تازہ تر ین

سپریم کورٹ نے نیب پر بڑی پابندی لگا دی

اسلام آباد (اے این این، آن لائن) سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو کرپٹ افسران کی جانب سے رضاکارانہ رقم واپسی کے اختیار (پلی بارگین) کے استعمال سے روک دیا جبکہ گزشتہ دس سال میں رضاکارانہ رقوم واپس کرنے والوں کی تفصیلات طلب کر لیں گئیں، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ رضاکارانہ واپسی کا قانون بناتے وقت شرم نہیں آئی، یہ قانون کس نے بنایا؟ باہر ممالک کے لوگ اس قانون پر ہنستے ہیں کہ ایسے قوانین سے ملک چلایا جارہا ہے۔ پیرکو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے رضاکارانہ رقم واپسی کے قانون پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ عدالت نے رضاکارانہ رقم کی واپسی کے حوالے سے نیب پر برہمی کا اظہار کیا۔ دوران سماعت مختلف مواقع پر ریمارکس دیتے ہوئے۔ چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ نیب وہ کررہا ہے جو عدالت بھی کرنے کی مجاز نہیں، ایک کپ کافی پیو، سارے معاملے سیٹ اور اپنی نوکری پر واپس جاﺅ، نیب میں جاﺅ مک مکا کرلو۔ عدالت سے بچنے کےلئے نیب کے پاس جا کر مک مکا کیا جاتا ہے، نیب ملزمان کو کرپشن کی رقم واپس کرنے میں قسطوں کی سہولت بھی دیتا ہے اور انھیں کہا جاتا ہے پہلی قسط ادا کرو، پھر کما اور دیتے رہو۔ انہوں نے کہا کہ رضاکارانہ واپسی کا قانون بناتے وقت شرم نہیں آئی، یہ قانون کس نے بنایا؟ باہر ممالک کے لوگ اس قانون پر ہنستے ہیں کہ ایسے قوانین سے ملک چلایا جارہا ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دئیے کہ نیب بازار میں کھڑا آوازیں دے رہا ہے کرپشن کر لو پھر رضاکارانہ واپسی کرالو۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس کیس جائے تو رضاکارانہ واپسی نہیں ، اگر کیس نیب میں جائے تو رضاکارانہ واپسی ہے، یہ امتیازی رویہ کیوں؟ جن کی نیب تفتیش کررہی ہے ان کی ترقیاں ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس قانون میں مناسب ترمیم کا کہا لیکن غیر مناسب ترامیم کردی گئیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نیب قوانین میں ترمیم کا کام جاری ہے، جس پر شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کیس جاری رکھے گی، آپ جب چاہیں ترمیم کر لیں۔ نیب کے وکیل نے کہاکہ تقرریاں اور ترقیاں قواعد کے مطابق ہوئیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نیب کاقواعد پرعمل درآمد حیران کن ہے، ایک انجینئر کو ڈی جی لگایا ہوا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 10کروڑ روپے کی کرپشن کے ملزم سے 2 کروڑ لے کر باقی چھوڑ دیئے جاتے ہیں نیب اس میں سے 25 فیصد لے لیتا ہے، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ایسی بات نہیں، پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی میں نیب کو25 فیصد نہیں آتا۔ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ رضاکارانہ واپسی کرنے والے اراکین پارلیمنٹ اور انتہائی اعلی عہدوں پر فائز لوگ بھی ہیں۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران رضاکارانہ واپس کی گئی رقوم کی تفصیلات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کرپشن کی رقم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق چیرمین نیب کے اختیار سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی اس دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کرپشن کی رضا کارانہ رقم واپسی کی شق بنانے والوں کو شرم نہیں آئی؟ دیگر ممالک ہم پر ہنستے ہیں کہ کیسے قوانین سے ملک چلایا جارہا ہے۔ عدالت سے بچنے کے لئے نیب کے پاس جا کر مک مکا کیا جاتا ہے، نیب مجرمان کو کرپشن کی رقم واپس کرنے میں قسطوں کی سہولت بھی دیتا ہے، ملزمان کو کہا جاتا ہے پہلی قسط ادا کرو، باقی کماو¿ اور قسط دیتے رہو۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے نیب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب آرڈیننس کا سیکشن 25 اے کرپشن ختم کرنے کے لئے تھا بڑھانے کے لئے نہیں، 10 کروڑ روپے کی کرپشن کے ملزم سے 2 کروڑ لے کر باقی چھوڑ دیئے جاتے ہیں، رضاکارانہ رقم واپس کرنے والے افسران عہدوں پر برقرار رہتے ہیں، رضا کارانہ رقم واپس کرنے والوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی شامل ہیں۔ سرکاری افسروں کے خلاف دس، دس سال انکوائریاں چلتی ہیں، ایک طرف انکوائری چلتی ہے، دوسری طرف سرکاری افسر ترقیاں لیتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نےریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے اس قانون میں مناسب ترمیم کا کہا لیکن غیر مناسب ترامیم کردی گئیں۔ نیب بازار میں آواز لگاتا ہے، کرپشن کرو اور رضا کارانہ رقم واپس کرو، ملزمان کو خط لکھ کر رقم کی رضا کارانہ واپسی کا کہا جاتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain