تازہ تر ین

پاکستانی قوم اپنا مقام پہچانے

پی جے میر
میں سیاست پر بات تو کروں گا لیکن پھر کبھی کیونکہ ہماری سیاست اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ ہماری سماجی اور گھریلو زندگیاں تلخ ہو کر رہ گئی ہیں کہ نہ سیاستدان اس پر توجہ دیتا ہے اور نہ ہمارے آج کے گھر والے۔ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام آباد میں جو عثمان مرزا جیسے کیڑے ہم نے اپنے معاشرے میں پیدا کر دیئے ہیں (تفصیلات سے قارئین آگاہ ہیں) یہی وجہ ہے کہ آج ہم معاشرے کی بربادی کا تماشا بچشم خود دیکھ رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو بچائیں، آج میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ بچپن میں جب میں سڑک پر چلتا تھا تو ہر آنے جانے والا آپ کو السلام علیکم کہا کرتا تھا اور اس میں نہ کوئی امیر اور نہ ہی کسی غریب میں فرق و امتیاز پایا جاتا تھا۔ جس گھر میں آپ رہتے تھے تو پندرہ گھر آپ کے دائیں اور 15 ہی بائیں ہوتے تھے جن میں ہم سب کو جانتے تھے اور جیسے آج کی دنیا ہے اس وقت نہ تو کسی گارڈ کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اور نہ ہی کسی بندوق بردار کی۔ شام کو ہماری مائیں بہنیں‘بیٹیاں، بہو بیٹیاں گھروں سے نکلتی تھیں لیکن بغیر کسی خوف اور ڈر کے، لیکن میں کہتا ہوں کہ آج یہ تبدیلی کیوں آ گئی۔ آپ کی بڑی بڑی سوسائٹیز جن میں ڈی ایچ ایز، بحریہ ہو گئے اس طرح کی دیگر نامور ہاؤسنگ کالونیاں بن گئیں لیکن بدقسمتی سے یہاں کے مکینوں میں سے کوئی بھی اپنے اردگرد رہائش پذیر لوگوں کو نہیں جانتا۔
اب اس کی وجہ کیا ہے۔ جس کی میں نشاندہی کر سکتا ہوں کہ ہماری اس گھریلو اور خانگی بدحالی کی قصور وار ہماری سابق حکومتیں رہی ہیں۔ قارئین! آپ پوچھیں گے کیوں؟ تو میرا جواب یہ ہو گا کہ آپ نے ایک چھوٹا سا گھر بازار میں کوئی خالی گھر کوئی چھوٹی سی کوٹھی میں سکول کھول دیئے جس کا مطلب ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ایک تو آپ کے بچوں کی پرورش اس ماحول میں ہو گی تو آپ کی سوشل باؤنڈنگز ایک دوسرے کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتیں جبکہ پرانے زمانے میں جب بچے پڑھتے تھے تو اس وقت ہماری سوسائٹیز کا بھی ایک سے دوسرے فرد کے ساتھ ایک رشتہ بن جاتا تھا۔ آپ 1960ء کے بعد دیکھ لیں کہ ہمارے کسی ایک عام بچے کی پرورش کیسے ہوئی۔ اس زمانے میں سکولوں کے پاس کھیل کے میدان ہوتے تھے اور باہر کی ضروریات کے لئے پلیٹ فارم ہوتے تھے لیکن آج وہی بچہ اور بچی ایک موبائل اور کمپیوٹر کا شکار ہو چکا ہے، آپ کسی کے گھر چلے جاتے ہیں آپ کا بچہ اپنے موبائل سے کھیل رہا ہے اسی طرح آپ کے میزبان کے بچے بھی اسی تفریح سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ طرفہ تماشا یہ ہے کہ آپ خود بھی کسی کے مہمان بنتے ہی سب سے پہلا سوال ہی یہ کرتے ہیں کہ کیا آپ کے ہاں وائی فائی موجود ہے دوسرا سوال عموماً یہ ہوتا ہے کہ کیا آپ کے پاس میرا مطلوبہ چارجر ہے؟ بلکہ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گاڑی میں چار افراد بیٹھے ہوں تو وہ بھی اپنے اپنے فون سیٹ پر بیزی ہوتے ہیں بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ڈرائیور حضرات بھی اسی خوفناک بیماری کا شکار ہونے لگے ہیں۔ میں ان سطور میں ایک معاشرتی برائی کی نشاندہی کر رہا ہوں لیکن پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان سب برائیوں اور خرابیوں کے ذمہ دار آج کے والدین ہیں ایک گاڑی آپ دیکھتے ہیں۔ سن روف کے باہر بچہ نکلا ہوا ہوتا ہے۔ بریک لگتے ہیں تو بچہ اچانک باہر گر جاتا ہے۔ ہم نے یہ حالت خود اپنے ہاتھوں اپنی نئی نسل کی کر رکھی ہے۔ علاوہ ازیں آپ کا ڈرائیور آپ کے بچے کو ساتھ بٹھا کرجس طریقے سے ہر قانون شکنی کرتا ہے ٹریفک لاز کی پرواہ کئے بغیر سگنل کو تارعنکبوت کی طرح توڑ کر نکل جاتا ہے۔ لہٰذا آپ خود ہی بتائیں کہ وہ ڈرائیور آپ کے بچے کو چُھپ چُھپا کر ڈرائیونگ بھی سکھا دیتا ہے بلکہ سڑک پر عملاً گاڑی کا سٹیئرنگ بھی اس کے ہاتھوں میں تھما دیتا ہے حالانکہ وہ بچہ نہ تو اپنی عمر کے لحاظ سے ڈرائیونگ کے لائق ہوتا ہے اور نہ اس کے پاس حکومت کا جاری کردہ لائسنس ہوتا ہے۔ یہ تو ایک امیر کا حال ہے اور اگر آپ نچلی سطح پر دیکھیں تو آپ کو دس بارہ سال کا چھوٹا بچہ بھی موٹر سائیکل چلاتے نظر آ جائے گا۔ اس میں کئی اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ہماری مائیں بہنیں نہ صرف اپنی عزت کے ڈر سے نہ باہرآتی ہیں اور نہ آئیں گی جب تک کہ ہم اپنے معاشرے میں اپنی قوانین کو انتہائی سختی سے لاگو نہیں کریں گے۔ معذرت کے ساتھ کیا ہم وہی نہیں ہیں جو لاہور ایئر پورٹ، لاری اڈوں اور ریلوے اسٹیشنز پر بھیڑ بکریوں کی طرح آمدورفت رکھتے ہیں اور انارکلی، اچھرہ، لکشمی چوک یا پنڈی کے راجہ بازارمیں جس طریقے سے چلتے ہیں اور خواتین کو دھکے مار کر آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور کیا ہم وہی نہیں کہ یہاں سے دبئی جائیں اور وہاں سے لندن اتریں توسیدھے تیر کی طرح سیدھے ہو کر قطار میں لگ جاتے ہیں اور ایئرپورٹ سے نکلتے وقت بھی اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اپنے مقدس ناموں تک کا بیڑا غرق کر دیا ہے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے دختر پیغمبرؐ جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت بی بی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے ان کے نام پر بچیوں کے نام رکھ کر سیدھا نہیں بلکہ فاطی کہہ کر یا فاتو کہہ کر گویا بگاڑ نہیں دیا۔ حضرت عائشہ کا نام آج عاشی کر دیا گیا ہے کیا ہم اس قدر ماڈرن بلکہ میں تو کہوں گا کہ جاہل ہو گئے ہیں۔ لہٰذاہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرتی مقام کو پہچانیں اور اسے بہتر بنانے کی ضرورت پرتوجہ دیں۔
(کالم نگار معروف اینکر اور ممتازسیاسی تجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain