تازہ تر ین

اکیسویں صدی کا عجوبہ مشین کو انسان کا روپ دیتی سائنس

لاہور( ویب ڈیسک) عامر نے جب دنیا میں قدم رکھا‘ تو وہ خوب رو اور چلبلا بچہ تھا۔ جب بھی چمک دمک والی کوئی چیز دیکھتا تو بے اختیار اس کی جانب لپکتا۔ ایک دن رات کو بجلی گئی تو پتا چلا کہ یو پی ایس خراب ہو چکا۔ماں نے موم بتی جلا دی اور عامر کو قریب بٹھا کر سبزی کاٹنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر کسی کام سے باورچی خانے گئی۔اِدھر منچلے عامر نے آو دیکھا نہ تاو?‘ موم بتی کا شعلہ پکڑنے ہاتھ بڑھا دیئے۔ چیخ سن کر پریشان ماں بھاگی آئی‘ تو دیکھا کہ ننھا بیٹا گرم موم سے اپنی انگلیاں جلا بیٹھاہے۔ وہ دھاڑیں مارکر رو رہا تھا۔
جسم انسانی کا بادشاہ
یہ واقعہ یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ انسان کو پیدائشی طور پر بہت سی باتوں کا علم نہیں ہوتا…زندگی میں پیش ا?نے والے تجربات ‘ واقعات اور حالات اسے تلخ و شیریں حقائق سے آشنا کراتے ہیں۔ مثال کے طور پر عامر کو علم نہیں تھا کہ آگ ہاتھ جلا دیتی ہے۔ اسی لیے وہ اس کی جانب لپکا۔ لیکن اس تلخ تجربے نے اسے سکھا دیا کہ آگ ایک خطرناک شے ہے اور اسے ہاتھ سے نہیں پکڑنا چاہئے۔ جوں جوںعامر دوران زندگی مزید تجربات حاصل کرے گا‘ اس کا شعور اور ذہانت بھی بڑھتی جائے گی۔ اس سچائی سے آشکار ہے کہ انسان کا دماغ (یا ذہن) بھی مسلسل ارتقا پذیر ہے۔
ذرا ایک لاکھ سال پہلے کی دنیا تصور میں لائیے۔ تب انسان نیم برہنہ رہتا تھا۔پتوں سے تن ڈھکتا۔ پیٹ بھرنے کی جستجو اور زندہ رہنا ہی مقصدِ زندگی تھا۔ پھر آگ اور پہیے کی دریافت نے اسے نئے جہانوں سے متعارف کرایا۔ وہ کھیتی باڑی کرنے اور بستیاں بسانے لگا۔ یوںانسانی تہذیب و ثقافت کا آغاز ہوا۔ انسان کی یہ پوری محیر العقول ترقی دراصل اس کے دماغ ،نظام اعصاب اور حسیات (بصارت ‘ سماعت‘ لامسہ‘ سونگھنا‘ چکھنا‘ درد‘ سردی گرمی محسوس کرنا‘ توازن برقرار رکھنا وغیرہ) کی مرہون منت ہے۔ دماغ انسان سمیت ہر جاندار میں پائی جانے والی جسمانی و ذہنی سلطنت کا بادشاہ ہے کیونکہ وہی اعصابی نظام اور تمام حسّیات کنٹرول کرتا ہے۔
نیورل نیٹ ورک کا کمال
دلچسپ بات یہ کہ سائنس و ٹکنالوجی کی شاندار ترقی کے باوجودانسان اپنے دماغ کی مادی ہیئت سو فیصد حد تک نہیں جان سکا۔ بہر حال جدید سائنس نے ہمیں یہ ضرور بتا دیا کہ انسانی دماغ تقریباً ایک سو ارب مختلف اقسام کے خلیوں کا مجموعہ ہے جو ”نیورون“(Neurons) کہلاتے ہیں۔انسانی دماغ کا ہر نیورن دراصل ایک منی کمپیوٹر ہے۔ یہ اپنے طور پر وہ کام بھی بخوبی انجام دیتا ہے جو اسے تفویض کیا جائے۔ مثلاً انسان کو بتانا کہ آگ اس کی جلد جلا رہی ہے۔انسان کا پورا اعصابی نظام انہی نیورونوں پر مشتمل ہے۔ ہر نیورن اپنے ننھے منے کئی بازوﺅں کی مدد سے دیگر نیورونوں کے بازو?ں سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ نیورون کیمیائی یا برقی (الیکٹر یکل ) اشاروں (سگنلوں ) کی مدد سے ایک دوسرے سے تعلق و رابطہ رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ نے دیکھا کہ چائے مناتے ہوئے اچانک کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ آنکھ کے نیورون یہ منظر دیکھ کر حادثے کی خبر دماغ تک پہنچائیں گے۔ اب دماغ فیصلہ کرے گا کہ ہاتھوں اور پانی کی مدد سے آگ بجھائی جائے۔ ایک دوسرے سے جڑے نیورونوں میں یہ ساری پیغام رسانی برقی اشاروں کے ذریعے نہایت تیزی سے ہوتی ہے۔ نیورونوں کا یہ باہمی نظام اصطلاح میں ”نیورل نیٹ ورک“(Neural Network) کہلاتا ہے۔
انسانی دماغ میں ایک ارب منی کمپوٹر کے مانند نیورونوں کا نیٹ ورک ہی اعصابی نظام سمیت انسانی جسم کو رواں دواں رکھنے والا”سپر کمپیوٹر“ تشکیل دیتا ہے۔ گویا ہمارا دماغ ایک ارب ”کور پروسیسر“(Core Processor) رکھتا ہے۔ انہی کور پروسیسروں نے انسانی دماغ کو نہایت طاقتور شے بنا ڈالا ہے… ایسی شے جس سے مماثلت رکھنے والی چیز انسان سر توڑ کوشش کے باوجود(فی الحال) نہیں بنا پایا۔
سپر کمپیوٹر بھی انسان کا غلام
اس وقت امریکی کمپنی‘ آئی بی ایم کا تیار کردہ سمٹ(Summit ) دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر ہے۔ یہ سپر کمپیوٹر صرف ایک سکینڈ میں 200پیٹا فلاپس (petaflops) یعنی دو لاکھ ٹریلین پیمائشیں کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یقیناً انسانی دماغ اتنی محیر العقول تیزی سے پیمائش نہیں کر سکتا، اس کی رفتار زیادہ سے زیادہ ایک سیکنڈ میں چند ٹریلین پیمائش کرنا ہو گی۔
اس کے باوجود یہ تیز ترین سپر کمپیوٹر بھی انسان کا غلام ہے… کیونکہ انسان ہی اسے حکم دیتے ہیں کہ اس نے کون سی پیمائشیں کرنا ہیں یا کس نوعیت کا کام انجام دینا ہے۔ گویا صرف ایک سیکنڈ میں دو لاکھ ٹریلین پیمائشیں کرنے والی یہ حیرت انگیز مشین از خود ایک پیمائش بھی نہیں کر سکتی۔ معنی یہ کہ ایک سیکنڈ کی عمر رکھنے والے انسانی بچے کا دماغ بھی سمٹ سپر کمپیوٹر سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ وہ بچہ ہوتے ہوئے بھی بہر حال ازخود کئی کام کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہاتھ ہلانا‘ رونا‘ ماں کو د یکھنا وغیرہ۔
خود مختار ہونے کے علاوہ ملٹی ٹاسک(Multitask) ہونا بھی انسانی دماغ کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ دماغ کی وجہ سے ہی انسان بیک وقت کئی کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر کپڑوں میں آگ لگے‘ تو انسان اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ پاو?ں ہلا کر اپنا بچاو? کرتا اور چیخیں مارتا ہے۔ حقیقتاً خطرے کی حالت میں انسان کی خفیہ حسّیں بھی بیدار ہو جاتی ہے جنہیں مجموعی طور پہ ”چھٹی حس“ کا نام دیا جا چکا۔
سپر کمپیوٹر سمٹ ملٹی ٹاسک مشین نہیں… وہ ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتا ہے۔ درست کہ سمٹ اپنا کام حیرت انگیز رفتار سے انجام دے گا، انسانی دماغ اتنی تیزی نہیں دکھا سکتا۔ مگر سمٹ بیک وقت کئی کام کرنے سے قاصر ہے۔ ملٹی ٹاسک ہونا بھی انسانی دماغ کو زیادہ طاقتور اور منفرد بنا ڈالتا ہے۔ گویا انسانی دماغ کا سپر کمپیوٹر سمٹ سے زیادہ پیچیدہ اور گنجلک مشین ہے۔ اسی لیے سائنس داں ابھی تک اسے مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے۔
سمٹ سپر کمپیوٹر کو تیس مختلف کام کرنے کی خاطر بنایا گیا۔ مطلب یہ کہ اس میں تیس سافٹ ویئر موجود ہیں۔ جب بھی تیس کاموں میں سے کوئی ایک کام کرنا مقصود ہو‘ تو اس کے متعلقہ سافٹ ویئر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پھر سافٹ ویئر میں جو ریاضیاتی ہدایات (algorithms)دی گی ہیں‘ سمٹ ان کے مطابق اپنا کام انجام دیتا ہے۔ اگر اس مشین سے اکتیسواں کام کرانا ہے تو اس میں نیا سافٹ ویئر یا پروگرام انسٹال کرنا ہو گا۔یاد رہے، ہر سافٹ وئیر مختلف ریاضیاتی ہدایات کا مجموعہ ہوتا ہے۔یہ ہدایات اعداد،الفاظ، اعراب اورگرافکس وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔کمپیوٹر انہی ہدایات کے مطابق اسکرین پہ متن(ٹیکسٹ) یا تصویریں وغیرہ پیش کر دیتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain