تازہ تر ین

خدا را پانی کی بچت کرو

ڈاکٹر عمرانہ مشتا ق
تعریف انسان کو خوش کر دیتی ہے اور تنقید بہتر بنا دیتی ہے۔واٹرانوائرمنٹ اینڈ ٹورازم کی پوری ٹیم تعریف کو نہیں وہ تنقید کو پسند کرتی ہے تعریف خوش کرتی ہے اور تنقید بہتر بنا دیتی ہے ان کی سوچ بہتر اور ان کا ہر عمل حب الوطنی کے جذبات واحساسات سے عبارت ہے، پچھلے دنوں کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ کے شہر کی سہولت اور ضرورت کے اعلیٰ ترین اسباب کو زوال پذیر معاشرے میں بدلتے دیکھا جہاں امراء اور روسا اور فقرا سب بہترین حماموں میں لطف اندوز ہو رہے تھے ہر گھر میں جدید عہد کی ساری سہولیات میسر تھیں پانی کی فراوانی اور دل کی دنیا آباد تھی، اور آج حالت یہ ہے کہ وہاں لوگ بوند بوند کو ترس گئے ہیں اور آج مجھے واٹر انوائرمنٹ اینڈ ٹورزم کے سیمینارز میں مکالمات پڑھنے والوں کی صدائے بازگشت کانوں سے ٹکراتی ہے تو ان کے حرف حرف کو حرف آذاں سمجھ کر حرزِ جاں بنا لیا کہ ہم بوند بوند کو بچائیں، گھروں کے باھر پودوں کے لیئے گھر میں برتن دھونے والے پانی کو بچا کر پودوں کی پرورش کریں۔ زیر زمین پانی کی سطح بہت دور چلی گئی ہے آنے والی نسلوں کے لئے فصلوں کو شاداب وسیراب کرنے کے لیئے بوند بوند کو بچائیں۔
کیپ ٹاؤن شہر ویراں اور شہری بوند بوند کو ترس گئے ہیں، آج کیپ ٹاؤن کے بارے میں کہتے ہیں یہ شہر نہیں اللہ کا عذاب ہے اور پاکستانیوں کو بھی وارننگ دی جا رہی ہے کہ اب تمہارا نمبر بھی قریب ہے، کیپ ٹاؤن کا شمار براعظم افریقہ کے متمول ترین شہروں میں ہوتا ہے اور جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ اسی شہر میں قائم ہے۔ دنیا کے کئی کھرب پتیوں کی یہاں املاک کا تصور نہیں کیا جا سکتا، نیلا بحر اوقیانوس مٹیالے بحر ہند سے کیپ ٹاؤن کے کناروں پر ہی گلے ملتا ہے تو وادی ء دل اطمینان افروز ماحول میں بدل جاتی ہے، یہاں بھی دو طبقات ہیں اور پینتالیس لاکھ کی آبادی تقسیم ہو چکی ہے، خادم اور مخدوم میں جو مخدوم ہیں وہ بہت زیادہ ہی مخدوم ہیں ان کے رنگ صاف اور تمتماتے ہوئے ہیں زندگی سہولت اور آسانی کے گرد طواف کر رہی ہے سایہ دار اور ثمر بار درختوں کی بہتات کوچہ و بازار میں بھی تازگی اور فرحت و مسرت کی لہروں میں محسوس ہوتی ہے فارم ہاؤسز، کارپوریٹ بزنس اور پارٹیاں باہم منسلک ہیں شہر کے اسی فیصد آبی ذخائر بیس فیصد مخدوموں کے زیر تسلط ہیں، اور بقیہ پر خدام کی گزر بسر ہو رہی ہے دس سال پہلے WET کے اراکین اورماہرین کی طرح کیپ ٹاؤن کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ فزوں تر آبادی کا سیلاب کیپ ٹاؤن کی مجموعی کارکردگی کے حسن و جمال کو ماند کر دے گا اور کیپ ٹاؤن کو ناقابل رہائش بنا دے گا اور اس وقت دور تک دیکھنے والی نگاہ کا مذاق اڑایا گیا اور لوگ ہنس رہے تھے کہ یہ ماہرین ہیں یا پاگلوں جیسی باتیں کرنے والے فضول لوگ ہیں، ان کا ہنسنا بنتا تھا کیونکہ ان کے سامنے شہر کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لیے قرب و جوار میں چھ بڑے ڈیموں کے ذخائر میں ہر وقت پچیس ارب گیلن پانی جمع رہتا تھا اور تالابوں میں پانی بدل کر تازہ پانی لبالب بھر جاتا تھا کوئی دقت نہ تھا کتوں کو نہلانا دن میں دو دفعہ یہ معمول تو عام تھا کاریں روزانہ دھوئی جاتی تھیں اور باغباں آبی ذخائر کا خود مختار بادشاہ تھا، اب آپ کیپ ٹاؤن شہر کو زوال پذیر معاشرے میں بدلتے ہوئے دیکھ کر اپنے ماہرین کی باتوں کو مذاق سمجھ کر نہ ھنسنا، پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ خشک سالی آ گئی، آبی ذخائر بھرنے والے پہاڑی، نیم پہاڑی اور میدانی نالوں کی زبانیں خشک ہو گئیں اور منہ سے باہر آ گئیں پھر دھیرے دھیرے پچھلے برس اگست سے آبی قلت کیپ ٹاؤن کے ہر طبقے کو کھانے لگی اور دسمبر تک یہ آبی ایمرجنسی آبی جارحیت میں بدل گئی اور آج حالت یہ ہے کہ کیپ ٹاؤن کا حلق تر رکھنے والے چھ بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح چوبیس فیصد رہ گئی ہے۔ اب کیپ ٹاؤن کی حالت یہ ہے کہ دس فیصد تک جب یہ صورت حال ہو گی تو پانی کیچڑ میں بدل جائے گا اور کیچڑ سے فلٹرز کیا ہوا گدلا پانی ہی حیات انسانی کی شمع فروزاں رکھے گا اور اس وقت کیپ ٹاؤن میں آبی مارشل لاء نافذ ہے کہ بوند بوند کو بچاؤ زندگی کی سانسیں بحال رکھو، آبی ذخائر کے قریب آبی لوٹ مار کا بازار گرم ہے چھینا جھپٹی اور سرکہ بالجبر روکنے کے لیے مقامی پولیس کا اینٹی واٹر کرائم پٹرول متحرک ہے۔
غرباء کو پانی کی فراہمی کے لیئے دو سو ہنگامی آبی مراکز قائم کیئے گئے ہیں جہاں سے پچاس لیٹر روزانہ فی خاندان راشن حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ پانی آٹھ منٹ تک باتھ شاور سے گرنے والے پانی کے برابر ہے، سوئمنگ پول، باغبانی اور گاڑیوں کا ”غسل“ قابل دست اندازی پولیس جرم ہے فائیو سٹار ریسٹورنٹس پیپر کراکری استعمال کر رہے ہیں بہترین ہوٹلوں میں دو منٹ بعد شاور خود بخود بند ہو جاتا ہے اور یہ بحران سنگین ترین ہو گیا ہے اور ڈے زیرو پر چلا گیا ہے ڈے زیرو کا مطلب ہے استعمال کے پانی کی نایابی۔ حکومت ابھی سے ڈے زیرو سے نمٹنے کی تیاری کر چکی ہے کیپ ٹاؤن دنیا کا پہلا ڈے زیرو شہر بن رہا ہے میرے خیال میں تو بن گیا ہے اس کے بعد بھارت کا آئی ٹی کیپٹل بنگلور اور پاکستان کا روشنیوں کا شہر کراچی اور زندہ دلان لاہور جو ماہرین کی دورس نگاہ پر واہ واہ کر رہے ہیں اور گہرائی تک نہیں پہنچ رہے۔
میری سیاستدانوں، برقی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں، سوشل میڈیا سے درخواست ہے کہ ابلاغ عامہ کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کی توجہ مبذول کرائی جائے کہ مہنگائی کا رونا رونے والے کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک وائرس آبی کمیابی اور نایابی ہے، ہمسایہ ملک کی آبی جارحیت اور بد نیتی کے سامنے ہمیں اپنے ماہرین واٹر انوائرمنٹ اینڈ ٹورزم کے اراکین کی بات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، پانی کی بوند کو بھی ضائع نہ کرو واٹر انوائرمنٹ اینڈ ٹورزم کے چئیرمن اور ان کی پوری ٹیم کا درد میں ڈوبا ہوا پیغام وزیراعظم عمران خان تک پہنچانے میں مدد کریں، یہ وہ عملی ٹیم ہے جس سے بھلائی کے کام اس طرح سرزد ہوتے ہیں جس طرح آسمان سے بارش برستی ہے آج ہم سب پاکستانیوں کو اس نازک ترین اور حساس ترین حالات کا ادراک اور احساس کرنا چاہتے اور پانی کی بچت کے لئیے عطا آباد جھیل کے پانی کو محفوظ کر کے شہروں کو آبی قلت سے بچائیں، وزیراعظم عمران خان سے تو میں خود ذاتی طور پر صرف یہی کہوں گی۔
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکائتیں
تیرے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
واٹر انوائرمنٹ اینڈ ٹورزم کی پوری ٹیم تنقید کو پسند کرتی ہے اس لیئے ان کا سفر بہتری کی طرف رواں دواں ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ قافلہ ء نو بہار اپنی منزل مراد تک پہنچ کر دم لے گا اور دنیا جان لے گی کہ خوشحال معاشرے کے افق پر خوشحالی کا سورج کیونکر طلوع ہوتاہے۔
(کالم نگار معروف شاعرہ، سیاسی
وسماجی موضوعات پر لکھتی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain