تازہ تر ین

یورپی شہریوں پر کتا بننے خبظ سوار

یورپ (خصوصی رپورٹ) یورپی ممالک کے شہریوں پر کتا بننے کا خبط سوار ہوگیا ہے۔ لاکھوں خواتین اور مرد کتے کے کاسٹیوم پہن کر گلے میں پٹے ڈالنے لگے۔ عادات بھی کتوں جیسی اپنا لیں۔ اس حیران کن رجحان کو نفسیاتی ماہرین نے ”نفسیاتی مرض“ کا نام دیاہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خود کو کتا سمجھنے والے نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جرمنی‘ فرانس‘ کینیڈا‘ ڈنارک‘ سپین‘ سویڈن‘ برطانیہ اور ناروے سے لے کر آسٹریلیا تک انسانی کتوں کی تعداد اور لاکھ دو لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ یہ رجحان سب سے زیادہ جرمنی میں پایا جاتا ہے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ مرد و خواتین خود کو پیدائشی کتا سمجھتے ہیں اور روزانہ کتوں کی کھالوں اور چہروں سے مشابہ کاسٹیومز اور ماسک پہن کر گلے میں خوبصورت زنجیریں ڈال کر اپنے پارٹنرز کے ساتھ بازاروں‘ پارکس اور تفریحی مقامات پر گھومتے اور تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کا برملا اعلان بھی کرتے ہیں کہ وہ خود کو پیدائشی طور پر کتا سمجھتے ہیں لیکن وہ انسانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے۔ اس لئے اپنے اندر پائی جانے والی کتوں کی خصلت سے مجبور ہوکر کتوں کی شکلوں سے مشابہ کاسٹیومز اور مالک پہن کر اپنے اندر پائی جانے والی جس کی خواہش کی تسکین کرتے ہیں۔ چین کی نیوز ایجنسی‘ باﺅ نیوز نے ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا ہے کہ کتا بننے کے خبط میں مبتلا افسران کی ہر سال یورپ بھر میں پریڈز منعقد کی جاتی ہیں۔ جس کو ”پپی پرائیڈ پریڈ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی سالانہ پریڈز جرمنی‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ آسٹریلیا‘ امریکہ‘ فرانس اور ناروے سمیت دیگر ممالک میں تسلسل سے منعقد کی جاتی ہے۔ جن میں ہزاروں کتے نما انسان شرکت کرتے ہیں۔ برطانوی چینل فور کی ایک رپورٹ کے مطابق 2016ءمیں اس پریڈ میں 16 ہزار سے زیادہ انسان نماز کتوں نے شرکت کی جبکہ فرانس میں 2015ءکی سالانہ پپی پرائیڈ پریڈ میں 12 ہزار لوگ شریک ہوئے تھے۔ اسی طرح جرمنی کے شہر برلن میں 18,500 سے زائد افراد نے اس پریڈ میں شرکت کی۔ امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں 2016ءکی کتا پریڈ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار تھی۔ جس میں شریک مرد خواتین نے کتوں اور کتیوں کے کاسٹیوم پہن کر چوپایوں کی طرح چل کر اپنے کتا ہونے کا ثبوت دیا۔ امریکی ریاستوں نارتھ کیرولینا‘ شکاگو‘ میسوری‘ سان ڈیاگو‘ پورٹ لینڈ اور سینٹ لوئس میں کتا پریڈ اہتمام سے منعقد کی جاتی ہیں۔ ادھر برطانیہ میں کتا پریڈ میں شریک ایک نوجوان ”رچ“ کا دعویٰ ہے کہ خود کو کتا ظاہر کرنے والوں میں ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ پروفیسرز اور بینکاروں سمیت ہائی پروفیشنل لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ جو سمجھتے ہیں کہ ان کے جسم میں کسی کتے کی روح حلول کر گئی ہے۔ اس تقریب میں برطانوی نوجوان ”رچ“ اپنی کتیا بنی بیوی ”پیپر“ کی زنجیر پکڑ کر شریک ہوا تھا۔ آسٹریلوی جریدے سڈنی مارننگ ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی سمیت اہم یورپی ممالک میں بڑے بڑے سپر سٹورز پر کتا کاسٹیومز کی دکانیں کھل چکی ہیں۔ جرمن میڈیا سے گفتگو میں برلن کے رہائشی البرٹ ایلڈرارڈ نے بتایا کہ ان کی شادی پسند سے ہوئی ہےل یکن اچانک ان کی بیوی کو کتیا بننے کا شوق چڑھا اور انہوں نے کہا کہ اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو میرے ساتھ کتیا کی طرح کا سلوک کرنا ہوگا اور مجھے کتیا کے کاسٹیوم میں تقریبات میں اور عوامی مقامات پر لے جانا ہوگا۔ البرٹ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیوی کی اس خواہش کا احترام کی ہے اور اس کو کتیا کاسٹیومز کی ایک وسیع رینج لاکر دے دی ہے۔ وہ ہر روز ایک نئے سٹائل میں کتیا بن کر دکھاتی ہے اور کچن میں کام کرتے ہوئے بھی وہ کتیا کے کاسٹیوم میں ملبوس ہوتی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ کتا بننے والے انسانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ زنتائی نے فخریہ انداز میں میڈیا کو بتایا کہ ان کے شوہر اس قدر خوبصورت کتا دکھائی دیتے ہیں کہ جب انہوں نے ”پپی پرائیڈ پریڈ 2015ئ“ میں شرکت کی تو ان کے کتے جیسی حرکتیں دیکھ کر منتظمین نے انہیں ”مسٹر پپی یو کے 2015ئ“ کا ایوارڈ دے دیا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain