تازہ تر ین

کشمیر کامقدمہ

لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفےٰ
میں نے 24 جون جمعرات کے روز”کشمیر کا مقدمہ“ کے عنوان سے لکھتے ہوئے انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے میں ہماری بہت ساری کمزوریاں‘ کوتاہیاں جن کا عام طور پر ذکر تک نہیں کیا جاتا اورجن کا میری دانست میں قارئین کا سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ اور پھر تاریخی تناظر صحیح ہو گا تب ہی ہمارے تجزیئے اور نتائج تحقیق درست ہوں گے اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والے سبق اور نتیجتاً مسئلے یا مسائل کے حل کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دی جا سکے گی۔ 8 اگست 1947ء سے 17 اگست 1947ء تک ریڈ کلف کا ہندوستان سے چلے جانا اور دس دنوں تک اس ڈاکومنٹ کا اس وقت کے وائسرائے کے پاس موجود رہنا اور اس وقت کے کانگریس لیڈر نہرو وغیرہ کا ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ذاتی خاندانی نوعیت کا ہر شخص کو علم تھا اور ہے۔ ہم سے سب سے پہلے جو غلطی اس مرحلے پر سرزد ہوئی وہ یہ تھی کہ جو ٹیم قائداعظم نے اس مقصد کے لیے مقرر کی تھی اس کی نالائقی اور نااہلی اظہر من الشمس ہے۔ ریڈ کلف ایوارڈ کے سلسلے میں برطانوی اور بھارتی سامراج کے گٹھ جوڑ کا علم نہ ہونا اور اس کے نتیجے میں ریڈ کلف ایوارڈ میں تبدیلیوں کا جو طے شدہ اصولوں کے سراسر منافی تھیں کا علم نہ ہونا اور اس کا توڑ کرنے کے لیے واضح حکمت عملی اختیار نہ کرنا جس کے نتیجے میں کشمیر پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو دے دیا گیابہت بڑی غلطی تھی اورچونکہ قائد کی مقرر کردہ ہماری ٹیم قائد کو وقت پر مطلع نہ کر سکی اور ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان جو سب کے لیے شدید دھچکا تھا لیکن قائداعظم کے پاس اسے تسلیم کرنے کا جواز بھی بہت کم تھا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے اکابرین کو فرشتوں کی جگہ بٹھا دیتے ہیں یا شخصیت پرستی کی اس حد تک آ گے چلے گئے ہیں کہ ہم اپنی پسندیدہ شخصیت کے خلاف کسی واضح حقیقت کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے فیصلوں اور ان کی وجہ سے جنم لینے والے مسائل یا تو تاریخ کے صفحات سے مٹا دیئے جاتے ہیں اور یا پھر انہیں زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے کہ تاریخ نہ صرف مسخ ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ آج کی نسل پاکستان کی تاریخ کے تسلسل سے ہی واقف نہیں ہے اور اب حال یہ ہے کہ ہر ایک کے اپنے اپنے ہیروز ہیں اور ہر ایک کی اپنی اپنی تاریخ۔ ہمارا معاشرہ ہر طرح کے علاوہ اگراس وجہ سے بھی منقسم ہے تو پھر میرا مذکورہ بالا استدلال تسلیم کر لینا چاہئے اور اب اپنی تاریخ کو حقائق کی بنیادپر تشکیل دینا ضروری ہے جس میں شخصیت سے ہٹ کر واقعات کا تجزیہ اور ان سے حاصل ہونے والے سبق اور ان کی روشنی میں فیصلہ سازی اتنی ہی ضروری ہے جتنی پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا۔
بہرحال بات مقدمہ کشمیر کی ہو رہی تھی لیکن ”مقطع میں آ گئی ہے سخن گسترانہ بات“ کے مصداق مذکورہ سطور کا تذکرہ درمیان میں ضمناً آ گیا۔ قائداعظم کا یہ فیصلہ اب سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے بہادر اور محب وطن قبائل اپنے کشمیری بھائیوں کے ہمراہ اپنے اس حق کو بزور شمشیر حاصل کر لیں۔ اس وقت برطانوی اور بھارتی سامراج دونوں نے مل کر تاریخی خیانت کا ارتکاب کیا اور کشمیر میں بسنے والے پاکستانی مسلمانوں کے حق پر ایک بہت بڑا ڈاکہ ڈال دیا تھا۔
