تازہ تر ین

ہم نے جمہوریت کے ساتھ کیا کیاہے

وزیر احمد جوگیزئی
کسی بھی ملک کا آئین کبھی حرف آخر نہیں ہو ا کرتا ہے اور بذریعہ ترامیم مختلف اوقات میں اس میں قائدے اور قانون کے مطابق تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔لیکن جب بھی آئین میں ترمیم کی جاتی ہے یا پھر کوئی بھی نیا عام قانون بنانا ہو تو اس حوالے سے آئین میں ہی جو طریقہ کا ر دیا گیا ہے اسی پر عمل درآمد نہ کیا جائے تو جمہوری حکومت اس صورت میں ناکامی کی منزل کی طرف اچھی خاصی رفتار سے پہنچ جاتی ہے۔1947ء سے لے کر 1953ء تک کا زمانہ وہ تھا جب پاکستان کو آئین مل جانا چاہیے تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا،اور پھر جب خفیہ ہاتھوں نے راتوں رات مسلم لیگ کو رپبلکن پارٹی میں تبدیل کر دیاتو اس کے بعد 1956ء میں پاکستان کو اپنا پہلا آئین ملا۔آئین چاہے کو ئی بھی کیوں نہ ہو اچھا یا برا نہیں ہو تا ہے۔اس پر عمل نہ کرنا برا ہوتا ہے۔ہر آئین پر عمل درآمد کرنے کا ایک طریقہ کار بھی ہو تا ہے اور جب اس طریقہ کار پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے تو پھر بگاڑ پیدا ہو تا ہے۔اور بگاڑ بھی اس قسم کا ہو تا ہے جو کہ بظاہر نظر نہیں آتا لیکن اس بگاڑ کے اثرات کچھ عرصے کے بعد سب پر عیاں ہو جاتے ہیں۔ 1956ء کا آئین 1958ء کے مارشل لا کی نظر ہو گیا۔اور پاکستان میں ایک مارشل لاتو لگا نہیں کئی مارشل لالگے ہیں اور ہر مارشل لا کی اپنی ایک کہانی ہے اور ان ادوار پر نظر ڈالنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے،یکے بعد دیگرے مارشل لاء لگنے سے اس ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس ملک کی جڑیں اندر ہی اندر سے کھوکھلی ہو تی رہیں اور اسی وجہ سے ملک دولخت ہو گیا۔اور اس کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 1973ء کا آئین سوائے چند جماعتوں کے متفقہ طوراسمبلی سے منظور ہوا۔ میری نظر میں کسی بھی ملک کا آئین اس ملک کے باشندوں کی نظر میں اتنا ہی اہم ہونا چاہیے جتنا کہ کسی مذہب کے ماننے والوں کے لیے اس مذہب کی کتاب اہم ہو تی ہے۔(نوٹ:یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔ ادارہ)
آئین کی بھی اسی طرح عزت کی جانی چاہیے جس طرح کہ مذہب کے ماننے والے پیروکار اپنی کتاب کی عزت کرتے ہیں۔لیکن ہمارے ملک میں مارشل لا کے دور میں آئین میں 8ویں ترمیم کرکے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا آئین میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں جو کہ آئین کی روح سے متصادم تھیں۔اور جو تھوڑا بہت اصل آئین بچا تھا وہ بھی اور جو کسر رہ گئی تھی وہ مشرف دور میں آئین میں سترھویں ویں ترمیم کرکے پوری کر دی گئی۔اب سوچنے کی بات ہے کہ اس آئین کو اپنی اصل حالت میں 7ویں ترمیم والے سٹیج پر ایک بار پھر لے جانے کی ضرورت ہے اور آئین میں سے 8ویں اور سترھویں ویں آئینی ترامیم یکسر طور پر نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے اور اس صورت میں پارلیمان میں ارکان کی تعداد سمیت کئی چیزوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے لیڈران میں دل گردہ ہے تو ملک میں پارلیمان کا پہیہ دوبارہ وہیں سے شروع کیا جائے جہاں سے 77ء میں ٹوٹا تھا۔77ء میں غالباً قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 200تھی اور سینیٹ کے ارکان کی تعداد 40سے 50ہوا کرتی تھی۔اسی صورت میں ملک میں پارلیمانی جمہوریت میں ایک مرتبہ پھر جان ڈالی جاسکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نظام عدل میں بھی واضح طور پر بہتری لانے کی ضرورت ہے۔جہاں پر ہمارے نظام میں قانون سازی کے حوالے سے کمزوریاں ہیں وہیں پر نظام عدل میں بھی کمزوریاں موجود ہیں۔اور جتنی کمزوریاں عدلیہ میں موجود ہیں اتنی ہی کمزوریاں انتظامیہ میں بھی موجود ہیں،پاکستان کے بننے کے بعد سے 70سال سے زائد کے عرصے کے دوران،نظام کا جو ہدف رہا ہے وہ یا تو صرف اور صرف سیاست دان رہے ہیں یا پھر انتظامیہ رہی ہے جو کہ مسلسل اصلاحات کی زد میں رہے ہیں۔سول سروس وہ کلاس ہے جو کہ صرف اور صرف اپنی اہلیت کی بنیاد پر اس مقام پر پہنچتی ہے۔لہذا وہ کسی کی مرہون منت نہیں ہوا کرتی ہے۔حتیٰ کہ پبلک سروس کمیشن کے بھی نہیں۔سول سروس افسران کی تربیت نہایت ہی ضروری ہے تاکہ یہ افسران فیلڈ میں جاکر ہر طرح کے حالات میں حکومت کی معاونت کر سکیں۔اور حکومت کے مدد گار ثابت ہوں لیکن ایسا نہیں ہے ایک عرصے سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ انتظامیہ کو سیاست دان اپنے ماتحت کرنا چاہتے ہیں جو کہ سراسر غلط فعل ہے۔اور ہمارے معاشرے میں زیادہ بگاڑ اسی لیے پیدا ہو ا ہے کہ ایگز یکٹو اگر کسی بھی خوف اور خطرے سے بالا تر ہو کر کام کرے تب ہی وہ صحیح معنوں میں ملک اور قوم کے کام آسکے گی۔
انتظامیہ کے بلا خوف اور خطر کام کرنے سے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ابلا غیات کا بھی اچھی طرز حکمرانی کے اندر ایک اہم ترین مقام ہو ا کرتا ہے اس کے بغیر بھی اچھی حکومت کرنا ممکن نہیں ہے،ہمارے ملک میں ابلا غیات اور حکمرانوں کے درمیان ہمیشہ تعلقات ایک جیسے نہیں رہے ہیں اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں۔کسی صورت میں بھی ایک مہذب ملک میں ابلا غیات پر قدغن نہیں ہو نی چاہیے۔ما سوائے اس قدغن کے جو کہ میڈیا خود اپنے آپ پر نافذ کرے۔کوئی بھی اچھا معاشرہ اچھے نظام عدل،اچھی انتظامیہ اور اچھے میڈیا کے بغیر مضبوط نہیں ہو سکتا ہے۔اور نہ ہی بن سکتا ہے۔اس لیے موجودہ سیاست دان چاہے وہ سیاست میں ان ہیں یا آ ؤٹ ان کو چاہیے کہ اپنے پیغام کو نہایت ہی جامع انداز میں اور نہایت ہی اختصار کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچائیں۔عوام کو یہ بتائیں کہ وہ پاکستان کو کیا بنانا چاہتے ہیں،کیونکہ پاکستان بہر حال بنا تو اسلامی دنیا میں جمہوریت کے فروغ کے ہی لیے تھا۔اور اس بات پر بھی سر جوڑ کر بیٹھنے اور نہایت ہی تحمل اور ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اس ملک میں جمہوریت کے ساتھ آخر کیا کیا ہے؟
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain