تازہ تر ین

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

حکومت کے 3سال بعد بھی ہمیں وہ مضبوط سسٹم نظر آرہا ہے نہ قانون کی پاسداری
 معاشرہ کے  ناسوروں کو مارنا ہی بہتر ہے ورنہ قانونی پیچیدگیوں کے باعث بچ جاتے ہیں
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے قوم سے جو اہم ترین وعدہ کیا تھا وہ معاشرے میں مضبوط نظام انصاف کے قیام کا تھا۔کپتان کا کہنا تھا کہ سب لوگ قانون کے نیچے ہوں گے۔ ملک میں دو قانون نہیں بلکہ امیر غریب کے لئے ایک قانون ہوگا۔ اپنے وعدے میں پختگی لانے کے لئے وہ جو مثال دیا کرتے تھے وہ خیبر پختونخوا پولیس کی تھی۔ وہ کہتے کہ ہم نے کے پی کے پولیس کو مکمل غیر سیاسی بنا دیا ہے۔ کپتان بار بار کہتے کہ ہم سسٹم کو مضبوط بنائیں گے جہاں سب کو انصاف ملے گا، لیکن حکومت کے 3 سال بعد بھی ہمیں وہ مضبوط سسٹم نظر آ رہا ہے نہ قانون کی پاسداری، بلکہ اکثر تو قانون کہیں نظر ہی نہیں آتا۔
یہ بات درست ہے کہ انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام چٹکیوں میں عمل میں نہیں آتا بلکہ اس کے لئے مسلسل کوشش اور وقت درکار ہوتا ہے،کیونکہ
بستی کا بسانا کھیل نہیں
یہ بستے، بستے بستی ہے
لیکن یہ عمل اس قدر طویل نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ مسلسل اذیت میں رہیں، کیونکہ حکومت اپنی آدھی سے زائد مدت گزار چکی ہے۔ مضبوط نظام نا سہی کم از کم اس کے کچھ آثار ہی نظر آجاتے لیکن ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ پولیس کا نظام ابھی تک تباہ حال ہے۔ ڈاکو، چور اچکے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں لادی گینگ نے اپنے مخالف شخص کے جانوروں کی طرح اعضاء کاٹ کر اس کی باقاعدہ ویڈیو وائرل کی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس کا نوٹس لیااور اگلے دن لیہ میں خطاب کے دوران قوم کو یقین دلایا کہ ایسے عناصر کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے اس اعلان کو ایک ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا لیکن ابھی تک لادی گینگ کا بال تک بیکا نہیں کیا جا سکا۔ گینگسٹر فیس بک اور سوشل میڈیا کو سرکاری ٹی وی کی طرح استعمال کرتے ہوئے اپنی آزادانہ نقل و حرکت اور دیگر سرگرمیوں کی ویڈیوز جاری کر رہے ہیں۔پولیس کو باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ گرفتار فلاں فلاں مبینہ سہولت کار کو چھوڑ دو ورنہ برا ہوگا۔ حیرت ہے کہ ایک عام شخص جائز اسلحہ کے ساتھ بھی کوئی تصویر سوشل میڈیا پراپ لوڈ کر دے تو اسی وقت گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن یہ ڈاکو مہینوں سے خطرناک اسلحہ کی نمائش کر رہے ہیں روزانہ اپنی تقریریں کر رہے ہیں لیکن ہمارے جدید سائبر کرائم ونگ سمیت کسی کو ان تک رسائی نہیں ہو سکی۔ کیا وہ پاکستان نہیں کسی اور ملک میں رہ رہے ہیں …… یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جوہر ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دھماکوں اور خانیوال میں 4سالہ بچی کے قتل کے ملزم حساس اداروں نے ٹریس کر کے دیے ورنہ پولیس ڈیرہ غازی خان کی طرح یہاں بھی اپنے ”مشاغل“ میں مصروف تھی۔
ہمارے کمزور نظام انصاف کی بدترین حالت یہ ہے کہ عوام تو دور کی بات خود پولیس کے اعلیٰ حکام کو بھی ہمارے نظام انصاف پر اعتماد اور یقین نہیں۔ اس کی ایک حالیہ اور واضح مثال شجاع آباد کا دلہن زیادتی کیس ہے، جب شادی کی پہلی رات پولیس وردی میں ملبوس 4 ڈاکوؤں نے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر دلہن سے اجتماعی زیادتی کی۔ اس کے بعد ایک شرمناک صورتحال یہ سامنے آئی کہ واقعہ کو اہلخانہ کی ذاتی دشمنی یا ”تعلقات“ کا نتیجہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح قوم کی اس متاثرہ بیٹی کو مزید زخم دیے گئے لیکن اس موقع پر روزنامہ ”خبریں“ کا کردار اہم رہا اور کسی کے ”اشارے“ کے بجائے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس بیٹی کی ڈھارس بندھائی، مہینے بعد اس اندوہناک واقعہ کے 2 ملزم عابدی اور شوکت پکڑے تو گئے لیکن حکام کو ان ملزموں کو مقابلے میں ”پار“ کرنا پڑا۔
ایسے پولیس مقابلوں کے حوالے سے پولیس کے پاس دوموقف ہوتے ہیں،پہلا سرکاری موقف کہ ملزم کو چھڑانے کے لیے ملزم کے ساتھیوں نے فائرنگ کی جس میں تمام اہلکار محفوظ رہے لیکن ملزم مارا گیا۔ دوسرا آف دی ریکارڈ موقف یہ کہ معاشرے کے ان ناسوروں کو مارنا ہی بہتر ہے ورنہ وہ قانونی پیچیدگیوں کے باعث بچ جاتے ہیں یا متاثرہ فریق پر پریشر ڈال کر زبردستی صلح کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس حد تک تو بات درست ہے کہ ان معاشرتی ناسوروں کا خاتمہ ضروری ہے لیکن کیا یہ سب کچھ ماورائے قانون اور ماورائے عدالت ہونا چاہیے؟ کیا ہمارے ہاں کوئی قانون نہیں؟ یا پھر یہ نظام اتنا کمزور ہے کہ کسی کو انصاف نہیں مل سکتا؟
جناب وزیراعظم آپ نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مضبوط نظام انصاف لاؤں گا۔ آپ کی جماعت کا نام بھی تحریک انصاف ہے،یہاں امیر تو قانون خرید بھی سکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ غریبوں کا ہے جن کی ان ڈاکوؤں، لٹیروں کے ہاتھوں مال اور جان کجا عزتیں تک محفوظ نہیں اور یہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کھل کر بیان بھی نہیں کر سکتے۔آخر یہ مضبوط نظام کب آئے گا۔
بقول فیض احمد فیض:
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain