تازہ تر ین

نئی انتخابی اصلاحات‘ پس پردہ محرکات؟

کنور محمد دلشاد
وزیراعظم عمران خان ۱۵ جولائی تک الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام تیار کرنے پر پُرعزم ہیں۔ حکومتی وزراء نے الیکشن ایکٹ ۲۰۱۷ء کے ترمیمی بل کی منظوری سے پیشتر ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری اور تیار کرنے کے اختیارات سائنس ٹیکنالوجی کے ادارے کو دے دئیے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ووٹنگ مشین میں استعمال ہونے والا کاغذ پانچ سال تک خراب نہیں ہوگا اور مشین ایلفی ڈالنے سے بھی خراب نہیں ہوگی اور وزیراعظم پُراعتماد ہیں کہ اگلے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی شفافیت پر مبنی ہوں گے۔ حیرانگی اس امر کی ہے کہ حکومت نے اس سارے عمل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نظرانداز کر دیا جب کہ بھارت میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی نگرانی ہی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین بنگلور میں تیار کی گئی تھی جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بین الاقوامی حب ہے اور امریکہ کی اہم ترین حساس نوعیت کی ٹیکنالوجی بھی بنگلور میں ہی تیار کی جاتی ہے، بہرحال یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشین انڈیا سے بہتر ثابت ہوگی۔ حکومتی ترجمانوں نے بلاوجہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سیاسی اصلاحات کے ساتھ منسلک کر دیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا انتخابی اصلاحات پر گہری نظر رکھنا اس ادارے کا قانونی اور آئینی استحقاق ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن کے تحفظات کا ازالہ کرنے کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے معاونت حاصل کرلی ہے اور سینٹ میں بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کا ترامیمی بل فی الحال مؤخر کردیا گیا ہے، کہ حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان انتخابی نظام میں ایسی دفعات جو آئین پاکستان سے متصادم ہے اس میں تبدیلی کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکے اور وزیراعظم نے وسیع تر مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کو موجودہ حالت میں سینٹ سے منظور کرایا جائے اور نہ ہی اسے قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزیراعظم کو آگاہ کر دیا تھا کہ قومی اسمبلی سے منظور کیے جانے والے انتخابی اصلاحات کے بل میں آئین کی چند سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ وزیراعظم انتخابی اصلاحات میں دو معاملات میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کی پہلی خواہش بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آئندہ الیکشن میں ووٹ کا حق دیا جائے اور اس مقصد کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء کا دفعہ ۹۴ (۱) میں ترمیم کر کے سمندر پار پاکستانیوں کوووٹ کا حق دیا جائے اور دوسری اہم خواہش یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ئئ کے سیکشن ۱۰۳ میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے کا پابند ہوگا اور تیسری ابہام زدہ تجویز کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017ء کے دفعات ۲۴، ۲۵، ۲۶، ۲۸، ۳۳، ۳۴، ۳۶، ۳۷، ۳۹، ۴۲،۴۴ جن کا تعلق انتخابی فہرستوں سے ہے جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات کو محدود کرکے نادرا کو اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں۔ انتخابی فہرستوں کے حوالہ سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ ۴۸ کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس میں بھی بنیادی تبدیلی الیکشن ایکٹ 2017ء میں کرتے ہوئے اس کا حقیقی سرچشمہ جو آئینی ترمیم 1974ء سے منسلک ہے اس کی اہمیت کو اسحاق ڈار کمیٹی نے پہلے ہی کسی حد تک ابہام زدہ کر دیا تھا وہ برقرار ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی اس کا کسٹوڈین رہے گا، اس حساس ترین شق کا نادرا کا لینا دینا نہیں ہوگا۔ مجھے حیرانگی ہے کہ انتخابی فہرستوں کے حوالے سے اہم شقیں حذف کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا ہے اور وزیراعظم آفس میں ایسے کونسے انتخابی ماہرین موجود ہیں جو بلاسوچے سمجھے وزیراعظم پاکستان کی انتخابی اصلاحات کو متنازعہ بنا رہے ہیں، اسحاق ڈار کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سب کمیٹی میں وزیرانصاف و قانون زاہد حامد تھے جنہوں نے کاغذات نامزدگی فارم میں حساس ترین شق کو تبدیل کر کے ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا کر دیا تھا جسے عسکری قیادت کی بروقت مداخلت سے حالات پر کنٹرول کر لیا تھا اور ان کے محرک کو مستعفی ہونا پڑا اور ایک اہم رکن کو لندن میں پناہ لینی پڑی۔
مجھے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں طویل ملازمت کے دوران انتخابی نظام اور اس کی خامیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کے مواقع ملتے رہے، اب وزیراعظم نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے بارے میں جو حتمی رائے قائم کی ہے اس پر ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اور وزیراعظم سے اختلافات، عناد رکھنے کے باوجود بین الاقوامی تناظر میں غور و خوص کرنا چاہیے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کی تحریک اور اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کا ایک بڑا محرک کسی بھی دور رس نتائج کی حامل حکومتی تجویز کی اپوزیشن کی جانب سے مطلق مخالفت روایتی، جمہوری، پارلیمانی سیاست کی حکمت عملی کا ایک کلیدی عنصر ہو سکتا ہے اور اس نوعیت کی مخالفت عملی طور پر حکومت اور حزب ِ اختلاف کے درمیان کسی مناسب موقع پر مفاہمت کے طور پر استعمال ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات طے پائے جاتے ہیں تو ایسے میں حکومت وقت کی جانب سے متعارف کردہ ایسی نئی الیکشن اصلاحات کو جس کے بارے میں حزب ِ اختلاف کو یہ خبر نہ ہو کہ اس نظام کے نفاذ کا فوری اور براہ راست فائدہ مخصوص حالات کے تحت اگلے الیکشن میں حکومت وقت کو ہی پہنچے گا کیونکہ نئے نظام کی تکنیکی پیچیدگیوں اور انتظامی کنٹرول کے امور و معاملات ہر حکمران جماعت کو اخلاقی اور انتظامی برتری حاصل ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں وہ فیصلہ کن فائدہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
مجھے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ذہنی وژن اور وزڈم کا بخوبی علم ہے میں تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں میں موجود ایسے طبقات کو جانتا ہوں جو اپنی قیادت سے نالاں ہیں اور جو اپنے اپنے ادوار حکومت میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی روایتی تقسیم کے دباؤ کے تحت سیاسی مصلحت کے باعث خاموش نظر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیران نے وزیراعظم کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور انٹرنیٹ ووٹنگ کو متنازعہ بنوا دیا اگر یہی معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سپرد کرتے تو حکومت کو متنازعہ بل پیش کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain