تازہ تر ین

بین المذاہب مکالمہ

بازآ۔۔بازآ۔۔ہرآنچہ ہستی بازآ۔۔
گرکافرو۔گبر۔و بت پرستی بازآ۔۔
ایں درگہ ما۔۔ درگہ نومیدی نیست۔۔
صد بار اگرتوبہ شکستی۔۔باز آ۔۔
ترجمہ:’’ واپس آجا۔۔توواپس آجا۔۔توجوکوئی بھی ہے واپس آجا۔۔اگر کافر اوربت پرست بھی ہے توواپس آجا۔۔ہماری یہ درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیں ۔۔اگر تو سو باربھی توبہ توڑ چکا ہے ،پھر بھی واپس آجا۔۔‘‘
ابوسعید ابولخیر کے یہ اشعار حضرت جلال الدین رومی کے مزارکے صدر دروازے پر کنُدہ ہیں اور ڈاکٹر نعیم گھمن نے مہناج یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیجنز (Religions)کانفرنس میں شرکت کے بعد نقل کیے ہیں۔پروفیسر نعیم گھمن دو کتابوں کے مصنف اورگورنمنٹ شالیمارکالج لاہور میں اردو ادب کے استاد اور گہری شخصیت کے مالک ہیں ۔ان سے کوئی بائیس سال کے بعد اسی کانفرنس میں ملاقات ہوئی ۔ ایسے وقت میں جب یہ تاثر عام کہ دنیا میں خون خرابے اور فساد کی وجہ مختلف مذاہب میں ٹکراؤ اور تہذیبوںکا تصادم ہے ،بین المذاہب مکالمے کے لیے مہناج یونیورسٹی کی یہ انٹرنیشنل کانفرنس ایسا اہم ایونٹ بن گیا جس نے دنیا میں پائے جانے والے درجنوں مذاہب کے جید اسکالرزکو ایک جگہ جمع کرکے ایک دوسرے کو سننے ،سمجھنے اور پڑھنے کا موقع فراہم کردیا۔
منہاج القرآن کے ڈائریکٹر پی آر شہزاد رسول قادری کی طرف سے اس چھٹی انٹرنیشنل بین المذاہب کانفرنس کا دعوت نامہ ملا تو میں فلسطین میں شہید ہونے والے بچوں کی لسٹ ان کی عمریں اور نام دیکھ رہاتھا۔جب اسرائیل مذہب کے نام پربے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہاہے بین المذاہب مکالمے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔دوروزہ انٹرنیشنل مذاہب کانفرنس کا اہتمام ٹاؤن شپ میں واقع مہناج یونیورسٹی میں کیا گیا تھا۔اس کانفرنس میں دنیا کے تمام بڑے اور فعال مذاہب کے اہم ریسرچ اسکالرزشریک تھے۔ آسٹریا، برطانیہ،نیپال،امریکا،سری لنکا ،نائیجیریا،بھارتی پنجاب اور پاکستان سے۔مسیحیت،یہودی،سکھ،ہندو،بدھ مت،جین،سادھو اور اسلامی مندوبین کی کثیر تعداد شریک تھی۔اس کانفرنس کی صدارت ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز مہناج یونیورسٹی ڈاکٹر حسین محی الدین کررہے تھے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے چار عشرے قبل لگایا گیا یہ تعلیمی پودہ اب انٹرنیشنل یونیورسٹی کی شکل میں ایک تناوردرخت بن چکا ہے جس کی چھاؤں دوردورتک پھیل رہی ہے اور ماڈرن علوم میں ریسرچ سے نوجوان استفادہ کررہے ہیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین نے دنیا بھر سے کانفرنس میں شریک مہمانوں کو یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں جاری تحقیقی کاموں کے حوالے سے خود بریف کیا۔اس بین المذاہب مکالمے کا اہتمام سکول آف ریلیجٗس اسٹیڈیز نے کیا تھا۔
حضور اکرم ﷺ نے اپنی امت کے اختلاف کورحمت قراردیا لیکن ہم نے اس اختلاف کو مخالفت میں بدل کر زحمت بنادیاہے۔عدم برداشت ہمارے معاشرے کو کھائے جارہی ہے۔تقسیم نے ہماری روزمرہ زندگی کا حلہ ہی بگاڑ دیا ہے ۔دنیا میں اگر لوگ مذہبی بنیادوں پر دست وگریباں ہیں تو ہم یہاں فرقوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی گردنیں ناپنے میں مصروف ہوگئے ہیں ۔دنیامیں اس وقت نوے فیصد افراد کسی نہ کسی مذہب پیروکار ہیں۔مذہب کوئی بھی ہو ۔اسلام ہو، عیسائیت ہو، بدھ ازم ہو یا یہودیت ہو، تمام مذاہب میں بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ ایک تو دنیا کا کوئی مذہب بھی تشدد کی نہ تبلیغ کرتاہے ۔نہ تشدد کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔دوسرا تمام مذاہب ایک دوسرے کو جوڑنے کا درس دیتے ہیں۔ برائی سے روکتے اور اچھائی کا پیغام دیتے ہیں۔ اس کانفرنس میں اس عدم تشدد اورایک دوسرے کو برداشت کرنے کا عملی نمونہ دیکھنے کو ملا۔خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب اسی کانفرنس کے اسٹیج سے یہودی مذہبی رہنماوں نے اسرائیل کی طرف سے جاری جارحیت کی مذمت اور فلسطینی بچوں اورشہدا سے یک جہتی کا اظہار کردیا۔شرکا نے کہا کہ یہودی ازم تو ایک طرف کوئی بھی مذہب جنگ اور پھر اس میں بے گناہوں کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔اسلام میں جنگ کے دوران خواتین اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ حضوراکرم ﷺ نے تو جنگ کے دوران درختوں اور پودوں تک کو نقصان پہنچانے کی ممانعت فرمائی ہے ۔
کانفرنس کے ایک سیشن کے مہمان خصوصی نگران وفاقی وزیربرائے سیاحت جناب وصی شاہ تھے انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عام تاثر یہ ہے کہ مذہبی حلقے انسانیت کو زمانہ غار کی طرف دھکیل رہے ہیں لیکن یہاں اس کانفرنس میں شرکاکی گفتگو عملی طورپراس تاثر کی یکسرنفی کرتی ہے۔کانفرنس کے اختتامی سیشن کے مہمان خصوصی سیکریٹری مذہبی امور پنجاب طاہر بخاری تھے ۔انہوں نے دنیا بھر میں قیام امن کے لیے اسلام کے خانقاہی نظام کو زندہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔اس عظیم الشان کانفرنس میں آخری خطاب آرچ بشپ لاہورسبسٹین فرانسس نے کیا۔ انہوں نے کمال کی بات کی کہ جب ہم اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ اگر کوئی تم سے لڑائی کرے توتم اس کو اسی طر ح منہ توڑ جواب دے کر گھر آنا تو اس سے ہمارے معاشرے میں سختی بڑھتی جاتی ہے ۔اس سے تشدد کے رجحان کو فروغ ملتا ہے ،انہوں نے کہا کہ ہمارا مذہب اور اس کی تعلیمات ایسی تمام اقسام کے تشدد سے منع کرتی ہیں۔
کانفرنس کے آخرمیں اختتامی دعا کا مرحلہ آیا تو تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو باری باری اسٹیج پر آکر اپنے مذہبی عقیدے اور طریقہ کار کے مطابق دعاکرانے کی دعوت دی گئی ۔شرکا نے ہاتھ اٹھائے اورمسیحی، یہودی،بدھ مت ،ہندو اور سکھ رہنماؤں نے دعا کرائی۔اس دعا میں سب نے مشترکہ طورپردنیا میں امن کی فریاد کی ۔جنگوں کے خاتمے کی دعا کی۔پرامن بقائے باہمی کی بات کی۔ایک دوسرے کے مذاہب کو سمجھنے اور مشترکات کو فروغ دینے کی بات کی۔جب تمام مذاہب کے لوگ یہ دعائیں کررہے تھے تو میں ایک بار پھر تصورمیں فلسطین میں تھا۔مجھے وہاں وہ بچے دکھائی دے رہے تھے جن کا قصور صرف غزہ میں پیدا ہونا ہے۔وہ بچے جنہوں نے نہ ابھی دنیا دیکھی نہ کسی مذہب کی بنیادپرتشدد میں پڑے۔کانفرنس میں جنگ بندی کی دعائیں تھیں تو میں ان شہید بچوں کے چہروں پر پوری انسانیت کے لیے شکوہ دیکھ رہا تھا۔وہ بچے شکایت کناں تھے کہ اگر تمام مذاہب ہی امن کا درس دیتے ہیں کہ توپھر اسرائیل کس مذہب پر کاربند ہے؟یوں یوں انٹرنیشل ریلیجنز کانفرنس اور دعائیں اختتام کی طرف بڑھ رہی تھیں میں فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کاتصورکرکے بے بسی کے سمندرمیں غوطہ زن ہورہا تھا ۔دعاؤںکو سن کر نوابزادنصراللہ خان مرحوم کے یہ اشعار بھی کانوں میں بتدریج بلند ہورہے تھے کہ ۔
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
دوحق وصداقت کی شہادت سرمقتل
اٹھوکہ یہی وقت کافرمان جلی ہے


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain