عمران خان
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
(بحوالہ واشنگٹن پوسٹ)
پاکستان امریکہ کے اشتراک سے افغانستان میں قیام امن کا شراکت دار بننے کے لیئے تیار ہے مگر امریکی افواج کے اعلان کردہ انخلاء کے تناطر میں ہم مزید کسی تنازعہ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ دونوں ممالک کے اس طویل عرصے سے مسائل کے شکار ملک افغانستان کے لیئے یکساں مفادات ہیں جن میں سیاسی تصفیہ استحکام، معاشی ترقی اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے مکمل انحراف وانکار شامل ہیں۔ ہم افغانستان میں کسی بھی قسم کے نیم عسکری تسلط کی مخالفت کرتے ہیں جو صرف دہائیوں پر محیط خانہ جنگی کا شاخسانہ ہوجیسا کہ طالبان تمام ملک پر فاتح کی حیثیت سے مسلط نہیں ہو سکتے مگر پھر بھی انہیں افغانستان میں قائم کسی بھی حکومت کا حصہ بنانا ناگزیر ہے تاکہ وہ حکومت کا میاب ہو سکے۔
ماضی میں بھی پاکستان نے افغان متحارب گروپوں میں تفریق کر کے ایک غلطی کا ارتکاب کیا مگر ہم نے اپنے اس تلخ تجربے سے سیکھ لیا ہے۔ ہماری کوئی پسندیدگی یا فوقیت نہیں بلکہ ہر اس حکومت کے ساتھ کام کا ارادہ رکھتے ہیں جسے افغان عوام کی حمایت اور اعتماد حاصل ہو۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ افغانستان کبھی بھی بیرونی طاقتوں کے زیر تسلط نہیں رہ سکتا۔
ہمارے اپنے ملک نے افغانستان میں جاری جنگوں کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھایا ہے 70000 سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے ایک جانب امریکہ نے امداد کی مد میں 20 ارب ڈالر عطیہ کیئے مگر پاکستانی معیشت کو درپیش نقصان 150 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ سیاحت اور سرمایہ کاری کے شعبہ جات کے حجم میں نمایاں کمی ہوئی۔ امریکہ کی اس کاوش میں ساتھ دینے کے بعد پاکستان کو اتحادی گردانتے ہوئے ہدف بنایا گیا جو ہمارے ملک میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر ایسے گروہوں کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا پیش خیمہ بنا۔ امریکی ڈرون حملوں، جن کے بارے میں، میں نے تنبیہ کی تھی، جنگ تو نہ جیت سکے مگر امریکیوں کے لیئے نفرت کے جذبات پیدا کرنے کے باعث بنے اور دہشت گرد تنظیموں کی صفوں کو دونوں ممالک کے خلاف ابھارنے کی مزید تقویت دی۔
جیساکہ میں کئی سالوں اس بات پر زور دیتا رہاہوں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ امریکہ نے اپنے غلط اندازے کے تناظر میں پہلی بار پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں اپنی فوج بھیجے جن کی سرحدیں افغانستان سے ملحق ہیں تاکہ شورش تھم سکے۔ یہ تو نہ ہوا بلکہ اس سے قبائلی علاقوں کے لوگوں کی تقریباً نصف آبادی اپنے گھروں سے بے دخل ہوئی۔ جن میں صرف شمالی وزیرستان کے 10لاکھ لوگ شامل ہیں۔ مزید برآں اربوں ڈالر کا نقصان اور گاؤں کے گاؤں تباہ ہو گئے۔ عام عوام پر اس اچانک افتاد کے نتیجے میں پاکستان کی فوج کے خلاف خود کش حملے شروع ہوئے جن میں پاکستانی فوج کے جوان اس تعداد سے زیادہ جاں بحق ہوئے جتنا جانی نقصان امریکہ نے افغانستان اور عراق میں مجموعی طور پر بھی نہ اٹھایا تھا۔ ساتھ ہی ہمارے خلاف مزید دہشتگردی پنپنے لگی۔ صرف صوبہ خیبرپختونخوا میں 500 پاکستانی پولیس اہلکار قتل کر دیئے گئے۔
ہمارے ملک میں 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں۔ اگر افغانستان میں سیاسی تصفیہ کی بجائے مزید خانہ جنگی وقوع پذیر ہوئی،تو مزید مہاجرین / پناہ گزینوں کی آمد ہمارے سرحدی علاقوں کو اور زیادہ کمزور اور غریب تر کردے گی۔طالبان کی اکثریت پشتون لسانی گروہ سے تعلق رکھتی ہے اور نصف سے زائد پشتون ہماری سرحد کے اس پار بستے ہیں۔ہم اس تاریخی اعتبار سے آزادا نہ آمد ورفت والی سرحد کو بھی مکمل طور پرباڑ لگا رہے ہیں۔اگر پاکستان امریکہ کو ایسے اڈے دینے پر رضا مند ہو جائے جہاں سے افغانستان پر بمباری کی جاسکے اور ایک افغان خا نہ جنگی عمل پذیر ہو تو پاکستان پھر سے دہشت گرد وں کی انتقامی کارروائیوں کا ہدف بن جائے گا۔ہم با لکل اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ہم پہلے ہی اسکی بہت بھاری قیمت ادا کرچکے ہیں۔دریں اثنا اگر امریکہ تایخ کی سب سے طاقتور عسکری قوت کے ساتھ 20سال بعد بھی افغانستان میں اندرونی جنگ نہ جیت سکا تو ہمارے ملک کے اڈوں سے امریکہ یہ جنگ کیونکر کر سکے گا؟
پاکستان اور امریکہ کے افغانستان میں مفادات یکساں نوعیت کے ہیں۔ہم مذاکرات پر مبنی امن کے خواہاں ہیں نہ کہ خانہ جنگی ہمارا مقصد ہے۔ہم دونوں ممالک استحکام کے متقاضی اور اس دہشت گردی کے خاتمے کے خواہشمند ہیں جو دونوں ممالک کے خلاف بر سر پیکار ہے۔ہم اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں پر محیط ترقیاتی فوائد کے ثمرات کا تحفظ کرتے ہیں،مزید برآں ہم معا شی ترقی،تجارتی بڑھوتی اور وسط ایشیا تک رسائی چاہتے ہیں تاکہ ہماری معیشت پروان چڑھ سکے۔ہم سب کی کا وشیں را ئیگا ں چلی جا ئیں گی اگر یہا ں مزید خا نہ جنگی نے قد م جما ئے۔اس تنا طر میں ہم نے جا ر حا نہ طو ر پر سفارتی کا ر گز اریا ں سر انجام دی ہیں، تا کہ طا لبا ن کو پہلے امر یکہ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ مذاکر ات کی میز پر لایا جا سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر طالبان نے اپنی عسکر ی بر تری کا اعلان کر نے کی کوشش کی تو یہ کبھی نہ ختم ہو نے والی خو نر یزی کا سبب ہو گا۔ہم امید کر تے ہیں کہ افغان حکو مت بھی مذاکر ات میں مز ید لچک کا مظا ہر ہ کرے گی اور پاکستان کومو رد الزام ٹھہرانا بند کرے گی کیونکہ ہم عسکر ی چارہ جو ئی سے ہٹ کے سب کچھ پُر امن اور مخلصا نہ طر یقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم روس،چین اور امریکہ سمیت اس حا لیہ سہ جہتی توسیعی مشترکہ اعلا میہ کا حصہ بنے جو بلا شبہ اس با ت کی تا ئید کر تا ہے کہ کابل پر طا قت کے بل بو تے پر حکو مت مسلط کرنے کی کسی بھی کو شش کی ہم سب مخالفت کریں گے اور یہ کوشش افغانستان کو اپنی ضرورت کی بیرونی امداد تک رسا ئی سے محروم بھی کر دے گی۔
ان مشتر کہ اعلا میو ں سے پہلی با ر افغا نستان کے چا ر ہمسا یو ں اور اتحا دیو ں نے یک زبان ہو کر اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ افغا نستان کی سیا سی علا قائی اتحاد کے خدوخال کی طر ز کیسی ہو نی چا ہیے۔اس سے خطے میں ایک نئے علا قائی اتحا د بر ائے امن و خو شحالی کا آغا ز ہو نا چا ہیے جو افغا ن حکو مت سے مل کر دہشت گر دی کے خطرات کا سا منا کر سکے۔ افغا نستان کے ہمسائیو ں کو اس با ت کو یقینی بنا نا ہو گا کہ ان کی سر زمین افغا نستان یا کسی اور ملک کے خلا ف استعمال نہ ہو اور افغا نستان کو بھی اس کا بھر پو ر ادراک کرنا چاہیے اس سے اس عہدکا بھی آغاز ہو گا جو افغان عوام کو ان کے ملک کی تعمیر نو میں مد د فر اہم کرے۔
مجھے یقین ہے کہ اقتصا دی رابطو ں اور علا قائی تجا رت کا فروغ افغا نستان کے پا ئیدار امن اور تحفظ کی کنجی ہے۔ اگر ہم یہ ذمہ داری مشتر کہ طو ر پر نبھاتے ہیں تو افغانستان،گر یٹ گیم اور علا قا ئی رقابتو ں کے استعارے کی بجا ئے علا قا ئی تعاون کے ما ڈل کے طو ر پر ابھرے گا۔
٭……٭……٭