امریکہ کی نئی انتظامیہ نے افغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ گزشتہ برس فروری میں طے پانے والے امن معاہدے پر نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کوئی کام جلد بازی میں نہ کیا جائے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ امن معاہدے میں طے پانے والے تمام نکات کا احترام کریں۔
گزشتہ ہفتے امریکی قومی سلامتی کونسل کے مشیر جیک سلیوین نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کہا تھا کہ امریکہ جاننا چاہتا ہے کہ آیا طالبان, دہشت گرد گروہوں سے رابطے منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد میں کمی اور اس سے متعلق کیے گئے اپنے تمام وعدوں پر عمل پیرا ہیں یا نہیں؟
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جیک سلیوین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ افغانستان میں علاقائی و سفارتی کوششوں سے امن عمل کی حمایت کرے گا۔
امریکہ کی جانب سے امن معاہدے پر نظر ثانی کا عندیہ ایسے موقع پر دیا گیا ہے جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکہ کی لامار یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت سے منسلک اور امریکی امور کے ماہر پروفیسر اویس سلیم کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی چار سالہ افغان پالیسی کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت زیادہ تیزی نظر آتی ہے، چاہے وہ طالبان کی شرائط ماننے کے حوالے سے ہو یا پاکستان پر اس دباؤ کو بڑھانے سے متعلق کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا جائے۔