تازہ تر ین

وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ کے لئے

سید سجاد حسین بخاری
گزشتہ ماہ بھی وزیراعلیٰ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ملتان آپ کا گھر ہے، اس کی بہتری کی طرف توجہ فرمائیں۔ آپ کی ناک کے نیچے غلط کام ہورہے ہیں مگر سُنی اَن سُنی ہوگئی۔ لوگوں نے ہی گلے کئے کہ بڑا سخت کالم لکھا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ملتان کی مٹی کا ہر اس شخص پر قرض ہے جس نے یہاں جنم لیا ہے اور اگر وہ اس دھرتی کی خدمت نہ کرے تو بددیانتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ میڈیا کا کام صرف نشاندہی کرنا ہوتا ہے، کوئی جنگ نہیں۔ جب تک زندہ ہیں، شور مچاتے رہیں گے، حکمرانوں کی مرضی ہے کہ سُنیں یا نہ سُنیں مگر میں خاموشی اختیار نہیں کرسکتا۔ گزشتہ 2سالوں سے سرکاری کاغذوں میں ملتان کے درجنوں منصوبے گھوم رہے ہیں، کبھی پی سی ون کی بات کرتے ہیں تو کبھی نقشوں کی تیاری کی، پھر کہتے ہیں کہ اگلے ہفتے ٹینڈر ہونے والے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ان منصوبہ جات کے سنگ ِبنیاد بھی سرکٹ ہاؤس میں رکھ چکے ہیں اور گزشتہ سال سے 35فیصد بجٹ سرائیکی خطے کیلئے الگ سے مختص کرنے کا ڈھول بھی پیٹا جارہا ہے اور ساتھ یہ بھی گارنٹی دی گئی تھی کہ یہ بجٹ واپس نہیں جائے گا مگر وہ بجٹ کہاں اور کتنا ہے؟ صرف 98کروڑ صوبہ سیکرٹریٹ کیلئے آیا تھا جو 30جون کوکو لیپس (ختم) کرجائے گا، پھر جولائی کے مہینے میں دوبارہ واپس آجائے گا۔ 3ماہ قبل وزیراعظم نے سیکرٹریٹ کا سنگ ِبنیاد رکھا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اگلے ہفتے ٹینڈر ہوجائے گا مگر کچھ بھی تو نہیں ہوا اور اسی طرح ملتان وہاڑی روڈ جوکہ دُگنا ہونا تھا اور جس کا سنگ ِبنیاد بھی وزیراعظم نے رکھا تھا اس کا ابھی تک پی سی ون بھی منظور نہیں ہوا۔
ملتان لودھراں روڈ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ملتان کے دو رنگ روڈ بننے ہیں جوکہ بہت کم لوگوں کو علم ہے اور وہ بھی گزشتہ دو سالوں سے کاغذوں میں گھوم رہے ہیں۔ آج تک ایک کاغذ بھی سامنے نہیں آیا۔ فنڈز تو دور کی بات ہیں۔ ہیڈ محمد والا روڈ کو ڈبل کرنے کیلئے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے زمین تک خرید لی تھی پھر ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ موجودہ حکومت گزشتہ دو سال سے صرف سڑک بنانے کے فنڈز جاری نہیں کررہی حالانکہ وزیراعلیٰ تونسہ اسی روڈ سے جاتے ہیں، اور سنئے نوازشریف کے دور سے غلہ منڈی، سبزی منڈی، ڈسٹرکٹ جیل اور ٹرکوں کے اڈے شہر سے باہر لے جانے کے منصوبے تھے۔ موجودہ حکومت نے بھی نعرہ لگایا۔ دو سال ختم ہوگئے، جگہ تک کا تعین نہیں ہوسکا کہ کس طرف ان کو لیکر جائیں۔ کارڈیالوجی کے توسیعی منصوبے کیلئے میاں شہبازشریف نے صرف پرویزالٰہی کے نام کی وجہ سے فنڈز نہ دیئے۔
موجودہ حکومت نے وعدے کے باوجود کچھ نہیں کیا۔ کہاں گیا ملتان کا جم خانہ جس کیلئے کمیٹی اور زمین کی خریداری کا عمل یوسف رضا گیلانی نے مکمل کیا تھا۔ نشترٹو کی سُن لیں اسی حکومت کے وعدے کے مطابق 2022ء میں یہ ہسپتال مکمل ہونا تھا مگر ابھی تک اس کا 20فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا۔ شہر بھر میں متعدد مقامات پر فلائی اوورز اور انڈر پاسز کی ضرورت ہے۔ ملتان کی انتظامیہ نے چوکوں کی فہرست اور پی سی ون پر کام بھی کرنا شروع کیا ہوا ہے مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ویمن یونیورسٹی کیلئے زمین بہت کم ہے۔ متی تل روڈ پر نئے کیمپس کے ساتھ سرکاری زمین موجود ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے فائل سی ایم آفس میں موجود ہے، آج تک منظوری نہیں ہوئی۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، کیا ہم اتنے گر گئے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کی بہترین تربیت اور آرام کیلئے زمین کے چند ایکڑ بھی منظور نہیں کرسکتے۔ ملتان میں صرف سیوریج پر کام شروع ہوچکا ہے، دیکھئے کب مکمل ہوتا۔ اس کے ساتھ کچہری منصوبہ بھی التواء کا شکار ہے جس سے عوام کو کچہری چوک پر روزانہ کی بنیاد پر اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس پورے قصے کا صرف ایک سوال ہے کہ جب حکومت پنجاب، عمران خان، مخدوم شاہ محمود قریشی ودیگر ممبران اسمبلی انتہائی مخلص ہیں تو پھر تاخیر کیوں اور کہاں سے ہورہی ہے؟ اس کے سادہ سے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ سی ایم آفس میں وہ لابی موجود ہے جس نے دو ماہ قبل منظور شدہ رولز اینڈ بزنس منسوخ کرائے تھے جس پر دوبارہ ممبران اسمبلی نے شور مچاکر واپس کرائے۔ دوسرا جواب ان تمام منصوبوں میں کمیشن اور زمین کی خریداری میں کروڑوں روپے کی دیہاڑی ہے۔
ہر صاحب ِاقتدار اپنی مرضی کے ٹھیکیداروں کو کام دلاکر کروڑوں روپے کمیشن کمانا چاہتا ہے جبکہ سرکاری افسران کی بھی یہی خواہش ہے سبزی منڈی، غلہ منڈی، ڈسٹرکٹ جیل، ٹرکوں کے اڈے جو شہر سے باہر منتقل ہونے ہیں اور جہاں پر نئی زمین کی خریداری ہونی ہے اس پر لینڈ مافیا سرکاری افسران کو کروڑوں روپے کی پیشکش کرچکا ہے کہ فلاں روڈ پر زمین ہم سے لیں اور بدلے میں اتنی بڑی بڑی آفرز پیش کی جارہی ہیں کہ نیک سے نیک آدمی بھی پھسل جائے۔ دوسری طرف جن کاروباری لوگوں نے شہر سے باہر منتقل ہونا ہے، ان کی یونین چاہتی ہے کہ زمین ان کی مرضی کے روڈ پر خریدی جائے۔ مقصد ان کا بھی کروڑوں روپے کمانا ہے۔ اسی طرح کچھ ممبران اسمبلی کی طرف بھی اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں کہ زمین کی خریداری اور ٹھیکیدار اُن کی مرضی کے ہوں۔ حاصل گفتگو اتنا ہے کہ سی ایم آفس، چند سیاستدان، مقامی سرکاری افسران اور لینڈ مافیا ملتان کے ترقیاتی منصوبوں کو شروع نہیں ہونے دے رہے ہیں مگر وزیراعلیٰ صاحب! آپ چاہیں تو سب ٹھیک ہوسکتا ہے اور صرف ایک ماہ میں منصوبوں کی منظوری، فنڈز اور ٹینڈر کا اجراء اور تعمیراتی کام شروع ہوسکتا ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ آپ کس کی طرف ہیں، عوام یا مافیا؟ یہ آپ اپنے عمل سے ثابت کرسکتے ہیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain