اسلام آباد(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ نے حسین نواز تصویر لیکس اور جے آئی ٹی کے تحفظات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جے آئی ٹی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، جو جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے وہ سپریم کورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے حسین نواز تصویر لیک، جے ا?ئی ٹی طریقہ کار اور تحقیقات میں رکاوٹوں پر جے ا?ئی ٹی کے تحفظات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔سماعت کے دوران حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں موقف اختیارکیا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو ضابطہ فوجداری، نیب اور ایف آئی اے قوانین کے تحت اختیارات دیئے، عدالتی فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی ضابطہ فوجداری کی پابند ہے، تحقیقات کا طریقہ کار ضابطہ فوجداری میں درج ہے، تحقیقاتی ٹیم اپنے طور پر کوئی طریقہ کار نہیں اپنا سکتی۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ویڈیو بیان کوئی ثبوت نہیں ہوتا، ہم 1889 میں نہیں رہ رہے، ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا کوئی بری بات نہیں، اس کا مقصد صرف درست متن لینا ہے، اسے قانون کے مطابق ثابت کرنا ہوتا ہے، اس سے کوئی حقوق متاثر نہیں ہورہے، ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان محفوظ بھی ہو جائے تو بیان زبانی ہی رہے گا، ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان کی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی، دفعہ 161 کا بیان بطور ٹھوس ثبوت تسلیم نہیں ہوتا، دفعہ 161 کا بیان صرف بیانات میں تضادات کے لیے استعمال ہوسکتا ہے، ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا جہاں ایسے بیانات کا جائزہ لیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ درست ریکارڈ ویڈیو ریکارڈنگ سے پہلے بھی مرتب کیا جاتا تھا، گواہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان دینے کے لیے آزاد ہوتا ہے، زبردستی کسی سے اقبال جرم نہیں کروایا جا سکتا اور ویڈیو ریکارڈنگ میں ایسا ہی کیا جا رہا ہے، اگر وڈیو بیان بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتا تو پھر ریکارڈنگ کی کیا ضرورت ہے، کوئی قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ ویڈیو لیک ہوئی تو اثرات موجودہ صورتحال سے زیادہ ہوں گے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا مقصد صرف بیان کا درست متن ریکارڈ پر لانا ہی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں وڈیو ریکارڈنگ تحریری بیان پر دستخط کے مترادف ہے۔ کوئی گواہ تحقیقات کے بعد عدالت میں نیا موقف نہیں اپنا سکتا۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں ریکارڈنگ کے نفسیاتی پہلو کی نشاندہی کررہا ہوں، ویڈیو ریکارڈنگ کے دوران گواہ پر خوف رہتا ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ گواہان پر بیان تبدیلی کے لئے دباو ڈالا جا رہا ہے، جے آئی ٹی بھی کہتی ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا عدالت جائزہ لے، عدالت ویڈیو ریکارڈنگ کا جائزہ لے کہ کہیں ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ تو نہیں ہوئی، اگر ایسا ہوا تو اس کے کیا نتائج ہوں گے، ویڈیو سے تصویر کا سکرین شاٹ لیک ہوا اور جے آئی ٹی نے ساری ذمہ داری ایک شخص پر ڈال دی، کیا ضمانت ہے کہ وزیراعظم کی ویڈیو لیک نہیں ہوگی، اگر ایسی کوئی وڈیو سوشل میڈیا پر آگئی تو کون ذمہ دار ہوگا۔ جے آئی ٹی اپنی حرکتوں پر خود کیسے جج بن سکتی ہے، عدالت جے آئی ٹی کو ویڈیو ریکارڈنگ سے روکے، ویڈیو کسی کے بھی ہاتھ لگ سکتی ہے ، تصویر لیکس کے لیے کمیشن بنایا جائے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ویڈیو ریکارڈنگ آپ کے ساتھ برا سلوک بھی نہیں ہونے دیتی لیکن یہاں اعتراضات قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہیں، مجھے یہ صرف تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنا لگتا ہے، تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے، جسٹس شیخ عظمت نے استسفار کیا کہ تصویر لیک ہونے میں کیا مسئلہ ہے، تصویر میں ایک شخص عزت کے ساتھ کرسی پر بیٹھا ہے۔حسین نواز کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی ویڈیو ریکارڈنگ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کو آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگ کی اجازت دینا عدالت کی طرف سے قانون سازی ہوگی، عدالت خود قانون میں گنجائش پیدا نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ خواجہ حارث کے ساتھ متفق ہیں، جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں ہونے والی گفتگو بھی ریکارڈ ہوتی ہے، کیا آپ اس پر بھی اعتراض کریں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت میں صرف قانونی گفتگو ہوتی ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے وڈیو ریکارنغ سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔جے آئی ٹی کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جے آئی ٹی کی درخواست پڑھی ہوگی، جے آئی ٹی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، جو جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے وہ سپریم کورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، جے آئی ٹی کے تحفظات کا تفصیلی جائزہ لیں رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی درخواست پر کل عدالت کی معاونت کرسکتے ہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہمیں دکھ ہوا کہ فیصلہ پڑھے بغیر تنقید کرتے ہیں، بدقسمتی سے میڈیا کے ذمہ داران بھی جھوٹ بول رہے ہیں، بہتر ہو گا میڈیا پر رائے دینے والے فیصلہ پڑھ کر رائے دیں۔ ہم ساری مہم سے آگاہ ہیں لیکن عوام کی رائے کی پرواہ کئے بغیر قانون پر فیصلہ دیں گے، خطرے بھی ہمیں راستے سے نہیں ہٹا سکتے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کل فیصلے کے وقت عدالت کی توہین کرنے والے افراد کو بھی ڈیل کریں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا،کتنے آدمی ہیں وہ سات یا آٹھ آدمی ہی تو ہیں۔ درخواست کی مزید سماعت کل ہوگی۔