تازہ تر ین

پاک سعودی تعلقات۔دوسرا رخ

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان پاکستان کے ایک روزہ دورے پر آئے چند گھنٹوں کے قیام کے بعد روانہ ہو گئے۔ یہ گزشتہ ایک سال میں ان کا دوسرا دورہ تھا۔ ڈپلومیسی کے راز بہت گہرے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے دوروں میں صرف وہی کچھ نہیں ہوا ہوتا جو پریس کانفرنس یا مشترکہ اعلامیہ میں بتایا جاتا ہے۔ اندر کے معاملات اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں اور ان کا اندازہ دیگر افعال وعوامل سے لگایا جاتا ہے۔
فروری 2019 ء میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد، 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان، سعودی جیل میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے معاملے پر سعودی شہزادے کی طرف سے خود کو پاکستانی سفیر قرار دینے کے بعد پاکستانی قوم میں زبردست جوش و خروش تھا۔ اس سے چند ماہ قبل ہی سعودیہ پاکستان کو سٹیٹ بینک میں رکھنے کے لئے 3 ارب ڈالر بھی دے چکا تھا کہ خدانخواستہ ہم دیوالیہ ہی نہ ہو جائیں۔پاکستانیوں نے اپنے معزز مہمان کے لئے اپنی آنکھیں اور دل فرش راہ کر دئیے. لیکن اس کے بعد چاہنے کے باوجود بھی جوش و خروش کا یہ تسلسل قائم نہ رکھا جا سکا۔ پاکستانیوں کے جذبات کو فوری جھٹکا تو دوسرے دن ہی لگ گیا جب سعودی ولی عہد پاکستان سے سیدھے بھارت پہنچے اور پاکستان میں 20 ارب ڈالر کے مقابلے میں بھارت میں 100 ارب ڈالر کے معاہدے کئے۔ جذباتی پاکستانیوں کو اگلا بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے اپنے ملک کا باقاعدہ حصہ بنانے کا اعلان کیا اور پاکستان کے بارہا اصرار پر بھی سعودی عرب نے او آئی سی کا کشمیر بارے اجلاس بلانے سے تقریباً انکار کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو نہایت مایوسی ہوئی۔اس بات کا گلہ نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بلکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی کیا۔
دسمبر 2019 ء بھی ایک برا وقت تھا جب تمام تیاریوں کے بعد پاکستان نے ملائشیا کانفرنس میں آخری وقت شرکت سے انکار کر دیا۔اس انکار کی اندرونی کہانی کچھ ہی دنوں بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس طرح سنا دی کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت کی تو سعودیہ نہ صرف پاکستانی سٹیٹ بینک میں رکھے اپنے 3 ارب ڈالر فوراً واپس لے لے گا بلکہ سعودیہ میں موجود 40 لاکھ پاکستانی ورکرز کو بھی واپس بھیج دے گا۔ معاشی مشکلات میں گھرا پاکستان اس وقت تو ٹال گیا لیکن دسمبر 2020 ء میں سعودیہ نے اچانک اپنے 3 ارب ڈالر واپس طلب کئے اور پاکستان کو چند ہفتوں میں ہی چین سے مزید قرض لے کر ایک ارب ڈالر کر کے یہ رقم اپنے اس برادر اسلامی ملک کو دینا پڑی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، سعودی عرب اپنے تبدیل ہوتے ہوئے معاشی و سیاسی حالات کے باعث اسرائیل سے قریب ہوا تو پاکستان پر بھی اسی قرب کا تقاضا کیا گیا. پاکستانی عوام ابھی تک ایسی سوچ کے متحمل نہیں تو پاکستانی حکومت کو بھی جواب میں ترکی کی طرف رابطے بڑھانے پڑے۔پاکستانی سفیر ہونے کے دعووں کے باوجود ڈھائی سال بعد بھی سعودی جیلوں میں سڑنے والے تمام پاکستانی قیدی واپس نہیں آ سکے۔3 ارب ڈالر کا تیل ادھار تو کیا ملنا تھا دہائیوں سے محنت کرنے والی پاکستانی لیبر کو بھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ غرض آج کا سچ یہی ہے کہ محبت اور قربت کی تمام خواہشات کے باوجود پاک سعودیہ تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی۔بقول مومن خان مومن
دل قابل محبت جاناں نہیں رہا
وہ ولولہ، وہ جوش، وہ طغیاں نہیں رہا
بے اعتبار ہو گئے ہم ترک عشق سے
از بس کہ پاس وعدہ و پیماں نہیں رہا
اس سے پہلے کہ پاک سعودیہ تعلقات کا مزید جائزہ لیا جائے ضروری ہے کہ سعودی معاشرے میں ہونے والی تیز ترین تبدیلیوں پر ایک نظر ڈالی جائے۔جس سے سعودی عرب کی مجبوریوں اور پریشانیوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔دنیا بھر میں بڑی تیزی سے سماجی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔جس کے نتیجے میں نئی سوچ،نئے نظریات جنم لے رہے ہیں۔کل کے دشمن آج دوست بن رہے ہیں تو دوسری طرف صدیوں کی دوستی آج کی لاتعلقی میں بدل رہی ہے۔ جس کی واضح مثال عرب دنیا کا اسرائیل سے دہائیوں کی دشمنی ختم کر کے اس سے دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے۔دوسری طرف پاکستان، ایران، ترکی، انڈونیشیا جیسے چند ممالک ہیں جو آج بھی اپنی سوچ میں خم نہیں آنے دے رہے۔شاہ دین ہمایوں نے کہا تھا کہ
اے شاعران قوم زمانہ بدل گیا
پر مثل زلف یار تمہارا نہ بل گیا
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کہیں
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
عمومی طور پر کرونا کا گزشتہ ڈیڑھ سال کا عرصہ دنیا میں جمود کی کیفیت کو ظاہر کر رہا ہے لیکن سعودیہ کے لیے یہ تغیر وتبدل کا عہد ثابت ہوا ہے۔کیونکہ سعودی عرب کی تمام تر معیشت کا انحصار دو چیزوں پہ رہا ہے۔1. تیل کی پیداوار اور 2۔حج و عمرہ سے آمدن۔ اور اس کرونا نے ان دونوں چیزوں کو ہی سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس وبا کے باعث عالمی لاک ڈاؤن اور دنیا کے تقریبا رک جانے سے دنیا بھر میں تیل کی کھپت نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور ایک ایسا بھی وقت آیا کہ ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل کا تیل پہلے مفت یعنی صفر ڈالر فی بیرل ہوا اور پھر منفی 37 ڈالر تک چلا گیا کہ کمپنیوں کے پاس تیل رکھنے کی جگہ ختم ہو گئی اور یہ کمپنیاں عارضی ذخائر خالی کرانے کے لیے نہ صرف تیل مفت بلکہ انہیں لے جانے کے لیے فی بیرل 37 ڈالر پلے سے بھی دے رہی تھیں۔ ایسے میں دنیا کے سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب کے ساتھ کیا بیتا صرف اسے ہی معلوم ہے۔ویسے بھی سعودیہ کو منافع اس وقت ہوتا ہے جب تیل کی کم از کم قیمت 80 ڈالر فی بیرل سے زائد ہو۔دوسرا کیا وبا سے پہلے تصور بھی کیا جا سکتا تھا کہ دنیا میں حج و عمرہ موقوف ہو جائے گا۔ مکہ و مدینہ تقریبا خالی ہو جائیں گے؟ لیکن یہ سب ہوا۔ نتیجہ یہ کہ سعودی عرب جو بڑی فراخ دلی سے دیگر ممالک کی مدد کیا کرتا تھا اسے اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ سعودی خاندان کے اہم ترین افراد کو باقاعدہ گرفتار کر کے ان کے پاس موجود دولت بحق سرکار ضبط کی گئی۔ شاہی خاندان اور حکومتی اخراجات گھٹائے گئے۔ سعودیہ میں موجود غیر ملکی لیبر کو اس کے ملکوں میں واپس بھیج دیا گیا۔ ایسے میں سعودیہ پاکستان کی فرمائشوں کو کیسے شرف قبولیت بخشتا۔انشا اللہ خان انشا نے کہا تھا
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری، راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
لیکن سعودی عرب کا اصل مسئلہ یہی نہیں بلکہ آل سعود کے لیے حقیقی چیلنج ایک طرف قدامت پسندوں دوسری طرف جمہوری و روشن خیال جدید دنیا کے دو طرفہ دباؤ کا سامنا کرنا ہے۔ سعودی عرب دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جہاں اس 22 ویں صدی میں بھی بادشاہت قائم ہے۔ اس بادشاہت کا واحد سہارا سعودی معاشرے کی قدامت پسندی ہے جو بڑی تیزی سے نئی سوچ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ سعودی عرب پر ایک طرف دنیا بھر کا دباؤ ہے جو یہاں کی بادشاہت کو تقریبا بلیک میل کرتے ہوئے نئی اصلاحات پر آمادہ کر رہا ہے۔ دوسری طرف ان اصلاحات پر قدامت پسند طبقہ بھی سعودی حکمرانوں پہ سخت نالاں ہے۔ غالب نے کہا تھا
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain