تازہ تر ین

وزیراعظم کادوٹوک اورخوش آئند موقف

وزیر احمد جوگیزئی
افغانستان کی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے،طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی جاری ہے او ر افغان فورسز طالبان کے آگے مکمل طور پر بے بس محسوس ہو رہی ہیں،افغانستان کی صورتحال پر عالمی برداری اور پاکستان میں بھی سخت تشویش پائی جا رہی ہے،وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک حالیہ انٹر ویو میں کہا ہے کہ طالبان نے اگر کابل پر بزور طاقت قبضہ کر لیا تو پاکستان ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا،پاکستان صرف اسی حکومت کو تسلیم کرے گا جو کہ افغان عوام کے ووٹ سے بر سر اقتدار آئے گی۔
پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ہے،اگر افغانستان میں صورتحال زیادہ خراب ہو تی ہے تو پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر لے گا۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کو سمجھنا افغانستان کے مسائل کا حل نکالنا صرف افغان باشندوں کے بس میں ہے اور افغان باشندے ہی اس مسئلہ کا حل نکال سکتے ہیں کوئی بھی غیر افغانی افغانستان کے مسائل کا حل نہیں نکال سکتا ہے،افغانستان کی موجودہ قیادت کو سنجیدگی سے اپنے مسائل کے حل کے لیے باہر کی جانب دیکھنے کی بجائے خود اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔کوئی بھی غیر افغانی افغانستان کے مسائل حل نہیں کر سکتا ہے،جتنا جلد اس بات کو سمجھ لیا جائے اتنا بہتر ہو گا۔
امریکہ پاکستان سے فوجی انخلا تو کر رہا ہے لیکن انخلا کے بعد امریکہ اس خطے میں اپنی مو جودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔اور اس سلسلے میں پاکستان سے بھی فوجی اڈے مانگ رہا ہے اوراڈے مانگنے کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی افغانستان کے اندر ڈرون اور فضائی حملے کر سکے۔یہاں پر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ امریکہ 20سال تک لاکھوں فوجیوں کے ساتھ افغانستان میں رہا ہے اور کچھ نہیں کر سکا ہے تو انخلا کے بعد پاکستان سے اڈے لے کر کیا کر لے گا؟ یہ سوچنے والی بات ہے۔یہ صرف اور صرف پاکستان کو بدنام کرنے کا ایک حربہ ہے اور کچھ نہیں ہے،اگر پاکستان ایک طرف امریکہ کو اڈے دیتا ہے تو طالبان کی دشمنی مول لیتا ہے،اور دیگر افغانوں کے دل میں بھی پاکستان کے اس اقدام کے باعث نفرتیں بڑھیں گی یہ اقدام سراسر پاکستان کے مفادات کے خلا ف ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کو فوجی اڈے نہ دینے کا فیصلہ کرکے بہترین فیصلہ کیا ہے اور اپنی وزارت عظمی اور پاکستانی عوام کی ان سے توقعات اور خواہشات کا حق ادا کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھی وزیر اعظم عمران خان کا دو ٹوک موقف قابل ستائش ہے وزیر اعظم عمران خان نے حقیقی معنوں میں کشمیریوں کے سفیر کے طور پر ان کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑا ہے اور اب حالیہ پیشرفت سے محسوس ہو رہا ہے کہ مودی سرکار بھی کسی حد تک اس حوالے سے دباؤ کا شکار ہو رہی ہے۔پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین اب بھی موجود ہیں او ر ماضی میں پاکستان کے لیے سیکورٹی خدشات کا باعث بنتے رہے ہیں۔
لاہور میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ نہایت ہی افسوس ناک ہے اور اور نہ جانے اس واقعہ کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں؟ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے وہی کرنا چاہیے جو کہ افغان عوام چاہتے ہیں جو بھی حکومت ووٹ کے ذریعے بر سر اقتدار آئے اسی کے ساتھ کام کرنا چاہیے وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے انٹر ویو میں اسی قسم کی پالیسی کا عندیہ دیا ہے،جو کہ خوش آئند بات ہے۔ہمیں افغان شہریوں کو علاج معالجے اور تعلیمی سہولیات سمیت تمام سہولیات دینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی گڈ ول افغان شہریوں میں بنی رہے۔اس وقت افغانستان کی اندرونی صورتحال کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں کہ طالبان نے 50فیصد افغان اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔افغان فوج ایک علامتی فوج ہی محسوس ہو تی ہے،امریکہ کی فوج ہی افغانستان میں معاملات کو سنبھالا دے کر بیٹھی ہو ئی تھی لیکن،امریکہ بھی لاکھوں فوجی افغانستان میں رکھنے کے با وجود کچھ نہیں کر سکا تو افغان فوج سے یہ توقعات رکھنا کہ وہ امریکی انخلا کے بعد سیکورٹی معاملات کو سنبھال لے گی خام خیالی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔میری رائے میں افغانستان میں امن اور ترقی کی کنجی افغانستان کے ہمسائیوں کے ہاتھ میں ہے افغانستان کی حکومت کو امریکہ اور دیگر ممالک کی بجائے ہمسائیوں کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے اور افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ نہ صرف افغانستان میں امن بلکہ ترقی کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ افغانستان کی خراب صورتحال کا براہ راست شکار سب سے پہلے افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہی ہوسکتے ہیں۔پاکستان اور ایران کو افغانستان کے ساتھ مل کر خطے میں روابط کے فروغ اور تجارت میں اضافہ پر توجہ دینی چاہیے۔اسی میں افغانستان اور خطے کی بھلائی ہے۔
اب میں کچھ بات بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے کرنا چاہوں گا،شکر ہے کہ مودی کی انا اور اکٹر میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے اور اس نے بھی اس بات کا ادراک کیا ہے کہ کشمیر کے معاملات قوت کے زور پر حل نہیں کیے جاسکتے ہیں اور اسی اداراک کے تحت شاید مودی نے کشمیری قیادت کو بلا کر ایک اے پی سی کا انعقاد کیا ہے۔اگرچہ کہ اس اے پی سی کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا لیکن خبریں یہی آئی ہیں کہ اس کانفرنس میں شریک ہو نے والی تمام کشمیری قیادت نے مودی سے آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ سامنے رکھا ہے،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مودی کا یہ اقدام بین الا اقوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت اور وزیر اعظم کے کشمیر کے حوالے سے دو ٹوک اور دلیرانہ موقف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دباؤ کا بھی نتیجہ ہے،وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر میں 5اگست کے اقدامات واپس نہ لیے جانے تک بھارت سے کسی قسم کے روابط نہ رکھنے اور تجارت نہ کرنے کا اعلان کرکے یقینا قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain