تازہ تر ین

ماحولیاتی تبدیلی، بھوک اور افلاس

ڈاکٹرناہید بانو
ماحولیاتی تبدیلی، بھوکے اور غذائی قلت کے شکار افراد کے لیے دگنا خطرہ ہے کیونکہ یہ سب مل کر ناصرف معاشی حالات کو خراب کرنے کے ساتھ نقل مکانی اور عدم مساوات میں اضافہ پیدا کرکے پائیدار ترقی کے2030ء تک صفر بھوک جیسے مقاصد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے موسمیاتی تبدیلی اور اس سے متعلق مصائب دگنے ہوچکے ہیں جس سے غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، خوراک کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی نے کم آمدنی والے افراد کی مناسب خوراک تک رسائی کو مشکل بنا دیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات فوری طور پر دور ہونا ناممکن ہے۔ آب وہوا کے ماڈل، خشکی و سمندری علاقوں میں اوسط درجہ حرارت، شدید گرمی اور چند علاقوں میں شدید بارش اور خشک سالی کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ یہ تمام انسانیت کو بھوک و افلاس دور کرنے کے ساتھ ساتھ اضافی چیلنجز ہیں۔
2000ء سے دنیا میں مسلسل بھوک و افلاس پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر کام شروع کیا گیا مگر بھوکے سونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر 2019ء کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جائے تو ایسے ممالک جن میں بھوک و افلاس زیادہ ہے وہ ماحولیاتی تبدیلی سے بھی زیادہ متاثر ہیں اور ان میں اس سے مطابقت کی صلاحیت بھی بہت کم ہے۔ بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بھی فصلوں کی نیوٹریشن ویلیو کو کم کررہی ہے۔ یہ فصلوں میں پروٹین، زنک اور آئرن کی کمی پیدا کرتی ہے جس سے 2050ء تک 175ملین افراد زنک کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں جبکہ 122ملین افراد میں پروتین کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ لائیوسٹاک اور فشریز بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں (خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک)۔ خشک سالی کی وجہ سے زراعت کو 49فیصد جبکہ لائیو سٹاک کو 36فیصد نقصان کا اندیشہ ہے۔ عالمی خوراک کا نظام ایک تہائی گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا باعث ہے اور تقریباً دو تہائی خوراک فارم سے پلیٹ میں پہنچنے تک ضائع ہوجاتی ہے۔ اس طرح یہ نقصانات غذائی تحفظ کو بہتر بنانے کے بجائے ماحولیاتی تبدیلی میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن کے خوراک و زراعت کے ادارے کے مطابق دنیا کے نیم بنجر علاقوں میں اجناس کی غیر متوقع پیداوار تقریباً 80فیصد آب وہوا کے تغیر کا نتیجہ ہے۔ موسم کی بدلتی ہوئی صورتحال، پودوں کی بیماریوں اور پانی کی قلت میں اضافے کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے دنیا میں گندم اور مکئی کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اسی طرح ساحل سمندر پر واقع ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش اور ویت نام میں سطح سمندر بلند ہونے سیان ممالک کی چاول کی فصلوں کو شدید خطرہ لاحق ہے جس سے مزید غذائی قلت اور معاشی نقصان سامنے آسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہارن آف افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جہاں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات ابھی سے واقع ہو چکے ہیں ان حالات سے نمٹنے کے لیے کچھ منفرد طریقہ کار تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر موسمیاتی تبدیلی سے فصلوں کی پیداوار پر منفی اثرات جاری رہے تو آسان الفاظ میں ہم کہ سکتے ہیں کہ غذا کی قیمتوں میں 50فیصد اضافہ ممکن ہے جس سے غربت کی سطح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔2015ء کے ماحولیاتی حفاظت کی رپورٹ کے مطابق 2050ء تک دنیا میں 200ملین مہاجرین مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے ممالک سے ہوں گے۔ خانہ جنگی کے حالات اور ماحلیاتی تبدیلی دونوں غربت میں اضافے کا باعث ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق 100ملین افراد کو ماحولیاتی تبدیلی شدید غربت میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اگر ہم ماحولیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کر سکے تو مستقبل میں یہ خانہ جنگی، تنازعات اور مہاجرین کی تعداد میں اضافے کا باعث ہوگی۔ ماحولیاتی تبدیلی میں بھوک و افلاس کے خاتمہ کے لیے ناصرف دنیا میں بلکہ قومی سطح پر بھی بڑے پیمانے پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار ممتازماہرین تعلیم ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain