تازہ تر ین

افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا ڈرامہ ناکام ہو گیا

ملک منظور احمد
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں، پاکستان کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ افغانستان سے ہمیشہ ایک اچھے ہمسائے اور ایک برادرانہ اسلامی ملک کے طور پر بہتر تعلقات رکھے جائیں، دونوں ممالک کے درمیان عوامی اور تجارتی روابط میں اضافہ کیا جائے لیکن پاکستان کی اس خواہش کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات بد قسمتی سے آج تک پروان نہیں چڑھ سکے ہیں۔ اب اس کی وجہ کیا ہے یہ یقینا ایک طویل بحث ہے، لیکن بہرحال دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مثالی قرار نہیں دیے جا سکے ہیں۔ افغانستان گزشتہ 40برس سے ہی جنگ کا شکار ہے اور اس جنگ کے اثرات پاکستان نے بھی بھگتے ہیں اور اب بھی بھگت رہا ہے۔ سویت یونین نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس کا راستہ روکنے کے لیے افغانستان میں سویت مخالف قوتوں کی ہر طرح سے مدد کی اور پاکستان بھی عالمی برادری کے ساتھ ان کاوشوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کے نتیجے میں سویت یونین تو شکست کھا کر افغانستان سے نکل گیا لیکن پاکستان کو 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی صورت میں اس جنگ کے نتائج بھگتنا پڑے۔
امریکہ میں نا ئن الیون حملوں کے بعد امریکی اور نیٹو ممالک نے دہشت کے خاتمے کے نام پر ایک اور افغان جنگ شرو ع کی اور یہ جنگ 20سال تک جاری رہی اورامریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کہلائی لیکن اب امریکہ کی جانب سے اس جنگ میں خود ساختہ مقاصد کے حصول کا اعلان کردینے کے بعد انخلا کر سلسلہ تیزی سے جاری ہے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک 95فیصد امریکی فوجی افغانستان سے واپس جا چکے ہیں۔ لیکن جوں جوں امریکی فوجوں کا انخلا افغانستان سے ہوتا جا رہا ہے افغانستان میں جنگ میں تیزی ہو تی جا رہی ہے۔ افغان حکومت اور طالبان ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار ہے ہیں اور دونوں فریقین ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ حال ہی میں دوحا میں دونوں افغان فریقین کے درمیان مذاکرات کا تازہ دور ضرور ہوا ہے لیکن بے نتیجہ رہا ہے۔ دونوں فریقین اپنے اپنے موقف اور رویوں میں لچک کا مظاہر ہ کرنے کے روا دار نہیں ہیں اور اس کا نتیجہ نہ صرف افغان عوام بلکہ پاکستان بھی بھگت رہا ہے۔ افغانستان میں جنگ امریکی انخلا کے ساتھ ساتھ جنگ میں تیزی آرہی ہے اور ساتھ ہی افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے اوپر الزامات کا سلسلہ تیز ہو تا جا رہاہے۔ محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ افغان حکومت اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہی ہے اور چاہتی ہے عالمی بردادری کو یہ با ور کروایا جائے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار پاکستان ہے اور افغان حکومت اس عمل میں اکیلی نہیں ہے بلکہ بھارت بھی اس حوالے سے پاکستان کے خلا ف پراپیگنڈا کرنے میں پیش پیش ہے۔ حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغان فوج درجنوں کی تعداد اضلاع میں بغیر ایک گولی چلائے ہی ہتھیار ڈال کر فرار ہو چکی ہے بلکہ کئی اضلاع میں تو افغان فوج کے فوجی طالبا ن کے ساتھ شامل بھی ہو چکے ہیں۔
افغا ن فوج تعداد اور وسائل میں طالبان سے کہیں زیادہ ہونے کے باوجود مقابلہ کرتی ہو ئی نظر نہیں آرہی ہے۔ افغان نیشنل سیکورٹی مشیر حمد اللہ محب اور افغان نائب صدر امر اللہ صالح مسلسل پاکستان کے خلاف زہر یلے بیانات دے رہے ہیں۔ جبکہ افغان صدر اشرف غنی بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں ہیں اور دعویٰ کیا کہ پاکستان سے 10ہزار جنگو افغانستان میں طالبان کے ساتھ لڑنے کے لیے پہنچ چکے ہیں، اس کے بعد افغان نائب صدرامر اللہ صالح نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی فضائیہ نے افغان فضائیہ اور دیگر فورسز کو طالبان کے خلاف آپریشن کی صورت میں کاروائی کی دھمکی دی ہے۔ اور ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں تھا تو اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا الزام بھی پاکستان پر دھر دیا گیا اور نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ افغان سفیر کی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے، لیکن جس نے بھی اس واقعے کی کہانی سنی اس کے ذہن میں سوالات نے ہی جنم لیا، اسلام آباد میں افغان سفارت خانہ بے پناہ وسائل رکھتا ہے ان کے پاس سیکورٹی گارڈ بھی موجود ہیں اور متعدد سرکاری گاڑیاں بھی اس کے باجود افغان سفیر کی بیٹی پورے اسلام آباد اور راولپنڈی میں چار ٹیکسیاں بدل بدل کر کیوں گھومتی رہیں؟ اس کے علاوہ ان کے ساتھ دوسرا کوئی فرد کیوں نہیں تھا۔ وہ راولپنڈی کیا کرنے گئیں تھیں؟ اور سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ انھوں نے تفتیشی ٹیم کو اپنا موبائل ڈیٹا ڈلیٹ کرکے کیوں دیا؟ پاکستان اداروں کی تفتیش کے مطابق افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا واقعہ ثابت نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی افغان سفیر کی بیٹی پر کسی قسم کا کوئی تشدد ثابت ہوا ہے۔ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا یہ ڈرامہ جو کہ یقینا پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے لگایا گیا تھا بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اور اس ڈرامے کی ناکامی کی بڑی وجہ اسلام آباد پولیس کی بہترین اور تیز رفتار تفتیش تھی، اسلام آباد پولیس نے آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمان اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن مصطفی تنویر کی زیر قیادت نہایت ہی قلیل وقت میں پاکستان کے خلاف رچائی جانے والی اس خطرناک سازش کا پردہ چاک کر دیا۔ مبصرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جس عجلت میں افغان سفیر کو پاکستان سے واپس بلا لیا گیا ہے اس سے تو یہی ثابت ہو تا ہے کہ افغان حکومت کو یہ ڈر تھا کہ کہیں افغان سفیر مزید تحقیقات کے نتیجے میں مزید ایکسپوز نہ ہوجائیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے خلاف باقاعدہ ففتھ جنریشن جنگ شروع کردی گئی ہے۔ اور پاکستان کی عوام اور اداروں کو مل کر اس جنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔ افغان قیادت اس صورتحال میں اپنے سر سے ذمہ داری ہٹانے کے لے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے اور پاکستان کو بغیر کسی لگی لپٹی رکھتے ہوئے اس پراپیگنڈا مہم کا بھرپور جواب دینا چاہیے۔ پاکستان کو اس حوالے سے افغان حکومت کی کمزوریوں اور بھارت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ کو بھی دنیا کے سامنے عیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت دفاعی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستان نے افغانستان میں امن کی جتنی کو ششیں کیں ہیں اور افغانستان میں جنگ کے جتنے نقصانات اٹھائے اور کسی ملک نے نہیں اٹھائے یہی درست وقت ہے پاکستان کو عالمی سطح پر اپنے مفادات کا بھرپور دفاع موثر انداز میں کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت بھی آن بورڈ ہو تو مقصد حاصل کرنے میں آسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain