تازہ تر ین

ثبوت دیکھ کر فیصلہ کریں گے ، وزیراعظم کو نا اہل کریں یا ریفرنس بھیجیں

 اسلام آباد (این این آئی‘ مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہاہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ اورشواہد کے جائزے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو بھیجیں یا نااہلی سے متعلق فیصلہ کردیں ، جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں ، ہمیں جے آئی ٹی کی رائے نہیں اس کا مواد دیکھنا ہے ،جے آئی ٹی نے تمام افراد کو جواب ،دستاویز اور منی ٹریل کےلئے واضح موقع دیا تھا ،وزیراعظم اور ان کے بچوں سوچ تھی کہ انہیں نہ تو کچھ بتانا ہے اور نہ ہی کچھ تسلیم کرنا ہے ،جے آئی ٹی کو جو کرنا ہے وہ خود کرے ،وزیر اعظم لندن فلیٹس میں جاتے رہے مگر انہیں علم نہیں کہ کس کے ہیں ؟وزیر اعظم عدالت نہیں توجے آئی ٹی کوہی ریکارڈ دے دیتے،20 اپریل کا حکم نامہ عبوری تھا ،جبکہ وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہاہے کہ جے آئی ٹی نے نجی فرم سے دستاویزات حاصل کیں جو مصدقہ نہیں ،قانون سورس دستاویز کی اجازت نہیں دیتا ، تصدیق کے بغیر کوئی دستاویز قابل قبول نہیں ،رپورٹ میں شامل چیزوں پر جے آئی ٹی نے ہم سے نہیں پوچھا، جے آئی ٹی کو ایک کیس جس کا فیصلہ ہوچکا،اس کو دوبارہ کھولنے کا نہیں کہا گیا نہ ہی کسی مزید گواہ سے پوچھ گچھ کا کہا گیا ،دستاویزات پرجے آئی ٹی نے جرح نہیں کی اورجرح کے بغیرتمام رپورٹ یکطرفہ ہے ،اس رپورٹ کی بنیاد پرٹرائل شفاف نہیں ہو سکتا ۔منگل کو پاناما لیکس کیس کی سماعت جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے کی ۔سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کے دوران سپریم کورٹ کا 20 اپریل کا حکم نامہ پڑھ کرسنایا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سوالات میں نوازشریف سے متعلق تحائف کا ذکرتھا جبکہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف کسی مقدمے کودوبارہ کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس ،قطری خط ، بیئررسرٹیفکیٹ سے متعلق سوالات پوچھے اورسپریم کورٹ نے جوسوالات پوچھے ان کے ہی جواب مانگے گئے تھے ،جے آئی ٹی نے 13 سوالات کےساتھ مزید 2 سوالات اٹھادیئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وہ دو سوال کون سے ہیں ؟خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے آمدن سے زائد اثاثوں کو بھی سوال بنا لیا اور 13 کے بجائے 15 سوال کرلیے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں جائیدادوں کی نشاندہی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا جس پرخواجہ حارث نے کہا کہ جومقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے، جے آئی ٹی نے ان کی بھی پڑتال کی جب کہ عدالت نے مقدمات کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لینا الگ معاملہ ہے ،ازسرنو تعین کرنا الگ بات ہے، بہت سے معاملات آپس میں ملے ہوتے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا، جہاں تک مجھے یاد ہے لندن فلیٹس کی پہلے بھی تحقیقات ہوتی رہی ہیں، جب تک مکمل تحقیقات نہ ہوں، مکمل معاملے کو دیکھنا ہوگا، تمام مقدمات کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا، عدالت کو دیکھنا تھا کہ رقم کہاں سے آئی، التوفیق کیس پر عدالت کا فیصلہ موجود ہے اور اسحاق ڈار کا بیان التوفیق کمپنی سے منسلک ہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنے ہیں، ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں ،جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اسکی سفارش کردی، سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیں،اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ابھی عدالت نے فیصلہ نہیں کیا لیکن وہ جے آئی ٹی کی کارکردگی بتا رہے ہیں۔ ہماری درخواست قانونی نکات پر ہے، جے آئی ٹی کی رائے کی قانون میں کوئی نظیر نہیں۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کی بات سمجھ کر ہم نے نوٹ کرلی ہے۔ آپ نے اپنے جواب میں دستاویزات کی تردید نہیں کی، لندن فلیٹس کی انکوائری کی منظوری 17 سال پہلے بھی ہوئی تھی، 2000 سے 2008 تک آپ کے موکل ملک سے باہر تھے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں جے آئی ٹی کی رائے نہیں اس کا مواد دیکھنا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے تمام افراد کو جواب، دستاویز اور منی ٹریل کےلئے واضح موقع دیا تھا۔ وزیر اعظم ، مریم، حسن اورحسین کو بلایا گیا اور سوالات کیے گئے، ہم آپ کو وزیر اعظم ، مریم، حسن اور حسین کے جوابات بتا رہے ہیں اور ان کی سوچ تھی کہ انہیں نہ تو کچھ بتانا ہے اور نہ ہی کچھ تسلیم کرنا ہے۔ جے آئی ٹی کو جو کرنا ہے وہ خود کرے۔ وزیر اعظم سے لندن فلیٹس کاپوچھا گیا تو انھوں نے کہا معلوم نہیں شاید ان کا مالک حسن ہے، وزیر اعظم نے تو اپنے خالو محمد حسین کو بھی پہچاننے سے انکار کردیا۔ وزیر اعظم لندن فلیٹس میں جاتے رہے لیکن انہیں علم نہیں کہ کس کے ہیں، ہل میٹل کی رقم سے جماعت کو دس کروڑ کی گرانٹ دی گئی لیکن ہل میٹل کی رقم کو سیاسی مقصد کےلئے استعمال کرنے کا پوچھا گیا تو کہا نہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ محمد حسین وزیر اعظم کے خالو نہیں تھے، وزیر اعظم سے ایف زیڈ ای سے متعلق سوال بھی نہیں پوچھا گیا۔ وزیراعظم 1985 تک کاروبار کرتے رہے ہیں، 1985 کے بعد وزیراعظم کا کاروبار میں کوئی کردار نہیں تھا، ان کے تمام اثاثے گوشواروں میں ظاہر ہیں، ان کے علاوہ کوئی اثاثے ہیں تو بتائیں، وہ اپنے موکل کی جانب سے ان کا جواب دیں گے۔ ہل میٹل سے رقم آئی لیکن سیاست میں استعمال نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے 14 کروڑ 50 لاکھ روپے (ن) لیگ کو دئیے، جس میں سے 10 کروڑ عطیہ جب کہ ساڑھے 4 کروڑ قرض تھا۔خواجہ حارث کے دلائل پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے نہیں پوچھا تو ہم پوچھ رہے ہیں، نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین ہیں یا نہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایف زیڈ ای کا مالک حسن نواز ہے، وزیراعظم کے پاس صرف چیئرمین کا عہدہ ہے۔ وہ


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain