تازہ تر ین

سنہری یادیں رفیع خاور نے 391فلموں میں قہقہوں کے چمن آباد کیے

لاہور(شہزاد فراموش)اداسیوں کے پت جھڑ میں خوشیوں ‘ مسکراہٹوں کے بیج بو کرقہقہوں کے چمن سجانے والاحسا س دل ننھا محبوب کی بے وفائی کو اس قدر سنجیدہ لے گیا کہ موت کو گلے لگانا پڑ گیا۔مداحوں کی آنکھیں اس کی المناک موت کی وجہ سے بھیگی ہوئی تھیں ۔وہ جو ”الف نون“ کے ذریعے ہر گھر میں داخل ہوکر ان لوگوںکا حصہ بن گیا تھا اس کی اچانک موت پر کیسے آنسو نہ بہاتے۔ جس نے مسلسل دو دہائیوں ان لوگوں کے آنسوﺅں کو قہقہوں میں بدلا‘وہ ننھا کی موت پر سیلاب بن کر امڈ آئے تھے۔ اتنا حساس ”ننھا“محبوب کی بے رخی برداشت کرنے کا حوصلہ کہاں سے لاتا ۔اس نے تو دل بہت پہلے اسے دیدیا تھا اور اسی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر جان بھی دیدی۔وہ تو معصوم اور بھولا بھالاسا تھا۔اسی بھولپن نے اس کی کامیاب ازدواجی زندگی میں بھونچال برپا کر دیا تھا۔ فلمی دنیا کی اک حسینہ جس کا نام نازلی تھا اس کی زندگی میںایسے داخل ہوئی کہ سیدھی دل میں جا اتری اور پھرننھا کی ازدواجی زندگی بھی بکھر کر رہ گئی ۔ننھا جس طرح جذبات میں آ کرالمیہ اداکاری کے جوہر دکھاتا تھا ‘نازلی کی زلفوں کا اسیر ہو کرحقیقت میں بھی جذباتی نکلا اور اس رقاصہ سے پیار کو حقیقت کا روپ دینے کی کوششوں میںاپنی توانائیاں صرف کرنے لگاتھا۔رقاصہ بھی اس کی زندگی میں اچانک بھونچال نہیں لائی تھی بلکہ وہ تو فلمی دروازے سے داخل ہوئی تھی جہاں نامور لوگوں کے دلوں پر دستک دینے کی ہر نئی لڑکی خواہش ہوتی ہے اور یہ کام کر کے نازلی نے جیت اپنے نام کرلی تھی۔دل فتح کرنے پر ناز کرنے والی نے ننھا کی سوچ اور ہر سانسوں پر بھی دھیرے دھیرے قبضہ کر لیا تھا۔ ایک بھولا بھالا حسن کا پجاری اداکاری کے داﺅ پیچ بھول کر نازلی کے ناز اٹھانے میں لگا تھاپھر اچانک ایک دن اس کہانی میں نیا موڑ آ گیا اور دونوں کی جھڑپ ہوئی۔نازلی نے گھر کی دہلیز ننھا کیلئے بند کردی تھی۔ننھا دل کے ہاتھوں مجبور اس چوکھٹ کے بار بار چکر لگاتا جہاں صرف خود غرضی منہ چڑھا رہی تھی ۔ننھا کو جب نازلی سے ملنے کی کوئی امید نظر نہ آئی تو اس نے زندگی کا چراغ گل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اگلے روز گھر میں صوفے پر بیٹھے ننھا کو جب چھوا گیا تو اس کی گردن ایک طرف لڑھک گئی۔ 2جون 1986ءکو میڈیا میں خبریں آئیں کہ ننھا نے سر میں گولی مار کر خود کشی کرلی۔ننھا نے اس وقت کے نامور کامیڈین منور ظریف ‘رنگیلا‘ لہری اور علی اعجازکیساتھ فلموں میں کام کیا۔ ان کی مزاحیہ اداکاری کا اپنا ایک انداز تھا۔تمنا کیساتھ بھی انہوں نے بہت کردار نبھائے ۔ فلمی ہیروئنوں میں” ممتاز‘ انجمن‘ مسرت شاہین‘ رانی اور دردانہ رحمان نے بھی ننھا کیساتھ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ننھا 1942ءمیں ساہیوال کے علاقہ حجرہ شاہ مقیم میں پیدا ہوئے ۔کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا، 1964ءمیں ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام میں صداکاری بھی کی۔کمال احمد رضوی کے ”الف نون“ نے شہرت دی لیکن اس وقت تک وہ سپر سٹار بن چکے تھے۔ شباب کیرانوی نے انہیں فلم” وطن کا سپاہی“میں کامیڈی کردار دیدیا۔یہاں سے انہیں فلموں میں شناخت ملی ۔1976ءمیں فلم”نوکر“نے مزید شہرت دی تو ہیروکے طور پر کاسٹ کئے جانے لگے۔ فلم”ٹہکا پہلوان“ ان کی بطور ہیرو پہلی فلم تھی۔”دبئی چلو“میں ان کی اداکاری مثالی تھی جس نے انہیں ملک گیر شہرت دی۔ننھا صرف مزاحیہ اداکارنہیں تھے وہ المیہ کرداروں کو بھی بہت خوبی سے نبھاتے تھے۔یادگار فلموں میں”سوہرا تے جوائی‘ دبئی چلو‘سالا صاحب‘ پلے بوائے ‘سو نا چاندی‘ لوسٹوری‘ دوستانہ‘چوڑیاں‘ پردے میں رہنے دو‘ آس‘ نوکر‘ آخری جنگ‘ نوکر تے مالک‘ سودے دلاں دے‘ قدرت‘ مرزا مجنوں رانجھا‘ صاحب جی‘ مہندی اور تیری میری اک مرضی “ شامل ہےں۔ننھا فلم کے سیٹ پر شوٹنگ کے بعد اکثر منور ظریف کیساتھ گپ کے دوران لطیفے سنایا کرتے تھے۔جس جگہ بھی ہوتے وہاں سے قہقہے سنائی دیتے۔ منور ظریف کیساتھ ننھا کی جگتیں چلتیں تو رنگیلا کی وہاں دال کم ہی گلتی تھی۔قہقہوں کے جو طوفان ان دونوں شخصیات کے پاس تھے ان میں سبھی بہہ جاتے تھے۔ننھا نے اپنی زندگی کے بیس سالہ کیرئیر میں391 فلموں میں کام کیاجن میں 166 فلمیں اردو‘221 پنجابی‘ 3 پشتو اور ایک سندھی زبان میں تھی۔آخری فلموں میں ”پسوڑی بادشاہ اور ہم سے نہ ٹکرانا“ تھیں۔ننھا کی بطور ہیرو فلم ”سالا صاحب“ نے لاہورکے سینما میں مسلسل 300 ہفتے چل کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔وہ ہر کسی کی عزت کرتا ۔اس کے اندر ایک نفیس انسان چھپا ہوا تھا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain