All posts by Daily Khabrain

آزادی ئ صحافت مگر ذمہ داری کے ساتھ

انجینئر افتخار چودھری
خبر کی صداقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر کوئی فاسق آپ کے پاس خبر لے کر آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کرو۔یہ سورہ حجرات کی آیت کریمہ ہے۔ اس موضوع پر بات کرنا اشد ضروری ہے کہ آج ڈی چوک میں صحافی آ کر بیٹھ گئے ہیں وہ کسی مجوزہ بل کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں وہ بل جو ابھی آیا ہی نہیں اس پر بلبلا اٹھنا عجب تماشہ ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل پاس ہو کر قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو آزادی ء صحافت پر کاری ضرب لگے گی اور بھاری جرمانے کے علاوہ قید کی سزا بھی سنائی جائے گی۔ویسے مجھے حیرانگی اس بات کی ہے کہ جھوٹ الزام تراشی کسی کی کردار کشی کے متعدد قوانین بنے ہوئے ہیں یہ لوگ ایسے شور مچا رہے ہیں جیسے ملک خدادداد میں قوانین کی پابندی ہو رہی ہے۔یہاں پورا ملک کھا کے لندن جا بیٹھے ہیں اور ڈکار بھی نہیں مارتے ویسے مظہر شاہ بھی گوالمنڈی کے تھے پنجابی فلموں کے نامور ولن۔
آزادی ء صحافت کی بڑی تنظیم جس کا تعلق منہاج برنا سے ہے ان کے نائب صدر افتخار مشوانی کا کہنا ہے اس قسم کا کوئی بل اگر آ بھی جائے اور وہ قانون بھی بن جائے تو سپریم کورٹ ایسی کسی بھی سزا کو معطل کر سکتی ہے۔
دیکھئے اگر اللہ تعالیٰ نے کتاب مقدس میں واضح احکامات دئے ہیں توہمیں اسی سے روشنی لینی چاہئے۔لگتاایسا ہے کہ ہم نے نام تو اسلام کا لینا ہے لیکن کام اسلامی نہیں کرنا۔آزادی اظہاررائے ذمہ داری کے ساتھ وقت کا تقاضہ ہے۔حیرانگی اس بات کی ہوتی ہے کہ سارے سیاست دان موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان بلاول صاحب کوہی دیکھ لیجئے ان کے دور میں سندھ میں کیا ہو رہا ہے ان کی وہ بات تو آپ نے سن رکھی ہو گی کہ کس کی جرأت ہے مجھ سے کوئی سوال کر سکے۔ اس صحافی کی لاش کو تو ہم نے دیکھا ہے جس بے چارے نے یہ خبر بریک کی تھی کہ بلاول جب ٹرین مارچ پر نکلے تو ان کے حواریوں نے کرائے پر لائے گئے لوگوں کو طے شدہ رقوم نہیں دیں۔میں حیران ہوں یہ بھی ڈی چوک میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کے ساتھ گلے لگ کر آزادی ء صحافت کا رونا رو رہے ہیں۔ن لیگ کے دور میں سب سے زیادہ صحافی قتل ہوئے۔یہ پارٹی تو میڈیا پر خرچہ کرنا جانتی ہے۔کہتے ہیں پاکستان میں لفافہ سیاست کی بنیاد ہی نواز شریف نے رکھی ہے۔
آپ صحافیوں کے سفر کی داستانیں سن لیں یہ سب وہ ہیں جو نواز شریف دور میں مزے کرتے تھے۔لیکن میری اپنی مرضی اور خواہش ہے کہ ہم اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔ ہمیں بھی علم ہے کہ دھرنوں سے حکومتیں نہیں بدلتیں اگر بدلتیں تو ہم نے جو دھرنہ ۲۰۱۴ میں دیا تھا کم از کم ۲۰۱۵ میں تو حکومت بدل جانی چاہئے تھی لیکن حکومت بدلی تو ۲۰۱۸ میں۔ لہٰذا مریم بی بی یا بلاول بھٹواور مولانافضل الرحمن اگر اپنی خواہشات کی تکمیل ہمارے صحافی بھائیوں کے ذریعے کرانا چاہتے تو یہ ان کی بھول ہے۔
پاکستان تحریک انصاف صحافی بھائیوں کی قدر کرتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے جب ان مطالبات کے پیچھے وہ لوگ نظر آتے ہیں جنہوں نے حکومت کے خاتمے کے لئے پہلے دن سے ہی تحریک چلا رکھی ہے۔میرے صحافی دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ میں نے ہمیشہ آزادی صحافت کے لئے جدوجہد کی ہے۔ افضل بٹ سے پوچھ لیں میں مشرف دور میں جناب احمد فراز کو بھی ان مظاہروں میں لے کر گیا۔ میں نے کالی پٹیاں بینر پوسٹر اپنے گھر میں تیار کئے اس لئے کہ میں ایک ڈکٹیٹر اور جابر کی وجہ سے ۷۱ دن جدہ جیل میں رہا میں نے جدہ میں مقیم پاکستانیوں کے حق میں آواز اٹھائی تھی جس کا جرمانہ والدہ کی موت دیکھنے کی صورت میں ملا۔اپنے دکھ اور اپنی کہانی سنانا اچھا لگتا ہے لیکن کسی کی سننا مشکل ہوتا ہے جنرل اسد درانی ان دنوں سعودی عرب میں سفیر تھے۔ یہ ۲۰۰۲ کا زمانہ تھا اس وقت مشرف کا طوطی بولتا تھا لہٰذہ مجھ سے بڑھ کر صحافی کے دکھ کو کوئی نہیں سمجھ سکتا میں ”خبریں“ کا بیورو چیف تھا میں نے جدہ کی ڈائری میں ان نون لیگیوں اور غیر نون لیگیوں کی گرفتاری پر لکھا تھا جن میں کچھ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور جو ہیں اللہ سلامت رکھے۔پھر ہوا کیا کہ مجھے ہی دھر لیا لہٰذا میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ مجوزہ بل کے بارے میں گزشتہ رات میرے پروگرام میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر نبیل چوہدری نے کھلے لفظوں میں کہا کہ ابھی کوئی بل آیا ہی نہیں اور نہ اس قسم کی باتیں ہوئی ہیں ان کا کہنا تھا کہ میڈم شیریں مزاری جو انسانی حقوق کی وزارت چلا رہی ہیں انہوں نے بھی انکار کیا ہے۔آپ کو علم ہے محترمہ دبنگ خاتون ہیں بغیر لگی لپٹی بات کرنا ان کا خاصہ ہے۔
پاکستان واحد ایسا ملک ہے جہاں صحافت کو بھی مادر پدر آزادی ملی ہوئی ہے۔عمران خان اور بلاول کا گو کوئی تقابل نہیں بنتا لیکن دیکھ لیجئے ایک صحافی عمران خان کو کہہ رہا ہے مجھے بتائیں میں آپ کا گلہ پکڑوں یا کسی فوجی کا تو اس قدر جرائت بلاول کے سندھ میں کسی کو حاصل ہے۔ادھر اس صحافی کو قتل کر دیا جاتا ہے ادھر اسے برداشت کیا جاتا ہے میاں نواز شریف تو کسی صحافی کو سوال دیکھے بغیر انٹرویو نہیں دیتے تھے جو شخص پرچیاں پڑھ کر بات کرتا ہوں اس نے ان بے باک لوگوں کا کیسے سامنا کرنا تھا۔
میرے اس کالم کا لب لباب بھی یہی ہے کہ کہ فیک خبر کو لگام دینا ہو گی مجھے یہ بتائیں ہم نے کل ہی دیکھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کی موت کی خبر سوشل میڈیا پر آ گئی آپ سب باتوں کو چھوڑیں ہم محسن کش لوگ ہیں لیکن یہ بتائیے ان کی فیملی پر کیا گزری ہو گی۔سید علی گیلانی کو ہم نے مار دیا۔ڈاکٹر نبی نے بتایا کہ ٹویٹر پر سید علی گیلانی کا ایک اکاؤنٹ تھا وہ ان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہا موت کے تیسرے دن اسی اکاؤنٹ سے مودی کی مذمت جاری ہو رہی تھی انہیں یاد دلایا گیا کہ سر آپ مر چکے ہیں اور اس کے بعد اب وہ مسلمان سے سکھ نجوت سنگھ سدھو بن گئے ہیں۔
کیا صحافتی تنظیمیں ان جھوٹوں کے بارے میں کچھ کہیں گی۔
ہم کب کہتے ہیں کہ صحافی زندہ نہیں ہے لیکن صحافی کو اگر زندہ رہنا ہے تو خدا کے لئے ریاست کو بھی زندہ رہنے دے اس ملک خداداد کو زندہ رہنے دے جس کے لئے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں۔ ضیا شاہد کو اللہ جنت بخشے ان کو پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ آزادی کیسے ملی۔
ڈی چوک آپ کا ہے پورا ملک آپ کا ہے آپ جہاں چاہیں بیٹھیں مطالبہ کریں آپ اللہ کے کرم سے زندہ بیٹھے ہیں زندہ اٹھیں گے یہ سندھ نہیں اسلام آباد ہے یہاں صحافی وزیر اعظم کو گلے سے پکڑیں یہاں کوئی حرکت میں نہیں آئے گا
جیتے رہیں لیکن ایک بات یاد رکھیں جھوٹ مکر اور فریب کا ساتھ نہ دیں آج ایک بڑے دین دار صحافی نے،،اگر،،کی بنیاد پر پورا کالم لکھ ڈالا اور لکھا کہ اسلام قبول کرنے پر پابندی لگ رہی ہے تو دل میں سوچا یہ پاپی پیٹ کس قدر گھٹیا ہے کہ اس بندے پر الزام دھر رہا ہے جس نے خود گوروں کو مسلمان کیا ہے دراصل یہ لوگ ریاست مدینہ نہیں بلکہ ایسا ملک چاہتے ہیں جہاں پلاٹ حج نوکریاں سفر عیاشیاں مفت ہوں اور سن لیں عمران خان میرے شیر لیڈر نے کیا خوب کہا تھا ”چھوڑوں گا نہیں رلاؤں گا،،
ہاں میں لڑائی جھگڑے کے سخت خلاف ہوں۔فواد چوہدری جیسا زیرک شخص اور وزیر جس کی گفتار سے مخالفین کی صفوں میں کھل بھلی مچ جاتی ہے انہیں چاہئے ان سے مکالمہ کرے اور ان سے کہے کہ آزادی ء صحافت ضرور ہو گی مگر ذمہ داری کے ساتھ۔
(کالم نگار پاکستان تحریک انصاف کے سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ اور ایجوکیشن ہیں)
٭……٭……٭

حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے

کنور محمد دلشاد
حکومتی وزرا کے سنگین الزامات کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیااور آئینی ماہرین سے آرٹیکل 204،163 (1) جی اور الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 10کی روشنی میں اہم فیصلے کی توقع کی جارہی ہے۔ جس میں گذشتہ روز ایوانِ صدر میں ہونے والی میٹنگ کے دوران الیکشن کمیشن کے سینئرز حکام کے ساتھ بعض وزرا کے ناپسندیدہ ریمارکس کے بارے میں غوروخوض کیے جانے کی امید کی جارہی ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اہم اجلاس میں سینیٹر تاج حیدر چیئرمین قائمہ کمیٹی کی خصوصی دعوت پر مَیں نے بھی سا ت ستمبرکو چالیس منٹ کی بریفنگ دی تھی اور ان ہی نکات پر بات کی تھی جو اعتراضات الیکشن کمیشن نے بعدازاں لگائے ہیں۔میری بریفنگ پر حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر جو نکات اٹھائے تھے،اس کی تائید کی تھی۔میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ انڈیا کو 25سال کا عرصہ لگا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے پائلٹ تجربات کرتے ہوئے۔لہٰذا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے،اس کے ازالہ کے لیے اہم پیش رفت کی جانی چاہیے۔
وزیراعظم کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے بارے میں تکنیکی طورپر بریف نہیں کیا جارہا، حالانکہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں،ان کا بھی یہی مشورہ تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے شفاف الیکشن ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ فول پروف نہیں ہے اور الیکشن کمیشن اتنا بڑا انتخابی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔الیکشن کمیشن نے پارلیمانی روایات کے مطابق مجوزہ انتخابی ترامیم پر 34نکات پر مشتمل تحفظات سے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین تاج حیدر کو خط کے ذریعے آگاہ کیا۔ الیکشن کمیشن کا یہ آئینی و قانونی فیصلہ 34نکات پر محیط تھا۔اس خط کو آئین کے آرٹیکل 218اور 219کی روشنی میں ملاحظہ کرنا چاہیے تھا اور خط کے متن کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو سپریم کورٹ نے رازداری،شفافیت اور غیر جانبدارانہ طریقہ کار پر جو ماضی میں ریکارکس دیئے تھے،اسی کے پس منظر میں الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کو آگاہ کردیا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر عجلت میں کیے گئے فیصلے سے ملک میں انتخابی ووٹنگ تباہ کن ہوگی۔الیکٹرانک ووٹنگ منصوبے پر عمل درآمد ہمیشہ پیچیدہ،مشینوں کا استعمال قابل عمل نہیں،عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے جلد نتائج کا امکان نہیں،انتخابی فراڈ روکنا مشکل ہوگا۔دنیا کے بہترین جمہوری ممالک بھی انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں کرتے۔اس میں زور آزمائی کے ذریعے ووٹ کے اندراج اور ووٹ کی خریداری کا امکان ہوتا ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کرتے ہوئے اس میں ایسی خفیہ چِپ لگائی جاسکتی ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کارآمد ہو۔
حکومتی ارکان کو الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگانے کے بجائے الیکشن کمیشن کی جانب سے 34اعتراضات پر مبنی خط کے متن پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کردینی چاہیے تھی جو باریک بینی سے تمام خدشات پر غور و فکر کرنے کے بعد اپنی رائے پیش کرتی۔ترقی یافتہ ممالک جن میں جرمنی،نیدرلینڈ اور یورپی ممالک شامل ہیں،انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کرکے پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی الیکشن کرانے کو ترجیح دی ہے۔مَیں اس سلسلہ میں ذاتی تجربہ پیش کررہا ہوں کیونکہ 2008کے امریکی صدارتی انتخابات میں مجھے اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی محمد فاروق کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے مدعوکیا تھا۔ہم نے جب4نومبر 2008کو واشنگٹن میں بعض پولنگ سٹیشنوں کا معائنہ کیا تو ہمیں حیرانی ہوئی کہ ووٹرز کی اکثریت مینول طریقے سے ووٹر بیلٹ فارم حاصل کرکے ووٹ بیلٹ باکس میں ڈال رہے تھے اور بیلٹ پیپرز کے حصول کا وہی طریقہ دیکھنے میں آیا جو ہمارے ملک میں رائج ہے۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی میں محمد فاروق نے ایک خاتون ووٹر سے دریافت کیا کہ وہ بیلٹ پیپر بیلٹ بکس میں ڈالنے کی بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو استعمال کیوں نہیں کررہیں جو پولنگ اسٹیشن پر موجود تھیں،تو خاتون ووٹرز نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ سسٹم فراڈ ہے اور فلوریڈا میں گذشتہ صدارتی انتخاب میں اس کے فراڈ کوقوم دیکھ چکی ہے۔ہمارے تجسس کو نیپال کے چیف الیکشن کمشنر اور انڈیا،انڈونیشیا،افغانستان کے الیکشن حکام نے بھی محسوس کیا اور افغانستان کے چیف الیکشن کمشنر نے بھی اس کا بغور جائزہ لیا اور انڈین الیکشن کمشنر کو بھی بڑی حیرت ہوئی۔اسی دورے کے دوران انٹرنیشنل فار الیکٹورل سسٹم کے صدر جس کا تقر رامریکی صدور خود کرتے ہیں،ان سے بھی اس سسٹم کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔انہوں نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ہیرا پھیری کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔اسی دورے کے دوران ہماری یو ایس ایڈ کے چیف ایڈمنسٹریٹر سے بھی پاکستان کے انتخابی نظام کے بارے میں بات چیت ہوئی،اُنہو ں نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں مقیم امریکی سفیر ایچی پیٹرسن پاکستان کے حالیہ انتخابات سے مطمئن ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان،ملک میں شفاف الیکشن کرانے کے داعی ہیں تو انہیں زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا،امریکا میں جو طریقہ کار ہے،اس کی رپورٹ ہمارے پاس موجود ہے،اس کے علاوہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے متبادل طریقہ کار کی بھی رپورٹ موجود ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے بعض ساتھی آنے والے انتخابات سے قبل انتخابات کومتنازع بنارہے ہیں،یہ تاثرات پھیلائے جارہے ہیں کہ حکومت ملک کو سنگین انتخابی بحران کی طرف لے جارہی ہے۔وزیرِ اعظم کو ان کی آئینی ماہرین نے بریف نہیں کیا کہ انتخابی قوانین میں ترامیم سے الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے بارے میں الیکشن کمیشن اپنے انتظامی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ازخود روڈ میپ تیار کرے گا اور ٹیکنالوجی کا انتخاب اور الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کی قسم کے تعین کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو مل جائے گا،جس کے لیے الیکشن کمیشن کو وسیع اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ ترامیم کے ذریعے سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق اس ملک میں ہی وہیں دے جہاں وہ رہائش پذیر ہے،جس کے لیے نادرا یا کسی ادارے یا ایجنسی کی معاونت آئین کے آرٹیکل 220کے تحت حاصل کرسکتا ہے۔الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے مدت کا تعین نہیں کیا گیا،الیکشن کمیشن مرحلہ وار یا تجرباتی طورپر اس کو آگے بڑھانے کے لیے ٹائم فریم مقررکرنے کا مجاز ہوگا۔اور ملک انتخابی بحران سے بھی نکل جائے گا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭

آٹھ ممالک کے انٹیلی جنس چیفس کا غیرمعمولی اجلاس

ملک منظور احمد
افغانستان کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے،افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں سٹریٹیجک تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد طالبان کی حکومت تو وجود میں آچکی ہے لیکن یہ حکومت چلنے کے قابل ہے یا نہیں یہ بات دیکھنے کی ہے،امریکہ نے افغان ا سٹیٹ بینک کے تمام اثاثے جو کہ 9.5ارب امریکی ڈالر کے تھے منجمند کر دیے ہیں اور اس کے ساتھ ہی افغانستان کے اندر معاشی صورتحال دگر گوں ہو چکی ہے،افغان بینکوں کے آگے لمبی قطاریں لگی ہیں اور اطلا عات ہیں کہ افغان عوام اپنی راتیں بھی بینکوں کے آگے ہی گزار رہے ہیں،بینکوں میں اول تو پیسے ہیں ہی نہیں اور اگر کسی بینک میں موجود ہیں تو نہایت ہی کم مالیت کا کیش نکلوانے کی اجازت ہے اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان اس وقت ایک معاشی آتش فشاں کے دہانے پر موجود ہے تو غلط نہیں ہو گا۔
اس صورتحال میں پاکستان سمیت دیگر چند ممالک نے عالمی برادری اور مغربی دنیا سے اپیل کی ہے کہ ایسے حالات میں افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے کیونکہ اگر افغان عوام کو تنہا چھوڑا گیا تو پورا خطہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے لیکن محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ مغربی دنیا مستقبل قریب میں افغانستان کی مدد کرنے یا ان پر سے مالی پا بندیاں ہٹانے پر تیار نہیں ہوگی،اور ایسے حالات میں کسی بھی ملک میں انارکی پھیل سکتی ہے اور انارکی کی صورتحال میں انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لیتی ہے اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے،چاہے ہم شام کی مثال لیں یا پھر لیبیا کی یا عراق کو ہی دیکھ لیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ جب تک ان ممالک میں مستحکم حکومتیں کام کرر ہیں تھیں تب تک ان ممالک میں دہشت گرد اور انتہا پسند قابو میں تھے لیکن جیسے ہی بیرونی قوتوں کی جانب سے ان ممالک کی حکومتوں کو سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم کیا گیا،یہ ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی کا گڑھ بن گئے۔اور اسی خطرے کے باعث اس خطے کے ممالک کا کرداد نہایت ہی اہم ہو جاتا ہے۔
چین،روس پاکستان اور ایران کسی صورت اس چیز کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں کہ ایک بار پھر افغان سر زمین سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ان ممالک کو متاثر کرے اور مسائل کا باعث بنے۔اور شاید اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی میزبانی میں خطے کے آٹھ ممالک کے انٹیلیجنس سربراہان کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا،اور اس اجلاس میں افغانستان میں استحکام اور سیکورٹی کی صورتحال پر غور کیا گیا۔اس اجلاس کے انعقاد کے کئی اہم پہلوہیں سب سے اہم پہلوں پاکستان کے لیے تو یہ ہے کہ یہ اجلاس پاکستان میں منعقد کیا گیا،اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ نہ صرف خطے کے تمام اہم ممالک نہ صرف افغانستان کے مسئلہ پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کے معترف بھی ہیں۔اس اجلاس کے پاکستان میں انعقاد سے ایک بات اور بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بہترین کوششیں کی ہیں اور کررہی ہے اور ملٹری ڈپلومیسی کا استعمال بہترین طریقے سے کیا جا رہا ہے۔
ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جس نے چند سال قبل پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کا اعلان کیا تھا یہ پیشرفت اس کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں ہے۔جس نے پاکستان کو پوری دنیا کا مرکز نگاہ ثابت کیا ہے ایک کے بعد ایک یورپی ممالک کے وزرا ء خارجہ یا تو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں یا پھر فون پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ان کے رابطے ہورہے ہیں۔پاکستان کی اس خطے میں اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور دنیا نے پاکستان کی اس اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ بہر حال خطے کے تمام اہم ممالک جن میں چین،روس ایران،تاجکستان،ازبکستان اور قازقستان شامل ہیں ان کے سربراہوں کے اجلاس میں یقینا افغانستان کی سیکورٹی کی صورتحال کے ساتھ ساتھ معاشی اور داخلی سیاسی صورتحال بھی زیر غور آئی ہوگی ااگر خطے کے تمام اہم ممالک نے افغانستان کی مدد کا فیصلہ کر لیا تو کوئی وجہ نہیں کہ نئی افغان حکومت چل نہ سکے اور ایک دفعہ افغان حکومت چل پڑی تو ما ہرین کی رائے کے مطابق امریکہ اور مغرب کو بھی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات رکھنے پڑیں گے۔ بلکہ شاید اچھی سطح پر تعلقات رکھے پڑیں۔
خطے کے تمام ممالک کا اس بات پر اتفاق کرنا کہ افغان سر زمین کسی صورت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے معنی خیز بیان ہے اور اس کامطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ خطے کے ممالک بھارت کو یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ افغان سرزمین کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا بند کرو۔گزشتہ ہفتے کے دوران جنرل فیض حمید کے دورہ کابل کے بعد بھارتی میڈیا پر مچنے والا واویلا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ بھارت کے مفادات افغانستان میں کس حد تک مجروح ہو گئے ہیں اور بھارت اپنی خفت مٹانے کے لیے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
بہر حال پاکستان کو یہ یقین حاصل کرنا ہو گا کہ افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہ کی جائے۔یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکی سی آئی اے کے ڈائر یکٹر ولیم برنز نے پاکستان کا دورہ کیا اور باوثوق ذرائع کے مطابق جہاں پر انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعاون کی صورت میں پاکستان کو مراعات دینے کا اشارہ دیا وہیں پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کی دھمکی بھی دی گئی،اس اجلاس کے ذریعے امریکہ کو بھی واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان سے رخ موڑتا ہے تو پاکستان کے پاس اپنے معاملات چلانے کے لیے دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔خطے کے ممالک کے لیے افغانستان کی موجودہ صورتحال ایک طرح کا امتحان ہے لہٰذا خطے کے ممالک کو چاہیے کہ افغان عوام کو اس صورتحال میں تنہا نہ چھوڑا جائے اسی میں پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے مفادات پنہاں ہیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

کوہلی نے ورلڈ کپ کے بعد ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی چھوڑنےکا اعلان کردیا

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ  کے بعد مختصر فارمیٹ کی کپتانی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں ویرات کوہلی کا کہنا تھا کہ میں انتہائی خوش قسمت رہا ہوں کہ میں نے ناصرف بھارت کی نمائندگی کی ہے بلکہ میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق بھارتی کرکٹ ٹیم کی قیادت بھی کرتا ہوں۔

کوہلی کا کہنا تھا کہ میں ان تمام افراد کا مشکور ہوں جنہوں نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے میرا ساتھ دیا۔ میں ساتھی کھلاڑیوں ، سپورٹنگ اسٹاف، سلیکشن کمیٹی اور کوچ سمیت ہر وہ بھارتی شہری جس نے ہماری ٹیم کے لیے دعا کی ،کا شکر گزار ہوں، ان کی مدد اور سپورٹ کے بغیر میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

بھارتی کپتان کا کہنا تھا کہ کام کے بوجھ کو سمجھنا بہت اہم  ہے ۔ گذشتہ8 سے 9 سالوں میں تینوں فارمیٹ کھلیتے ہوئے اور 5 ،6 سالوں سے مسلسل کپتانی کرتے ہوئے بہت زیادہ ‘ورک لوڈ’ کو محسوس کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ  مجھے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں بھارتی ٹیم کی قیادت بہتر طریقے سے کرنے کے لیے خود کو آرام دینے کی ضرورت ہے۔

ویرات کوہلی کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی کے کپتان کی حیثیت سے میں نے ٹیم کے لیے ہرممکن کوشش کی ہے اور آئندہ بھی میں ٹی ٹوئنٹی میں ایک بیٹسمین کی حیثیت سے  اپنی کوشش جاری رکھوں گا۔

بھارتی کپتان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے تک پہنچنے میں مجھے کافی وقت لگا ، اپنے قریبی لوگوں، کوچ روی بھائی اور روہت کے ساتھ کافی غوروفکر اور بات چیت کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اکتوبر میں دبئی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد ٹی 20 کی کپتانی سے مستعفی ہوجاؤں گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ(بی سی سی آئی) کے صدر ساروو گنگولی اور سیکرٹری جے شاہ سمیت سلیکٹرز کو بھی اعتماد میں لیا ہے، میں اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ بھارتی کرکٹ ٹیم کی خدمت جاری رکھوں گا۔

یو اے ای کا پاکستانی ائیرپورٹس پر موجود لیبارٹریوں کے معیار پر تحفظات کا اظہار

وفاقی وزارت صحت نے تمام ملکی انٹرنیشنل ائیرپورٹس پر لیبارٹریوں کے فوری معائنےکا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی حکام کا کہنا ہےکہ ائیرپورٹس پرکام کرنے والی اکثر لیبارٹریوں کا عملہ غیر تربیت یافتہ ہے۔

خیال رہے کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق گزشتہ ماہ پاکستان سے 75 ہزار مسافر متحدہ عرب امارات گئے تھے، جن میں سے 684 افراد میں کورونا وائرس پایا گیا تھا۔

پاکستان سے آنے والے افراد کے کورونا سے متاثر ہونے پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستان میں لیبارٹریوں کے معیار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان تاجکستان بزنس فورم: وزیراعظم کی سرمایہ کاروں کو ہرقسم کی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی

وشنبے : وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تاجکستان بزنس فورم میں سرمایہ کاروں کو ہرقسم کی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا دونوں ملکوں میں تجارت سے فائدہ ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تاجکستان بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کےفورم کامقصد دونوں ممالک کے کاروباری روابط کو بڑھانے سمیت پاکستان اورتاجکستان کےتاجروں سےمخاطب ہونا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہے، اپنے ملک کاروباری طبقے کو سہولتیں فراہم کرنےکی کوشش کررہے ہیں اور سرمایہ کاروں کو سہولیات کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ توانائی کےمنصوبے کاسا 1000کی جلد تکمیل چاہتے ہیں، ہم پاکستان میں صنعتکاروں کوسہولتیں فراہم کررہےہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں تجارت سے فائدہ ہوگا اور بزنس کمیونٹی کو ہرقسم کی سہولت فراہم کی جائےگی، پاکستان سےمختلف67کمپنیاں تاجکستان آئی ہیں، توانائی کے منصوبے کاسا1000کی جلد تکمیل چاہتے ہیں، سستی اورماحول دوست ہائیڈر و پاور انرجی سے فائدہ اٹھاسکے۔

پی آئی اے کا لاہور سے پشاور کیلئے پروازیں شروع کرنے کا فیصلہ

پی آئی اے نے لاہور سے پشاور کیلئے پروازیں شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق قومی ایئر لائن پی آئی اے نے لاہور سے پشاور کیلئے پروازیں شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیر اور جمعہ کو پروازیں آپریٹ ہوں گی۔

ذرائع کے مطابق  اس حوالے سے ترجمان پی آئی اے  نے کہا کہ پی آئی اے لاہور سے پشاور کیلئے ہفتہ وار 2 پروازیں آپریٹ کرے گی، پروازیں پیر اور جمعہ کو آپریٹ ہوں گی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ یکم اکتوبر کولاہور سے پرواز صبح11 بج کر40 منٹ پر پشاور روانہ ہوگی جبکہ لاہور سے پشاور پروازکے لیےاے ٹی آر طیارہ استعمال کیا جائے گا۔

واضح  رہے اس سے قبل رواں سال 7 اپریل کو قومی ایئر لائن پی آئی اے  نے تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور سے اسکردو کے لیے فلائٹ آپریشن شروع کیا تھا، یہ ادارے کے لیے ایک اہم سنگ میل تھا، لاہور سے پہلی پرواز ایئر بس 320 کے ساتھ 160 مسافروں کو لے کر اسکردو پہنچی تھی۔

کنٹونمنٹ انتخابات اور پی ٹی آئی کی جیت

طارق ملک
پاکستان بھر میں کنٹونمنٹ بورڈ کی کل 212 نشستوں کا رزلٹ آچکا ہے جس میں سے پی ٹی آئی کی60 پاکستان مسلم لیگ ن کی 59 آزاد امیدوار55 پاکستان پیپلزپارٹی17 ایم کیو ایم10 جماعت اسلامی 7 اور بلوچستان عوامی پارٹی نے 2 نشستیں حاصل کیں اس طرح پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔اس طرح پی ٹی آئی نے سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے برابر سیٹیں حاصل کیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں پی ٹی آئی کا گراف بڑھا ہے کے پی کے نے پی ٹی آئی سے 16 آزاد امیدواروں نے 11 پی ایم ایل این نے 5 اور پاکستان پیپلزپارٹی نے 3 نشستیں حاصل کیں، اس طرح کے پی کے میں پی ٹی آئی کا پلہ بھاری رہا۔ بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو کوئی نشست نہیں ملی۔لہٰذا پی ٹی آئی واحد قومی جماعت بن کر اُبھری جس نے پنجاب سندھ بلوچستان اور کے پی کے میں نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ ن صرف پنجاب کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ اب مستقبل میں پنجاب میں اپنی اکثریت بڑھانے کے لئے پی ٹی آئی کو شہری علاقوں میں خاص طور پر مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہو گا کیونکہ دیہی علاقوں میں اشیاء خورونوش کی مہنگائی کا اتنا اثر نہ ہے کیونکہ زمیندار اور کسانوں کو ان کی اجناس کا معقول معاوضہ مل رہا ہے۔
پاکستانی قوم حج عمرہ کرنے میں دُنیا میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ ایمانداری میں 180 ملکوں میں سے 117 ویں نمبر پر ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں مصنوعی مہنگائی کی وجہ سے غربت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے سابقہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک نے اپنی تعیناتی کے آخری ایام میں مصنوعی مہنگائی ختم کرنے کے لئے دن رات کام کیا اور پرائس مجسٹریٹس کے ہفتہ وار اجلاس کی خود صدارت کی۔ اُنہوں نے غریبوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا ایک طریقہ کار بھی واضع کیا تھا جس کے تحت ہر غریب گھرانے کو آٹے کی مد میں ایک ہزار روپیہ ادا کرنا تھا جو کہ ایک بہت بڑا ریلیف تھا مگر اب اُن کے جانے کے بعد اس سکیم کا کیا بنتا ہے کچھ پتا نہیں۔
نئے چیف سیکرٹری صاحبکو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے مہنگائی کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جس کے لئے وہ آتے ہی دن رات کام کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کام اور کارکردگی کی بنیاد پر تبادلے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمام ڈپٹی کمشنر زکو پرائس کنٹرول پر الرٹ کر دیا ہے سب سے بڑھ کر چیف سیکرٹری پنجاب نے ڈپٹی کمشنرز کی کارکردگی پرائس کنٹرول سے جانچنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے اس ضمن میں چیف سیکرٹری پنجاب کی خدمت میں گزارش ہے کہ تمام دکانوں پر نمایاں طور پر اشیا خورونوش کے ریٹ لگوائے جائیں عام طور پر ایک چھوٹے سے کاغذ پر ریٹ لسٹ جاری کی جاتی ہے جس کو دکان دار چھپا کے رکھ لیتے ہیں اور غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ غریب عوام چیزوں کی قیمتوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمتیں دینے پر مجبور ہوتے ہیں اگر اشیائے تصرف کی قیمتیں نمایاں طور پر آویزاں ہوں تو کوئی بھی شخص زائد قیمت ہر گز ادا نہیں کرے گا۔ ریٹ لسٹ کے نیچے متعلقہ پرائس مجسٹریٹ کا موبائل نمبر بھی درج ہونا چاہئے تا کہ کوئی بھی صارف کسی بھی شکایت کی صورت میں متعلقہ مجسٹریٹ کو مطلع کر سکے منڈیوں میں بھی کڑی نگرانی ہونی چاہئے اور مصنوعی ریٹ کی بجائے قابل عمل ریٹ طے ہونے چاہئیں۔ پرچون ریٹ میں منڈی سے دکان تک کا کرایہ اور دکان دار کا جائز منافع شامل ہونا چاہئے اس کے باوجود کوئی اگر زائد قیمت وصول کرتا ہے تو اُس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہئے جس میں کم از کم تین یوم قید سات یوم تک دکان سیل کرنا شامل ہونا چاہئے۔ جرمانوں سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ جرمانوں میں کرپشن کا عنصر ہوتا ہے اور دکاندار یہ جرمانے مزید مہنگائی کر کے سائلوں سے حاصل کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ ایک تو روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی ہوئی ہے دوسرے مصنوعی مہنگائی جو کہ دکانداروں نے خود پیدا کی ہے۔ جس کو دوسرے لفظوں میں اوورچارجنگ کہتے ہیں کو روکنا بہت ضروری ہے یہ کام انتظامی مشینری کا ہے اور چیف سیکرٹری پنجاب نے واضح طور پر ڈپٹی کمشنرز کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ غریب عوام نے ہوشربا مہنگائی کے باوجود ایماندار عمران خان کا ساتھ دیا سندھ میں پی ٹی آئی نے پاکستان پیپلزپارٹی کے برابر نشستیں حاصل کی ہیں۔ بلوچستان میں پی ٹی آئی واحد قومی جماعت بن کر اُبھری ہے کے پی کے میں پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں پنجاب میں مسلم لیگ ن نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ پی ٹی آئی کو پنجاب میں سخت محنت کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں اگر مہنگائی اور مصنوعی مہنگائی کو ختم کر دیا جائے تو پی ٹی آئی پنجاب میں بھی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھر سکتی ہے اس ضمن میں پنجاب کے شہری علاقوں میں ٹارگٹڈ سبسڈی صرف غریب لوگوں کو دے کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

ایک دانا مردِ درویش

خدا یار خان چنڑ
اناللہ واناالیہ راجعون سیدعلی گیلانی اللہ کے حضورپیش ہوگئے جہاں ٹھنڈی ہوائیں اورراحتیں آپ کی منتظرہوں گی
سیدعلی گیلانی 29ستمبر1929کومقبوضہ کشمیرکی تحصیل بانڈی پورامیں پیداہوئے آپ کے بچپن میں ہی آپ کے والدین نقل مکانی کرکے سوپورآگئے گیلانی صاحب نے ابتدائی تعلیم سوپورمیں ہی حاصل کی پھرمذید تعلیم کے حصول کے لیے لاہورتشریف لے گئے جوتعلیمی سرگرمیوں کازبردست مرکزتھاگیلانی صاحب نے طویل عرصے تک لاہورمیں قیام کیا اورنیشنل کالج لاہورسے سندفراغت حاصل کی جبکہ کشمیریونیورسٹی سری نگرسے بھی اسنادحاصل کیں۔آپ نے اپنے کیرئیر کاآغازتعلیم وتدریس سے کیااورتقریبابارہ سال تک سرکاری سکول میں پڑھاتے رہے اس دوران جماعت اسلامی سے آپ کاتعارف ہوااورآپ جماعت اسلامی کے اجتماعات میں شریک ہونے لگے اوربعدمیں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیارکرلی جب جماعت اسلامی نے آپ کوذمہ داری دی توآپ نے ملازمت سے مستعفی ہوکرخودکوجماعت اسلامی کے لیے وقف کردیا اورطویل عرصے تک جماعت اسلامی کے کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے اورساتھ ساتھ کشمیرکی سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگے آپ کی یہ سرگرمیاں حکومت کوکھٹکنے لگیں تو28اگست1962کوپہلی دفعہ گرفتارکرلیا گیا 13ماہ تک جیل میں رکھاگیاجب آپ رہاہوئے توکشمیرپربھارت کے جارحانہ اورناجائزقبضے کے خلاف میدان میں آگئے آپ کوباربارگرفتارکیاجاتارہاآپ نے کم وبیش26 سال جیلوں میں گزارے اوربرسوں تک آپ کونظربندرکھاگیالیکن یہ تمام ہتھکنڈے آپ کے اصولی موقف میں ذرّہ برابربھی لچک پیدانہ کرسکے۔
وہ 26سیاسی وسماجی پارٹیوں کے اتحاداورآل پارٹیزحریت کانفرنس کے لمبے عرصے تک چیئرمین رہے آپ بھارت کے ریاست جموں وکشمیرپرناجائزقبضے کوللکارتے رہے اورمرتے دم تک اس موقف پرڈٹے رہے گیلانی صاحب 15سال تک ریاست جموں وکشمیرکی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔7اگست2004کوگیلانی صاحب نے تحریری مفاہمت کے بعدجماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیاکیونکہ آپ مقبوضہ کشمیرمیں آزادی کی جدوجہدکومزیدتیزکرناچاہتے تھے اس کے لیے گیلانی صاحب نے تحریک حریت جموں وکشمیرکی بنیادرکھی اورمقبوضہ کشمیرمیں جاری مسلح جدوجہدکوحق بجانب قراردے دیا۔
گیلانی صاحب مسئلہ کشمیرمیں پاکستان کے اس موقف کی تائیدکرتے رہے کشمیرپاکستان کی شہہ رگ ہے اورکشمیرکی آزادی اوراس کاپاکستان سے الحاق بہت ضروری ہے گیلانی صاحب ریاست جموں وکشمیرکوپاکستان کاحصہ قراردیتے تھے اورمرتے دم تک اس موقف پرقائم رہے اس طرح تمام حکومتی بھارتی حربے ناکام ثابت ہوئے۔عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعدگیلانی صاحب مسلسل ان سے رابطے میں رہے اورخط کے ذریعے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیرپر وزیراعظم کے خطاب کی تعریف کی اورمشورہ دیاکہ وہ اپنے خطاب کی روشنی میں بھارت کے ساتھ مسلہ کشمیرپرماضی میں کئے گئے تمام دوطرفہ معاہدوں سے ہٹ جائیں اورکنٹرول لائن پربھارت کی جانب سے لگائی گئی خاردارباڑکے خلاف اقوام متحدہ سے رجوع کریں۔حکومت پاکستان سیدعلی گیلانی صاحب کی انتھک جدوجہد اورخدمات کے اعتراف میں انہیں نشان پاکستان سے نوازا۔گیلانی صاحب اس بات کے حامی تھے پاک فوج کومقبوضہ کشمیرمیں پیش قدمی کرنی چاہیے جس کاکشمیری عوام شدت سے انتظارکررہے ہیں۔سیدعلی گیلانی کی فکرحریت کی شمع مقبوضہ کشمیرکی آزادی تک روشن رہے گی اوران کی اس امانت کوپاکستانی اورکشمیری مل کرآگے لے کربڑھیں گے سیدعلی گیلانی صاحب کی ساری زندگی کشمیری اورپاکستانی عوام کی محبت میں گزری 1947میں شروع ہونے والاآزادی کاسفراب تک جاری ہے اورآزادی تک جاری رہے گا ان شااللہ۔
اب کشمیرکے ہر گلی کوچے سے لے کرقریہ قریہ تک جیل کی اندھیری کوٹھڑی سے لے کر پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں تک سیدعلی گیلانی کی کاوشوں کوسراہاجارہاہے آپ نے کشمیری عوام اورخاص طور پر نوجوان نسل کوبھارت کاغلام بننے کی بجائے اپنی آزادی کے لیے لڑناسکھایا۔آپ نے1977ء کاالیکشن بھی جیل سے ہی لرااورکامیاب ہوئے اسمبلی کے اندربڑی جرأت کے ساتھ بھارت کوللکارتے تھے اس کی وجہ سے کئی بارآپ کوجیل جاناپڑاآپ نے آزادی کشمیرکے لیے ساری زندگی کی ایسی قربانی دی کہ اب دوسروں کوبھی اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنا آسان ہوگئی ہے۔اب تیزی کے ساتھ دنیاکانقشہ بدل رہاہے بہت جلدسیدعلی گیلانی کی روح خوش ہوجائے گی جب کشمیرآزادہو جائے گاابھی تووہ جیل کی قیدپابندیاں جوکئی سالوں سے کاٹ رہے تھے ان سے آزادہوکراللہ کے پاس چلے گئے ہیں اللہ پاک گیلانی صاحب کوجنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے اوران کی آزادی کی تحریک پایہئ تکمیل کو پہنچے اوران کے لواحقین کوصبرجمیل عطافرمائے پوری پاکستانی قوم ان کے غم میں برابرکی شریک ہے سیدعلی گیلانی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

انشورنس کیسے کروانی چاہئے

عبدالباسط خان
انشورنس کروانا ایک مفید عمل ہے یا انشورنس ایک نقصان دہ سودا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف آرا عوام میں پائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں بہت تنقیدکرتا ہے اور بعض انشورنس کمپنیوں کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگ جو انشورنس کمپنیوں کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں ان میں بعض نامور وکلا حضرات اور تجزیہ کار بھی شامل ہیں۔ اکثر لوگ اپنی زندگی کا بیمہ کروا کر اپنے پسماندگان کیلئے آسانیاں تلاش کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنی گاڑیوں، فیکٹریوں اور مال اسباب کا بیمہ کراتے ہیں تاکہ رسک اور نقصان سے بچا جا سکے۔ پاکستان میں جو بیمہ پالیسی ہوتی ہے یا جو لوگ اپنی انشورنس کرواتے ہیں وہ بیرون ممالک کی انشورنس پالیسی کے مقابلے میں عشر عشیربھی نہیں ہوتی اورنہ ہی اس میں اتنی زیادہ انوسٹمنٹ ہوتی ہے۔ جو کہ باہر دیگر ممالک میں لوگ کرواتے ہیں۔ ایک واضح فرق تو یہ ہے کہ لوگ باہر کے ممالک میں زیادہ سمجھدار باشعور اور پڑھے لکھتے ہوتے ہیں دیگر وہاں کمپنیاں زیادہ شفافیت کے ساتھ لوگوں کی پالیسی کرتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان میں انشورنس کمپنیاں لوگوں کے ساتھ جان بوجھ کر فراڈ کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں ہمارا سوشل میڈیا اور لیگل برادری انشورنس کمپنیوں کو یکطرفہ طور پر موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جو سراسر غلط بیانی پر مبنی ہے۔ در حقیقت جو لوگ انشورنس کروا کر نقصان اٹھاتے ہیں وہ انشورنس سے پہلے اس کی تمام شقوں پر مکمل آگاہی حاصل نہیں کر پاتے یہ درست ہے کہ انشورنس کمپنیاں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ انشورنس پالیسی کر کے اپنے کاروبار کو آگے بڑھاتی ہیں مگر بعض ایسے مراحل ضرور ہیں کہ اگر انشورنس کروانے والا ان سے مکمل آگاہی حاصل کر لے تو شائد نقصان کا احتمال نہ رہے بلکہ کارآمد اور مفید بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ چونکہ انشورنس کمپنیاں خود اپنے کارندوں کے ذریعے بھی انشورنس براہ راست کرتی ہیں اور بینکوں کے ذریے بھی۔ لوگوں کی زندگی کا بیمہ یا انشورنس کرتی ہیں اس سلسلے میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے مختلف بینکوں کو لوگوں کی پالیسیاں کرنے کے لئے اجازت دے رکھی ہے اور بینک منیجر لوگوں کی پالیسیاں کرنے کیلئے ان کو مستقبل کے سہانے سپنے اور خواب دکھاتے ہیں اور اپنا کمیشن حاصل کر کے یہ جا اور وہ جا ہو جاتے ہیں انشورنس کروانے والا جب مالی مشکلات کاشکار ہوتا ہے اور اپنا پریمیم ادا نہیں کر سکتا تو پالیسی کروانے والا بینک جاتا ہے تو وہاں کوئی اور شخص موجود ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کی بجائے تحقیر آمیز رویہ اختیار کرنا شروع کرتا ہے مجبوراً یہ شخص جب متعلقہ انشورنس کمپنی سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو اتنی حقیر سی رقم اس شخص کو واپس ملنے کی بتائی جاتی ہے کہ اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے وہ پیر پٹختا جب کسی وکیل کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے اپنی قانونی فیس کے ساتھ کیس لڑنے کی دعوت دیتا ہے۔ اب یہاں کیس کرنے کے چند فورم ہیں جس میں بینک کے ٹریبونل‘ ایس ای سی پی، سول کورٹ یا پھر انشورنس کے وفاقی محتسب کے دروازوں پر دستک دی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انشورنس کروانے والا قبل از وقت اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے جس میں اس کی کیش ویلیو نہایت کم ہوتی ہے پہلے سال کے اندر رقم کی واپسی دوسرے سال اور تیسرے سال سے لے کر چھٹے سال تک انشورنس پالیسی کی رقم کیش ویلیو کے ساتھ بمشکل اس کی جمع کردہ رقم کے برابر یا پھر اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس وقت تک انشورنس کروانے والے کی دماغی اور ذہنی حالت بہت خراب ہو چکی ہوتی ہے وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے جب وہ وفاقی محتسب کی عدالت میں تمام تر مراحل جو انشورنس آرڈیننس 2000 میں موجود ہیں طے کر کے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب میں نے تو انشورنس ہی نہیں کروائی تھی بلکہ مجھے سرمایہ کاری کرنے کی دعوت بینک والوں نے دی تھی تو پھر جواب میں کمپنی اسی شخص کی ریکارڈ شدہ گفتگو انشورنس محتسب کے فورم پر سنا دیتی ہے جہاں اسے انشورنس کروانے کی دعوت سمیت مختلف سوالات کئے جاتے ہیں۔ وہ شخص اب واقعی سٹپٹا جاتاہے تو کمپنی اس کو اس کی رقم کی کیش ویلیو بتاتی ہے جس میں بینک والے کا کمیشن سے لیکر کمپنی کے اخراجات اور اس شخصہ کی بیمہ پالیسی تک میں وہ تمام رسک شامل کرتی ہے اور مکمل منہا کر کے اگر اس نے فرض کیا پانچ یا چھ سال میں پانچ یا چھ لاکھ جمع کروائی ہے تو اس رقم کا یعنی پچاس سے ساٹھ فیصد ادا کرنے کی خبر سنا دی جاتی ہے اور مختلف مراحل میں جب پریمیئر ادا کیا جانا ہوتا ہے تو ایک سال میں ایک یادو سال میں وہ مقررہ وقت پر رقم جمع ہی نہیں کرواتا تو پھر اس کا خمیازہ بھی اسے کم رقم کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔
دلچسپ صورتحال اس وقت ہوتی ہے جب کوئی انشورنس کروانے والا ایک لاکھ پریمیئر سالانہ کے لحاظ سے پورے دس سال دس لاکھ روپے جمع کرواتا ہے اور جب پالیسی مکمل میچور ہو جاتی ہے تو وہ دس لاکھ کے ہمراہ وہ رقم جو اس کے پسماندگان کو ملنی ہوتی ہے اگر وہ دس سال سے پہلے یعنی دوسرے یا تیسرے سال میں فوت ہو جانے کی صورت میں ملتی ہوتی ہے مطالبہ کرتا ہے کہ دس اور دس یعنی بیس لاکھ رقم بمعہ منافع کا مطالبہ رکھ دیتا ہے تو کمپنی والے بتاتے ہیں کہ جناب یہ تو اس صورت میں ملے گی اگر آپ انتقال فرما جائیں گے لہذا آپ کے دس لاکھ کے اوپر بمشکل ایک سے ڈیڑھ لاکھ کا منافع ملتا ہے وہ بھی اس صورت میں اگر سٹاک مارکیٹ کے حالات کمپنی کے لئے ساز گار ہوں اور یونٹس کی تعداد انشورنس کروانے والے کے حق میں ہو۔ یقینا یہ خبر اس کے لئے باعث تشویش ہوتی ہے کہ دس سال بعد صرف 80 یا 90 ہزار کا منافع یا بعض اوقات اصل رقم سے بھی کم رقم دینے کی اس کو خبر سنائی جاتی ہے۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات اس شخص کے مرنے پر جب اس کے پسماندگان جن کو پالیسی کروانے والا نامزد کرتا ہے رقم لینے کے لئے کمپنی سے رجوع کرتا ہے تو اس کو یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ اس شخص نے پالیسی کرواتے وقت کمپنی سے غلط بیانی سے کام لیا ہے لہٰذا وہ شخص پالیسی کروانے سے پہلے ہی کسی موذی مرض کا شکار تھا اور کمپنی سے غلط بیانی کرنے کی پاداش میں وہ رقم جو اس شخص کے نامزد کردہ فرد یعنی بیوی یا بیٹے کو ملنی چاہئے اس سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
یہاں پر صورتحال بہت تشویش ناک اور سنگین ہو جاتی ہے۔ مرنے والے کے لواحقین کو بتایا جاتا ہے کہ پالیسی سے چھ ماہ پہلے یا سال پہلے وہ شخص کینسر کے مرض میں یا ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا تھا اور اس نے پالیسی پر دستخط کرتے وقت اس بیماری کا ذکر نہیں کیا تھا۔ لواحقین انشورنس فورم پر چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ انشورنس کمپنی نے آخر اس کا میڈیکل ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا تھا۔ انشورنس ایکٹ کی مختلف دفعات جس میں انشورنس کرنے والے اور انشورنس کروانے پر لازم ہے کہ وہ دھوکہ دہی، فریب اور غلط بیانی سے کام نہیں لے گا۔ انشورنس کلیم لینے والے کے لئے دردسر بن جاتی ہیں۔ لہٰذا یہاں اس بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ انشورنس کرواتے تمام تر معلومات حاصل کرنے کی اس شص میں اہلیت ہونی چاہئے یا پھر کسی پڑھے لکھے رشتہ دار یا دوست کی مدد سے اسے تمام شقوں کا مکمل ادراک ہونا چاہئے کہتے ہیں کہ مشتری ہوشیار باش مگر یہاں تمام الزام کمپنیوں پر تھوپ دیا جاتا ہے کہ انشورنس کمپنیاں دھوکہ دہی سے کام لے رہی ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف غیر ان پڑھ سادہ لوح یہ نقصان اٹھاتے ہیں حالانکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بلکہ گریڈ بیس اکیس تک کے سیانے لوگ بھی اس کاشکار ہو رہے ہیں یہاں پر ان اقدامات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جن کی وجہ سے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان اقدامات کی ضرورت بھی ہے تاکہ انشورنس کروانے والے اور انشورنس کمپنیوں کے درمیان ایک مفید شفاف اور دیانتداری والا رشتہ قائم ہو جائے۔ سب سے پہلے انشورنس کروانے والا شخص پالیسی کو منسوخ کروانے کے پندرہ دن کے اندر اندر اگر وہ شخص پالیسی منسوخ کروا لے گا تو اسے کسی قسم کا نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور مکمل رقم ریفنڈ ہو جائے گی۔ اگر لوگ گلہ کرتے ہیں کہ ان کے بینک اکاؤنٹ سے رقم براہ راست کمپنی منہا کر لیتی ہے کیونکہ وہ آٹو ڈیبٹنگ پیپر پر دستخط کر دیتا ہے اور جب اس کے اکاؤنٹ سے رقم خود بخود بینک والا نکلواتا ہے تو وہ دوڑتا ہوا بینک والے کے پاس جاتا ہے اور بینک والا اس کو بتا دیتا ہے کہ جناب آپ نے خود اس کاغذ پر دستخط کئے ہیں لہٰذا ہر پریمئیم کی رقم بذریعہ چیک ادا کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ ایک اور اہم غلطی جو پالیسی کنندہ کرتا ہے وہ پریمئیم کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کر جاتا ہے جس پر اسے پیلنٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا پالیسی کرواتے وقت رقم کی بروقت ادائیگی یا پریمیئم وقت مقررہ پر جمع نہ کروانے کی صورت میں تمام ممکنہ نقصانات کا ادراک ہونا چاہئے۔ وفاقی محتسب کا ادارہ اس صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عوام کو آگاہی کی مہم میں شامل حال رکھ رہا ہے۔ ٹیلی ویژن کے نامور اداکار اس سلسلے میں لوگوں کو پالیسی حاصل کرتے وقت مکمل حالات سے آگاہی کا مشورہ دے رہے ہیں۔
صدر مملکت پاکستان عارف علوی نے وفاقی محتسب ڈاکٹر محمد خاور جمیل کوسالانہ رپورٹ پیش کرنے کے موقع پر خاص طور پر عوام میں پالیسی سے متعلق شعور بیدار کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور وفاقی محتسب کا ادارہ انشورنس کمپنیوں اور شکایات کنندہ کے مابین رضامندی سے معاملات طے کر کے ایک معقول رقم دلوا رہا ہے تاکہ پالیسی ہولڈرز کو کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔ اس آگاہی مہم کے نتیجے میں لوگ بہتر انداز سے اپنی رقم کے حصول میں سرخرو ہو رہے ہیں یہاں یہ امر ضروری ہے کہ زندگی کی پالیسی کا بیمہ کرتے وقت تمام انشورنس کمپنیوں کو میڈیکل ٹیسٹ کروانے کا پابند کروایا جائے تاکہ بعد ازاں مرحومین کے پسماندگان پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