حیران کن امر یہ بھی ہے کہ پاکستانی محققین نے اور اس وقت ہمارا دفتر خارجہ جس حال میں بھی تھا اور اس میں جو بھی ڈپلومیٹس تھے وہ سب کے ساتھ مقدمے کا پیش لفظ ہی درست طور پر نہ لکھ سکے جس میں یہ بھی بڑا واضح ہونا چاہئے تھا کہ نہرو کے حکم پر مہاراجہ پٹیالہ کی افواج 26 اکتوبر 1947ء سے پہلے کشمیر کیوں اور کیسے پہنچ گئیں۔ 27 اکتوبر کو ہندوستان کی طرف سے اعلان کردہ جعلی ڈاکومنٹ آف ایکسبشن کو تسلیم کیوں کر لیا گیا جبکہ مہاراجہ اس روز سری نگر میں موجود ہی نہیں تھا۔ پھر ہمارے مقدمے میں یہ واضح کیوں نہیں ہے کہ برطانیہ نے ایک منصوبے کے تحت بھارتی افواج کو تیار کرانے میں نہ صرف پوری طرح مدد کی بلکہ اضافی جہاز بھی مہیا کیے جو 28 اکتوبر کو علی الصبح کشمیر پہنچے اور ہمارے بہادر مجاہدین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو سری نگر ایئرپورٹ پر روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ جب میں کہتا ہوں کہ ہمارا مقدمہ غلط طور پر تیار ہوا اور اگر تیار ہی غلط ہوا تو ظاہر ہے پیش بھی غلط ہوا ہو گا اور اس وجہ سے حاصل ہونے والے نتائج بھی صحیح نہیں ہو سکتے۔ اب تک تو میں صرف یہی عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان نے کشمیر کے مقدمے کا پیش لفظ مکمل طور پر غلط بنیادوں پر استوار کیا تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک ہم اس کی سزا تو بھگت رہے ہیں لیکن ہم اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو یہ نہیں بتا پا رہے کہ آپ نے جب بھی کوئی مقدمہ پیش کرنا ہے تو اس کی ایف آئی آر بھی درست ہونی ضروری ہے اور اگر از راہ تفنن میں یہ کہوں کہ کشمیر کی ایف آئی آر تو ہم صحیح نہیں لکھ سکے اب اس سے حاصل ہونے والے سبق کی وجہ سے وطن عزیز میں شاذ ہی کوئی ایف آئی آر صحیح اور درست تناظر میں لکھی جاتی ہو۔
کچھ کی نظروں میں فیلڈ مارشل ایوب خان ہیرو تھا اور بعض دوستوں نے اس کو ایک اتنے بڑے شیطان کے طور پر پیش کیا ہے جو بذات خود پاکستان کے دو لخت ہونے اور ذوالفقار علی بھٹو کے برسراقتدار آنے کی دلیل بنا دی گئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک دیومالائی شخصیت بنا دیا گیا ہے اور کچھ لوگ تو ان کو پیرومرشد مانتے ہیں اوران کے فیصلوں پر تجزیوں اورتنقید کو تقریباً حرام قرار دینے پر مصر ہیں اور ایسے دوستوں کے لیے جنرل ضیاء الحق اگلا بڑا شیطان ہے۔ یہ میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ ہم حال کی تاریخ میں اگر ان تین شخصیات کو دیکھ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ ان میں سے نہ تو کوئی شیطان تھا اور نہ ہی کوئی فرشتہ‘ وہ انسان تھے۔ اگر بحیثیت انسان کے اس دور کے حالات کا تجزیہ کریں تو شاید ہم صحیح نتیجے تک پہنچ چکے ہوتے۔ اس سلسلے میں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ قائداعظم نے جب کسی سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ مسلم لیگ میں‘ میرا ٹائپ رائٹر اور میری بہن ہیں‘ اس کا مطلب کیا تھا۔ ان کے ساتھی انتہائی مخلص‘ انتہائی دیانتدار اور جانثاری کی حد تک قائد کے ساتھ تھے‘ لیکن ان کی غلطیوں کا تسلیم کرنا ان کے درجات کو کم نہیں کرتا بلکہ ہماری تاریخ صحیح طور پر آنے والی نسلوں تک پہنچانے میں بہت زیادہ مدد گار ہو سکتا ہے۔
(کالم نگار دفاعی وسیاسی تجزیہ نگار
اورسابق کورکمانڈر منگلا ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain