تازہ تر ین

ایک معصوم بچی کاقتل

عبدالباسط خان
نورمقدم کا وحشیانہ اوربہیمانہ قتل اسلام آباد پولیس کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد پولیس کو اس کیس میں کسی قسم کا پریشر نہ لینے کا حکم بھی دیا ہے۔ یاد رہے کہ نور مقدم و ہی بد نصیب لڑکی ہے جس نے موٹرے وے ڈکیتی ریپ کیس کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور مجرموں کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیاتھا اسے کیا معلوم تھا کہ وہ خود ایک دن ایسے درندہ صفت انسان کی بربریت کا شکار بن جائیگی اور حکومت اور عدلیہ سے اپنے ہی لیے انصاف مانگے گی۔ نور مقدم شوکت مقدم کی بیٹی تھی جو ساؤ تھ کوریا میں سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ دوسری طرف طاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کا بیٹا ہے اور احمد جعفر اینڈ کمپنی کا مالک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نور اور جعفر بچپن کے فیملی فرینڈز تھے۔
چاند رات کو ذاکر جعفر نے نور مقدم کو یہ کہہ کر بلایا کہ وہ امریکہ جا رہا ہے۔ لہٰذا وہ آکر اسے مل لے۔ ہماری نور مقدم کو کیا معلوم تھا کہ اسکی نیت کیا ہے اور وہ کیا گھناؤنا اور وحشیانہ ارادہ لیے بیٹھا ہے۔ وہ اس پر اعتبار کر کے F7/4اسکی رہائش گاہ پر چلی گئی جہاں اس نے گن پوائنٹ پر قید کر لیا مزاحمت پر اسے چاقو کے پے درپے وار کیے اور آخر میں اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ مظلوم نور کا صرف یہ جرم تھا کہ وہ لڑکی تھی اور اس ملک میں ایسی نہ جانے کتنی لڑکیاں اور خواتین ہیں جو ایسے درندے اوربے حس لوگوں کی ہوس اور ظلم کا شکار ہو چکی ہیں۔ پولیس نے جب نور مقدم کے والد کو اطلاع دی تو وہ موقع واردات پر پہنچے تو سوچئے خون میں لت پت اور کسی دوسری جگہ پڑا ہوا اپنی بیٹی کاسر دیکھتے ہوئے ان کے دل پرکیا گزری ہوگی۔ بقول ان کے والد کے ہمارا خاندان زارو قطار روتا ہے جن حالات میں اس کا قتل ہوا قاتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہے لیکن کیا اس نفسیاتی مریض کو تشدد اور قتل کا ارتکاب کرنے کے لیے نور ہی ملی تھی کیا وہ چلتے پھرتے لوگوں پر چاقو زنی کرتا تھا۔ ظاہر ہے یہ ایک سوچا سمجھا قتل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملزم UKبرطانیہ میں بھی ریپ کے مقدمے میں پکڑ ا گیا تھا۔ ملزم خواہ نفسیاتی مریض ہے یا ذہنی بیماری کا شکار ہے مگر نور فاطمہ واپس اس دنیا میں نہیں آسکتی اس کے والدین کے لیے یہ جان لیوا واقعہ ساری عمر ڈراؤنے خواب کیطرح چلتا رہے گا۔ ایسی لڑکی جو جانوروں سے محبت کرتی ہو۔ جو مظلوم اور محروم طبقے کی پریشانیاں اور مسائل کو اجاگر کرتی ہو جو انسانیت ستے محبت کرتی ہو تعلیم یافتہ ہواورانٹرنیشنل ریلیشنز کی سٹوڈنٹ ہو۔ خواتین کے حقوق کی علمبردار ہو اور شائد اپنی اسی طبیعت کی بناء پر نورمقدم نے اس ظالم بھیڑے سے ملنا گوارا کر لیا ہو۔ جو سوچ کر بیٹھا تھا کہ آج اس نے اس خوبصورت طبیعت کی مالکہ کو اپنی جھوٹی وفااور جھوٹے پیار کی بنا پرہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلا دیتا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ نور مقدم کے اس بھیانک قتل میں ایک اور شخص بھی زخمی ہوا ہے۔ فی الحال ذاکر جعفر اور اسکے خاندان کیخلاف FIRدرج ہوگئی ہے اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ذاکر جعفر اور اسکی فیملی کا نام ڈالنے کے لیے بذریعہ چیف کمشنر اسلام آباد منسٹری آف داخلہ کو بھجوادیا گیا ہے جہاں سے۔۔۔کیبنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ سفیروں کی تنظیم نے وزیراعظم سے اپیل کی ہے کہ اس ظالم قاتل کو اسکے انجام تک پہنچایا جائے۔
نور کے والد نے صرف یہ کہا کہ اس نے اس ملک کی بطور سفیر خدمت کی ہے اور اسے صرف انصاف چاہیے۔ انصاف کے حصول میں پاکستان جیسے ملک میں ہر شخص کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ انصاف اگر طاقتور سے لینا ہو تو پھر تو بہت مشکل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں ایک پڑھے لکھے انسان کے اس ظالمانہ قتل کے خلاف پورے ملک سے آواز یں اٹھ رہی ہیں کیا حکومت انصاف دے سکے گی؟
آخر میں پاکستان ٹیلی ویثرن چینلز پرائیویٹ ٹی وی چینلز،کالم نگاروں، تجزیہ نگاروں اور اینکر پرسن سے گزارش ہے کہ خدارا اس ملک پر رحم فرمائیں اور ہر وقت سیاست سیاست کھیلنے اور ناکام سیاستدانوں کی زندگیوں پر تبصرے سے پرہیز کریں۔ ایسے لوگوں کی تعریفیں نہ کریں جنہوں نے اس ملک کو غریب تر کر دیا اور خود بیرون ملک میں اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں بلکہ اس ملک میں تبدیلی کے لیے پروگرام اور کالم لکھیں خواتین کیساتھ تشدد کے واقعات ہمارے ملک کے معاشرتی سماجی کلچر پر ایک بد نما دھبہ ہیں۔
اسی سے نوے فیصد خواتین پر ملک میں گھریلو تشدد کیا جاتا ہے۔ خواتین پر تشدد کرنے والے ممالک میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ جہاں جرائم زیادتی اور اجتماعی زیادتی اور بعد ازاں ان کی ویڈیو ز بنا کر بلیک میلنگ دن بدن بڑھتی جار ہی ہے۔ جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ انصاف کے حصول میں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ این جی اوز کے مطابق 50000سے زائد عصمت دری اور زیادتی کے واقعات پندرہ ہزار سے زائد غیرت کے نام پر قتل اور 6000سے زائد اغوا کے کیسز رپورٹ ہوئے پاکستان میں خواتین کے لیے پارلیمنٹ میں نمائندگی ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو اوپر لے جانے کے لیے میڈیا کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہماری پولیس اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں پر میڈیا کو دباؤ بڑھانا ہوگا۔ معاشرے کو تشدد اور جرائم سے پاک کرنے اور خواتین کو ان کا جائز حق دلانے کے لیے کالم نگاروں‘اینکرزاور تجزیہ کاروں کو خواتین کی خود مختاری خاندانی منصوبہ بندی وراثتی جائیدادوں میں ان کا حق دلوانا ہوگا اگر اس ملک کی پچاس فیصد آبادی کوتعصب کی بھینٹ چڑھا یا گیا تو یہ معاشرہ یہ ملک یہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیگا۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain