لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) برطانیہ کی حکومت نے ان ایکسپلین ایبل ویلتھ (ناقابل وضاحت دولت) آرڈر نافذ العمل کر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر معمولی اختیارات تفویض کردیئے ہیں جس کے تحت وہ برطانیہ میں موجود کالے دھن سے بنائی گئی جائیداد کے خلاف بھرپور کریک ڈان کر سکیں گے۔ نئے قانون کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں، وزراءاور دیگر کی جانب سے برطانیہ کو بطور محفوظ پناہ گاہ سمجھنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لانا ہے جس میں جرمانہ اور قید بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ناقابل وضاحت دولت آرڈ کے نافذ ہونے کے بعد برطانیہ کے قانونی ادارے 50ہزار پاو¿نڈ سے زائد رقم کے اثاثوں کی تحقیقات کر سکے گے، اگر آمدنی سے زیادہ اثاثے ہوئے تو متعلقہ اثاثے ضبط کرلیے جائیں گے۔ مذکورہ آرڈ کے مطابق اب ریاست کے بجائے اثاثوں کا مالک اپنی آمدنی کا ثبوت پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ پاکستان کے بعض سیاستدانوں اور ان کے ہمنواو¿ں کے لیے ناقابل وضاحت دولت آرڈ پریشان کن ہو سکتا ہے کیوں کہ اگر سیاستدان کا فرنٹ مین بھی برطانیہ میں اپنے نام سے اثاثے رکھتا ہے تو اسے آمدنی کے سارے ذرائع ظاہر کرنے ہوں گے۔ ناقابل وضاحت دولت آرڈ یکم فروری کو نافذ العمل ہوا تاکہ برطانیہ میں روسی اشرافیہ کے اثاثوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ لندن کی انسداد کرپشن گروپ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے دعوی کیا ہے کہ برطانیہ میں 4ارب 40کروڑ پاو¿نڈ مالیت کے اثاثوں پر ناقابل وضاحت دولت آرڈر کے تحت تحقیقات کی جائیں گی۔ ٹی آئی کے مطابق برطانیہ میں ایون فلیڈ اپارٹمنٹ کے مشتبہ مالک سابق وزیراعظم نواز شریف ہیں جبکہ اپارٹمنٹ کی مالیت تقریبا 80لاکھ پاو¿نڈ ہے، ٹی آئی نے بتایا کہ لینڈ رجسٹری دستاویزات میں اپارٹمنٹ کی مالک دو کمپنیاں نیسکول اور نیلسن لمیٹڈ ہیں۔ خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس سے متعلق معلومات شائع ہوئیں تھی کہ مذکورہ دونوں کمپنیوں کے انتظامات سابق وزیراعظم نواز شریف رکھتے تھے اور ان کمپنیوں کو رہن کے بغیر ہی 1993اور 1995 کے درمیانی عرصے میں خریدا گیا، جس کے بعد نواز شریف کی آمدن میں غیر معمولی اضافہ ہوا، اثاثوں کی خریدار سے متعلق ثبوت کی عدم فراہمی پر نواز شریف کو جولائی 2017کو وزارت عظمی کے عہدے سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں صرف نواز شریف کے اثاثے نہیں بلکہ متعدد پاکستانی سیاستدانوں اور شخصیات کے اثاثے بھی موجود ہیں۔