تازہ تر ین

ایٹم بم سے زیادہ خطرناک

خیر محمد بدھ
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے بھارت، امریکہ، انڈونیشیا اور برازیل کے بعد پاکستان بہت زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ جولائی 2019ء میں ملک کی آبادی بائیس کروڑ اکیاون لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اس وقت ایک اعشاریہ دو فیصد کے حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے آزادی کے وقت1947ء میں ملک کی آبادی 32 ملین تھی جو 1971ء میں دگنی ہو کر 65ملین ہوگی جبکہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 132 ملین تھی بڑھتی ہوئی آبادی ایک عالمی مسئلہ بھی ہے دنیا کے تمام ممالک اپنے وسائل کے مطابق آبادی کی سائز رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں چین جاپان روس نے بہت حد تک کنٹرول کرلیا ہے آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ویٹی کسن سٹی ہے جہاں 801افراد رہتے ہیں اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی آبادی اس وقت سات ارب سے زائد ہے جو سال 2040ء میں 9 ارب ہو جائے گی پوری دنیا میں ہر سال 80 ملین بچے پیدا ہوتے ہیں ورلڈ پاپولیشن پالیسی پراسپکٹسWorld Population Prospects کی رپورٹ کے مطابق ہر روز 18940 بچے جنم لیتے ہیں بھارت میں شرح پیدائش 1.8 ہے جبکہ عوامی جمہوریہ چین کی شرح صفر اعشاریہ35 ہے دنیا کی آبادی کو اگر مذہب کے حوالے سے دیکھا جائے تو پوری عالمی برادری میں عیسائی31فیصد مسلمان23فیصدہندو 15 فیصدبدھ 7فیصد یہودی 0.2 فیصد ہیں یہودی دنیا کے دو ممالک امریکہ اور اسرائیل میں آباد ہیں۔
آبادی میں اضافہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اس سے معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے تعلیم اور صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں وسائل کی تقسیم میں مسائل جنم لیتے ہیں امن عامہ کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں خوراک وغیرہ کی کمی واقع ہوتی ہے درحقیقت یہ اضافہ کسی بھی ملک کے لیے ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ تعمیر و ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے خوشحالی و ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔
پاکستان ترقی پذیر ملک ہے ماضی میں آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے 1960ء میں فیملی پلاننگ کا آغاز ہوا اور تیسرے پانچ سالہ منصوبے میں اس پروگرام پر عمل درآمد شروع ہوا لیکن ملک کے سماجی حالات اور رسم و رواج کی بنا پر یہ پروگرام سست روی کا شکار رہا اور آج بھی وہی صورتحال ہے۔ پوری دنیا خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کے ذریعے آبادی میں اضافے پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہمارے ہاں استفادہ کرنے والوں کی شرح صرف 35 فیصد ہے اور یہ محدود تعداد ہی فیملی پلاننگ کے ذرائع استعمال کرتی ہے ملک میں اگرغربت اوربے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے تعلیمی اور صحت کی سہولتوں میں کمی ہے امن و امان اور دہشتگردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں بجلی پانی اور خوراک کی قلت ہے تو یہ سب کچھ آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہے غربت جہالت اور عورتوں کی تعلیم میں کم شرح کم عمری کی شادی بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے ثمرات ہے حکومتی سطح پر آبادی کے نقصانات سے آگاہی اور مختلف این جی اوز کے پروگراموں کے باوجود اس مسئلہ پر قابو نہ پایا جا سکا ہے جس کی سب سے اہم وجہ ملک کی سیاسی اور مذہبی پس منظر ہے۔
اب محکمہ نے اس جانب توجہ دی ہے اور ہر ضلع میں علمائے کرام پر مشتمل کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جس سے آگاہی پیدا ہو رہی ہے تاہم پاپولیشن ویلفیئر کے محکمے کو کبھی بھی صحیح سمت میں نہ چلایا گیا ہے اس کے پروگرام تبدیل ہوتے رہے ہیں اور پالیسی کے عد م تسلسل کی وجہ سے پروگرام ناکامی کا شکار ہوا ہے اس وقت ملک میں سماجی اور مذہبی مسائل پر مفاہمت اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے حکومت کو پاپولیشن پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے اور پاپولیشن ویلفیئر کے محکمے کو مناسب وسائل دینے چاہیے خدمات کی فراہمی کے سلسلے کو وسعت دینے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے عوام الناس باالخصوص خواتین کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ بڑے کنبے سے بہت مسائل پیدا ہوتے ہیں زیادہ بچوں کے لئے تعلیم خوراک اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ناممکن ہو جاتا ہے بچوں پر توجہ اور محبت و پرورش کے مواقع کم ہو جاتے ہیں معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ مذہب میں بچوں کی پیدائش کے درمیان وقفہ رکھنا لازمی ہے اور پاپولیشن ویلفیئر کا پروگرام ہرگز غیر اسلامی نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ شرح 31 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔اقتصادی حالات بہتری کی بجائے مایوسی کی طرف جارہے ہیں کرونا اورکساد بازاری کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے خوراک میں کمی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ فوڈ سکیورٹی انڈس کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 133 ممالک میں پاکستان 78نمبر پر ہے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 43 فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں پانی کا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے اور فی کس پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اگر آبادی پر کنٹرول کرنے میں تاخیر یا کوتاہی کی گئی تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے اس سنگین صورتحال کے پیش نظر قومی مفاد میں حکومت کو ضروری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کم عمری کی شادی کی ممانعت کے قانون پر عمل کرایا جائے تاکہ خواتین کی بیماریوں اور صحت کے مسائل کم ہوں اور آبادی پر بھی کنٹرول ممکن ہو۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain