تازہ تر ین

کتابیں بند الماریوں سے جھانکتی رہتی ہیں

میم سین بٹ
عوامی لائبریریوں کے زمانے میں کتابیں بہت زیادہ پڑھی جاتی تھیں جاسوسی ناول نگار ابن صفی کی زندگی میں لائبریریوں کا کاروبار عروج پر رہا تھابلکہ اشتیاق احمد کے دور میں بھی عوامی لائبریریاں خاصی حد تک چلتی رہی تھیں ان کی وفات کے بعد عوامی لائبریریوں کو زوال آنا شروع ہوگیا تھا اور پھرکمپیوٹر سمیت سوشل میڈیا کے استعمال نے لوگوں کو کاغذ پر چھپی کتاب اور ہاتھ میں تھام کر لکھنے والے قلم سے دورکردیا۔ لاہور میں ہمارا معمول رہا ہے کہ ہم رات کے وقت لاہورپریس کلب کی لائبریری میں بیٹھتے ہیں جہاں کی الماریوں میں سجی کتابیں ہمیں گھورتی رہتی ہیں اور ہمیں اکثرگلزارکی نظم یاد آتی رہتی ہے۔۔۔
کتابیں جھانکتی رہتی ہیں
بند الماریوں کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی رہتی ہیں
مہینوں اب ملاقات نہیں ہوتی
ان دنوں ساون بھادوں کے دن ہیں جوشاعروں کو بہت پسندہیں مگر ہمیں یہ موسم اچھا نہیں لگتا اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم شاعر نہیں ہیں البتہ دوسروں کی شاعری پڑھ لیتے ہیں۔گلوکاروں کی گائی ہوئی غزلیں اورگیت بھی سن لیتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں کہ اردو زبان کو شاعری نے ہی بچا رکھا ہے ورنہ یہ زبان کب کی اینگلو اردو بن چکی ہوتی ہمارے بعض نثرنگارتو اسے اینگلو اردو بنانے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں۔پنجابی زبان کو بھی صوفی شعراء کی کلاسیکی شاعری اوردیہات کے مکینوں نے زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ شہروں میں توزیادہ تر پڑھے لکھے گھرانے پنجابی زبان کو داغ مفارقت ہی دیتے جارہے ہیں۔ہم نثر زیادہ اورشاعری کم پڑھتے ہیں تاہم عیدکی چھٹیوں میں نثرکی ایک اور شاعری کی تین کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔
معروف شاعر مسعودمنورکی نظموں،ڈھولوں اورگیتوں کے مجموعہ ”دل مالا“ کا دوسرا ایڈیشن ملٹی میڈیا افیئرز شام نگر چوبرجی لاہور کے تحت اظہرغوری نے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے جس کا سرورق رضوان شفیق چوہدری نے تیار کیا جبکہ انتساب شاعر نے اہلیہ فائزہ کے نام کیا ”خودکلامی“ میں مسعود منورلکھتے ہیں کہ عمرکے 72 ویں سال مجھ سے پوچھا جارہا ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں کا رہنے والا ہوں؟ میں پنجابی ہوں،بار کا رہنے والا،گاؤں کا گنوار ہوں،چناب کنارے آنکھ کھولی،لہروں کے سنگیت سے بولنا سیکھا،میرے اندر بھی کچے مکان،کھلے دالان، برآمدے،بھڑولے اور چوپال وغیرہ پائے جاتے ہیں،میرے سینے میں ہل چلے ہوئے کھیت اورکھیتوں میں ہل کی کھنچی لکیریں ہیں،میں نے نظمیں لکھی ہیں اور یہ نظمیں میرا شجرہ ہے۔ میں شجرہ لئے یورپ سے امریکہ تک ہر جگہ اردو بولنے،پڑھنے اور سمجھنے والوں سے رابطے میں ہوں! مسعود منور کی نظم ”محبت نامہ“ کے دوشعر ہیں۔۔۔
میں برہنہ ہوں،کوئی ماسک پہنا ہی نہیں
اکیلا ہوں،مجھے لوگوں میں رہنا ہی نہیں
مفلس ونادار ہوں، لپٹا ہوں کلیم فقر میں
ماسک،میک اپ کیا،میراکوئی گہنا ہی نہیں
فرحت صدیقی فیصل آبادمیں مقیم معروف شاعرہ اورافسانہ وسفرنامہ نگار ہیں،ان کا سفرنامہ ”پانی کا پھول“ کہانیوں کے مجموعے لمحات کی دستک، مہندی کی آنچ اور اس کی آنکھیں کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں جبکہ ان کا شعری مجموعہ ”یاد کے آنسو“ اکائی پبلشرز کے تحت شہزاد بیگ نے شائع کیا جس کا انتساب شاعرہ نے آرمی پبلک سکول پشار کے شہید بچوں کے نام کیا ہے،کتاب میں شامل فرحت صدیقی کی بیشترنظمیں مختلف سانحات کے حوالے سے کہے جانے والے نوحے ہیں جو ان جیسی حساس دل شاعرہ ہی تخلیق کرسکتی تھیں، دکھ،تنہائی اور اداسی کے رنگ واقعی ان کی تحریروں میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں،ڈاکٹر شبیر احمد قادری نے نظموں پر اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے فرحت صدیقی سے اچھی نظمیں کوئی لکھ ہی نہیں سکتا،شہزاد بیگ نے ان نظموں کو دکھی ماں کا نوحہ قراردیا ہے جو عرش کو بھی پکارتی ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب برہم کا شعری مجموعہ ”زرد پتے“ کے نام سے چھپا ہے جس میں ان کی غزلیں، نظمیں، قطعات اور متفرق اشعار شامل ہیں،شاعر نے کتاب کاپیش لفظ بھی خود تحریرکیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ غزلیں ان پر ترنم کے ساتھ اترتی ہیں اور اس میں ان کا کوئی کمال نہیں انہوں نے کاروبار میں ہمیشہ نقصان اٹھایا،صحافت نے بھی فقر کے علاوہ کچھ نہ دیا شاید شاعری بھی ناکامی کی ایک اور داستان رقم کردے! ڈاکٹر آفتاب رانجھا برہم نے لعل شہباز قلندر کے کلام کا اردو ترجمہ بھی کیا ان کے دو اشعار ہیں۔۔۔
چلے آؤجاناں توکہ جانبازوں کی محفل میں
میں صد سامان رسوائی لئے بازار ہوں رقصاں
میں ہوں عثمان مروندی اورمیرا یارہے منصور
ملامت مجھ پردنیاکی اورتختہ دارہوں رقصاں
ریڈکراس اور انسانیت سید عارف نوناری کی تصنیف ہے جو فلاحی سرکاری ادارے ہلال احمر میں منیجر شعبہ تعلقات عامہ تعینات رہ چکے ہیں انہوں نے ”ریڈ کراس اور انسانیت“ میں ہلال احمر کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں یہ اس موضوع پر اردو میں چھپنے والی پہلی کتاب کااعزاز رکھتی ہے جسے کانٹی نیٹل سٹار پبلشرز اردوبازار لاہورکے تحت عابد احسان نے شائع کیا، کتاب کا انتساب عارف نوناری نے اپنے دوست مرزا امجد علی کے علاوہ اپنے بچوں عبدالرحمان گیلانی، عبداللہ گیلانی، محمد احمد گیلونی اور فاطمہ گیلانی کے نام کیا ہے،سابق چیئرمین ہلال احمر پاکستان ڈاکٹر سعید الٰہی نے کتاب کو قابل ستائش قراردیا ہے اس سے قبل سیدعارف نوناری کی طنزومزاح پرکتاب ”غن پوائنٹ“ اورکالموں کا مجموعہ ”چیئرنگ کراس“ کے علاوہ اردو صحافت پر ”جدید صحافت“ کے عنوان سے بھی شائع ہوچکی ہے جبکہ آبائی ضلع نارورال کے حوالے سے ان کی تحقیقی کتاب عنقریب شائع ہوگی۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain