تازہ تر ین

راجہ فاروق حیدرکا دوسرامتعصبانہ بیان

اسرار ایوب
راجہ فاروق حیدرخان نے آزادکشمیرکے حالیہ انتخابات میں اپنی بدترین شکست کی پاداش میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی طرح آزادکشمیر کے لوگوں کو بھی غلام قرار دے دیا،(خدا کی پناہ)خود غرضی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے؟ ویسے اس طرح کا ”کارنامہ“ وہ ایک مرتبہ پہلے بھی انجام دے چکے ہیں جب انہوں نے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا پانامہ لیکس والا فیصلہ آنے کے بعد آزادکشمیر کے تمام سابق وزراء اعظم کو اس اعتبار سے پیچھے چھوڑ دیا تھاکہ دیگر تو اپنے اور عزیز و اقارب کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مسئلہ کشمیر کو استعمال کرتے رہے لیکن موصوف نے یہ ”ہتھیار“ وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی فیملی کی کرپشن کو بچانے کے لئے استعمال کیا اوراس ضمن میں نظریہ ء الحاق پاکستان پر نظر ثانی کی دھمکی تک دے ڈالی،وہ بھی اس انداز میں کہ عمران خان کی جانب سے(میاں صاحب کے خلاف) منظرِ عام پر لائے گئے ثبوتوں کے جواب میں راجہ صاحب نے(اور تو اور) کپتان کے زیربازوکے بال دیکھ کر (میاں صاحب کی حمایت میں)ان پر غیر شرعی شخص ہونے کا الزام بھی عائد کر دیا،سچ کہتے ہیں کہ انسان گرنے پر آئے تو کسی حد تک بھی گر سکتا ہے؟
تو میں نے لکھا تھا کہ کاش راجہ فاروق حیدر خان یہ ”خود کش جیکٹ“اس وقت پہن لیتے جب ان کے قائد میاں نواز شریف مظلوم و مجبور کشمیریوں کی داد رسی کے لئے قائم کی گئی ”کشمیر کمیٹی“کے چیئرمین کا عہدہ سیاسی رشوت کے طور پر تقسیم کر رہے تھے۔ مسئلہ کشمیر اور لٹے پھٹے کشمیریوں کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا تھاکہ(گیلانی صاحب سمیت کم و بیش تمام حریت قائدین کی امنگوں کے خلاف) مولانا فضل الرحمان جیسی شہرت کے حامل شخص کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین لگایا جائے وہ بھی ایک سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں؟ یاوزیرِ اعظم آزادکشمیر یہ اعلانِ جنگ اس وقت کرتے جب نواز شریف صاحب انہیں ان کے آئینی اختیارات کے جائز استعمال سے بھی روک رہے تھے،شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے راجہ فاروق حیدر کو وفاقی سطح پر قائم کی گئی ن لیگ کی ایک کمیٹی کے ماتحت کام کرنا پڑتا تھا؟ یا راجہ فاروق حیدر خان یہ خود کش حملہ آزادکشمیرمیں گڈ گورننس کے لئے کرتے،جس کا حال یہ ہے کہ آزادکشمیر کی آبادی ضلع پنڈی کی آبادی سے بھی کم ہے لیکن اس کے 10اضلاع بنا دیے گئے ہیں جن میں ایک ضلع تو ایسا بھی ہے جس کی آبادی فقط ایک لاکھ ہے۔اس پر ستم یہ کہ اس ضلع نما ریاست کے انتظام و انصرام پراُس وقت ایک صدر ایک وزیرِ اعظم،ایک پوری کی پوری کابینہ،22سیکریٹری،24سربراہانِ محکمہ جات اور بے شماردیگر افسران مامور تھے(اب یہ تعدادغالباً اس سے بھی زیادہ ہوگی)، بجٹ کا 84فیصد حصہ غیر ترقیاتی اخراجات پر مشتمل تھا،خزانہ سرکار کا حال یہ تھا کہ اربوں روپئے کی ”اوور ڈرافٹنگ“کی جا چکی تھی لیکن عیاشیاں تھیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتیں تھیں،اگر آپ مظفرآباد چلے جائیں تو سبز نمبر پلیٹ والی پراڈوگاڑیاں اتنی نظر آئیں گی جتنی خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوں گی، خو د راجہ صاحب کی اہلیہ اورتمام بچوں کے پاس اپنی اپنی سرکاری گاڑیاں ہیں۔راجہ صاحب ”بیڈ گورننس“کی تمام تر ذمہ داری سابق وزیرِ اعظم آزادکشمیر چوھدری مجید پر ڈالتے تھے لیکن دوسری طرف چوھدری صاحب کے لئے ”فرنٹ مین“کا کام کرنے والے بیوروکریٹس ان کی اپنی آنکھ کا تارا بھی بنے رہے جن میں ایک ایسا بھی ہے کہ جس کے خلاف باقاعدہ طور پر کی گئی انکوائری رپورٹ، تادیبی کاروائی کی سفارشات کے ساتھ راجہ صاحب کے پاس پہنچی تو انہوں نے اسے کمشنر کے عہدے سے ترقی دے کر کے سیکریٹری لگا دیا وہ بھی ایسے محکمے کا جس کے دائرہ کار میں ”سی پیک“بھی آتا تھا۔اس حوالے سے جناح ٹاؤن میرپور کے مشہور و معروف کرپشن کیس میں 30کروڑ روپئے سے زائد خلاف ِ ضابطہ پیشگی ادائیگی کرنے کامعاملہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں تھا۔”بائی دی وے“ فاروق حیدر نے متزکرہ خود کش حملہ دراصل نواز شریف کے قریب آنے کے لئے اس ڈر کی وجہ سے کیا تھاکہ کہیں میاں صاحب مشتاق منہاس کو ان کی جگہ نہ لے آئیں۔
بہرطور اب راجہ صاحب ایک مرتبہ پھر خود کش جیکٹ پہن کر منظرِ عام پر آگئے ہیں، تو گزارش یہ ہے کہ ”راجہ فاروق حیدر کوکشمیریوں کی غلامی“الیکشن میں ہارنے کے بعد ہی کیوں نظر آئی، 20برس اقتدارکے مزے لوٹتے ہوئے کیوں یاد نہیں آئی؟ ”پی ٹی آئی“کی جیت تو روزِ روشن کی طرح عیاں تھی، کون نہیں جانتا کہ آزادکشمیر میں وہی جماعت جیتتی ہے جس کی حکومت وفاق میں ہوتی ہے، پچھلی مرتبہ بھی تو ایسے ہی ہوا تھالیکن اُس وقت آپ کو وفاقی حکومت کی مداخلت دکھائی نہیں دے رہی تھی کیونکہ وہ آپ کے حق میں ہو رہی تھی اور اس کے طفیل آپ کو ”لینڈ سلائیڈ“وکٹری ملنی تھی؟
غلام آزادکشمیر کے لوگ نہیں بلکہ راجہ فاروق حیدر جیسے حکمران ہیں جو ذاتی مفادات کے حصول میں قومی مفادات تک کی پرواہ نہیں کرتے، جو اقتدار کی اندھی ہوس میں یہ تک بھول جاتے ہیں کہ وہ طویل عرصے سے جس قانون ساز اسمبلی کا حصہ ہیں اُس نے اسمبلی ممبران کے حق میں پنشن دیے جانے کا شرمناک قانون بھی پاس کر رکھا ہے۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ یہ قانون آزادکشمیر میں 2005کا قیامت خیز زلزلہ آنے کے دوچار مہینے بعد ہی پاس کیا گیا جب زلزلہ زدگان ابھی اپنی بربادی کا ملبہ تک نہیں سمیٹ سکے تھے۔یہی نہیں بلکہ اس بل کو پاس کرتے وقت مقبوضہ کشمیر کی اُس اسمبلی کو بطور نظیرپیش کیا گیا جسے کٹھ پتلی کہہ کر پکارا جاتا ہے، یہ قانون بھی راجہ فاروق حیدر ہی کی جماعت نے پیش کیا تھا، ایسی مادر پدر آزادی دنیا میں کیاکہیں اور بھی کسی کو میسر ہوئی ہے؟ پھر بھی کہتے ہیں کہ آزادکشمیر کے لوگ غلام ہیں؟
وزیرِ اعظم آزادکشمیر کو پہلے بھی یہ مشورہ دیا تھا اور آج بھی یہی مشورہ دوں گا کہ تعصب کی عینک اتار دیں اور اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے ہوئے پوری قوم سے فوری طور پرمعافی مانگ لیں بصورتِ دیگر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain