تازہ تر ین

ہم قرضے معاف کروانا اعزاز سمجھتے ہیں

یہاں کے غریب بالواسطہ یا بلا واسطہ امیروں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں
پاکستانی معیشت میں 26کھرب60ارب اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوجاتے ہیں
تحریک انصاف کی حکومت کا مسلسل تیسرا بجٹ ہے جو قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے پیش کیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹیکس فری بجٹ ہے۔ معیشت کا بنیادی اصول ہے کہ ٹیکس امرا سے وصول کیا جاتا ہے اور غربا پر خرچ کیا جاتا ہے۔مگر پاکستان اور غیر ترقیاتی ممالک  کو استثناء حاصل ہے کہ یہاں کے غریب بالواسطہ یا بلاواسطہ امیروں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں یعنی غریب امرا کو پال رہے ہیں۔ ٹیکس حکام کی تعیناتی بھی ہمارے ہاں گمبھیر مسئلہ ہے اعلیٰ سطح پر پسند اور نا پسند کے معیارات کو سامنے رکھ کر بالا دست طبقات اور مقتدر لوگ اپنے اپنے مفادات کی تحفظ کے لئے ٹیکس حکام کی تقرریاں کرواتے ہیں اور بعد ازاں ان سے مفادات اٹھاتے ہیں۔ پارلیمنٹ ظاہری طور پر ساورن ادارہ ہے لیکن عملی طور پر ٹیکس معاملات میں انتظامیہ کو ٹیکس قوانین میں ردوبدل کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے جس سے بے پناہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایک طبقہ فکر کی رائے ہے کہ آئی ایم ایف سول سوسائٹی اور حلیفوں کی مخالفت کے باوجود مسلسل ٹیکس ایمنسٹی سکیموں سے ٹیکس چوروں کوفائد ہ پہنچایا گیااس سے گویا ایماندار ٹیکس گزاروں کو ترغیب ملی کہ وہ بھی ٹیکس چوری کا ارتکاب کریں۔
 پاکستان میں معاشی عدم استحکام اور اختیارات کے استحصالانہ استعمال پراقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے تحت نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ نے رپورٹ جاری کی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت میں 26 کھرب 60 ارب اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہو جاتے ہیں مزید اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں معیشت سیاست اور سماج پر تسلط رکھنے والا طبقہ اپنے استحقاق سے زیادہ معاشی مفادات سے استفادہ کرتا ہے۔ اسی طرح جاگیر دار طبقہ جو 1.1 فیصد ہے وہ 22 فیصد زمینوں پر قابض ہے۔ ملک کا ایک منظم اور طاقتور ادارہ زمین  سرمایہ اور انفراسٹر کچر اور ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں دو کھرب ساٹھ ارب کی مراعات حاصل کر رہا ہے۔ وفاقی حکومت شاید حوصلہ کر رہی ہے کہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے ٹیکس ریکارڈ تک نیب کو رسائی دینے پر غور کر رہی ہے جس کا حتمی فیصلہ وزیر اعظم پاکستان کریں گے۔  کیا ارکان اسمبلی اور وزراء اپنی مالی کمزوری کی وجہ سے ایف بی آر کے ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے چھوٹے سے چھوٹے ملازم بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں وہاں کی اشرافیہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہ کر غربت اور افلاس کے مزے اٹھا رہی ہے۔
 سرکاری ملازمین اپنی ملازمت پوری ہونے کے باوجود بھی اپنے گوشوارے جمع کروانے کے پابند ہیں۔ یہ تجویز قابل تحسین ہے کہ 6 لاکھ آمدنی والوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں تاجر،ہول سیلرز، ڈاکٹر حضرات ماہانہ کروڑوں کماتے ہیں لیکن ٹیکس کے معاملے میں پرلے درجے کے مفلس اور قلاش بن جاتے ہیں ان کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی اشد ضرورت ہے بلامبالغہ پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز معاشرہ کا سب سے خوشحال طبقہ ہے اور ٹیکس دینے کے معاملے میں سب سے پیچھے ہیں،ہر پرائیویٹ ہسپتال نے کرونا وبا کے دوران مال و زر کے پہاڑ کمائے ہیں لیکن ایف بی آر کی پہنچ سے باہر ہیں۔ حیف صد حیف جس ملک میں قرضے معاف کروانے کو اعزاز سمجھا جائے صدر وزیراعظم وزرائے اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈرز ٹیکس کی ادائیگی میں فہرست میں سب سے نیچے ہوں اس ملک کے تاجر اگر ٹیکس لگنے پر ہڑتال کریں تو اچنبھا نہیں ہونا چاہیے. ہمارے ہاں یہ روایت عام ہے کہ صدقہ و خیرات دینے میں ہماری قوم کا ثانی کوئی نہیں ہے لیکن ٹیکس کی عدم ادائیگی کے لئے ہزاروں بہانے موجود ہیں۔
سترہ فیصد سیل ٹیکس ہر خریدار پر لاگو کیا جاتا ہے ٹیکس خریداروں سے وصول کر لیا جاتا ہے لیکن حکومتی خزانے تک پہنچنا کار دارد ہے حالانکہ خریدار کو اس سیلز ٹیکس پر ادائیگی کا فائدہ پہنچنا چاہیے اگر یہ وصولی بذریعہ شناختی کارڈ ہو تو خریدار کو عام ٹیکس میں چھوٹ مل سکتی ہے بڑے ہوٹلوں کے حوالے سے ایف بی آر والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ گاہکوں سے وصول شدہ سترہ فیصد ٹیکس ان تک نہیں پہنچتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے وصولی کے لئے کوئی تیز بہدف نسخہ تلاش کرنا چاہئے۔ ہمارے ہاں ٹیکس کی ادائیگی کا کلچر عام کرنا چاہیے یہ ہماری ملی اور قومی ذمہ داری ہے۔ ملک میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی خرید و فروخت بلا روک ٹوک جاری ہے۔نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے بازار سوات اور مالا کنڈ ڈویژن میں لگتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے چمن کوئٹہ میں بھی خوب نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا بازار لگتا ہے قانون کا مذاق برسرعام اڑایا جاتا ہے۔ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں خیراتی ادارے بغیر ٹیکس ادا ئیگی کے مصروف خدمت ہیں ان خیراتی اداروں کو سرکار کی طرف سے زمین مفت دی جاتی ہے ان خیراتی اداروں کے منتظمین کا رہن سہن شہزادوں جیسا ہوتا ہے یہ خیراتی ادارے ہوں یا دینی تعلیم پھیلانے والے بڑے ادارے سب کے منتظمین شاہانہ سٹائل سے رہتے ہیں، جو متمول حضرات خیراتی ادارے قائم کرنا چاہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی جیب سے اخراجات کریں تاکہ ان کو پورا ثواب حاصل ہو سکے۔ شوکت ترین نے کہا کہ وزیر اعظم آئی ایم ایف کے سامنے سینہ سپر ہو گئے ہیں اور مہنگائی کے سامنے بند باندھ دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4.7 ٹریلین رکھا ہے حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ہدف سے زیادہ وصولیاں کرے گی۔ قومی اسمبلی نے 3088ارب 54 کروڑ کے 49 مطالبہ زر منظور کئے ہیں حکومت نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد کا اضافہ کیا ہے اور اسی طرح پنشنرز کی پنشن میں بھی دس فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت پر سرکاری ملازمین کی پنشنز کا بھی بڑا بوجھ ہے پوری قوم کو اس بارے غور و فکر کرنا چاہیے کہ کس طرح اس بوجھ سے آئندہ نجات حاصل ہو سکے۔  ملازم ساٹھ سال کی عمر میں ریکارڈ ہو جاتا ہے اور بیس پچیس سال تک قومی خزانے پر بوجھ بنا رہتا ہے اعلیٰ درجے کے ملازمین دوبارہ ملازمت حاصل کر لیتے ہیں اور ڈبل ڈبل پنشن وصول کرتے ہیں جو قومی خزانے کے لئے زہر قاتل ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے ریٹائرڈ اساتذہ،انجینئر حضرات سے پنشن دینے کے عوض جو صحت مند ہیں ان سے کیسے کام لیا جائے اور قومی ترقی میں ان کے کردار کو کیسے موثر بنایا جائے۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭

اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain