تازہ تر ین

افغانستان‘ مستقبل کے امکانات

لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
افغانستان کی صورتحال روز بروز تبدیل ہورہی ہے اور ہر طرح کے تجزیہ نگار اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق آراء پیش کررہے ہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو بھی ہمارا ذہنی رجحان ہو ہم اپنا تبصرہ اس کے مطابق پیش کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ ذہنی طور پر طالبان کے خلاف کہوں یا یہ کہوں کہ وہ ان کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے لہٰذا وہ ہر واقعے کو اس عینک سے دیکھتے ہیں اور حالات وواقعات کو توڑ مروڑ کر اپنی سوچ کے مطابق پیش کردیتے ہیں۔ یہی حال دوسری طرف کے لوگوں کا بھی ہے جو طالبان کی حمایت میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ ان حالات میں اصل صورتحال کا معلوم کرنا نہایت مشکل ہوگیا ہے لیکن کچھ ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جن پر سب متفق ہیں۔ آج ہم ایک ایسی چیزوں کا ذکر زیر نظر کالم میں کریں گے جو کچھ یوں ہیں۔
1۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جس پر لوگ قریب قریب متفق ہیں وہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے سیاسی اور معاشی ہزیمت کا شکار ہو کر افغانستان سے باامر مجبوری نکل رہے ہیں۔
2۔یہ کہ افغان طالبان کی جرأت‘ اولی العزمی اور عسکری مہارت کے سبھی لوگ معترف ہیں۔
3۔افغانستان میں فوجی توازن بڑے پیمانے پر افغان طالبان کے اس وقت حق میں ہے جب تک کہ کوئی بیرونی قوت افغان حکومت کو سہارا نہ دے اور یہ بات بھی سبھی مانتے ہیں کہ افغان طالبان نے بہت تیزی سے ملک میں آدھے سے زیادہ حصہ پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔
4۔ابھی تک گھمسان کی جنگ کے بجائے افغان طالبان نے بہت سا علاقہ گفت وشنید اور مقامی لوگوں کی رضامندی سے حاصل کیا ہے جس کا یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ افغان طالبان کو بہت بڑے پیمانے پر افغان عوام کی حمایت بھی حاصل ہوتی جارہی ہے۔
5۔جب ہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر نظر ڈوراتے ہیں تو یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ وہ سب جنگ کو ہوا دینے کے بجائے قیام امن کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ خاص طور پر پاکستان اور ایران کے رویوں میں بہت بڑی تبدیلی نظر آرہی ہے۔
6۔وسطیٰ ایشیائی ریاستیں بھی لگ بھگ اسی راستے پر گامزن ہیں۔
7۔یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ چین اور روس افغانستان کے امن میں دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں اور وہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کے بھی متمنی ہیں۔
اوپر بیان کردہ نکات کے ساتھ اگر یہ حقائق بھی شامل کر لیے جائیں کہ افغان طالبان کے وفود نے چین‘ روس‘ ایران وغیرہ کے دورے بھی شروع کردیئے ہیں اور ان کے نمائندے ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین کو سنیں تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ وہ کس قدر لچک اور نرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
دو‘ تین مزید باتیں توجہ طلب ہیں کہ طالبان بار بار اس بات کا اعادہ کررہے ہیں کہ وہ حکومت سازی کے عمل اور مستقبل میں حکومتی ڈھانچے میں اور لوگوں کی شمولیت اور ان سے مشاورت بھی چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے ضامن بھی ہوں گے‘ تمام سفارتخانے محفوظ رہیں گے‘ خواتین اپنی ملازمتوں وغیرہ پر جا سکیں گی۔ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع نہیں کیا جائے گا غرضیکہ طالبان کے حوالے سے دنیا بھر کے جو بھی شکوک وشبہات ہیں ان کا وہ تسلی بخش جواب دے رہے ہیں اور ماضی کی غلطیوں کے ازالے کا وعدہ بھی کررہے ہیں۔
ایک خبر یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ برطانوی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ طالبان کی حکومت اگر قائم ہو بھی جائے تو وہ ان کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے۔ لہٰذا تمام قرآئن اور اندازے اس سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آئندہ افغانستان میں بننے والی حکومت میں طالبان سب سے بڑے حصہ دار ہوں گے اور دنیا ان کو تسلیم کرنے کیلئے بھی تیار نظر آتی ہے اور اگر کوئی خانہ جنگی ہوئی بھی تو وہ مختصر دورانیے کی ہوگی۔ چین اور روس جیسے ممالک جب سرمایہ کاری کریں گے تو تمام خطہ ترقی کے راستے پر چل پڑے گا۔ پاکستان اس سے بے پناہ استفادہ کر سکے گا۔ نہ صرف یہاں پرامن کی صورتحال بہتر ہو جائے گی بلکہ سی پیک اور باقی کے ترقیاتی منصوبے بھی تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوگی کہ آنے والی افغان حکومت حتیٰ الامکان پاکستان دشمن قوتوں (مثلاً بی ایل اے‘ تحریک طالبان پاکستان‘ داعش وغیرہ) کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گی۔ اس کے علاوہ چین‘ روس اور دیگر ممالک کی سرمایہ کاری بھی اس خطہ میں ترقی کا باعث بنے گی اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ کچھ مغربی ممالک (جرمنی‘ برطانیہ وغیرہ اور کچھ مڈل ایسٹ کے ممالک جن میں سعودی عرب‘ یو اے ای‘ قطر وغیرہ شامل ہیں) بھی یہاں پر سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کر سکتے ہیں۔
لب لباب میری معروضات کا یہ ہوگا کہ تمام قوتوں نے تاریخ سے سبق شاید لیا ہوگا۔ نہ تو افغان طالبان آج سے20سال پہلے والے طالبان ہیں اور نہ ہی پاکستان اور ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک پہلے والی سوچ رکھتے ہیں اور سیاسی اور معاشی خلا پُر کرنے والے چین اور روس جیسے ممالک بھی موجود ہیں۔
لہٰذا جو لوگ افغانستان میں امن نہیں چاہتے مثلاً بھارت‘ منشیات فروش‘ اسلحے کے سوداگر داعش‘ ٹی ٹی پی وغیرہ بہت کمزور ہیں ان قوتوں کے مقابلے پر جو امن کیلئے کوشاں ہیں ان میں سب سے آگے افغان عوام جن کو پوری تائید حاصل ہے‘ پاکستان‘ ایران‘ چین اور روس کی لہٰذا میری دانست میں جس قیامت صغریٰ کا نقشہ پیش کیا جارہا ہے وہ انشاء اللہ بپا نہیں ہوگی اور یہ خطہ امن اور خوشحالی کے سفر پر تیزی سے رواں دواں ہونے والا ہے۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain