تازہ تر ین

ماں رخصت ہوئیں تو اپنا غم آغا جی اوربہن بھائیوں سے چھپاتا رہا

قسط نمبر 30
اماں کے دمہ کے عارضے کی صورتحال ایسی تھی کہ انہیں باقاعدگی کے ساتھ طبی توجہ کی ضرورت تھی…. اماں ایوب کی موت کے صدمے کو فراموش نہ کر سکتی تھیں…. وہ آغا جی اور ہمارے سامنے نہ روتی تھیں لیکن میں جانتا تھا کہ وہ کئی راتیں خاموشی سے روتی رہی تھیں اور ان کے آنسو ان کے تکیے میں جذب ہوتے رہے تھے۔
اگست 1948ءکو…. وہ ہمارے درمیان سے رخصت ہو چکی تھیں…. وہ بڑے پرسکون انداز سے زندگی کی ہلچل سے منہ موڑ کر ابدی سکون سے ہمکنار ہو چکی تھیں…. میں نے اپنے دکھ…. درد اور کرب کا اظہار نہ کیا اور میں اسے آغاجی سے اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے اس طرح چھپاتا رہا جس طرح میں نے اس وقت چھپایا تھا جب ایوب صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے…. تمام لوگ انہیں اور آغاجی کو جانتے تھے۔ وہ اس وقت تعزیت کیلئے آئے جب ہم بمبئی واپس لوٹے…. زیادہ غمزدہ وہ غریب لوگ تھے جو پڑوس میں رہتے تھے…. وہ کسی ایسے سوالی کو اپنے در سے خالی نہ جانے دیتی تھیں جو ان کے در پر سوالی بن کر آتا تھا….
ہمارے دھوبی کی بیوی ہماری باقاعدہ ملاقاتی تھی جو اپنے نوجوان بیٹے پیارے لعل کے ساتھ آیا کرتی تھی اور اماں انہیں دے دلا کر رخصت کرتی تھیں…. پیارے لعل نے اپنے والدین سے دھوبی کا کام سیکھا تھا اور اپنے والدین کی وفات کے بعد وہ میرا ذاتی دھوبی بن گیا تھا…. اب اس کی عمر 70برس ہے اور وہ ہمارے گھر میں بطور ماسٹر دھوبی اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے…. وہ میری سفید پتلونیں اور شرٹیں دھونے کے علاوہ سائرہ کے ان خوبصورت ملبوسات کی دھلائی بھی سرانجام دیتا ہے جو وہ زیب تن کرتی ہے۔
میں نے ایک فیٹ کار بھی خریدی تھی۔ (1940ءکے عشرے کے اواخر میں) اگرچہ مجھے اس گاڑی کی زیادہ ضرورت نہ تھی بلکہ میں نے یہ گاڑی اپنی بہنوں کی ضرورت کے پیش نظر خریدی تھی کیونکہ انہیں باہر جانے کیلئے ایک گاڑی کی ضرورت تھی۔
نوشاد میاں کے ساتھ میری ملاقات سنی کے چھوٹے سے دفتر میں ہوئی جہاں اس نے مجھے اختصار کے ساتھ ”میلہ“ کی کہانی سنائی…. اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ ٹائٹل گانا ریکارڈ کر چکے تھے جس کے ساتھ وہ شوٹنگ (عکس بندی) کا آغاز کرنا چاہتے تھے…. یہ میرے لئے کسی قدر نامعقول تھا کہ میں کہانی کی تفصیلات کے بارے میں سوالات کرتا لیکن میں نے سوچا کہ یہ ایک خطرہ ہو سکتا ہے کہ اگر میں کافی زیادہ چھان بین کئے بنا ہی فلم کو قبول کرتا ہوں۔
میں ”ملن“ میں گہرائی کے ساتھ ملوث تھا۔
ہم اس سین (منظر) کی شوٹنگ (عکس بندی) کی تیاری کر رہے تھے جس میں وہ کردار جس کا نام رامیش تھا اس نے ساری رات ریل گاڑی کا سفر طے کیا تھا اور دراناسی پہنچا تھا (اب اترپردیش میں) …. جہاں اس نے اپنی ماں کی فانی باقیات (راکھ) گنگا میں بہانی تھیں…. وہ اپنی ذمہ داری بھاری دل کے ساتھ نبھاتا ہے…. نیتندا نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں نے رامیش کی ذہنی حالت کی بابت اور ریل کے سفر کے دوران اس کے احساس پر سوچ بچارکی تھی۔
”کیا تم تصور نہیں کرتے یہ میری ماں ہے جو راکھ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ میں نے نیتندا کو بے تکلفی کے ساتھ بتایا کہ میں نے اس قدر گہرا تصور نہ کیا تھا کیونکہ اس قدر گہرائی اسکرپٹ میں موجود نہ تھی…. بے شک نیتندا سمجھ چکا تھا لیکن اس نے مجھے ایک گراں قدر درس دیا جو میں نے ذہن نشین کیا…. اس نے مجھے چار تا پانچ صفحات تحریر کرنے کے لئے کہا جس میں مجھے بطور رامیش دوران سفر اپنے احساسات کی وضاحت کرنا تھی…. میں نصف شب تک بیٹھا رہا اور لکھتا رہا اور دوبارہ لکھتا رہا حتیٰ کہ مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوگیا۔ اگلے دن بمبئی میں غوربندر میں ایک لوکیشن پر اس سین (منظر) کی شوٹ (عکس بندی) ہونا تھی۔ اس سین کو فلمایا جانا تھا جبکہ کیمرے نے رول کرنے کا آغاز کیا‘ میں جذباتی انداز سے سین میں تھا اور تجربہ میرے لئے اور نیتندا کےلئے اطمینان بخش تھا۔
اس طرح نیتندا نے میری نوک پلک سنواری۔ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک اچھا سکرپٹ ہمیشہ ایک اداکار کا معاون ثابت ہوتا ہے اور وہ مو¿ثر انداز میں پرفارم کرسکتا ہے لیکن اسکرپٹ سے ماورا ایسے میدان بھی ہوتے ہیں جس کی تحقیق اس اداکار نے سرانجام دینی ہوتی ہے جو مطلوبہ پرفارمنس سے بڑھ کر پرفارمنس دینے کا متمنی ہوتا ہے۔
میں نے نہ صرف یہ سب کچھ ذہن نشین کرلیا تھا اور اپنے کام کے حوالے سے اس پر عمل بھی کرتا رہتا تھا۔
دیویکارانی نے مجھے اور تمام اداکاروں کو مشورہ دیا تھا جن کی وہ بمبئی ٹاکیز میں تقرری کرتی تھی کہ اس وقت تک ریہرسل کرنا ضروری تھا حتیٰ کہ پرفارم کرنے کی اہلیت کی سطح حاصل نہ کرلی جا


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain