نئی دہلی (ویب ڈیسک)بھوٹان کی سرحد پر انڈیا اور چین میں کشیدگی کے درمیان بھارتی کے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے کہا ہے کہ 1962 اور 2017 کے بھارت میں کافی فرق ہے۔جیٹلی نے یہ بات چین کے اس بیان کے ردعمل میں کہی جس میں چین نے کہا تھا کہ انڈیا کو 1962 کی جنگ سے سبق لینا چاہیے۔برطانوی نشریاتی ادارے کےمطابق انڈیا کے معروف دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کے مطابق ارون جیٹلی کا یہ بیان جارحانہ نوعیت کا ہے جو حقیقت سے ہٹ کر ہے۔ یہ انھیں کا تجزیہ ہے۔انھوں نے کہا کہ ‘مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ ارون جیٹلی کس طرح یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 1962 کے بعد سے انڈیا نے بہت ترقی کی ہے۔ فوجی طاقت کے معاملے میں بھی بھارت کافی مضبوط ہوا ہے لیکن چین کے مقابلے میں تو بھارت کچھ بھی نہیں ہے۔‘تبت اور اس پورے علاقے میں چین کا جو بنیادی ڈھانچہ ہے وہ انڈیا سے 100 فیصد زیادہ ہے۔چین اپنے ٹھکانوں تک ریلوے، ہیلی پیڈ، ایئرف?لڈ کے ذریعے آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ چین تو ایک ہفتے میں وہاں ریل سے پہنچ سکتا ہے۔دوسری جانب انڈیا میں جو 72 سڑکیں بننی تھیں ان میں سے محض آٹھ یا دس سڑکیں ہی بن سکی ہیں۔ اس صورت میں میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے کہ جیٹلی صاحب کہہ کیا رہے ہیں؟چین کو دھمکی دینے کے لیے انڈیا کے پاس کوئی معتبر وجہ نہیں ہے۔ ہماری صلاحیت معمولی ہے۔ فوج تو کہتی ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اسی سے لڑیں گے۔آرمی چیف بپن راوت نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت ڈھائی فرنٹ پر لڑ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انڈیا چین، پاکستان اور مقامی باغیوں کے ساتھ لڑ سکتا ہے۔’یہ فوجی سربراہ کا ایک سیاسی بیان ہے۔ یہ بیان انڈیا کے لیے ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ موجودہ کشیدگی کے حوالے سے شاید پردے کے پیچھے اس موضوع پر بات ہو رہی ہو گی کہ اسے ختم کیا جائے کیونکہ یہی انڈیا کے مفاد میں ہے۔