس دیئے کہ اخباری تراشے قابل قبول نہیں، اس سے پہلے اخباری تراشوں کو ثبوت کے طور پر قبول کیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اخباری خبر شہادت کا درجہ نہیں رکھتی لیکن جب اس سے متعلقہ مزید معلومات ملیں تو اسے قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے جو اخباری تراشے دیئے وہ ایک میٹریل ہے جس سے شواہد تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جمہوری حکومتوں میں جب ملک کے سربراہان پر الزام لگتا ہے تووہ استعفیٰ دے دیتے ہیں، کمیشن نہیں بناتے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت میں یہ بات آج تک نہیں پہنچی جس کی وجہ سے انکوائری کمیٹیاں اور کمیشن تشکیل دیئے جا رہے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا ہے کہ سیاستدان آرمی چیف کے علاوہ فوج میں بہت کم لوگوں کو جانتے ہیں وہ جس کو ڈیل کر رہے ہوتے ہیں، چاہتے ہیں کہ یہیں چلتا رہے۔ دوسرا آ کر نہ جانے کیا کر دے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر ہر فیصلہ بہت مشاورت سے کیا جاتا ہے۔ سپہ سالار ہوں یا کوئی اور افسر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس کو انتہائی عزت و احترام دیا جاتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain