تازہ تر ین

نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر پرامن انتخاب کویقینی بنائے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شہباز شریف کا قصور تھا یا وہ وقت پر نہ پہنچ سکے۔ پنجاب کے علاوہ پاکستان میں لوگوں نے بڑی لے دے کی ہے کم از کم یہ تو ہونا چاہئے تھا کہ خواہ وہ پوری رات ایئرپورٹ پر رہتے وہ نوازشریف کا خیرمقدم بھی کرتے ان سے بات چیت بھی کرتے۔ اب اس کی تہہ میں جو بھی وجوہات ہوں مجھے ان کا علم نہیں ہے لیکن ایک بات کا ضروری علم ہے کہ لوگوں نے عام طور پر اس بات کو پسند نہیں کیا اور یہ کہا گیا کہ شہباز شریف کی نوازشریف سے ملاقات نہ ہونے کے راستے میں کوئی نہ کوئی، چھوٹی موٹی ہلکی پھلکی سازش کوئی نہ کوئی کمزوری کوئی نہ کوئی ناراضگی یا کوئی نہ کوئی شرارت ضرور موجود تھی۔ پاکستان مسلم لیگ 35 برس سے حکومت میں ہے۔
ضیا شاہد نے کہا پچھلے دو تین روز سے زیر بحث ہے اور عوامی حلقوں میں اس پر بڑی لے دے ہو رہی ہے کہ شہبازشریف کو دس سال تک پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا بعد میں مسلم لیگ ن کا صدر بھی بنا دیا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ ان سے ملنے کے لئے نہیں گئے یا کسی وجہ سے پہنچ نہیں سکے یا دیر سے پہنچے۔ اسی طرح شاہد خاقان بھی ان کے قافلے میں پہنچ نہیں سکے۔ اور سب سے بڑی بات ہے کہ سمجھا جا رہا تھا کہ جتنے بڑے پیمانے پر جلسے ہو رہے تھے۔ اگر کوئی صورتحال ہوتی کہ جو فیصلہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کے خلاف آیا تو ملک میں ایک طوفان مچ جائے گا۔ مگر پورے ملک میں اس قدر خاموشی ہے لگتا ہے اس کا ذرہ برابر بھی نوٹس نہیں لیا۔ قوم کو سمجھ آ گئی ہے کہ نوازشریف کا مسئلہ سیاسی نہیں تھا یہ کیس ذاتی نوعیت کا تھا جس کو نوازشریف اور ان کی فیملی اس کیس میں صفائی پیش نہیں کر پائے اور یہ سیاسی نہیں کرپشن کا کیس تھا اور وہ جو ان کا بیانیہ تھا کہ اقامہ پر مجھے ہٹایا گیا بات اقامہ تک نہیں تھی اور آج لوگ ذہنی طور پر متفق ہو چکے ہیں کہ یہ ایک ایسا کیس ہے کہ وہ صفائی پیش نہیں کر سکیں گے۔ جہاں تک شہباز شریف صاحب کا تعلق ہے ایئرپورٹ پر پہنچنا دور کی بات ہے شہباز شریف صاحب بنیادی طور پر نوازشریف کی حکمت عملی سے اختلاف کر رہے ہیں وہ پہلے دن سے کہہ رہے ہیں جو جارحانہ پالیسی اپنائی گئی ہے میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ وہ پارٹی کے سربراہ رہے بڑے بھائی ادب میں وہ حکم مانتے ہیں مگر ذہنی اور دلی طور پر وہ ان کے بیانیہ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کا ذہن نوازشریف سے نہیں ملتا۔ مسلم لیگ کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو نوازشریف سے ذہنی طور پر مطابقت نہیں رکھتا اس کا عملی مظاہرہ آپ نے 13 تاریخ کو دیکھ لیا۔ نوازشریف اڈیالہ چلے گئے لیکن ملک میں زیربحث نہیں۔ اس وقت ان کا اڈیالہ منتقل ہونا زیر بحث نہیں ہے پورے ملک میں ان کی پارٹی مسلم لیگ ن اپنے الیکشن میں لگی ہے ان کی توجہ اڈیالہ پر نہیں اپنے الیکشن پر ہے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایک بڑی بحث پاکستان میں چل نکلی ہے کہ جو دو بڑے حادثات جو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے ہیں ان کی روشنی میں کہا جا رہا ہے کہ شاید اس قسم کے دو چار اور واقعات ہو گئے تو شاید خدانخواستہ الیکشن کا انعقاد بھی عمل میں نہ آ سکے۔ کس طرح سے موجودہ نگران حکومت اس صورت حال کو کس طرح اس پر قابو پا سکتی ہے اگر خدانخواستہ اس قسم کے دوچار واقعات اللہ نہ کرے اور ہو گئے تو الیکشن ہیں نہیں ہو سکیں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جو واقعات ہوئے وہ بڑے کرب ناک اور افسوسناک ہیں مجھے بلور صاحب، رئیسانی سب کے خاندان سے اور مجھے ہر اس خاندان سے جن کے بچے شہید ہوئے ہیں، متاثر ہوئے زخمی ہوئے ان سے پوری ہمدردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں۔ ایک طبقہ ہے جو پاکستان میں عدم استحکام چاہتا ہے۔ کچھ بیرونی قوتیں ہیں جو نہیں چاہتیں یہ ملک مستحکم ہو، اس کی معیشت مضبوط ہو اور پاکستان آگے بڑھے اور ہمارے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی معصومیت میں ان کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ اور ان کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ جمہوریت کی بساط لپٹ گئی تو ہمیں ایک ایشو مل جائے گا کہ یہ سب کچھ ہمیں ہٹانے کے لئے کہا گیا ہے۔ یہ بیانیہ بلٹ کیا جا رہا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ الیکشن بروقت ہونے چاہئے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، الیکشن کمیشن ہے سب کو مل کر کوشش کرنا ہو گی کہ شفاف اور پرامن الیکشن کا انعقاد ہو سکے۔ یہ ملک اور جمہوریت کے مفاد میں ہے اس سے ہم کوتاہی برت نہیں سکتے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ اس مرحلے پر الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی ایسا اجلاس آل پارٹیز کانفرنس اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اس پر اس قسم کے حالات پر قابو پانے کے لئے اور عوام کو اطمینان دلانے کے لئے سبھی پارٹیاں الیکشن کمیشن کی نگرانی میں مل بیٹھیں اور اس قسم کے معاملات پر قابو پانے کے لئے کوئی کوشش کریں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت ساری پارٹیاں الیکشن میں اتنی مصروف ہیں ان کا اتنا ٹائٹ شیڈول ہے کہ اس وقت نکلنا اور الیکشن کمیشن کے ساتھ بیٹھنا شاید مشکل ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی بات میں وزن ہے لیکن میں نے بھی کچھ کہا تھا اس میں بھی ایک سنجیدہ بات ہے دیکھئے اس وقت ملک میں دو طاقتیں برسراقتدار ہیں ایک طاقت ہے نگرانن حکومت ہے دوسری طرف الیکشن کمشن ہے جس کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ پرامن اور شفاف طریقے سے کام انجام دے، اگر اس مرحلے پر ملک کر نہیں بیٹھنا تو کس مرحلے پر مل کر بیٹھنا ہے۔ شہباز شریف کے خط کے بارے کہ نوازشریف کو سہولتیں مل سکتی ہیں یا نہیں اس کا جواب تو کوئی قانون دان ہیں۔ ماضی میں ایسی بہت سے واقعات ہوئے ہیں جس میں ملک کے صدر، وزیراعظم، گورنر گرفتار ہوئے ہیں اگر تو اس قسم کے واقعات یا مثالیں موجود ہیں اور اس میں وہ ساری سہولتیں دی گئی تھیں۔ اگر تو اب تک ہمارے سابق سربراہان حکومت جیلوں میں رہے ہیں بھٹو جو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں تھے تو میں اس وقت جیل میں نہیں تھا کیونکہ ہم تو باہر تھے لیکن بات صحیح ہے جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب وہاں سے پنڈی جیل منتقل ہوئے تو ہم بھی گرفتار ہوئے اور پھر اتفاق سے میں خود ایئرمارشل اصغرخان، مجیب الرحمن شامی، صاحب، الطاف حسین قریشی، راجہ منور، میاں محمود علی قصوری، اسی احاطہ میں گرفتار تھے۔آج کل بھی اسی قسم کے حالات ہیں۔ نوازشریف 3 مرتبہ وزیراعظم، 2 مرتبہ وزیراعلیٰ رہے۔ جیلوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح آپ کے معمولات زندگی ہیں اس کے مطابق سہولیات بہم پہنچائی جاتی ہے۔ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ 25 جولائی تک کسی قسم کی زیادتی کسی ایسے شخص سے نہیں ہونی چاہئے جو الیکشن میں حصہ لے رہا ہے۔ نوازشریف، مریم نواز الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں وہ قادی ہیں جب تک عدالت جرم ختم کر دے آخری عدالت کی روشنی میں انہیں مجرم قرار دیا گیا ہے اور ان کو سزا یا مشقت سنائی گئی ہے۔
پروگرام میں سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، ماہر قانون دان کامران مرتضیٰ نے ٹیلی فونک شرکت کی۔ ضیا شاہد نے ان سے سوال کیا کہ ہمیں راہنمائی فرمائیں کہ جناب نوازشریف صاحب اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کو چونکہ آخری عدالت سزا دے چکی ہے۔ اس لئے ہم ان کو حوالاتی تو نہیں کہہ سکتے۔ اب تو ان کو سزا ہو چکی ہے اور سزا بھی بامشقت سزا ہے۔ کیا اس سلسلے میں آپ کے خیال میں آج ہمارے محترم جناب شہباز شریف صاحب نے جو درخواست دی ہے کہ ان کو ان کی سوشل پوزیشن کے مطابق سہولتیں جیل میں دی جائیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ ہم نے بھی پرانے دور کے جیل مینول بڑے پڑھے ہیں اور مجھے تو دس، بارہ، چودہ دفعہ جعیلوں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا اور بڑے رٹے لگائے ہم نے اس کے کیا جیل مینول کے لحاظ سے ایک ایسے شخص کو جو خواہ کتنی بھی بڑی پوزیشن میں کیوں نہ رہا ہو۔ جب تک اگلی عدالت ان کی سزا کو ختم نہ کر دے تو کیا ان کی با مشقت سزا موجود رہے گی اور کیا ان کو ایئرکنڈیشنر اور دیگر سہولتیں مل سکتی ہیں۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جب کوئی سزا بھگت رہا ہو تو اس میں تین اقسام آ جاتی ہیں۔ تعلیم کے لحاظ سے گریجوایٹس کو بی کلاس مل جاتی ہے۔ کسی نے ایم بی اے کیا ہو یا اس کے مسافی تعلیم ہو تو درخواست کے بعد اس کو بی کلاس دی جاتی ہے۔ اے کلاس ان لوگوں کے لئے جنہوں نے کوئی پبلک آفس چلایا ہو مل جاتی ہے جو جیل مینوئل میں درج ہے۔ میاں نوازشریف کی اے کلاس ہی بنتی ہے۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ کیا نوازشریف کو بہترین اے کلاس سہولتیں ملنی چاہئیں یا نہیں ملنی چاہئیں۔ جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سہولتیں ملنی چاہئیں یا نہیں ملنی چاہئیں یہ بات میں نہیں کرتا۔ میں وکیل ہوں اور لیگل سوال کا لیگل جواب دوں گا۔ اے کلاس ایسے لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے کوئی پبلک آفس ہولڈ کیا ہو۔ضیا شاہد نے کہا کہ بات میں وزن ہے مگر فرص کیا جائے کہ ایک جگہ پر ایک سہولت دی جائے تو اس سے پہلے قیدیوں کو وہ سہولتیں کیوں حاصل نہیں تھیں۔ ہمیں ایک سٹینڈرڈ بنانا چاہئے جو سب کے لئے ہو اور کسی کو بھی اس سے محروم نہ کیا جائے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ فلاں بندہ بہت طرم خان تھا، اس کا شملہ بہت بڑا تھا۔ اس لئے بھی شملے کو ذرا نیچے کر کے تو وہ چھت پر سے گزر نہیں سکتا۔ اس لئے یہ چھت اونچی کی جائے یا وہ سملہ ہاتھ میں پکڑ کے گزر جائے۔
پروگرام میں ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے ڈالر کی قیمتیں بڑھنے سے ملکی قرضوں میں اضافے اور پاکستانی معیشت پر اثرات کے حوالے سے کہا کہ ہماری نگران حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہر صورت اگلی حکومت نے پاکستان کی جانب سے قرضے کی درخواست دینی ہے۔ اس کے لئے ان کی تین شرائط ہونی ہیں۔ ایک شرط کہ روپے کی قدر گرائیں، دوسری شرح سود بڑھائیں اور تیسری پٹرول اور بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں۔ وہ یہ تینوں چیزیں پوری کر رہے ہیں۔ مگر زیادہ تکلیف دہ بات ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت جب نگران حکومت آئی اس وقت اگر کوئی ایک لاکھ ڈالر باہر سے لاتا اس کو ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے ملتے تھے۔ اب جو لے کر آئے گا اس کو ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ملیں گے۔ یعنی جو ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت چوری کا پیسہ واپس لائے گا اس کو ڈھائی لاکھ ٹیکس دینا ہوتا تھا اب نگران حکومت نے اس دوران 13 لاکھ اضافہ کر دیا ہے۔ جو پیسہ چوری کرنے والے کو زیادہ ملیں گے۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ڈالر کا ریٹ 115 سے 128 ہو گیا۔ جس کے باعث ہر ایک لاکھ ڈالر باہر سے لانے پر 13 لاکھ زیادہ ادا کرنے پڑیں گے اور ڈھائی لاکھ وہ ٹیکس ادا کرے گا۔ ہمارے قرضے تقریباً سو ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں۔ نگران حکومت نے 11 سو ارب روپے قرضوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اور پاکستان کا 60 ملین ڈالرز کی ایکسپورٹ میں ڈیوٹی ملا کر بارہ سو ارب سالانہ اضافہ ہو جائے گا۔ جس سے صنعتوں کی لاگت بڑھے گی۔ مہنگائی اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کے ساتھ بے روزگاری بڑھے گی اور معیشت کی سطح سست ہونے سے بجٹ خسارہ بڑھے گا۔ فائدہ اس لئے نہیں ہو گا کہ اس کے ساتھ ہونے والی اصلاحات نہ گزشتہ حکومت نے کی اور نہ آنے والی حکومت کرے گی۔ 2019ءپاکستان کے لئے مشکل سال آ گیا ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain